مہناز رحمٰن، روسی عورت اور انقلاب (آخری حصہ)

aik rozan writer
شاداب مرتضٰی ، صاحبِ مضمون

مہناز رحمٰن، روسی عورت اور انقلاب (آخری حصہ)

شاداب مرتضٰی

روسی انقلاب میں خواتین کے مسائل کے حوالے سے بالشویک پارٹی کے بارے میں مہناز رحمٰن صاحبہ کی، غلط، منفی اور متضاد رائے کا جائزہ ہم نے پہلی قسط میں لیا۔ اب ہم ان کے ان دعوؤں کو جانچیں گے کہ (الف) جوزف اسٹالن نے عورتوں کی فلاح و بہبود کے ادارے زینوتڈیل (Zhenotdel) کو ختم کر دیا اور اس کی وجہ سے (ب) روسی عورت کا آزادی اور مساوات کا اشتراکی خواب پورا نہ ہوسکا۔

عورتوں کی فلاح و بہبود کے خصوصی ادارے (Zhenotdel) کو 1919 میں بالشویک پارٹی کی مرکزی کمیٹی میں الیکزنڈرا کولونتائی، انیسہ آرمنڈ اور ویرا موئیرووا کی قیادت میں اس لیے قائم کیا گیا تھا کہ وسیع و عریض روس میں جس کی قریبا 87 فیصد آبادی دیہاتوں سے تعلق رکھتی تھی اور جہاں خواندہ عورتوں کی تعداد محض 16 فیصد تھی وہاں عورتوں کو عورتوں کی آزادی، شادی، تعلیم اور محنت کے نئے اور سوشلسٹ قوانین کی جلد از جلد آگاہی دی جائے، ان کی خواندگی میں تیزی سے اضافہ کیا جائے اور انہیں انقلابی سیاسی تعلیم و تربیت دی جائے۔

زینوتڈیل کی تشکیلِ نو کے موقع پر اس کی آخری سربراہ الیکزنڈرا آرتیخینا (خاتون درزی جن کا تعلق پیٹرسبرگ کی ٹیکسٹائل مزدور عورتوں سے تھا اور جو 1908 سے بالشویک پارٹی کی رکن تھیں) انہوں نے جنوری 1930 میں بالشویک پارٹی کے اخبار “پراودا” میں اس معاملے پر اپنے مضمون میں لکھا کہ “۔۔۔۔ بعض کمیونسٹ عورتیں سکھ کا سانس لیتے ہوئے کہتی ہیں: ‘شکر ہے اب جب کہ ہم عوامی کام میں مصروف ہوجائیں گی تو ہمیں عورتوں پر توجہ نہیں دینا پڑے گی’۔…ہمیں اس بات پر سختی سے زور دینا چاہیے کہ مرکزی کمیٹی کا زینوتڈیل کی تشکیلِ نو کا فیصلہ کسی بھی کمیونسٹ عورت کو عورتوں میں کام کرنے سے آزاد نہیں کرتا۔ پارٹی سے وفادار تمام عورتیں خواہ وہ سوشلزم کی تعمیر کے کسی بھی شعبے سے وابستہ ہوں، انہیں محنت کش عورتوں کی کثیر اکثریت کے لیے عورت کی نجات سے جڑے تمام مسائل کو آگے لانا چاہیے۔”

آرتیخینا مزید لکھتی ہیں کہ “۔۔حالیہ برسوں میں شہری اور دیہی علاقوں میں کارکنوں کی بڑی تعداد پیدا ہوئی ہے۔ 3 لاکھ عورتیں صرف سوویتوں (مزدوروں، کسانوں اور سپاہیوں کی انجمنیں) میں کام کر رہی ہیں۔ کارکنوں کی یہ فوج خود رو انداز سے پیدا نہیں ہوئی۔ سوویتوں میں موجود ہر عورت مندوبین کے اجلاسوں کے اسکولوں سے اور کسان اور مزدور طبقے کی عورتوں کے درمیان خصوصی کام کے اسکولوں سے گزری ہے۔ اب ہمارے پاس پارٹی (بالشویک پارٹی) میں 2 لاکھ سے زیادہ عورتیں ہیں جو پارٹی کی کل ممبرشپ کا ساڑھے 13 فیصد ہیں۔ انہی عورتوں کی اکثریت زینوتڈیل میں اور مندوبین کے اجلاسوں میں شامل رہی ہے۔ یہی بات ٹریڈ یونین اور کوآپریٹو تحریک (اجتماعی زراعت کی تحریک) کی کارکن عورتوں کے بارے میں کہی جا سکتی ہے۔”

