سچ کی نازکی اور جھوٹ کا دبدبہ

خضر حیات
خضر حیات

سچ کی نازکی اور جھوٹ کا دبدبہ

از، خضر حیات

آدھی سے زیادہ دنیا اس وقت شدت پرستی کی آگ میں یا تو جل سڑ رہی ہے یا پھر اس الاؤ سے اٹھنے والے دھوئیں کی زد میں آ کر بری طرح کھانستے کھانستے ہلکان ہوئی جاتی ہے۔

بیش تر جگہوں پر شدت کا جنم مذہب اور عقیدہ مختلف ہونے کی بنیاد پہ ہوتا ہے۔ کچھ ایسی بھی جگہیں ہیں جہاں زبان کا مختلف ہونا انسانوں کو انسانوں کے خلاف محاذ آرائی کا جواز مہیا کرتا ہے۔

کہیں معاملہ یوں بھی ہے کہ رنگ اور نسل میں فرق ہونے کی وجہ سے ایک گروہ دوسرے گروہ پر چڑھ دوڑنے کے بہانے ڈھونڈنے میں بَر سرِ پیکار رہتا ہے۔ کہیں محض مختلف جغرافیائی محلِ وقوع دوسرے انسانوں سے مخاصمت کی وجہ بن جاتا ہے۔

نظریاتی، سماجی، سیاسی، ثقافتی، نسلی، جغرافیائی اور تاریخی اعتبار سے مختلف ہونا اس دنیا میں سب سے بڑا جرم بنتا جا رہا ہے۔ حالاں کہ جن بنیادوں پہ انسان ایک دوسرے سے مختلف ہونے کی وجہ سے قابلِ نفرت گردانے جاتے ہیں ان میں سے اکثر بنیادیں محض اتفاقی طور پہ اس کے حصے میں آئی ہوتی ہیں۔

تاریخ، جغرافیہ، نسل، ثقافت، سماج، نظریہ، عقیدہ ایسی بنیادیں ہیں جن کے انتخاب میں عمومی طور پر انسان کا کوئی اختیار نہیں ہوتا۔ یہ بنیادیں نسل در نسل منتقل ہوتی چلی جاتی ہیں۔ بعض لوگ ضرور ایسے ہوتے ہیں جو وقت کے ساتھ ان بنیادوں میں تبدیلی لے آتے ہیں اور اپنی مرضی یا اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق کچھ الگ منتخب کر لیتے ہیں۔ مگر ایسے لوگ ہوتے ہی کتنے ہیں؟

زمینی حقائق یہ ہیں کہ ہر انسان اپنی مرضی کی بنیادیں منتخب کرنے کی عیاشی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ ایک ایسے فرق کی بنیاد پر کسی انسان کا نشان زد ہو جانا جس پہ اس کا اپنا اختیار نہیں ہوتا، اس دنیا کی عجیب ترین بات ہے۔


مسلمانوں کے آثار اور تاریخی تشدد

برصغیر میں مسلمان اقلیت کیوں؟

 

کراری باتوں کے گرد لگے مجمعے


دنیا کی دوسری عجیب ترین بات یہ ہے کہ اس میں سے سچ کو ڈھونڈنا ایسے ہی ہے جیسے آپ اندھیرے کمرے میں سُوئی تلاش کر رہے ہوں۔ یہاں کا سچ اتنا شرمیلا ہے کہ تہہ در تہہ پردوں میں چھپ کے رہتا ہے۔ آنکھ مچولی کھیلنا اس کا محبوب مشغلہ ہے۔ اسے سطح پر لانے والے کا وہی حال ہوتا ہے جو پیاز کی تہیں اتارنے والے کا ہوتا ہے۔ نازک مزاج ایسا کہ ہاتھ لگانے سے چُھوئی مُوئی کے پتوں کی طرح وضع قطع بدل لیتا ہے۔ جھوٹ کی ایک ہلکی سی ملاوٹ سے اپنی وُقعت کھو بیٹھتا ہے اور گدلا ہو جاتا ہے۔

اس کے مقابلے میں جھوٹ اس دنیا میں زیادہ پائیدار جنس ہے۔ اس میں سچ کی جتنی بھی آمیزش کر لو یہ اپنی حیثیت، وضع قطع، ذائقہ اور اثر برقرار رکھتا ہے۔ اس کی طاقت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس میں ننانوے فی صد بھی سچ شامل کر لیا جائے پھر بھی اس کی پہچان جھوٹ ہی سے ہوتی ہے۔ جب کہ دوسری طرف سچ میں ایک فی صد بھی جھوٹ شامل ہو جائے تو اس کی پہچان بدل جاتی ہے اور جھوٹ کی صرف ایک فیصد ملاوٹ سے ہی سچ میلا ہو جاتا ہے۔ جھوٹ میں جتنی طاقت ہے یہ طاقت سچ میں اگر رکھ دی جاتی تو کئی معاملات آسانی سے نمٹ جاتے۔

