بین الاقوامی عدالتِ انصاف کا فیصلہ : ایک قانونی تجزیہ

بین الاقوامی عدالتِ انصاف کا فیصلہ

بین الاقوامی عدالتِ انصاف کا فیصلہ : ایک قانونی تجزیہ

(ڈاکٹر محمد مشتاق احمد)

اس فیصلے پر کئی پہلوؤں سے مباحثہ جاری ہے لیکن قانونی تجزیہ کم ہی کہیں نظر آیا ہے، حالانکہ اصل میں یہ مسئلہ قانونی ہے۔ اس مضمون میں کوشش کی جائے گی کہ اس فیصلے کے متعلق اہم قانونی مسائل کی مختصر توضیح کی جائے۔

بین الاقوامی عدالتِ انصاف (International Court of Justice/ICJ) کیا ہے؟

سب سے پہلے اس عدالت کا مختصر تعارف ضروری ہے۔ اس عدالت کے متعلق چند حقائق یہ ہیں:

1۔ یہ عدالت اقوامِ متحدہ کی تنظیم کی ایک شاخ ہے اور اس عدالت کا ضابطہ (Statute) اقوامِ متحدہ کے منشور (Charter) کا حصہ ہے۔ اس لیے جو ریاستیں اقوامِ متحدہ کے منشور پر دستخط کر کے اس کی رکنیت حاصل کر لیتی ہیں، وہ اس عدالت کے ضابطے کی بھی پابند ہوجاتی ہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس عدالت کو ان ریاستوں پر لازمی اختیارِ سماعت حاصل ہو جاتا ہے۔ اختیارِ سماعت کے مسئلے پر آگے بحث آ رہی ہے۔ یہاں مطلب صرف اتنا ہے کہ یہ ریاستیں اس عدالت میں مقدمہ لا سکتی ہیں۔ جو ریاستیں اقوامِ متحدہ کی رکن نہیں ہیں، وہ اس عدالت میں مقدمہ لانے کے لیے الگ طریقِ کار اختیار کرسکتی ہیں۔

2۔ اس عدالت سے قبل اسی نوعیت کی ایک اور بین الاقوامی عدالت موجود تھی جس کا نام ”بین الاقوامی انصاف کی مستقل عدالت“ (Permanent Court of International Justice/PCIJ)تھا۔ یہ تنظیم مجلسِ اقوام (League of Nations) کے تحت بنی تھی۔ مجلسِ اقوام کی جگہ بعد میں اقوامِ متحدہ کی تنظیم نے لی اور بین الاقوامی انصاف کی مستقل عدالت کی جگہ بین الاقوامی عدالتِ انصاف نے حاصل کی۔

3۔ بین الاقوامی عدالتِ انصاف ریاستوں کے درمیان قانونی تنازعات کا تصفیہ بین الاقوامی قانون کی روشنی میں کرتی ہے۔ یہاں دو باتوں پر نظر رہے۔ ایک یہ کہ تنازعے کا قانونی ہونا ضروری ہے؛ سیاسی مسائل عدالت میں نہیں لائے جا سکتے۔ دوسری یہ کہ عدالت ان تنازعات کا فیصلہ بین الاقوامی قانون کی روشنی میں کرتی ہے۔ یہ ”بین الاقوامی قانون“ کہاں پایا جاتا ہے؟ اس کے لیے عدالت کے ضابطے کی دفعہ 38 میں قرار دیا گیا ہے کہ عدالت تین بنیادی مصادر کا رخ کرے گی: بین الاقوامی معاہدات، بین الاقوامی تعامل اور قانون کے قواعدِ عامہ جنھیں مہذب اقوام نے تسلیم کیا ہو۔

4۔ یہ عدالت اقوامِ متحدہ کی ذیلی شاخوں کے قانونی سوالات کے جواب بھی دے سکتی ہے۔ اسے Advisory Jurisdiction کہتے ہیں۔ اس کی ایک مثال مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں قابض طاقت اسرائیل کی جانب سے دیوار کی تعمیر کے قانونی نتائج کے متعلق اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کا سوال ہے جس پر عدالت نے 2003ء میں تفصیلی فیصلہ سنایا۔

