نیا عالمی چیپٹر

Naeem Baig
نعیم بیگ

نیا عالمی چیپٹر

کہانی از، نعیم بیگ 

 ممکنہ طور پر آج میری زندگی کا آخری دن ہے۔ گھڑی بھر میں فیصلہ سامنے آنے والا ہے۔ یہاں غداری کی سزا نئی زندگی ہے۔

 کھڑکی سے باہر پانی میں روشنی کم نظر آنے سے احساس ہوا کہ سطحِ سمندر پر شام اپنے پر پھیلا رہی ہے۔ ابھی چند لمحے پہل مجھے سرخ شراب سے لبریز ایک پیمانہ اور خشک میوے کا بھرا ہوا پیالہ دیا گیا ہے۔

کل رات مجھے یہاں لایا گیا تھا۔ یہ سویڈن سے اوپر شمال کی جانب نارویجیئن سمندروں کے نیچے سائنس دانوں کی عالمی لیبارٹری ہے۔ میں یہاں پہلے بھی ریسرچ کے لیے آ چکا ہوں۔ لیکن آج میں میز کی دوسری طرف ہوں۔ میرے فکری انکار پر میری ذہنی کیفیت جانچنے کے لیے مجھے یہاں لایا گیا ہے۔ انھیں یہ ریسرچ کرنی ہے کہ ان کا سدھایا ہوا انسان منحرف کیسے ہو سکتا ہے۔

یہاں انویسٹی گیشن کا طریقہ الگ ہے۔ ذہنی یا جسمانی ریمانڈ نہیں لیا جاتا، بَل کہ سہولتیں دے کر نفسیاتی طور پر جرم کے ارتکاب کے پس پردہ محرکات کو بے نقاب کیا جاتا ہے۔ جینیٹک انجینئرنگ کی مدد لی جاتی ہے۔ مسلسل انسانی حرکات کو پرکھا جاتا ہے تا کہ عالمی اداروں سے دوبارہ ایسی غلطی سر زد نہ ہو سکے۔

گو مروجہ قانونی سزائیں دینا ان کے لیے مشکل نہیں تاہم انسان کی قدر ان کے ہاں دولت سے بڑھ کر کبھی نہیں رہی۔ وہ جب چاہیں انسان خرچ کر دیں۔

 کچھ دیر پہلے میرے پسندیدہ ہوانا سگار میرے قریب رکھ دیے گئے تھے۔ ایسے وقت میں ان کی تعریف کیے بِنا نہیں رہ سکتا کہ انھوں نے باوجود تمام تر نفرت جو میرے انکار سے ان کے نظام میں خلل پڑنے سے پیدا ہوئی، وہ معلوم دشمن کے جذبات کا احساس اس آخری وقت میں بھی روا رکھے ہوئے ہیں۔

’’یہ لوگ برسوں سے رائج نظام کے ہاتھوں یرغمال بننے والے اپنے غلاموں کا کچھ خیال رکھتے ہیں۔ تم یہ دیکھنا ڈارلنگ!‘‘

یہ بات مجھ سے میری امریکی دوست کیترین نے کئی روز پہلے اس وقت کہی تھی جب میں نے اپنی بغاوت بارے اسے بتایا تھا۔ کیترین کو پیار سے میں درگا ماں کہتا ہوں۔ درگا اُس وقت لیک چارلس یونی ورسٹی میں ڈیپارٹمنٹ آف بائیولوجیکل ریسرچ میں رات دیر گئے تک کام کرنے کے بعد واپس گھر جا رہی تھی۔ اِس نے میرا فون سنتے ہی کہا: ’’سرخ، گھر پہنچ کر تمھیں فون کرتی ہوں۔ بس دس منٹ دے دو۔‘‘