الیکزنڈرا آرتیخینا کے مضمون سے یہ واضح ہے کہ زینوتڈیل کے خاتمے کا مطلب ہر گز عورتوں کے مسائل سے صرفِ نظر کرنا نہیں تھا جیسا کہ مہناز رحمٰن صاحبہ تاثر قائم کرتی ہیں۔ اس کی تشکیلِ نو کی گئی تھی۔ بالشویک پارٹی کی مرکزی کمیٹی کی قرارداد (5 جنوری 1930) کے مطابق مزدور اور کسان عورتوں میں کام خصوصی اہمیت اختیار کرتا جا رہا تھا چنانچہ مرکزی کمیٹی کے تمام شعبوں کو اس کام میں شامل ہونا چاہیے تھا۔ مرکزی کمیٹی کے سیکرہٹری، لازار کاگانووچ نے اس معاملے پر کہا کہ “۔۔۔زینوتڈیل اپنی ترقی کے اختتام پر پہنچ گئے  ہیں۔ اب ہمارے پاس سوویتوں میں 301999 عورتیں ہیں، ٹریڈ یونینوں میں 3078000 عورتیں ہیں جن میں سے 56608 عورتیں فیکٹری اور پلانٹ کمیٹیوں میں شامل ہیں اور 290000 عورتیں ٹریڈ یونین کارکن ہیں۔ پارٹی کی کمیٹیوں میں عورتوں کی شرح میں 1927 میں 7.1 فیصد سے 1929 میں 20.1 فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔ یقینا یہ کافی نہیں ہے لیکن یہ گروپ اتنا بڑا ہے کہ اب یہ کسی خصوصی مدد کے بغیر آگے کام جاری رکھ سکتا ہے۔۔” بالشویک پارٹی کی شہری شاخوں میں زینوتڈیل کے مقامی ادارے 1934 تک کام کرتے رہے جبکہ دیہی علاقوں میں مقامی سطح پر ان کا کام 1951 تک جاری رہا۔

زینوتڈیل عورتوں میں خصوصی کام کے لیے قائم کیا گیا تھا۔ اس کی تشکیلِ نو کا مقصد یہ ہر گز نہیں تھا کہ بالشویک حکومت نے عورتوں کی ترقی و بہبود کی جانب توجہ مرکوز رکھنا بند کردی تھی۔ 1930 تک سوویت یونین ملکی صنعت کو اپنے پیروں پر کھڑا کر چکا تھا۔ اگلا مرحلہ اس وسیع و عریض زرعی ملک میں سوشلزم کی تعمیر کے لیے زراعت کو اجتماعی بنانے کے لیے غریب اور درمیانے کسانوں اور زرعی مزدوروں کی مدد سے استحصالی امیر کسان طبقے کا جسے “کولاک” کہا جاتا تھا خاتمہ کرنے کے لیے (خاتمہ معاشی معنی میں) اجتماعی زرعی فارمز کا قیام ناگزیر تھا۔ اس مقصد سے بالشویک پارٹی نے اپنے مرکزی سیکریٹیریٹ کو ازسرِ نو منظم کیا۔ زینوتڈیل کی تشکیلِ نو بھی اس کا حصہ تھی. یہ بھی یاد رہے کہ جوزف اسٹالن زینوتڈیل کے قیام کے تین سال بعد 1922 میں بالشویک پارٹی کے جنرل سیکریٹری بنے تھے اور یہ محکمہ پارٹی لیڈرشپ میں ان کی موجودگی کے دوران 8 سال تک کام کرتا رہا۔

زینوتڈیل کی تشکیلِ نو سے پہلے اور اس کے بعد اعلی تعلیم کے شعبے میں خواتین کی زبردست ترقی کا اندازہ ان اعدادوشمار سے لگایا جا سکتا ہے:

1927: 28 فیصد خواتین (زینوتڈیل کی تشکیل نو سے پہلے)

1949: 44 فیصد خواتین

1970: 48 فیصد خواتین

سال 1960 تک سوویت یونین میں 98 فیصد نرسیں، 75 فیصد اساتذہ، 95 فیصد لائبریرین اور 75 فیصد ڈاکٹر عورتیں تھیں۔

