کلبھوشن یادیو کیس : پاکستان کے ساتھ آخر ہوا کیا؟ اندر کی کہانی

Asad Ali Toor aik Rozan writer
اسد علی طور، صاحب مضمون

                                                          کلبھوشن یادیو کیس : پاکستان کے ساتھ آخر ہوا کیا؟ اندر کی کہانی

(اسد علی طور)

ایک خبر تو سب اخبارات اور نیوز چینلز پر ہے ہی کہ پاکستان کو عالمی عدالتِ انصاف میں مبینہ بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کی سزائے موت پر بھارت کے ہاتھوں ابتدائی شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ عالمی عدالتِ انصاف نے کیس کے حتمی فیصلے تک پاکستان کو فوجی عدالت کے فیصلہ پر عملدرآمد سے روک دیا ہے۔ بھانت بھانت کے دفاعی تجزیہ کار اور نام نہاد دانشور اس فیصلے پر پاکستان کی ناکامی کی راولپنڈی زدہ توجیہات لے کر ٹی وی اسکرینوں پر بیٹھے سویلین حکمرانوں کے لتے لیے جارہے ہیں۔ ان برساتی مینڈکوں نے جو ہر “واقعاتی برسات” کے ساتھ ہی ٹریں ٹریں کرنے نکل آتے ہیں کبھی زحمت نہیں کی کہ جانیں دراصل سفارت کاری ہوتی کیا ہے؟ بین الاقوامی قوانین کیا ہوتے ہیں؟ دو ملکوں میں طے پانے والے دوطرفہ معاہدے کیا ہوتے ہیں؟ اور یہ جانتے ہی نہیں، نہ ہی مطالعہ کی زحمت کرتے ہیں کہ اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے تحت تشکیل پانے مختلف معاہدوں پر دستخط سے آپ مختلف فورمز کا ممبر بن کر جہاں اپنا سفارتی اثرورسوخ بڑھاتے ہیں وہیں آپ کئی ذمہ داریوں کے پابند بھی ہوجاتے ہیں۔ جب بھی ایسا کوئی سفارتی تنازع کھڑا ہوتا ہے تو فریق ممالک ان بین الاقوامی معاہدوں کی شقوں کو استعمال کرتے ہوئے بااثر ممالک کے سفارت کاروں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے لابنگ کرتے ہیں۔ لیکن اس سب کے لیے آپ کی تمام حکومتی مشینری، سفارتی بازو اور ریاستی اداروں کو ایک صفحہ پر ہونے کی ضرورت ہوتی ہے تب جاکر آپ یہ ریاضت کرسکتے ہیں۔ کلبھوشن یادیو کے کیس میں انہی عوامل نے فیصلہ کن کردار ادا کیا جس کی کہانی اس مضمون میں بیان کی جائے گی۔

عالمی عدالتِ انصاف میں پاکستان کی نمائندگی خاور قریشی کی سربراہی میں اسد رحیم خان اور جوزف ڈیک پر مبنی تین رکنی قانونی ٹیم نے کی۔ اب جبکہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ خود اعتراف کرچکے ہیں کہ کلبھوشن یادیو کا کیس عالمی عدالتِ انصاف میں لڑنے کے لیے وکیل جی ایچ کیو کا انتخاب تھا تو قارئین کی خدمت میں عرض ہے کہ خاور قریشی کو “hire and pay” تو پاکستانی اٹارنی جنرل آفس نے کیا تھا لیکن وہ انتخاب جی ایچ کیو کا تھے اور عالمی عدالتِ انصاف میں پیش ہونے سے قبل آخری ڈنر انہوں نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور ڈی جی آئی ایس آئی لیفیٹننٹ جنرل نوید مختار کے ساتھ راولپنڈی میں کیا۔ جہاں اِن کو دلائل کے لیے درکار “دستاویزات اور بریف” دی گئی۔ اس ڈنر کے بعد خاور قریشی سیدھے اسلام آباد ایئرپورٹ پہنچے جہاں ہیگ روانگی کے لیے فلائٹ تیار تھی۔ اگلی صبح خاور قریشی عالمی عدالتِ انصاف کی طرف سے دیئے گئے طے شدہ وقت سے بھی آدھے وقت میں اپنے دلائل مکمل کرکے نشست پر بیٹھ گئے۔