گھر پہنچتے ہی اس کی ویڈیو کال آ گئی۔ اس کا خیال تھا کہ ہم فاصلوں کے اسیر ہیں تو کیا ہوا، ہم انھیں یوں دور بھی تو کر سکتے ہیں۔ میں اس کا کرب سمجھتا ہوں۔ وہ ہمیشہ دل کی گہرائیوں سے میری قربت کی متلاشی رہی جب کہ میں عمل کا اسیر تھا خوابوں میں رہنے سے گھبراتا رہا۔

مجھے وہ خوش گوار دن اچھی طرح یاد ہے۔ ابھی نائن الیون گزرے تین برس ہی ہوئے تھے کہ عالمی ادارے نے مجھے ویانا سے اپنی ڈاکٹریٹ کے دوران پہلی بار نیویارک میں مختلف یونی ورسٹیوں کے طالب علموں کے ساتھ سٹدی ٹور پر بلایا۔ میں اُن دنوں  ’عالمی معیشت کا نیا چہرہ‘ جیسے حساس موضوع پر مقالہ لکھ رہا تھا۔

نیویارک میرے خوابوں کا شہر۔ مَین ہَٹن کی درجنوں بلند و بالا عمارتوں پر لگی دیو قامت سنیما سکرینیں جن پر دوڑتے پھرتے انسانی تصور سے بڑی انسانی حیات و ممات، خوف ناک مونسٹرز کی فلمی لڑائیاں، انجان طاقتوں کے سر چشمے نئے عالمی کردار سپائڈر مین سے آئرن مین اور ہیری پورٹر تک انسانی حیات کے محافظ بن کر نیویارک کو ایسے شہر میں بدل دیتے ہیں جو کارپوریٹ دنیا کی اولین ورچُوئیل آباد کاری میں مضبوط مالی کردار ادا کر رہا  ہے۔

ایسے شہر سرمایہ کی دوڑ میں خرچ ہو جانے والے ایندھن کی پروا نہیں کرتے صرف انھیں زندہ رکھتے ہیں تا کہ بَہ یَک وقت سرمایہ اور نظام دونوں چلتے رہیں۔

 اسی سٹڈی ٹور میں مجھے کیترین ملی، جو شام تک میری بہترین دوستوں میں شامل ہو چکی تھی۔ کیترین کا ساتھ، معنی خیز مکالمے، گورے جسم کی حرارت خیز قربت اور نیویارک کی کارپوریٹ فضا نے ترقی پذیر اور پابندیوں میں جکڑے ملک کے شہری کو سِحر آگیں کر دیا تھا۔

کیترین یوں تو استاد ہے لیکن ساتھ ہی بہترین آرٹسٹ اور سنگر ہے۔ ذہانت و فطانت کی پیکر وہ اپنے ہزاروں مداحوں میں بے حد مقبول۔ اس کا سنگ بہاروں میں پھولوں پر اڑتے چہکتے پرندوں جیسا ہے جنھیں گیت گانے کے سوا اور کچھ نہ آتا ہو۔ وہ اِس حبس زدہ اعداد و شمار کی پاور پوائنٹ دنیا میں بادِ نسیم کا ایک مہکتا جھونکا ہے۔

میں جب بھی کیترین کی ہشت پہلو فعالیت کو دیکھتا تو نفیسہ کا ہیولا سامنے ابھر آتا۔ وہی قد و قامت، وہی انسانی ہم دردی اور حساسیت؛ وہی آٹھ ہاتھوں والی میری درگا ماتا دیوی، جو ہمارے جوان ہونے سے پہلے ہی ہم سے بچھڑ گئی اور اب کیترین کے روپ میں سامنے آئی ہے۔

اگلے روز ہمارا پڑاؤ وال سٹریٹ تھا۔ وہ میرے مضمون سے جڑت رکھتا تھا۔ وہاں میں کیترین کو بھول گیا۔ عالمی معیشت اور اس کے عظیم گلوبل منصوبوں کی زیرِ سطح خفیف سی جھلک سے میرے اندر عالمی ادارے کو جائن کرنے کا تہیہ جا گزیں ہو گیا۔

