گورنمنٹ بک گئی ہے ؟ پڑھے لکھے جاہل

ایک روزن لکھاری
آصف ملک، صاحب مضمون

گورنمنٹ بک گئی ہے ؟ پڑھے لکھے جاہل

(آصف ملک)

اس ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ’’پڑھے لکھے جاہل‘‘ ہیں۔۔۔ اس کی تارہ ترین مثال پیش خدمت ہے۔

گزشتہ روز سے پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا ٹیم کی جانب سے پراپیگنڈا مہم کا آغاز کر دیا ہے، اور گزشتہ روز ایک ٹی وی چینل پر بیٹھ کر تحریک انصاف کے رہنما شفقت محمود نے بار ہا یہ جملے دہرائے کہ ’’حکومت پاکستان نے 29 مارچ کو انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس کا اختیار سماعت مان کر پاکستان کا مقدمہ کمزور کر دیا ہے اور یہ سب کسی ڈیل کا حصہ ہے‘‘۔
اس دستاویز یا معاہدے پر بات کرنے سے قبل یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ پاکستان 30 ستمبر 1947 سے اقوام متحدہ کا ممبر ہے اور انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس، اقوام متحدہ کا ذیلی ادارہ ہے، تو پاکستان اس کا ممبر ملک اسی وقت بن گیا جب اقوام متحدہ کا ممبر بنا۔ یاد رہے کہ پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ محمد ظفر اللہ خان اسی عدالت کے صدر بھی رہ چکے ہیں، تو اختیار سماعت اگر نہیں مانا تھا تو پھر ظفر اللہ خان کیسے اس کے صدر بن گئے۔ پاکستان نے پہلی بار باقاعدہ اختیار سماعت 1960 میں اس وقت مانا جب سندھ طاس معاہدہ ہوا تھا، اور اب تک جتنے بھی معاملات پاکستان اور بھارت دونوں ملکوں کے درمیان رہے ہیں انہیں اسی عدالت میں لایا گیا جیسے 1965 کی جنگ میں فضائی حدود کا استعمال، 1971 میں جنگی قیدیوں کا معاملہ، 1999 میں پاکستانی فضائی حدود کی خلاف ورزی اور پاکستان نیوی کے طیارے کو گرانے جیسے معاملات۔
انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس کی ضرورت کیوں پیش آئی اس کے لئے ہمیں ماضی میں جانا پڑے گا، دوسری جنگ عظیم کے اختتام پر جرمن نازیوں کے خلاف جو مقدمات سنے گئے اور جن میں نورنبرگ ٹرائل Nuremberg trails سب سے زیادہ مشہور ہوئے تھے، یہ ادارہ یعنی انٹرنیشل کورٹ آف جسٹس بنیادی طور پر اسی انٹرنیشنل ملٹری ٹربیونل کے بطن سے ظہور پزیر ہوا ہے جس نے وہ مقدمات سنے تھے۔ اب اگر پاکستان اقوام متحدہ کا ممبر رہنا چاہتا ہےاور مستقبل میں اگر ایسے حالات پیدا ہوتے ہیں جن میں اس عدالت میں معالات لے جانے پڑیں تو اختیار سماعت کو قبول کرنا پڑے گا۔ اگر پاکستان اختیار سماعت کو تسلیم نہیں کرنا تو سندھ طاس معاہدہ، سرحدی معاملات، بھارت کی جانب سے فضائی حدود کی خلاف ورزی یا پھر کسی پاکستانی معصوم شہری کی سزائے موت کا معاملہ جو غلطی سے سرحد پار کر جائے تو پاکستان نہ ہی انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس میں لے جا سکے گا اور نہ ہی پاکستان اقوام متحدہ کی امن فوج کا حصہ رہے گا۔