5۔ عدالت تنازعے کے فریقوں پر لازمی اختیارِ سماعت نہیں رکھتی بلکہ تبھی تنازعے کا قانونی حل بتاتی ہے جب تنازعے کی فریق تمام ریاستیں عدالت سے تصفیہ کرنے پر رضامند ہوں۔ بہ الفاظِ دیگر، عدالت ثالث (Arbitrator) کی طرح تبھی فیصلہ کرسکتی ہے جب تنازعے کے تمام فریق اس سے فیصلہ کرانا چاہیں۔ تاہم یہ عدالت مخصوص قانونی مفہوم میں ثالث نہیں بلکہ عدالت ہی ہے۔ ثالث کے لیے ضروری نہیں ہوتا کہ وہ کسی مخصوص قانون کی رو سے فیصلہ کرے جبکہ یہ عدالت فیصلہ بین الاقوامی قانون کی روشنی میں کرتی ہے۔ البتہ تنازعے کے فریق چاہیں تو اوپر مذکور تین بنیادی مصادر کے علاوہ بعض دیگر مصادر یا قواعد کو بھی عدالت مد نظر رکھ سکتی ہے۔

6۔ بعض ریاستوں نے پہلے ہی سے ایک اعلان (declaration) جاری کیا ہوتا ہے جس کی رو سے اس نے اس عدالت کا اختیارِ سماعت تسلیم کیا ہوتا ہے، ایسی صورت میں اس ریاست کے خلاف دوسری ریاست اس عدالت میں آ سکتی ہے۔ امریکا نے ایسا ہی ایک اعلان پہلے ہی سے عدالت کے سامنے پیش کیا تھا۔ اس وجہ سے نکاراگووا نے امریکا کے خلاف اس عدالت میں مقدمہ قائم کیا کیونکہ امریکا نے نکاراگووا میں حکومت کے خلاف باغیوں (Contras) کی مدد اور تربیت کا سلسلہ شروع کر رکھا تھا۔ عدالت نے اس تنازعے میں ابتدائی مراحل طے بھی کرلیے لیکن بعد میں مزید کارروائی اس وجہ سے نہیں ہوسکی کہ امریکا نے اپنا اعلان واپس لے لیا تھا اور اس کے بعد عدالت کے پاس اختیارِ سماعت باقی نہیں رہا تھا۔ پاکستان نے بھی ایسا ہی ایک اعلان 1960ء میں جاری کیا تھا۔ تاہم یہ بات اہم ہے کہ 29 مارچ 2017ء کو اقوامِ متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے پاکستان کی جانب سے نیا اعلان عدالت میں جمع کرایا جس کی رو سے اس اختیارِ سماعت پر کئی اہم قیود لگائی گئی ہیں۔ ان قیود میں ایک قید یہ ہے کہ تنازعہ پاکستان کی سلامتی کے امور سے متعلق نہ ہو۔

بین الاقوامی عدالتِ انصاف کیا نہیں ہے؟
یہ بتانا بھی ضروری ہے کیونکہ اس عدالت کے متعلق کئی غلط فہمیاں غلط مفروضات کی وجہ سے وجود میں آئی ہیں۔

1۔ یہ فوجداری عدالت نہیں ہے۔ یہاں افراد کے خلاف فوجداری مقدمات قائم نہیں کیے جاسکتے۔ نہ ہی فوجداری مقدمات کا تصفیہ کیا جاتا ہے۔ بہ الفاظِ دیگر، نہ یہ کسی ملزم کا جرم ثابت ہونے پر اسے سزا سناتی ہے، نہ ہی اس کے بےگناہ ثابت ہونے پر اسے رہا کرنے کا حکم جاری کرتی ہے۔ ان مقاصد کے لیے ایک الگ مستقل عدالت موجود ہے جس کا نام ہے: بین الاقوامی فوجداری عدالت (International Criminal Court/ICC)۔ تاہم پاکستان اور بھارت دونوں میں کسی نے بھی ابھی تک آئی سی سی کے منشور کی توثیق نہیں کی ہے، اس لیے وہاں کسی فرد کے خلاف مقدمہ پاکستان یا بھارت کی جانب سے قائم نہیں کیا جاسکتا۔