جوں جوں میں مالی منصوبوں اور ان کی شماریات کے در و بست میں داخل ہوتا گیا مجھ پر گریٹ گیم، انڈر ورلڈ کارپوریٹ، گلوبل اَیمورٹائزیشن اور محدود فِسکل اَلٹرُو اِزم جیسی اصطلاحات اپنی معنیٰ خیزی میں اسیر کرتی رہیں۔ یہ سب اکیسویں صدی کے عالمی خواب تھے۔

اب میں ایک نیا انسان بن چکا تھا۔

’’اچھا تو تم نے فیصلہ کر لیا ہے کہ عالمی ادارہ چھوڑ دو گے۔ لیکن وہ ایسا سب کچھ کیوں ہونے دیں گے۔ انھوں نے تم پر انویسٹمنٹ کی ہے۔ برسوں ٹریننگ کے بعد تمھیں سلیکٹ کیا ہے۔‘‘

’’کیا وہ اپنے مفادات کو یوں زک پہنچنے دیں گے؟‘‘

 ’’کیترین !تم جانتی ہو میں نے اپنی تمام زندگی ہیومن کاز کے لیے وقف اعداد و شمار میں اسیر کر رکھی ہے۔ میری معیشت فطری عدل سے شروع ہو کر انسان پر ختم ہو جاتی ہے۔ میں ڈاروِن کے اَلٹرُو اِزم کا قائل ہوں۔‘‘

’’لیکن سرخ سنو۔ جب تم جانتے تھے کہ عالمی اداروں میں کیا ہونے جا رہا ہے۔ اس کے باوجود تم نے حلف لیا۔‘‘

’’ڈارلنگ ! میں دھوکا کھا گیا۔ یہ سب سراب تھا۔ مجھے بتایا گیا تھا کہ ہم انسانی تحفظ کی نئی راہیں استوار کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن یہاں ’سروائیول آف دی فٹسٹ‘  کے معنوں کو بالکل نئی تفہیم دی جا رہی ہے، اور اِس کے نتائج کو سرمایہ سے نتھی کر کے انسانیت کو روندا جا رہا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ دولت بڑھ جائے اور اس کا ارتکاز چند لوگوں تک سکڑ جائے۔ نیو لبرل فلاسفی کا آخری حربہ آزمایا جا رہا ہے۔ جب تک حیات کی گلوبل سطح پر عددی کمی نہ ہو گی مَثبت نتائج سامنے نہیں آئیں گے۔‘‘

’’یہ تمھاری سوچ ہے۔ ممکن ہے ان کے ہاں اس عمل کی دوسری شرح ہو۔‘‘

کیترین کی سوچ اب بھی تنقیدی تھی۔

’’دیکھو … ڈارون نے کہا تھا۔‘‘ میں درمیان میں بول اٹھا۔

’’یہ مضبوط ترین اقسامِ نوع کی حیات کا مسئلہ نہیں، نہ ہی ذہین ترین ہونے کا خواب۔ حیاتِ جادواں اس کی ہو گی جو  ارتقاء کی راہ میں رکاوٹ نہ بنے گا۔‘‘

’’تم بائیولوجیکل سائنس کی استاد ہو خوب جانتی ہو کہ انسانی جد و جہد اپنے ارتقاء کے پروسیس میں اگر فطری حیاتیاتی زندگی سے مراجعت کرتی ہے تو انسان کام یاب ہے۔ عالمی چیپٹر اس مراجعت کی راہ میں روڑے اٹکانا چاہتا ہے اور غیر فطری انداز میں انسانی حیات کو سکیڑ کر اپنے مفادات کے تحت لانا چاہتا ہے۔ وائلڈ سپیسزز کی حیات کو تو پہلے ہی مشکلات درپیش ہیں۔ ہم جنگل ختم کرتے جا رہے ہیں۔ سرمایے کی غیر منصفانہ تقسیم دنیا میں ہر  قدرتی شے کو کھا رہی ہے۔‘‘