جو کہانی میرے ذہن کے پردے پہ اس وقت موجود ہے اور ایک ایک حرف کی صورت میں کاغذ پر منتقل ہونے کے لیے کِلبلا رہی ہے اس کا تعلق دنیا کی انھی دو عجیب ترین باتوں سے ہے۔

یہ ڈیجیٹل میڈیا کا دور ہے۔ جدید دور کے گیجیٹس ہماری دنیا کی تشکیل اور تفہیم میں سب سے مرکزی کردار ادا کر رہے ہیں۔ چناں چِہ اس کہانی کا جنم بھی ڈیجیٹل میڈیا کے پیٹ ہی سے ہوا ہے۔ ہوتا یوں ہے کہ ہندوستان میں سوشل میڈیا پہ ایک ویڈیو وائرل ہوتی ہے جس میں لمبی سفید ڈاڑھی والے ایک پچاس ساٹھ سال کے بزرگ کو بیس بائیس سال کے کچھ نوجوان مارتے پیٹتے نظر آتے ہیں اور بزرگ کو نوجوانوں کے سامنے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔

ویڈیو میں صرف تصویر نظر آ رہی ہوتی ہے، آواز سنائی نہیں دیتی۔ بزرگ آدمی بیٹھے ہیں اور چھوکرے اس سے بات چیت کر رہے ہیں۔ تھوڑی ہی دیر دیکھنے کے بعد دیکھنے والے کو اندازہ ہونے لگتا ہے کہ فریقین کے ما بین سادہ نوعیت کی بات چیت نہیں ہو رہی بَل کہ لڑکے بزرگ سے پوچھ گَچھ یا تفتیش کر رہے ہیں۔

تھوڑی دیر میں لڑکے بزرگ پر دست درازی کرتے نظر آتے ہیں۔ اگلے مرحلے میں ٹھڈے اور ڈنڈے مارتے ہیں۔ ویڈیو کے اس سے اگلے حصے میں چھری یا چاقو نما اوزار سے بزرگ کی سفید ڈاڑھی مونڈھنا شروع کر دیتے ہیں اور آخری مرحلے میں بزرگ کو خود اپنے ہاتھ سے اپنی ڈاڑھی پر ریزر چلاتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ ویڈیو ختم ہو جاتی ہے۔

یہ واقعہ ہندوستان کی پچیس کروڑ آبادی والی سب سے بڑی ریاست اترپردیش کے علاقے غازی آباد میں پیش آتا ہے۔ مین سٹریم میڈیا کے کئی اہم ادارے (ہندوستانی نیوز ایجنسی پی ٹی آئی، این ڈی ٹی وی، ٹائمز ناؤ، انڈین ایکسپریس، دی پرنٹ، فرسٹ پوسٹ وغیرہ) اس ویڈیو کو شیئر کرتے ہیں اور ساتھ ہی خبر بھی جاری کرتے ہیں۔ مرکزی دھارے کے میڈیا کے علاوہ اس خاموش ویڈیو کو ٹویٹر پر ذاتی حیثیت میں بھی کئی لوگ شیئر کرتے ہیں۔

جو بھی ویڈیو دیکھتا ہے اسے ہندوستان کی موجودہ گھٹن زدہ فضا کے باعث پہلی نظر میں ہی یہ پہچاننے میں کوئی دقت نہیں ہوتی کہ بزرگ شہری مسلمان ہے اور اسے اس کے مذہب اور عقیدے کی وجہ سے مختلف مذہب اور عقیدے والے ہندو لڑکے تشدد کا نشانہ بنا رہے ہیں اور مذہبی علامت ڈاڑھی کو کاٹ کر وہ دیکھنے والوں کو اپنے بارے میں یقین دلا دیتے ہیں کہ وہ کیا کر رہے ہیں اور کیوں کر رہے ہیں۔

ایک دوسری ویڈیو جسے انڈیا میں فیکٹ چیک نیوز کی ایک ویب سائٹ آلٹ نیوز کے شریک بانی زبیر احمد اور دیگر لوگوں نے سوشل میڈیا پر شیئر کیا۔ اس میں متأثرہ شخص کو یہ دعویٰ کرتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ اسے مارا پیٹا گیا اور ‘جئے شری رام’ بولنے پر مجبور کیا گیا۔