گھریلو زمہ داریوں سے عورتوں کی نجات کے حوالے سے بچوں کی نگہداشت کے مراکز (کنڈرگارٹن) اور اجتماعی طعام خانے (پبلک کچن) خاص اہمیت کے حامل ہوتے ہیں جو عورت کو بچوں کی دیکھ بھال اور کھانا پکانے کی زمہ داریوں سے آزاد کر کے عورتوں کی گھریلو محنت میں کافی کمی لاتے ہیں۔

سال 1937 تک سوویت یونین میں کنڈرگارٹن اور نرسری اسکولوں میں داخل بچوں کی تعداد 18 لاکھ تھی۔ پانچ سال بعد 1942 میں یہ تعداد 42 لاکھ تک پہنچ چکی تھی۔ دیہی علاقوں میں کاشت کاری کے دنوں میں بچوں کی نگہداشت اور دیکھ بھال کے لیے قائم کیے جانے والے نرسری اسکولوں اور کنڈرگارٹن اسکولوں میں 1937 تک قریبا 51 لاکھ بچوں کی نگہداشت کی جاتی تھی۔ 1950 میں سوویت یونین میں 5 لاکھ کنڈرگارٹن اور نرسری اسکول تھے جو 1971 تک 51 لاکھ سے تجاوز کر چکے تھے۔

سال 1938 میں سوویت یونین میں 30 ہزار اجتماعی/پبلک طعام خانے تھے جن کا ٹرن اوور 12 ارب روبل تھا۔ 1956 میں سوویت کمیونسٹ پارٹی کے جنرل سیکریٹری منتخب ہونے والے اور اسٹالن کے خلاف اپنی بدنامِ زمانہ “خفیہ تقریر” کر کے  اسٹالن دور کی سوشلسٹ پالیسیوں کو تبدیل کر کے سوویت یونین کو سرمایہ دارانہ معاشرت کی راہ پر ڈالنے والے ترمیم پسند سوویت لیڈر خروشچیف کے مطابق:”…اسٹالن کے وقت میں کمیونزم کی نظریاتی سوچ یہ تھی کہ تمام لوگوں کو برابر ہونا چاہیے اور عورت کو باورچی خانے کی غلامانہ محنت سے آزاد ہونا چاہیے۔ رہائشی اپارٹمنٹ میں باورچی خانہ نہیں ہونا چاہیے۔ سب کو کھانے کے لیے گھر سے باہر کیفیٹیریا میں جانا چاہیے۔”

مزدور اور کسان عورتوں کی پہلی کانگریس کی پانچویں برسی کے موقع پر 1923 میں اپنے خطاب میں اسٹالن نے کہا کہ “…آج جب کہ سیاسی اقتدار مزدوروں اور کسانوں کے ہاتھوں میں ہے، محنت کش عورتوں کی سیاسی تعلیم بنیادی اہمیت کی حامل ہے۔۔۔مزدور اور کسان عورتیں مزدور اور کسان مردوں کے کے ساتھ برابری کی بنیاد پر آزاد شہری ہیں۔ عورتیں ہماری سوویتوں کو اور کوآپریٹوز و منتخب کرتی ہیں اور ان اداروں میں منتخب ہو سکتی ہیں۔ مزدور اور کسان عورتیں ہماری سوویتوں اور کوآپریٹوز کو بہتر بنا سکتی ہیں، انہیں مستحکم اور ترقی یافتہ کر سکتی ہیں اگر وہ سیاسی طور پر باشعور ہوں۔”

کسان عورتوں کی کل یونین کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے 1933 میں جوزف اسٹالن نے کہا کہ “۔۔اجتماعی فارمز میں عورتوں کا سوال ایک بڑا سوال ہے رفیقو۔ میں جانتا ہوں کہ آپ میں سے بہت سے لوگ خواتین کو کمتر سمجھتے ہیں اور حتی کہ ان کا مذاق اڑاتے ہیں۔ یہ ایک غلطی ہے، سنگین غلطی، رفیقو! نکتہ صرف یہ نہیں کہ خواتین آبادی کا نصف حصہ ہیں۔ بنیادی نکتہ یہ ہے کہ اجتماعی زراعت کے فارمز بہت سی زبردست اور باصلاحیت عورتوں کو قائدانہ منصب تک لائے ہیں۔ اس کانگریس کو دیکھیں، اس کے مندوبین کو دیکھیں اور آپ کو اس حقیقت کا ادراک ہوجائے گا کہ عورتیں عرصہ ہوا پچھڑی ہوئی صفوں سے نکل کر اگلی صفوں میں آگئی ہیں۔ اجتماعی فارمز کی خواتین ایک عظیم قوت ہیں۔ اس قوت کو سرنگوں رکھنا مجرمانہ فعل ہوگا۔ یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم اجتماعی فارمز کی عورتوں کو آگے لا کر اس عظیم قوت کو استعمال میں لائیں۔”

