کیا مغربی ممالک میں زیادہ عصمت دری ہوتی ہے

کیا مغربی ممالک میں زیادہ عصمت دری ہوتی ہے

کیا مغربی ممالک میں زیادہ عصمت دری ہوتی ہے

از، عفاف اظہر

جنسی زیادتی پر لکھی گئی ہر تحریر پر ہمیشہ مخصوص ذہنیت اپنے ایک ہی  بوسیدہ ہتھیار کو کمال  ڈھٹائی سے استمعال کرتی نظر آتی ہے۔ جن کا وہی پرانا کم علمی و جہالت بھرا  راگ ہوتا ہے،  کہ دنیا بھر میں سب سے زیادہ ریپ تو یورپ  میں ہوتے ہیں۔ امریکہ میں ہوتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ حالانکہ یورپ اور امریکہ تو چاند اور مریخ سے بھی  ہو کر آئے۔ دھڑا دھڑ دنیا میں اپنی  ایجادات و تخلیقات کی بھرمار بھی لگا گئے۔ مگر  نہیں ہمارا ان سے موازنہ تو  صرف اور صرف  جنسی زیادتی  پر ہی آ کر ٹکتا ہے۔

جبکہ امریکہ ہو یا یورپ ان کے ہاں جنسی زیادتی کی  قانونی و اخلاقی تعریف… ہمارے ہاں صدیوں سے رائج العمل جنسی زیادتی کی ذہنیت سے قطعی میل نہیں کھاتی۔ مغرب میں عورت مخالف جنس ضرور ہے مگر سب سے بڑھ کر وہ ایک انسان ہے۔ جس کی مرضی کے  بناء اس کو ہاتھ لگانا۔ یا  اس کی مرضی کے بغیر جنسی طور پر اسے راغب کرنے کی تمام تر کاوشوں کا شمار جنسی زیادتی میں ہی ہوتا ہے۔ عورت بھلے سڑک پر آپ کو  نیم عریاں چلتی ہی کیوں نہ  نظر آئے۔ مگر ! … آپ کو یہ حق نہیں کہ اس کو ہاتھ بھی لگا جاؤ یاٹکٹکی باندھ کر دیکھ بھی سکو۔

ازدواجی تعلقات میں بھی بیوی  پہلے صرف ایک انسان ہی  ہے؛ اور اس کی مرضی اگر نہ شامل ہو تو  نکاح کے باوجود بھی شوہر فقط ایک  مجرم ہی ٹھہرتا ہے۔ کسی بھی طرح  کا ایکunwanted touch  یعنی نا چاہا لمس، قانونی طور پر ہرایسمینٹ کہلاتا  ہے۔ جس کی قانونی تعریف یہ ہے کہ کوئی بھی ایسا ہاتھ ایسا لمس جس کا احساس بچے یا عورت کو غیر مانوس سا لگے، وہ ان وانٹڈ ٹچ کہلاتا ہے۔ اب چاہے وہ ہاتھ باپ کا ہو بھائی کا، یا کسی بھی اور تعلق کا مگر وہ  قانونی طور پر ایک جرم  اور قابل سزا عمل ہےاور اب  آخری  اہم پہلو یہ ہے۔ مغرب میں پر چھوٹی و معمولی غیر اخلاقی و غیر قانونی حرکت  کا نوٹس لینا اور  پھر اس کو رپورٹ کرنا ہر شہری کا اخلاقی فریضہ ہے۔ کیوںکہ یہ قومیں اپنے مستقبل سے سنجیدہ اور معاشرے سے  مخلص ہیں۔

اور مشرق میں عورت ہمیشہ سے آج تک صرف اور  صرف ایک  جنسی کھلونا ہے اور اس سے بڑھ کر کچھ نہیں۔ نکاح ہو تو بیوی شوہرکی جنسی ملکیت؛ اب  شوہر چاہے مارے پیٹے جنسی طور پر زد و کوب کرے کوئی قانون یا اخلاقی قدغن نہیں؛ جو  اس کو ایسا کرنے سے  روک بھی سکےکہ بلوغت کی طرف قدم بڑھاتی کمسن لڑکیوں کے جسموں سے  قریبی رشتہ داروں کی جنسی بھوک کیسے کیسے کب اور کہاں نہیں  مٹائی جاتی ہاں مگر  خود ساختہ اس عزت کے قفل  اور بدنامی کا خوف لبوں پر اف تک نہیں آنے  دیتے۔

جہاں جس معاشرے میں ریپ ہوئی عورت سے قانون چار گواہ مانگتا ہو اور اگر نہ مہیا کر سکے تو زناء بالجبر، زناء بالرضا کا روپ دھار کر مظلوم کے گلے کا پھندا بن جائے، وہاں جرم ہو بھی تو رپورٹ کون کرے  گا؟ ہاری و مزارعوں  کی ننھی کونپلیں، گھر کے نوکروں کی چار پانچ برس کی معصوم  کلیوں کو روند کر مٹی میں زندہ دفن کر دیا جاتا ہے۔ اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔ بھرے چوراہے  پر با پردہ خواتین کو جرگہ کے احکام پر جنسی زیادتی کا نشانہ بنا کر بھی قانونی تقاضے ہمیشہ چار گواہوں سے محروم ہی رہتے ہیں۔

کیوں کہ یہ   ہمارے ہاں  عورت جس کا نام ہے وہ مرد کی عزت ہے، غیرت ہے مگر اس کی اپنی نہ تو کوئی عزت ہے نہ ہی غیرت کیوں کہ وہ  انسان
جو نہیں۔ وہ تو صرف ایک پاؤں کی جوتی ہے جو جب  بیٹی ہو تو باپ اور بھائی اسے  عزت کے نام پر پہن کر  خوب گھسیٹتے ہیں۔ بیوی  بنے تو پھر شوہر پہن لیتا ہے اور  اپنی غیرت سے جوڑ  کر خوب گھسیٹنے لگتا  ہے، اور  پھر ماں بنے تو باری بیٹے کی آتی ہے  جو  پہن لیتا ہے، اور پھر جتنا ہو سکے وہ بھی  روند لیتا ہے۔

مغرب کی جنسی زیادتیوں کی رپورٹس کا مشرق سے موازنہ کرنے والو !سچ تو یہ ہے مغربی معاشروں میں قانونی و اخلاقی سطحوں پر رائج العمل جنسی زیادتی کی تعریف اگر اسی طرح  ہو بہو مشرق میں بھی  رائج کر دی جائے تو حتمی طور پر کہتی ہوں کہ جنسی زیادتیوں کے مجرم  کہیں  باہر سے تو  بہت کم ہاں مگر ہمارے گھروں کے اندر سے ہی کھیپ در  کھیپ  ضرور  نکلیں گے؛ اور پھر آپ کو اپنا موازنہ ڈھونڈھے کے لئے مغرب تو بہت دور کی بات ہے ہاں شاید  بندر اور سؤر بھی اس ضمن میں آپ سے  معذرت کرتے  ہوئے آگے ہاتھ جوڑتے ہوئے ہی نظر آئیں گے۔