2۔ یہ دنیا کی اعلی ترین عدالت (Apex Court) نہیں ہے۔ کئی لوگوں نے یہ فرض کیا ہوا ہے کہ کلبھوشن یادو کے خلاف پاکستان میں فوجی عدالت کے فیصلے کے خلاف بھارت اس عدالت میں گیا ہے اور اب گویا یہ عدالت اس فوجی عدالت کے فیصلے کو اسی طرح کالعدم کرسکتی ہے جیسے ہائی کورٹ ماتحت عدالت کا، یا سپریم کورٹ کسی ہائی کورٹ کا، فیصلہ ختم کر لیتی ہے۔ ایسا نہیں ہے۔ ہر ریاست کا اپنا عدالتی نظام ہے جو اس ریاست کے ملکی قانون کے مطابق چلتا ہے۔ یہ عدالت اقوامِ متحدہ کی عدالت ہے جو بین الاقوامی قانون پر فیصلے کرتی ہے۔ ملکی عدالتوں کا، بشمول فوجی عدالتوں کے، دائرۂ کار اور اس عدالت کا دائرۂ کار ایک دوسرے سے یکسر الگ ہے۔

بین الاقوامی عدالتِ انصاف کا ایک اہم اصول
1۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ اس عدالت نے بارہا جس اصول کا بڑی شد و مد سے ذکر کیا ہے اور ہمیشہ اس کی پابندی کی کوشش کی ہے، وہ ہے ریاست کی خودمختاری (sovereignty)۔ اسی اصول پر یہ کسی ریاست کو کسی مقدمے میں عدالت کے سامنے پیش ہونے پر مجبور نہیں کرسکتی جب تک وہ ریاست خود اس عدالت کا اختیارِ سماعت تسلیم نہ کرے۔ اسی طرح یہ کسی ریاست پر زبردستی اپنا فیصلہ نافذ نہیں کرسکتی بلکہ اس ریاست سے توقع رکھتی ہے کہ وہ اس فیصلے کو نافذ کرلے گی۔ البتہ اس فیصلے کے بعد عالمی دباؤ میں یقیناً اضافہ ہوسکتا ہے جس کی وجہ سے بعض اوقات ریاست وہ فیصلہ ماننے پر مجبور ہوجاتی ہے ۔

2۔ ریاستی خود مختاری ماننے کا ہی ایک نتیجہ یہ ہے کہ اگر اس عدالت نے یہ فیصلہ کر بھی لیا کہ کسی ریاست کی عدالت کا فیصلہ کسی بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی پر مبنی ہے تو یہ عدالت خود اس مقدمے کا فیصلہ نہیں کرے گی بلکہ اس ریاست سے کہتی ہے کہ وہ اپنی ریاستی عدالت کے فیصلے پر نظرثانی کروائے ۔

بھارت کے دعوے کی بنیاد: ویانا معاہدہ برائے قونصلر تعلقات 1963ء

اب ہم اس سوال کا جائزہ لیں گے کہ بین الاقوامی عدالتِ انصاف میں بھارت نے پاکستان کے خلاف مقدمہ کس بنیاد پر قائم کیا ہے؟ بہ الفاظِ دیگر، بھارت کا شکوہ کیا ہے کہ پاکستان نے بین الاقوامی قانون کے کس اصول کی خلاف ورزی کی ہے؟