’’اچھا اب یہ چاہتے کیا ہیں تم سے؟‘‘ کیترین نے پوچھا۔

میں اِس لمحے اسے پریشان نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اس طرح وہ کم زور ہو جائے گی۔

’’کچھ نہیں۔ بَہ ظاہر وہ مجھے سوچنے کا موقع دے رہے ہیں اور مجھے یہاں لیب میں لے آئیں ہیں۔ معلوم نہیں کب کیا ہو جائے؟

تاہم میرے لیے یہ سوچنے کا موقع ہے کہ کیا میں ان کا ساتھ دے سکتا ہوں یا نہیں؟ اس کے لیے انھوں نے مجھے آج رات تک وقت دے رکھا ہے۔‘‘

’’خیر تم ماہرِ معاشیات ہو، خوب سمجھتے ہو۔ یہاں ہمیشہ انسان اور دولت ایک دوسرے سے بر سرِ پیکار رہے ہیں۔ تم کسی ایک کی چوائس نہیں کر سکتے۔ تمھیں ذہانت کے ساتھ زندہ رہ کر ان کا مقابلہ کرنا ہو گا۔ میں تمھارے ساتھ ہوں۔ ہم مل کر مقابلہ کریں گے۔‘‘

معصوم کیترین مسلسل بولے جا رہی تھی۔

’’اچھا سنو، ہمارا ایک کامن دوست زی چیاؤ جو میرے ساتھ یہیں یونی ورسٹی میں ڈاکٹریٹ کر رہا تھا، ووہان چلا گیا ہے،‘‘

کیترین نے مجھے بتایا۔

میرا ماتھا ٹھنکا اور ذہن الجھنے لگا۔ زی چیاؤ تو ہماری ٹیم کا ممبر ہے وہ ووہان کیا کر رہا ہے۔ کیا وہ بھی…

فوراً ہی کال کے دوران میری طرف مسلسل بیب بجنے لگی۔ کچھ گڑ بڑ ہے۔ کیا گفتگو میں آئی ڈنٹِٹی کوڈ استعمال ہوا ہے جو ’ووہان‘ کا لفظ سنتے ہی ریکارڈنگ پر چلا گیا ہے۔

میں رک گیا۔ ’آڈیو ٹروجن؟’ میں نے خود سے سرگوشی کی۔

 ’’اچھا میں تمھیں کچھ دیر میں کال کرتا ہوں،‘‘ یہ کہہ کر میں نے فوراً فون بند کر دیا۔ کال ریکارڈنگ پر چلی گئی تھی۔ یہ میری ڈیوائس کا کمال تھا جو کال ریکارڈنگ مطلع کر دیتا تھا۔

فون بند کر کے میں نے سرخ شراب سے چند گھونٹ حلق میں اتارے اور کرسی پر ٹیک لگا کر ری لیکس ہونے کی کوشش کرنے لگا اور خود کلامی میں بڑبڑانے لگا۔

“سرخاب احمد خان تمارے پاس دو آپشن ہیں۔ پہلا کہ غلام بن کر زندہ رہو اور انسانیت کو مار دو؛ دوسرا یہ کہ باغی بن کر زندہ رہو اور ایکٹی ویٹ ہو کر انسان دشمنوں کو مار دو۔ تمارے پاس یہی چند گھنٹے ہیں۔”

انھوں نے مجھے ایک ڈیوائس دے رکھی ہے جس میں دو بٹن ہیں۔ پہلا آپشن گرین، دوسرا سرخ۔ بارہ گھنٹے تک میں کوئی بھی بٹن اپنی مرضی سے دبا سکتا ہوں۔ اس کے بعد دونوں بٹن بے رنگ ہو جائیں گے۔ جِس کا مطلب ہو گا کہ مجھے دی گئی سہولت ختم۔ اب عالمی چیپٹر اپنا فیصلہ خود صادر کرے گا۔