بظاہر اس میں کوئی مذائقہ نہیں اگر فوج پہلے دن سے کلبھوشن یادیو کا کیس ڈیل کررہی ہے اور اُس نے سویلین قیادت کو اس سے متعلق نہ تو کسی قسم کے ثبوت دکھائے اور نہ ہی کوئی تفصیلی بریفنگ دی تو ٹھیک ہے وکیل بھی انہی کا ہونا چاہیے تھا تاکہ وہ خود اُس کو تیاری کرواتے۔ سول اور ملٹری قیادت میں موجودہ “کمیونیکیشن گیپ اور مِس ٹرسٹ” کو مدِنظر رکھتے ہوئے حکومت نے وکیل کے انتخاب کا حق جی ایچ کیو کو دے دیا تھا تاکہ وہ پورے اعتماد کے ساتھ وکیل کو تیاری کروا کر اکھاڑے میں اتاریں۔۔ یعنی گھوڑا بھی اُنکا اور جوکی بھی اُنہی کا۔ عالمی عدالتِ انصاف میں اگر ہم دائرہ سماعت کو چیلنج ہی کرنے جارہے تھے تو پھر ہمیں جیوری کو مطمئن کرنے کے لیے اُن کے سامنے ایسے ناقابلِ تردید شواہد رکھنے چاہیے تھے جو ثابت کرتے کہ کلبھوشن یادیو ایک “جاسوس” ہے جس نے پاکستان میں دہشت گردی کروائی۔ اور یہ ثبوت کس نے مہیا کرنے تھے؟ جنہوں نے کلبھوشن یادیو کو پکڑا، تفتیش کی اور ٹرائل کرکے سزا دی۔ لیکن کیا جی ایچ کیو کے منتخب شدہ وکیل نے ایسی کوئی دستاویزات جیوری کے سامنے رکھیں؟ جی نہیں۔۔ کیا پاکستان نے بھارت کی طرح اپنا قانونی حق استعمال کرتے ہوئے جیوری میں پاکستان کا تجویز کردہ جج شامل کروایا؟ جی نہیں۔۔ نتیجہ الحمداللہ ہمارے سامنے ہیے، آئیے اس کو چومیں اور فریم کروا کر پاکستان کے سنہری “سول ملٹری گزٹ” کا حصہ بنا دیں۔

اس سے قبل بھی ہم ماشااللہ 2015 میں اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون کو بھارت کی پاکستان میں مبینہ مداخلت کے ثبوتوں پر مبنی ایک “ڈوزیئر” دے چکے ہیں۔ لیکن جب وزیراعظم کے مشیر برائے خارجہ سینیٹر سرتاج عزیز سے سینیٹ کی کمیٹی برائے خارجہ امور نے 19نومبر2015 کو سوال کیا کہ ہم نے اس “ڈوزیئر” میں کیا ثبوت یو این کو دئیے؟ تو ان کا جواب سن کر کم از کم مجھے ایک چھوٹا سا “ہارٹ اٹیک” ضرور ہوا۔ مشیرِ خارجہ فرماتے ہیں ڈوزیئر میں ثبوت تو کوئی نہیں صرف واقعاتی “پیٹرن” بتا کر یو این کو سمجھانے کی کوشش کی گئی کہ جو بھی ہو “ایہہ کم کسی چور دا ہی ہے وے۔” مطلب خدا کا خوف کریں دنیا کے سب سے بڑے فورم پر آپ ایک ملک کے خلاف کیس لے کر جارہے ہیں اور ملک بھی چھوٹا موٹا “ٹُچہ” ملک نہیں ایک ارب پچیس کروڑ آبادی کا ملک بھارت۔۔ اور آپ بغیر ثبوتوں کے بین الاقوامی برادری سے امید کررہے ہیں کہ صرف پاکستان کے بتائے ہوئے “پیٹرن” کی بنیاد پر بھارت کے کان کھینچے گی؟ کیا ہمیں بین الاقوامی برادری میں اپنی “ساکھ” کا اندازہ نہیں ہے؟ اس کے باوجود ہم یہ حرکتیں کیوں کرتے ہیں؟ سوچنا ہوگا کہ کیا ہمیں صرف “ڈومیسٹک آڈینس” کو گمراہ کرکے اپنی نوکری کے “ڈنگ ٹپانے” ہیں یا دورس نتائج کی حامل ایسی حکمتِ عملی اپنانی ہے جو ہمارے ریٹائرڈ ہونے کے بعد ہمارے وطن کو “پے بیک” کرے۔ بھارت یقینی طور پر پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث ہوگا لیکن اس کے ثبوت سویلین حکمرانوں نے نہیں لانے۔۔ یہ کام ہماری عسکری خفیہ اداروں نے کرنے ہیں جن کی “جاب ڈِسکرپشن” ہی یہ کام ہے سویلین حکمرانوں اور صحافیوں کے ٹیلی فون ٹیپ کرنا نہیں۔