1۔ قونصلر کو تقریباً وہی حیثیت اور مراعات حاصل ہوتی ہیں جو سفیر کو حاصل ہوتی ہیں۔ البتہ سفیر بنیادی طور پر حکومتی تعلقات اور بڑے معاملات کو دیکھتے ہیں جبکہ قونصلر کا کام اپنے ان شہریوں کے حقوق کی دیکھ بھال ہوتی ہے جو دوسری ریاستوں میں گئے ہوں، بالخصوص جن کو کسی الزام میں حراست میں لیا گیا ہو۔ قونصلر سے متعلق امور کے بارے میں بین الاقوامی قانون مدون شکل میں 1963ء کےمعاہدۂ ویانا (Vienna Convention on Consular Relations/VCCR) میں پایا جاتا ہے اور اس معاہدے میں ان زیرِ حراست لوگوں تک قونصلر رسائی کا حق تسلیم کیا گیا ہے۔ پاکستان اور بھارت دونوں نے اس معاہدے کی توثیق کی ہوئی ہے اور یوں ایک دوسرے کے قونصلروں کے لیے یہ حیثیت بنیادی طور پر تسلیم کی ہوئی ہے۔ بھارت کا تقاضا مسلسل یہی رہا ہے کہ پاکستان اسے کلبھوشن یادو تک قونصلر رسائی دے۔

2۔ تاہم اس سے متوازی ایک حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی حق کی طرح یہ حق لا محدود نہیں ہے بلکہ اس پر بعض قیود اور حدود موجود ہیں جو بین الاقوامی تعامل سے بخوبی واضح ہیں۔ سب سے اہم قید اس ضمن میں یہ ہے کہ اگر حراست میں لینے والی ریاست کسی مخصوص قیدی تک قونصلر رسائی کو اپنی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھے تو وہ یہ رسائی دینے سے انکار کر سکتی ہے۔ ماضی میں کئی دفعہ پاکستان اور بھارت دونوں نے، اور کئی دوسری ریاستوں نے بھی، کئی قیدیوں تک قونصلر رسائی سے اس بنیاد پر انکار کیا ہے۔ اب بھی پاکستان نے اسی بنیاد پر کلبھوشن یادو تک قونصلر رسائی دینے سے انکار کیا ہے ۔

3۔ اس ضمن میں ایک اہم حقیقت یہ بھی ہے کہ 2008ء میں پاکستان اور بھارت نے ایک باہمی سمجھوتے کے ذریعے قونصلر رسائی کے معاملے کو منضبط بھی کیا ہے اور اس میں دونوں ریاستوں نے قومی سلامتی کو خطرے کی بنیاد پر قونصلر رسائی سے انکار کا حق ایک دوسرے کے لیے تسلیم کیا ہوا ہے۔ یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے کہ بعد میں کیے جانے والے اس دو طرفہ (bilateral) سمجھوتے کی بنیاد پر کیا 1963ء کے کثیر الملکی (multilateral) بین الاقوامی معاہدے میں مذکور حق کو محدود کیا جاسکتا ہے یا نہیں؟

4۔ اس آخری سوال کے جواب کے لیے بین الاقوامی قانون میں دو اہم دستاویزات کا جائزہ لینا پڑے گا۔ ایک تو خود 1963ء کے معاہدۂ ویانا کے ساتھ اضافہ شدہ ”اختیاری ملحق“ (Optional Protocol) ہے۔ اس ملحق میں طے کیا گیا ہے کہ ویانا معاہدے کی تعبیر و تشریح کے متعلق تنازعات کا تصفیہ بین الاقوامی عدالتِ انصاف کرے گی۔ چونکہ پاکستان اور بھارت دونوں نے اس ملحق کی توثیق کی ہے، اس لیے اگر پاکستان نے اوپر مذکور اعلان کے ذریعے اس عدالت کا اختیارِ سماعت تسلیم نہ بھی کیا ہوتا تب بھی اس ملحق کی توثیق کی وجہ سے بھارت پاکستان کے خلاف مقدمہ اس عدالت میں لے جاسکتا تھا۔ دوسری اہم دستاویز 1969ء کا ویانا معاہدہ برائے قانونِ معاہدات (Vienna Convention on the Law of Treaties/VCLT) ہے جس میں معاہدات کی تعبیر و تشریح کے متعلق بنیادی قواعد و ضوابط دیے گئے ہیں۔ عدالت لازماً اس معاہدے کو بھی مدنظر رکھے گی، بالخصوص جبکہ پاکستان اور بھارت دونوں نے اس معاہدے کی توثیق کی ہوئی ہے۔