…  

میں گداز کرسی پر مزید نیچے سرک گیا۔

 آج جب میں پیچھے مڑ کر اپنی زندگی کی طرف دیکھتا ہوں تو احساس کے ان بن مانگے لمحات کے آنگن میں جو پایا اس میں ملال و رنج سے کہیں زیادہ معصوم خوشیوں کے پوٹلیوں میں بندھے خزینے تھے جو ہم سب سے مل کر  بھی ختم نہ ہوتے۔ بچپن میں سکول سے واپس آنے اور ننھا سا پیٹ بھرنے کے بعد بھلا کام ہی کیا ہوتا۔ اب تو جو کچھ ہونا ہے وہ شام ہی کو ہو گا۔ بھلے سکول کا کام ہو یا اماں کی ڈانٹ پھٹکار۔ یہ چند گھنٹے ہمارے ہیں، صرف ہمارے ہیں۔

سرخ اینٹوں والے گھر سے سجاد نکل آتا جسے ہر وقت فوجی بننے کا شوق ہوتا اور اِس شوق کی تکمیل میں ہمیشہ ایک ننھی سی چھڑی بغل میں دبائے رکھتا۔ کونے والے خستہ حال گھر سے بالے کو نکال لیتے۔ جس کے ہَمہ وقت پاجامے کا آزار بند لٹکا نظر آتا۔

ہماری آواز سن کر بڑی حویلی سے بھی تین چار بچے لپک کر گلی میں نکل آتے۔ ان بچوں میں سب سے بڑی نفیسہ ہوتی۔ نفیسہ ہم سب لڑکوں سے بس کوئی ایک دو برس ہی بڑی ہو گی لیکن قد آور ہونے کی وجہ سے ہمیشہ ہماری ماں بن جاتی۔ اسی کا حکم چلتا۔ یہ کھیل ہو گا۔ وہ نہیں ہو گا۔ ہر لڑائی کے بعد نفیسہ ہماری جج ہوتی۔ بھوک لگنے کی صورت یہی ہماری ماں بنتی اور اِن آوارہ زادوں کے لیے دانے دنکے کا بند و بست کرتی۔ کسی گھر سے بچے ہوئے پراٹھے نکل آتے، کہیں سے پھل یا ماؤں کی چھپائی ہوئی کھِیل یا مونگ پھلی گجک۔ جب کچھ نہ ملتا تو کچی سبزیاں مولی گاجر کھیرے وغیرہ ہم معصوموں کی خوراک ہوتی۔

یہ چوری ہمارے گھر سے لے کر ہر اس گھر میں جائز ہوتی، جہاں جہاں تک ہم بچوں کی رسائی ہوتی۔ دوپہر بھر اپنی تنگ سی گلی میں وہ ادھم مچتا کہ خدا بھی شیطانوں کے چیلے آوارہ زادوں سے پناہ مانگتا نظر آتا۔

 اُن دنوں بھی جب ہم سب ایک دوسرے کے پیچھے بھاگ رہے ہوتے میں اچانک رک کر کسی دیوار کے ساتھ گم صم سا لگ جاتا اور چشمِ تصور میں نفیسہ کے کندھوں سے نکلے کئی ایک ہاتھوں کو حیرت سے دیکھتا۔ میں دم بَہ خود رہ جاتا۔ جب وہ بچوں کو چھڑی سے مارنے کے جرم میں اپنے ایک ہاتھ سے سجاد کے کندھے پر لگے سٹارز کو نوچتی اور دوسرے ہاتھ سے مجید کا آزار بند باندھ رہی ہوتی۔ تیسرے ہاتھ کو دراز کر کے چھت پر بیٹھے کبوتروں کو دانہ دنکا ڈالتی۔ جب میری طرف بڑھتی تو ماؤں کی طرح میرے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرتی ہوئی نا معلوم محبتوں کا پیغام دیتی۔ میری درگا ماں!