اب بات کرتے ہیں اس شخصیت کی جس نے پاکستان کی جانب سے اس ڈاکومنٹ پر دستخط کئے، وہ شخصیت ہیں ملیحہ لودھی۔ اگر اس ڈاکومنٹ کا بغور مطالعہ کیا جائے تو یہ چیز واضع ہو گی کہ ملیحہ لودھی جیسی جہان دیدا سفارت کار بغیر سوچے سمجھے کسی ایسے معاہدے پر دستخط کر دے گی جو پاکستان کے مفاد کے خلاف ہو گا۔ یاد رہے کہ ملیحہ لودھی کا شمار پاکستان کی سینئر ترین سفارت کاروں میں ہوتا ہے وہ ایک بار برطانیہ میں پاکستانی ہائی کمشنر، دو بار امریکہ میں پاکستانی سفیر رہ چکی ہیں۔ ان کو ملکی خدمات کے نتیجے میں ہلال امتیاز سے بھی نوازا گیا۔ یہ افواج پاکستان کے قریب سمجھی جاتی ہیں اور اس حوالے سے ماضی کی مثالیں اہم ہیں جیسے 12 ستمبر 2001 کی وہ میٹنگ جو لفٹیننٹ جنرل محمود احمد اور امریکی ڈپٹی سیکریٹری آف سٹیٹ رچرڈ آرمٹیج کے درمیان ہوئی تھی اور اس میٹنگ کو نے آگے چل کر امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے کردار کو وضع کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس کے علاوہ امریکی انتظامیہ اور جنرل کیانی کے درمیان رابطہ کار کے طور پر ملیحہ لودھی کی اہمیت اور قربت کے لئے کافی ہے۔
29 مارچ 2017 کا یہ ڈکلیریشن جس پر قوم کو تقسیم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے یہ تمام تر بغیر پڑھے کی جا رہی ہے۔ اگر اس ڈکلیریشن کو پڑھ لیا جاتا تو مسئلہ حل کرنے میں اور سمجھنے میں آسانی ہوتی۔ سب سے زیادہ تنقید تحریک انصاف کی طرف سے کی جا رہی ہے اور شفقت محمود اور ہمارے کچھ صحافی بھائی بھی عوام کو اکسانے میں پیش پیش ہیں۔ مگر ہمارے ہاں مسئلہ نہ پڑھنے کا ہے جیسے میں نے ابتدائیے میں کہا، میں اپنے قارئین کو اپنی سی کوشش کروں گا سمجھانے کی کہ اس میں ہے کیا۔
اس معاہدے میں کہا گیا ہے کہ پاکستان اس معاہدے کی رو سے کسی بھی ایسے معاملات میں عدالت کا اختیار سماعت ماننے کا پابند نہیں:
جس میں دونوں ملکوں کے درمیان کوئی معاہدے ہوں گے یا ہونے والے ہوں گے (یاد رہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان 2008 میں نیشنل سیکورٹی کا ایک معاہدہ ہوا تھا، جس میں کونسلر رسائی نہیں دی جائے گی، یہاں یہ بھی اہم ہے کہ گزشتہ روز کے فیصلے میں بھی عدالت نے یہ حکم نہیں دیا کہ پاکستان رسائی دے، رسائی دینا یا نہ دینے کے معاملے پر ابھی فیصلہ کرنا باقی ہے)
ایسے کسی بھی معاملے پر بات نہیں ہو گی جو پاکستان کی نیشنل سیکورٹی کا ہو گا۔ (یہ ایک حقیقت ہے اور پاکستانی ریاست بار بار کہہ چکی ہے کہ کلبھوشن کا معاملہ پاکستان کی قومی سلامتی کا معاملہ ہے جس پر کوئی سودے بازی نہیں ہو گی اور کلبھوشن پاکستان مخالف کاروائی بلوچستان میں کرتے ہوئے پکڑا گیا اور جس کا اقرار خود اس نے کیا)
ایسے تنازعات جو پاکستان کا داخلی معاملہ ہو گا اس پر عدالت کا اختیار سماعت نہیں۔
اب ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جوگادری سیاستدان و دفاعی تجزیہ کار اور ’’بین الاقوامی قانون کے ماہر‘‘ صحافی حکومت کے ساتھ کھڑے ہوتے انہوں نے اپنی ہی حکومت پر ایسے تابڑ توڑ حملے شروع کر دیئے کہ سر شرم سے جھک گئے کہ شائد واقعی وزیراعظم پاکستان اور ریاست پاکستان سے کوئی غلطی سرزد ہوئی۔ ایک دفاعی تجزیہ کار یہاں تک کہہ گئے کہ ’’شاید میرے سر پر میری حکومت کا سایہ نہیں ہے یا ہماری حکومت ایسے لوگوں کے ہاتھ میں جو پاکستان کے مفادات کی نگہداشت کرنے کے قابل نہیں ہیں‘‘۔ ایسے بیانات پر کسی اور کا فائدہ ہو یا نہ ہو بھارتی میڈیا کا ضرور ہوا ہے جو انہی بیانات کے کلپس بار بار اپنی سکرینوں پر چلاتے ہیں اور پاکستانی مہمانوں سے کہتے ہیں کیا آپ کے اپنے دفاعی تجزیہ کار درست کہہ رہے ہیں کہ ’’حکومت بک گئی ہے‘‘۔


آصف ملک، ریسرچر صحافی ہیں، ان دنوں ڈان نیوز کے ایک پروگرام کے ریسرچر اور ایسوسی ایٹ پروڈیوسر ہیں۔