کل رات ایک جگہ جانے کا اتفاق ہوا جہاں ایک بھارتی چینل کے ٹاک شو میں حاضری کے لئے راولپنڈی کے تربیت یافتہ تین ریٹائرڈ ترجمانوں سے ملاقات ہوئی اور اُن کی آف دی ریکارڈ گفتگو پریشانی و حیرت کے ملے جُلے جذبات سے سنتا رہا کہ کس طرح پاکستانی حکومت نے پاکستانی ریاست کے خلاف سازش کرکے ہمیں عالمی عدالتِ انصاف میں کیس ہروا دیا ہوگا۔ کس طرح بھارت نے لابنگ کرکے عالمی عدالتِ انصاف کے جیورسٹ کو خرید لیا ہوگا۔

پاکستانی چینل مالکان نے بھی کچھ عطائی ڈاکٹروں کو اینکر بنا رکھا ہے جن میں سے کوئی کبھی ابوظہبی میں بےہوش والد کا انگوٹھا جائیداد کے کاغذات پر لگواتا گرفتار ہوتا ہے، کسی کی قیامت ابھی تک نہیں آرہی اور کوئی ہر ریٹائر ہوتے آرمی چیف کو جھولیاں اُٹھا اُٹھا کر “آج جانے کی ضد نہ کرو” سناتا رہتا ہے۔۔ اب یہ عطائی ڈاکٹر ٹی وی اسکرینوں پر کلبھوشن کے کیس پر بھاشن دئیے جارہے ہیں کہ وزیراعظم نوازشریف نے پہلے سے سجن جندال سے ملاقات میں بھارتی جاسوس پر ڈیل کرلی تھی۔۔ یعنی کہ جیسے عالمی عدالتِ انصاف میں جج میاں نوازشریف تھے اور وکیل سجن جندال۔۔ پھر کیا تھا کیس یہ جا وہ جا۔۔۔ ایسے بدبودار تجزیہ کاروں کو جوہڑ کے کنارے بٹھا کر بِھگو بِھگو کر جوتے سروں میں مارنے چاہیے تاکہ جو تعفن زدہ جھوٹ یہ قوم سے بول رہے ہیں وہ اِن کے نتھنوں میں بھی داخل ہوسکے۔

About اسد علی طور 14 Articles
اسد علی طور، براڈکاسٹ جرنلسٹ ہیں، ان دنوں اے آر وائی چینل کے ایک پرائم ٹائم حالات حاضرہ کے پروگرام کے پروڈیوسر ہیں۔ لیکن آزاد منش فکر اور انسان دوستی ان کی شخصیت کا خاصہ ہیں۔ سوال کی اجازت نا دینے والی طاقتوں کو بھی سوال زد کرنا اپنا فرض جانتے ہیں۔

1 Comment

  1. Sub bkwas,,,,,,,,,,,army ko bdnam krne ki fazool koshesh,

    Sb ko pta moodi ka yar kon ha
    Jindaal q aya

Comments are closed.