نفیسہ کا خیال تھا کہ بچوں کو مارنے سے محلے سے پرندے اڑ جاتے ہیں اور جس محلے میں پرندے نہ ہوں وہاں رزق کی کمی ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ رہے محلے والے، یہ کوئی محلے والے تھوڑی تھے بل کہ ایسے قبیلوں کے چشم و چراغ تھے جو صدیوں سے سفر کرتے اپنے اپنے قافلوں سے بچھڑ کر کسی ایک ایسی گلی میں جمع ہو گئے تھے جس کی فضا محلے کے پچھواڑے میں لہلہاتے کھیت کھلیانوں کی سوندھی خوش بُو سے لبریز تھی۔

اسے قصبے کا آخری سرا سمجھ لیجیے۔ ابتدا میں کسی کی آپسی جان پہچان نا تھی، لیکن ہماری آوارہ گرد زندگی کے بھر پُور قہقہوں اور چھتوں پر بھاگ دوڑنے سے محلے کی عورتیں ایسی شِیر و شَکر ہوئیں کہ محلے کو زندہ کر دیا۔

اب ایسے منفرد خوشیوں بھرے سماج کی اِکائی ناتے غربت و افلاس میں بھی ہم نے خوب رنگ جمایا۔ لیکن انجان رستوں میں معاشرتی و اخلاقی تہذیبی ارتقاء غیر محسوس تنزلی کی جانب رواں دواں رہا۔ تاہم انھی خشک بادلوں کے سایہ تلے ہم سب جوان ہوتے گئے۔ تب ہمارا قصبہ اچانک پھیلنے لگا اور اِس نے اپنا دامن ہم پر تنگ کر لیا۔ بچھڑنے کا موسم آ گیا۔

میں دارالحکومت چلا گیا جہاں  ملکی معیشت کے بنتے بگڑتے اعداد کی شمار نویسی میں مصروف کیا ہوا کہ رفتہ رفتہ ’ترقی‘ کی منازل طے کرتے ہوئے سینئر عہدوں کی زنجیروں میں قید ہو گیا۔ جہاں ہماری نسل نے فطری ارتقاء کے تقاضے پورے کیے وہیں پچھلی نسل نے اپنا سفر تمام کیا اور عدم کی راہ لی۔

دنیا بھر میں نِت نئی سائنسی ایجادات نے عالمی سماج میں تیزی پیدا کر کے انسانوں میں تقسیم کی نئی راہیں ہموار کر دیں: کہیں نسلی تو کہیں لسانی۔ مذاہب میں فرقے پہلے سے موجود تھے لیکن ان میں عدم تعاون اور عدم برداشت کے مادے نے سماجی چہرہ بدلنا شروع کر دیا۔ ترقی یافتہ ملکوں کی فہرست کے نیچے غلام  ترقی پذیر ملکوں کا اندراج ہونے لگا اس سے نیچے غریب ملکوں کی ایک طویل فہرست بنتی چلی گئی۔

تب اکیسویں صدی کی پہلی دھائی کی ابتدا میں ایک حادثہ کو جواز بنا کر دنیا بھر کے حکومتی نظاموں میں مرکزی مالی استطاعت پر استعماری اعداد و شمار کا نظام سرِ فہرست آ گیا۔

انھی دنوں میں نے ویانا سے اپنی ڈاکٹریٹ کے بعد عالمی مالی ادارے کو جائن کر لیا تھا۔ چند برس یوں ہی گزر گئے۔ تب ترقی کر کے ادارے کی ایک سینئر پوزیشن پر مشرق بعید کے ایک ملک میں تعینات ہوا کہ مجھے حکم ملا کہ فوراً نیویارک پہنچو۔

اگلے دن میں نیویارک میں تھا۔ پوری دنیا سے کوئی دس ملکوں سے سینئر نمائندے میٹنگ ہال میں جمع ہوئے، جہاں سے ہمیں آدھے گھنٹے کی مسافت پر ایک دوسری بڑی سے عمارت میں لے جایا گیا جو چاروں طرف سے سیکیورٹی کے حصار میں تھی اور بَہ ظاہر ویران و بیابان نظر آتی تھی۔