عورتوں کے عالمی دن کے موقع پر مارچ 1949 میں مرکزی کمیٹی سے خطاب میں اسٹالن نے کہا کہ “…سویت عورتوں کا عظیم کام، سوشلسٹ صنعت، اجتماعی زراعت اور سوشلسٹ ثقافت کی تعمیر،تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ سوویت عورتیں انتظامی امور اور ریاست سازی میں سرگرم حصہ لے رہی ہیں جو کہ بذاتِ خود سوویت نظام کی حقیقی جمہوریت کا ایک واضح ثبوت ہے: 277 عورتیں یونین آف سوویت سوشلسٹ ریپبلکس کی سپریم سوویت میں منتخب ہوئی ہیں، اور 1700 سے زیادہ عورتیں یونین اور خودمختار جمہوریاؤں کی سپریم سوویت کے لیے انتخاب جیتی ہیں۔  تقریبا 5 لاکھ عورتیں مقامی سوویتوں کے الیکشن جیتی ہیں۔۔۔2 لاکھ 80 ہزار عورتیں انجینیئر، ٹیکنیشن اور ہنر مند فیکٹری ورکر ہیں۔۔۔25 لاکھ عورتوں نے “ممتا کی شان” اور “ممتا” ایوارڈ حاصل کیا ہے۔

عورتوں کی زبردست ترقی اور خوشحالی میں سوویت یونین کی شاندار تاریخی کامیابی اور اس میں جوزف اسٹالن کے عہد آفریں اقدامات اور رہنمایانہ کردار کے درجنوں حوالے دیئے جا سکتے ہیں۔ بہت سے لوگ عورتوں کی اکثریت، یعنی مزدور اور کسان عورتوں کے معاشی، سیاسی، سماجی اور ثقافتی حقوق اور ان سے منسلک ترقی کو عورت کی آزادی اور مساوات کے ضمن میں قابلِ اعتنا نہیں سمجھتے لیکن کمیونزم کے نزدیک عورت کی حقیقی آزادی کی بنیاد یہی ہے۔ کمیونزم عورت کی آزادی کے یکطرفہ، مجرد، انفرادیت پسند اور طبقاتی نظام سے ماورا لبرل فیمنسٹ تصور کو مسترد کرتا ہے اور اس کے برخلاف عورت کی آزادی اور مساوات کو مزدور اور کسان عورتوں کی مزدور اور کسان مردوں کے شانہ بہ شانہ طبقاتی نظام کے خاتمے کی انقلابی جدوجہد سے مشروط کرتا ہے۔ اور ظاہر ہے اسی لیے عورت کی آزادی اور مساوات کے بارے میں کمیونسٹ نظریہ اور عمل اس کے سرمایہ دارانہ تصور یعنی لبرل فیمنزم کے غیر حقیقت پسندانہ تصور کے نزدیک حقیر، ہیچ، قابلِ تنقید اور ناقابلِ قبول ہے۔

زینوتڈیل کی تشکیل نو (جو مہناز رحمٰن صاحبہ کے بقول خاتمہ تھی) سے پہلے اور اس کے بعد جوزف اسٹالن کے دور میں روسی عورتوں کی سیاسی، سماجی، معاشی اور ثقافتی ترقی میں بتدریج اضافہ یہ بات ثابت کرتا ہے کہ جوزف اسٹالن اور روسی عورتوں کی آزادی اور مساوات کے بارے میں مہناز رحمٰن صاحبہ نے اس سے زیادہ کچھ اور نہیں کیا جو کمیونسٹ تحریک اور انسانی ترقی و خوشحالی کے حوالے سے اس کی بے نظیر اور عظیم الشان کامیابیوں کو جھٹلانے کے لیے سرمایہ دارانہ ذرائع ابلاغ اور اس کے نام نہاد دانشور، ترمیم پسند، رجعت پرست اور موقع پرست عناصر سوویت یونین کی تاریخ کو مسخ کر کے اور جوزف اسٹالن پر بے بنیاد الزام تراشیوں کے ذریعے کرتے ہیں یعنی کمیونزم کو عوام الناس میں بدنام کرنے کی رجعتی کوشش تاکہ ازکارِ رفتہ سرمایہ دارانہ نظام کو کسی حیلے بہانے سے بچایا جا سکے۔