ویڈیو میں عبدُ الصّمد بتاتے ہیں کہ وہ رکشا میں لونی بارڈر سے بیٹھے جا رہے تھے، آگے چل کر اس میں دو اور نو جوان سوار ہو گئے۔ انھوں نے ان کے ہی رومال سے ان کا مُنھ ڈھک دیا اور انھیں دور جنگل میں لے جا کر ایک کمرے میں بند کر دیا جہاں انھیں بہت مارا پیٹا گیا۔

ان کے مطابق لڑکوں نے ان سے زبردستی ‘جے شری رام’ کے نعرے لگوائے اور جب وہ اللہ اللہ کہتے تو ملزمان نے پستول ان کی کنپٹی پر رکھ کر کہا:

‘آج تجھے نہیں چھوڑیں گے۔’

عبدُ الصّمد کا کہنا تھا کہ ملزمان نے ان سے کہا،’ہم پہلے بھی بہت مسلمانوں کو مار چکے ہیں اور آج تجھے بھی زندہ نہیں چھوڑیں گے۔’

عبدُ الصّمد کے مطابق تین بجے سے شام سات بجے تک وہ ان پر تشدد کرتے رہے۔

ویڈیو میں وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ جب میں اللہ اللہ کرتا تو وہ کہتے تو منتر پڑھ رہا ہے اور زبردستی مجھ سے ‘جے شری رام’ اور ‘رام رام’ کے نعرے لگواتے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ پانچ آدمی تھے جنھوں نے ان کی اتنی لمبی ڈاڑھی قینچی لا کر کاٹ دی اور مجھے بہت مارا۔ یہ کہتے ہوئے وہ دھاڑیں مار مار کر رونے لگتے ہیں۔

خبر بنانے والوں اور ویڈیو شیئر کرنے والوں کو اس واقعے کو سمجھنے میں کوئی مغالطہ نہیں ہوا۔ اسی لیے انھوں نے اس واقعے کی مذمت کی اور اسے مذہبی انتہا پرستی قرار دیتے ہوئے حیرت، غم اور غصے کا اظہار کیا۔ کئی ہندووں نے بھی چھوکروں کا یہ طرز عمل دیکھ کر معذرت کی، ندامت کا اظہار کیا اور مسلمانوں کے لیے ملک کی گھٹتی ہوئی فضا کا تذکرہ کیا۔

اترپردیش پولیس نے بزرگ مسلمان شہری عبدُ الصّمد کے ساتھ پیش آنے والے واقعے کی ایف آئی آر درج کر لی اور جیسا کہ ایسے موقعوں پر کہا جاتا ہے: پولیس نے ملزمان کی تلاش شروع کر دی یا ملزمان کی تلاش میں جگہ جگہ چھاپے مارنے شروع کر دیے۔

یہاں تک سچ اپنی اصل شکل و صورت کے ساتھ موجود تھا۔ ہندو قوم پرستوں اور انتہا پرستوں کے علاوہ سبھی دیکھنے والوں کو یہ نظر آ رہا تھا۔ ان میں ہندوستانی اپوزیشن جماعت کانگریس سے تعلق رکھنے والے مسلمان رہ نما، صحافی، سماجی کارکن اور عام ہندو شامل ہیں۔

مگر پھر کہانی کا پارٹ ٹو شروع ہو جاتا ہے اور یہی وہ مقام ہے جہاں سچ شرمیلا بچہ بن کے لاکھ پردوں میں جا چھپتا ہے یا گھبرا کے کہیں پتلی گلی سے نکل لیتا ہے یا اسے جھوٹ کا شور گدلا کر دیتا ہے۔

پارٹ ٹو

مسلمان شہری عبدُ الصّمد کی مدعیت میں درج ہونے والے مقدمے کے تحت پولیس پانچ لڑکوں کو گرفتار کرتی ہے جن کے نام مشاہد، عادل، عارف، پولی اور کلو ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی ہندو نہیں ہے۔ یہ تینوں لڑکے مسلمان ہیں۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ عبدُ الصّمد کے ساتھ پیش آنے والے تشدد کے واقعے کی وجہ مذہب کی بنیاد پر نفرت نہیں بَل کہ ایک ذاتی دشمنی کا معاملہ ہے اور یہ بھی کہ ملزم اور متأثرہ شخص ایک دوسرے کو پہلے سے جانتے تھے۔ جن لوگوں نے اس واقعہ کی ویڈیو شیئر کی انھوں نے حقیقت جانے بغیر اسے فرقہ پرستی کا رنگ دے دیا۔

