انڈین میڈیا اور پاکستان

لکھاری کا نام
علی اکبر ناطق

انڈین میڈیا اور پاکستان

(علی اکبرناطق)

کچھ دنوں سے میں برابر انڈین میڈیا کو فالو کر رہا تھا اور یہ اندازہ ہوا کہ انڈین میڈیا ہندوستانی عوام کو ہائپرکرنے میں اور پاکستان کے خلاف کرنے میں پاکستانی میڈیا کی نسبت کئی سو گنا زیادہ کام کرتا ہے اور ہندوستانی عوام کو بہت دھوکے میں رکھتا ہے۔
یعنی یہ کہ پاکستان ایک چھوٹا سا ملک ہے جس  کی فوج کمزور سی ہے، مسلسل جنگیں ہارتا ہے۔ وہاں غربت بہت ہے، معاشرتی اور سماجی حالت بہت خراب ہے۔ دہشت گردی میں روزانہ ہزار ہزار آدمی مرتا ہے۔ اُسے ایک پل میں مکھی کی طرح مسل کر رکھا جا سکتا ہے۔ اس تمام پروپیگنڈہ کی وجہ سے ہندوستانی عوام اپنی معاشی اور سماجی اور معاشرتی زندگی پر نظرثانی کر کے اُسے بہتر بنانے کی طرف متوجہ ہی نہیں ہو پا رہی۔ اور اُسی دھوکے میں  خوش ہے۔

اس پر مستزاد ہندوستان میں پاکستان کے خلاف بننے والی فلمیں ہیں جس میں اجے دیوگن، انیل کپور،اور اِسی طرح کے تیسرے درجے کے اداکار اپنی ریٹنگ بڑھانے کے لیے کام کرتے ہیں اورعوام اُنھیں دیکھ دیکھ کا اُن فلمی فاتحین کو اصل سمجھ لیتی ہے، اور مسلسل خواب میں رہتی ہے۔

میرا خیال یہ ہے  پاکستان کےعام آدمی کا طرزِ زندگی انڈیا کے عام آدمی کے طرزِ زندگی سے بہت بہتر ہے یعنی پاکستانی شہریوں کا لائف اسٹائل انڈین شہریوں کی نسبت زیادہ اطمنان بخش ہے۔ پاکستانیوں کا کھانا پینا، لباس، مکان اورٹرانسپورٹ انڈیا کی نسبت الیٹ ہے۔ جن دوستوں کا پاکستان میں چکر لگا ہے وہ اِس بات کی تصدیق کریں گے۔ ہندوستانی دانشوروں کو اِس پر غور کرنا چاہیے اور اپنی عوام کو احساس دلانا چاہیے کہ اُن کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔

اے میرے ہندوستانی دوستو

کچھ اور سنئے گا۔ ہمیں ہندوستان کے ایک بڑے پبلشرنے ہندوستان آمد کا دعوت نامہ بھیجا ہے جس نے ہماری کتاب چھاپی ہے اور مزید چھاپنے کا ارادہ رکھتا ہے ۔ ایسا نہ ہو کہ ہم تو وہاں افسانے اور شعر سنانے جائیں اور مودی گورنمنٹ ہمیں کلبھوشن کے اُدھار میں پھانسی دے دے ۔ نہ بابا نہ، ہم نہیں جاتے ۔ اتنے سستے نہیں کہ کلبھوشن کے بدلے میں لٹک جائیں ۔ مودی گورنمنٹ جائے گی تو دیکھیں گے۔

کلبھوشن کا معاملہ : کچھ آپس کی بات

آپ نے کہا، کلبھوشن جاسوس ہے اور دہشت گردی میں ملوث ہے، ہم نے مان لیا۔ آپ نے اُسے سزائے موت دے دی، ہم آپ کے ساتھ ہو گئے، آمنا صدقنا کہا۔ اب اگر آپ نے اُسے چھوڑا تو دو صورتیں ہیں: نمبر ایک، کہ وہ بے گناہ نکلے؛ نمبر دو، آپ انڈیا کے دباؤ میں آ کر ایک دہشت گرد جاسوس کو چھوڑ دیں جس کی گردن پر ہماری قوم کے بے گناہوں کا خون ہے۔ اگر وہ بے گناہ قرار دے کر چھوڑا گیا، تو آپ نے قوم کو دھوکے میں رکھا اور فراڈ کیا ۔ اگر دباؤ میں آ کر چھوڑا تو آپ بزدل ثابت ہوں گے اِس کے باوجود کہ قوم آپ کے ساتھ کھڑی ہے۔ چنانچہ دونوں صورتوں میں ہم آپ کو معاف نہیں کریں گے۔ تو اے مقتدر اب سوچ لو ابھی تک تو ہمیں آپ پر اعتماد ہے۔ اور کلبھوشن آپ کے پاس ہے۔