5۔ پس عدالت میں بھارت کے دعوے کی بنیاد یہ ہے کہ کلبھوشن تک قونصلر رسائی سے انکار کی وجہ سے پاکستان نے 1963ء کے معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے۔ پاکستان کا جوابِ دعوی اس بنیاد پر قائم ہے کہ پاکستان کی قومی سلامتی کے تناظر میں یہ رسائی نہیں دی جاسکتی تھی اور انکار کا یہ حق بین الاقوامی تعامل میں بھی موجود ہے، اور دونوں ریاستوں نے باہمی سمجھوتے کے ذریعے ایک دوسرے کے لیے یہ حق تسلیم بھی کیا ہے۔ عدالت اصلاً اسی سوال کا جواب تلاش کرے گی کہ کیا قونصلر رسائی سے انکار کرکے پاکستان نے 1963ء کے معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے، یا بین الاقوامی تعامل اور دوطرفہ سمجھوتے کی وجہ سے قونصلر رسائی دینے سے انکار کرنے میں پاکستان حق بجانب تھا؟

عدالت کا حکم نامہ
اب ہم آتے ہیں بین الاقوامی عدالتِ انصاف کے حکم نامے کی طرف۔

1۔ کسی بھی عدالت کے سامنے سب سے پہلا سوال یہ ہوتا ہے کہ اسے اختیارِ سماعت حاصل ہے یا نہیں؟ اختیارِ سماعت کا باقاعدہ تعین تفصیلی بحث چاہتا ہے اور اس میں سب سے ضروری امر یہ بھی ہوتا ہے کہ دوسرے فریق کی بات بھی سنی جائے جو اختیارِ سماعت سے انکاری ہو۔ تاہم بعض اوقات معاملہ فوری اور سنگین نوعیت کا ہوتا ہے جس کی بنا پر عدالت کو کچھ ابتدائی نوعیت کے ایسے احکامات جاری کرنے پڑتے ہیں جن کی بنا پر اس معاملے کی سنگینی کو مزید شدت اختیار کرنے سے روکا جاسکے۔ چونکہ عدالت کا مفروضہ اختیارِ سماعت کے حق میں ہوتا ہے، اس لیے اگر معاملہ فوری اور سنگین نوعیت کا ہو جس میں اگر عدالت نے فوری احکامات جاری نہ کیے تو ناقابلِ تلافی نقصان ہونے کا قوی خدشہ ہوتا ہے، اس لیے ایسے معاملے میں عدالت اختیارِ سماعت فرض کرتے ہوئے کچھ اشد ضروری احکام جاری کرلیتی ہے۔

2۔ یہاں چونکہ معاملہ ایک شخص کی زندگی اور موت کا تھا اور ایک فریق کا کہنا یہ تھا کہ اس شخص تک قونصلر رسائی نہ دے کر پاکستان نے بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی نہ کی ہوتی تو اسے سزائے موت نہ ہوپاتی کیونکہ اس صورت میں اس کا بہتر دفاع ممکن ہوجاتا؛ اب بھی اگر اسے قونصلر رسائی دی جائے تو اسے بہتر دفاع کا موقع مل سکتا ہے؛ اور اس کی سزائے موت کسی بھی وقت نافذ کی جاسکتی ہے۔ ایسی صورت میں کوئی بھی عدالت ہوتی تو وہ اختیارِ سماعت کے لیے کوئی بھی ظنی دلیل قبول کرتے ہوئے، بلکہ اختیارِ سماعت فرض کرتے ہوئے، حکمِ امتناعی جاری کرتی۔ یہی کام اس عدالت نے کیا۔