یہاں ہماری سیکیورٹی دوبارہ چیک کی گئی۔ نئے سرے سے بائیومیٹرک ہوا۔ آنکھوں کی پتلیوں کی پہچان پر نئی آئی ڈی اور ایک مخصوص ویکسین کے انجیکٹ کرنے کے بعد خون کے نمونوں کا اندراج اس کوڈڈ آئی ڈی جو بَہ ظاہر ایک بارکوڈ اور میری تصویر پر منحصر تھی پر درج کر کے نیا کارڈ سب کے حوالے کر دیا گیا جو آئندہ سے دنیا کے کسی بھی حکومتی یا خفیہ ادارے میں ہماری رسائی کا عالمی اجازت نامہ تھا۔

جب میٹنگ شروع ہوئی تو ہم سب سے با قاعدہ ایک عالمی حلف نامہ (نان ڈسکلوزر ایگریمنٹ) لیا گیا جس کے مندرجات میں جہاں سیکریسی اور عالمی معلومات کو خفیہ رکھا جانا مقصود تھا وہیں ایک آخری جملہ یہ بھی تھا کہ اگر کسی بھی وقت کسی فرد نے عالمی حلف نامے سے رُو گردانی کی تو عالمی چیپٹر کے صدر کو یہ اختیار ہو گا کہ اسے عبرت ناک سزا دے۔

ہمیں بتایا گیا  کہ یہ سزا نئی زندگی ہو گی جو ’وائرس ایکٹی ویشن‘ سے ہو گی۔ غدار خود زندہ رہے گا لیکن موت کے تباہ کن اور تیز ترین پھیلنے والے جرثوموں کا کیریئر ہو گا۔ اس کے قریب پھٹکنے والی ہر زندگی موت میں بدل جائے گی۔ لاکھوں انسانوں میں بیماری پھیلانے کے بعد ایک مخصوص وقت کے بعد خود بھی انھی جرثوموں کے ہاتھوں عبرت ناک موت کا شکار ہو جائے گا۔

حلف اٹھانے کے بعد مجھے یک لخت ایسا محسوس ہوا، جیسے اعداد و شمار نے میرے عقل و فہم کے غبارے سے ساری ہوا نکال دی ہو۔ جس عمل کی ابتدا میں اس قدر سیکریسی ہو اور خوف ناک مقاصد میں الٹے قدموں چلنے پر پتھر بن جانے کا احتمال ہو۔

یقیناً یہ عمل منفی اثرات کا حامل ہے۔ مَثبت اثرات کے لیے بنے ضوابط اس قدر مخفی سزا کے حامل نہیں ہو سکتے۔ یہی پہلا خیال ذہن میں کوندا۔

میٹنگ ختم ہونے کے بعد ہم سب حلف یافتہ عالمی افسران کو دنیا کے مختلف ممالک میں پھیلا دیا گیا کہ اب اس سارے عمل کا فیز ٹو لاگو ہو گا۔ وہ کیا ہو گا ابھی مخفی تھا۔ میرے حصہ میں جنوب مغربی ایشیاء کے مالی معاملات کے مستقبل کا پلان تھا۔ اُس دن سے میرے دل میں بغاوت کا ایک طوفان برپا ہو چکا تھا۔ میں انسان ہوتے ہوئے سرمایے کا غلام بن چکا ہوں میرے لیے یہ قابل قبول نہ ہوا۔

اچانک میرے فون میں ایک بِیپ ہوئی جو مجھے اپنے خیالوں سے باہر کھینچ لائی۔ یہ کیترین کا کوڈڈ میسج تھا۔ میسج سکرین پر بار بار فلیش ہو رہا تھا۔ میں نے روک کر اسے پڑھنا شروع کیا۔