پولیس کے مطابق ہوا یوں کہ یہ بابا جی تعویذ گنڈے کا کاروبار چلاتے تھے اور یہ نوجوان لڑکے جو خود بھی مسلمان ہیں، ان بابا جی کے پرانے کلائنٹس ہیں۔ بابا جی سے تعویذ لینا ان کا پرانا شوق ہے۔ اس بار یہ ہوا کہ تعویذ گنڈے کرائے مگر وہ الٹے پڑ گئے اور خاندان والوں پر اس کا الٹا اثر ہو گیا تو اس چکر میں لڑکے انھیں یہ کہہ کر کہ بابا جی کہاں جا رہے ہیں، چلیں ہم چھوڑ دیتے ہیں، اپنے رکشے میں بٹھا کر ویرانے میں لے گئے اور وہاں ان سے بدلا لیا۔

اترپردیش کی پولیس جو 2014ء کے بعد سے ایسے کئی معاملات نہایت ‘خوش اسلوبی’ سے سلجھا چکی ہے اس نے اپنی سوشل سروس کے اسی پرانے اور ٹریڈ مارک انداز کو برقرار رکھتے ہوئے اس بار بھی کانگریس والوں، مسلمانوں، صحافیوں اور سماجی کارکنوں کا مغالطہ دور کرنے میں اپنا اہم کردار ادا کرنے میں رتی برابر بھی غفلت نہیں دکھائی۔

پولیس کا ہے کام ‘خدمت’ آپ کی کے جذبے سے سرشار اور پیشہ ورانہ مہارت سے لیس اترپردیش پولیس نے ایک اور ایف آئی آر درج کر لی ہے۔

ریاست اترپردیش میں کانگریس کے تین رہ نماؤں سلمان نظامی، مشکور عثمانی اور ڈاکٹر شمع محمد سمیت، گجرات کے فسادات پر ایک کتاب کی مصنفہ اور واشنگٹن پوسٹ کی نمائندہ رانا ایوب، فیکٹ چیک ویب سائٹ آلٹ نیوز کے شریک بانی محمد زبیر اور صبا نقوی کے علاوہ ٹوئٹر اور دی وائر نامی ویب سائٹ کے خلاف مذہبی منافرت پھیلانے اور مجرمانہ سازش کرنے کے سنگین الزامات کے تحت یہ مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

عبدُ الصّمد کے بیٹے ببو سیفی نے پولیس کے دعوے کی تردید کی ہے۔ انھوں نے ٹائمز آف انڈیا کو بتایا کہ ان کا کنبہ کئی نسلوں سے بڑھئی کا کام کرتا ہے اور تعویذ یا جادو سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ پولیس کی پوری کہانی جھوٹی ہے۔ ہمارا جادو یا تعویذ سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ پولیس کا یہ بیان بھی غلط ہے کہ اس حملے میں مسلمان ملوث تھے۔ ڈاڑھی ایک مسلمان کی شناخت ہے اور کوئی بھی مسلمان اسے زبردستی نہیں کاٹے گا۔

ملزمان میں سے ایک، محمد عادل، کے چھوٹے بھائی محمد ساجد کا کہنا ہے کہ ان کے بڑے بھائی وہاں بزرگ کی مدد کے لیے گئے تھے۔ ان کے مطابق اس معاملے کو ایک سیاسی رنگ دے دیا گیا ہے اور کچھ نہیں ہے۔ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ گرفتار ہونے والے سارے مسلمانوں پر جھوٹا الزام ہے۔

دی وائر کے مطابق ایف آئی آر واقعات کے سرکاری ورژن کے علاوہ دوسرے پہلووں پر رپورٹنگ کو مجرمانہ قرار دینے کی ایک کوشش ہے۔

تو جناب یہ ہے سارا معاملہ اور یہ ہے ساری صورت حال۔ واقعہ جس طرح پیش آیا اور شروع میں جیسے اس کو سمجھا گیا اب حالات و واقعات یک سر بدل گئے ہیں۔ سچ گدلا ہو گیا ہے یا خوف زدہ ہو کے کہیں چھپ گیا ہے۔ اس ساری صورتِ حال میں سے اب سچ ڈھونڈ کے دکھائیں اور اگر کہیں مل جائے تو پھر جھوٹ کے اس طوفان میں اسے ثابت کر کے دکھائیں۔

(اس مضمون کی تیاری میں بی بی سی اردو سے استفادہ کیا گیا ہے۔)

***