3۔ تاہم یہ کہانی کا اختتام نہیں ہے بلکہ ابھی اس کہانی میں کئی موڑ آنے والے ہیں۔ عدالت نے صرف ”بظاہر اختیارِ سماعت“ کی موجودگی فرض کی ہوئی ہے۔ ابھی اس کے حق میں اور اس کے خلاف تفصیلی دلائل دینے کا مرحلہ آئے گا۔ پہلا اہم موڑ پاکستان کی جانب سے اختیارِ سماعت پر باقاعدہ تفصیلی اور تحریری (و زبانی) اعتراضات اٹھانے کا ہوگا۔

3۔ اس موڑ پر پاکستان کے حق میں سب سے اہم دلیل 29 مارچ 2017ء کا وہ اعلان ہوگا جس کے ذریعے اس نے اپنے 1960ء کے اعلان کو بہت حد تک محدود کر دیا ہے اور بالخصوص قومی سلامتی سے متعلق امور پر پاکستان عدالت کے اختیارِ سماعت کا منکر ہو سکتا ہے۔ اس انکار کے بعد عدالت پاکستان کو مقدمے میں مزید حصہ لینے پر مجبور نہیں کرسکے گی۔ اوپر امریکا کی مثال دی گئی جس نے مقدمے کے آغاز اور ابتدائی سماعت کے بعد اپنا اعلان واپس لیا تھا اور مقدمہ آگے نہیں چل سکا تھا۔ یہاں تو پاکستان نے بہت ہی ذہانت اور کمال کی سفارت کاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے عدالت کے ابتدائی حکم سے بھی ڈیڑھ مہینہ قبل اس اعلان کے ذریعے قومی سلامتی کے امور کو اس عدالت کے اختیارِ سماعت سے مستثنی کردیا ہے۔

4۔ پاکستان کی دوسری اہم دلیل 2008ء کا وہ باہمی سمجھوتا ہوگا جس کے ذریعے دونوں ممالک نے قومی سلامتی سے متعلق امور میں زیرِ حراست افراد تک قونصلر رسائی سے انکار کا حق ایک دوسرے کے لیے تسلیم کیا ہوا ہے۔ بھارت اس کے خلاف یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ سمجھوتا 1963ء کے ویانا معاہدے کے خلاف ہونے کی وجہ سے کالعدم ہے کیونکہ یہ معاہدہ نو سال سے مؤثر ہے اور دونوں ریاستوں نے باہمی رضامندی سے بغیر جبر و اکراہ کے اسے تسلیم کیا ہوا ہے۔ اس سے زیادہ اہم دلیل یہ ہے کہ ریاست کے اقتدارِ اعلی اور قومی سلامتی کے تحفظ کو بنیاد بنا کر قونصلر رسائی سے انکار کی روایت پاکستان، بھارت اور دنیا کی کئی ریاستوں نے مختلف مواقع پر اپنائی ہوئی ہے۔ یہ روایت 1963ء کے معاہدے سے پہلے سے جاری تھی اور اب تک چل رہی ہے۔ بہ الفاظِ دیگر اس استثنا کو بین الاقوامی تعامل نے تسلیم کیا ہوا ہے۔

5۔ اس سمجھوتے کے اثر سے بچنے کے لیے بھارت زیادہ سے زیادہ یہ دلیل دے سکتا ہے کہ چونکہ یہ معاہدہ اقوامِ متحدہ کے پاس رجسٹرڈ نہیں ہے، اس لیے اپنے منشور کی رو سے عدالت اسے مدِ نظر نہیں رکھ سکتی۔ یہ دلیل اہم ہے اور اس کے جواب میں پاکستان کو فوراً سے پیش تر اس سمجھوتے کو اقوامِ متحدہ کے پاس رجسٹرڈ کرنا چاہیے۔ اگر پاکستان نے ایسا کیا تو اس پر یہ اعتراض نہیں اٹھایا جاسکے گا کہ اس نے مقدمہ شروع ہونے کے بعد یہ سمجھوتا رجسٹرڈ کرایا ہے کیونکہ بین الاقوامی قانون میں اس کی اجازت موجود ہے اور عدالت نے پہلے بھی یہ بات تسلیم کی ہوئی ہے ۔