’’پیریگرائن نے چینی سمندری مچھلی کو جھیل ڈبلیو میں دبوچ لیا ہے۔‘‘

اوہ! تو زی چیاؤ کو غدار قرار دے کر ووہان میں ایکٹی ویٹ کر دیا گیا ہے۔

میرے لیے یہ ایک خوف ناک خبر تھی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اِن کا پہلا غدار چینی نکلا۔

پہلے میں گمان اور یقین کی کش مکش میں تھا۔ اب اعتماد اور بھروسے کی دنیا میں لوٹ آیا ہوں۔ دنیا کا نقشہ عددی لحاظ سےمختصر، عالمی دولت کی بڑھوتری لیکن پھیلاؤ میں محدود رکھنا اور معاشی لحاظ سے وسائل کی تقسیم پر مکمل اجارہ داری ہی ان کا مکمل فلسفۂِ حیات ہے۔ ان کے لیے انسانی حیات بےکار شے ہے اس کی سرمایے کے سامنے کوئی حیثیت نہیں۔

میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا۔ کیا اسی دن کے لیے میں نے اپنے آدرش پالے۔ کیا یہی وہ میرا سماجی اخلاق ہے کہ میں نفیسہ اور کیترین کو زندگی سے نکال دوں۔ اپنی درگا ماں کو بھول جاؤں۔ اپنے قصبے اور شہروں کو بھول جاؤں جہاں میری پہچان میری زندگی ہے جو میری روح میں بالیدگی کا سامان پیدا کرتی رہی۔ بھوک، کھیل کود، بے سمت زندگی میں ماں نے میرا ہاتھ پکڑا۔ آخر مجھے اِن لمحات کا ادھار کس سے چُکتا کرنا ہے؟

کون ہے جو اِن عالمی اعداد و شمار کو شفاف بنا کر انسان کے حق میں کر دے؟

 میری آنکھیں بھرانے لگیں اور شفاف موتی گالوں پر بہنے لگے۔ میں نے ایک جھٹکا لے کر سرخ شراب کے پیمانے کو حلق میں انڈیل لیا اور چیخ اٹھا۔

میں ہوں … صرف میں ہوں میری ماں …

یہ میں ہوں میری ماں! مجھے انسان رہنا ہے… انسان کو بچانا ہے۔

میں نے ماں کے ہیولے کو ابھی اپنے اطراف میں دیکھا ہے۔ وہ رہی… درگا ماں کو دیکھتے ہی میں نے غلامی کے سنہرے طوق کو گلے سے نوچ کر اتار پھینکا۔ فطری آزادی انسانی زندگی کی معراج ہے اور میں نے ماں کے محبت بھرے لمس کو محسوس کرتے ہوئے سرخ آپشن کا بٹن دبا دیا۔

About نعیم بیگ 145 Articles
ممتاز افسانہ نگار، ناول نگار اور دانش ور، نعیم بیگ، مارچ ۱۹۵۲ء میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ گُوجراں والا اور لاہور کے کالجوں میں زیرِ تعلیم رہنے کے بعد بلوچستان یونی ورسٹی سے گریجویشن اور قانون کی ڈگری حاصل کی۔ ۱۹۷۵ میں بینکاری کے شعبہ میں قدم رکھا۔ لاہور سے وائس پریذیڈنٹ اور ڈپٹی جنرل مینیجر کے عہدے سے مستعفی ہوئے۔ بعد ازاں انہوں نے ایک طویل عرصہ بیرون ملک گزارا، جہاں بینکاری اور انجینئرنگ مینجمنٹ کے شعبوں میں بین الاقوامی کمپنیوں کے ساتھ کام کرتے رہے۔ نعیم بیگ کو ہمیشہ ادب سے گہرا لگاؤ رہا اور وہ جزو وقتی لکھاری کے طور پر ہَمہ وقت مختلف اخبارات اور جرائد میں اردو اور انگریزی میں مضامین لکھتے رہے۔ نعیم بیگ کئی ایک عالمی ادارے بَہ شمول، عالمی رائٹرز گِلڈ اور ہیومن رائٹس واچ کے ممبر ہیں۔