کلبھوشن کی اہمیت اور پاکستان کا بہترین اقدام
اب ذرا ایک نظر اس سوال پر بھی ڈالیے کہ کلبھوشن تک قونصلر رسائی بھارت کے لیے اتنی اہم کیوں ہوگئی ہے کہ وہ اس کے لیے بین الاقوامی عدالتِ انصاف تک بھی پہنچ گیا ہے اور پاکستان اس معاملے میں کیوں اس حد تک ڈٹ گیا ہے کہ اس نے قونصلر رسائی نہیں دی، یہاں تک کہ معاملہ عدالت تک جا پہنچا؟

1۔ اس سوال کا سیدھا سادہ جواب یہ ہے کہ پاکستان میں جاری فساد میں کلبھوشن کا بہت ہی اہم کردار رہا ہے۔ وہ محض ایک عام جاسوس نہیں تھا۔ اس نے جاسوسوں، ایجنٹوں اور دہشت گردوں کا پورا نیٹ ورک پھیلایا ہوا تھا۔ اس کے اعترافات دنیا کے سامنے لانے سے قبل پاکستانی ایجنسیوں نے اس سارے نیٹ ورک کی تمام تفصیلات ممکن حد تک حاصل کی ہوں گی اور اب اسی بنیاد پر جوابی کارروائی counter-intelligence بھی اور counter-terrorism بھی شروع ہوچکی ہوگی۔ یہ بہت بڑا کھیل ہے جس میں پاکستان کو بہت بڑا فائدہ حاصل ہوا ہے۔ اب اس شخص تک قونصلر رسائی دے کر پاکستان کسی صورت یہ فائدہ کھونا نہیں چاہتا کیونکہ اس صورت میں پورا امکان ہے کہ بھارت کو معلوم ہوجائے کہ کلبھوشن نے کہاں تک اور کیا کچھ بتایا ہے؟ اس لیے یہ معاملہ کلبھوشن کی جان بچانے کا نہیں بلکہ اس کے نیٹ ورک کو ممکن حد تک بچانے کا ہے۔

2۔ بھارت نے عدالت سے دیگر امور کے علاوہ کلبھوشن کی رہائی کے احکامات جاری کرنے کی بھی استدعا کی ہے۔ بین الاقوامی قانون کے مبتدی طالب علم بھی جانتے ہیں کہ عدالت کے پاس ایسا حکم جاری کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ یہ دراصل اس خاص قسم کی ذہنیت کی علامت ہے جس میں مبتلا لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ دوسروں کو ”موت کے لیے پکڑوگے تو وہ بخار پر راضی ہوجائیں گے“۔ بھارت کا خیال یہ ہے کہ یہ اور اسی نوعیت کے دیگر مطالبات کرکے وہ پاکستان پر دباؤ ڈال سکے گا اور پاکستان کم سے کم، یعنی قونصلر رسائی، پر راضی ہو ہی جائے گا۔

3۔ یہ ظاہر ہے کہ بھارت کی خام خیالی ہے۔ پاکستان نے اب تک اپنے کارڈ نہایت ہوشیاری سے کھیلے ہیں اور وہ اس دھوکے میں بالکل نہیں آیا، نہ ہی آئندہ اس کا کوئی امکان ہے۔ پاکستان کا اب تک کا سب بہترین کارڈ 29 مارچ 2017ء کا وہ ترمیمی اعلان ہے جس کے ذریعے اس نے 1960ء کے اعلان کو مقید اور محدود کر دیا ہے، اور اب پاکستان کے پاس یہ واضح اور صاف آپشن موجود ہے کہ وہ قومی سلامتی کے امور میں بین الاقوامی عدالتِ انصاف کے اختیارِ سماعت سے انکار کر دے۔ اس اقدام پر پاکستان کے تمام پالیسی ساز اور بالخصوص اقوامِ متحدہ میں پاکستان کی مندوب ڈداکٹر ملیحہ لودھی پوری قوم کے شکریے کی مستحق ہیں۔


بشکریہ: مصنف اور دلیل ڈاٹ پی کے