کیا سچائی باہر، الگ تھلگ وجود رکھتی ہے؟

ناصر عباس نیر

یہاں ہم چند باتیں، اینڈرسن کے ساختیات پر اعتراضات کے سلسلے میں کہنا چاہتے ہیں،ا س لیے کہ یہ کم وبیش وہی اعتراضات ہیں جنھیں اردو کے ترقی پسند نقاد بھی اکثر دہراتے ہیں۔ ان میں ایک اعتراض یہ ہے کہ تھیوری سچائی کی تخفیف کرتی ہے۔یہ اعتراض ان ترقی پسندوں کی زبان سے زیادہ سننے کو ملتا ہے جو کلاسیکی مارکسیت کے ذریعے دنیا اور ادب کو سمجھنے میں یقین رکھتے ہیں۔ سچائی کیا ہے؟ مابعد جدیدیت اس سوال کے جواب کی تلاش میں ایک حد تک وہی طریقہ اختیار کرتی ہے ،جو نومارکسیت کا طریقہ ہے۔ کلاسیکی مارکسیت سچائی کو اس سماجی شعور کی پیداوار سمجھتی ہے ،جو معاشی ،مادی رشتوں سے وجود میں آتاہے.کلاسیکی مارکسیت ،مادی ، معاشی ، طبقاتی حالت اور شعور میں کوئی فاصلہ نہیں دیکھتی، جب کہ نو مارکسیت مادی معاشی رشتوں اور ذہن میں تشکیل پانے والی سچائی کے درمیان ایک وقفے یا خالی جگہ کو دیکھتی ہے۔اس خالی جگہ کی مختلف تعبیریں کی گئی ہیں،کچھ عام فلسفیانہ انداز میں ،اورکچھ مارکسی فلسفے کی رو سے ۔(یوں بھی خالی جگہ اپنے ناظر کے تخیل اور تعقل دونوں کو مہمیز کرتی ہے،اور تعبیر پر اکساتی ہے)۔نو مارکسی فرانسییی مفکر التھیوسے(۱۹۱۸۔۱۹۹۰) اس خالی جگہ کو آئیڈیالوجی کا مقام کہتے ہیں۔یعنی حقیقی مادی حالات اور سماجی شعور کے درمیان آئیڈیالوجی موجود ہوتی ہے ۔حالات ،از خود انسانی شعور کی تشکیل نہیں کرتے ؛ساختیات کے نزدیک دونوں کے بیچ زبان،اور اس میں لکھا گیا تصورِ کائنات ہے ،اور پس ساختیات کے مطابق دونوں کے درمیان وہ سب بیانیے ، کلامیے ہیں جنھیں مقتدرہ رائج کرتی ہے ،اور نصابات سے لے کر میڈیا کے ذریعے جنھیں عام کرتی ہے ،جب کہ نومارکسیت کی رو سے آئیڈیالوجی ہے۔(گویا دونوں اس نکتے پر متفق ہیں کہ مادی حالت اور شعور کے بیچ ایک ’مقام‘ ہے، فرق اس ’مقام ‘ کی تعبیر کا ہے)۔ التھیوسے آئیڈیالوجی کو دوہرے کردار کا حامل سمجھتے ہیں:حقیقی اور باطل۔ایک طرف آئیڈیالوجی لوگوں کی زندگی کے حقیقی حالات کی تشکیل کرتی ہے،اس لیے یہ حقیقی ہے،دوسری طرف یہ معانی کے ایک ایسے نظام سے عبارت ہوتی ہے ،جس سے لوگ زندگی کا فہم حاصل کرتے ہیں،ایک ایسے طریقے سے جو طاقت اور طبقاتی رشتوں کی غلط نمائندگی کرتا ہے۔اس بنا پر آئیڈیالوجی باطل ہوتی ہے۔ یہاں التھیوسے کا اشارہ خاندان، تعلیمی نظام ،مذہبی اداروں اور میڈیا کی طرف ہے ،جنھیں وہ آئیڈیالوجیکل سٹیٹ اپریٹس کہتا ہے۔ان کے ذریعے اکثر ایسے خیالات لوگوں کے ذہن کا حصہ بنائے جاتے ہیں جو حقیقی حالات یا مارکسی اصطلاح میں طبقاتی رشتوں کا غلط فہم پیش کرتے ہیں۔مثلاً جب ریاست کی طرف سے ’تعلیم سب کے لیے‘ کا نعرہ وضع کیا جاتا ہے ،اور اسے ابلاغِ عامہ کے ذریعے فروغ دیا جاتا ہے تو یہ نعرہ حقیقت میں آئیڈیالوجی ہوتا ہے ،جو انگریزی ، اردو اور مدرسہ تعلیم پر مشتمل سہ جہتی نظامِ تعلیم اور اس سے مستفید ہونے والے اعلیٰ ،متوسط اور نچلے طبقے کے تضادات کی حقیقت کا باطل فہم پیش کرتا ہے۔ صاف لفظوں میں سچائی، مادی معاشی حالت کا ہوبہو عکس نہیں ،بلکہ اس پر آئیڈیالوجی کا رنگ روغن چڑھا ہوتاہے۔اب سوال یہ ہے کہ کیا کوئی آئیڈیالوجی بغیر زبا ن کے موجو دہوسکتی ہے؟ اگر نہیں،اور یقیناًنہیں تو زبان مسلسل بدلتی ہوئی تاریخی صورتِ حال کا مظہر بھی ہے،اور اس کی نقش گر بھی۔ چناں چہ زبان میں وہ سب بیانیے لکھے ہوتے ہیں جو ایک زمانے میں رائج ہوتے ہیں(جو بہ قول التھیوسے آئیڈیالوجیکل سٹیٹ اپریٹس کے ذریعے ظاہر ہوتے ہیں)۔ دوسرے لفظوں میں زبان معصوم نہیں، جب آئیڈیالوجی زبان میں ظاہر ہوتی ہے تو معاصر تاریخی صورتِ حال سے بھی متاثر ہوتی ہے۔لہٰذا جسے ہم سچائی کہتے ہیں،اس پر آئیڈیالوجی، بیانیوں کا اثر ہوتا ہے۔چوں کہ بیانیوں اور آئیڈیالوجی کا اثر ہوتا ہے ، اس لیے سچائی کی سفید چادر پر کئی داغ دھبے ہوتے ہیں؛ تقلیدی ذہن سچائی کو ان داغ دھبوں سمیت قبول کرتا ہے ،جب کہ سماجی تجزیوں اور ادبی مطالعات میں دکھایا جاتا ہے کہ جسے سچ کہا جاتا ہے ،وہ کن عناصر سے مل کربنتا ہے ۔ کہنے کا مقصود یہ ہے کہ سچائی کسی آزاد ، خود مختار منطقے میں نہ تو پید اہوتی ہے ، نہ وجو درکھتی ہے، نہ سماجی دنیا سے ’باہر‘ اور بلند منطقے سے وارد ہوتی ہے ؛یہ متنوع سماجی ،لسانی عناصر کے قابل تجزیہ تال میل سے تشکیل پاتی ہے۔اس طور دیکھیں تو سچائی کی تخفیف نہیں کی جاتی۔ سچائی کی تخفیف تو اس وقت ہوگی ،جب اس کی ’اصل‘ یعنی Originسے انکار کیا جائے گا،اور اسے خود اپنے آپ پر،یا اس زبان پر کاملاً منحصر سمجھا جائے گا،جس میں یہ ظاہر ہوتی ہے۔ تاہم واضح رہے کہ سچائی کاOriginنہ توایک ہے ،نہ ٹھوس اور جامد ہے ۔ادبیات کی تاریخ بتاتی ہے کہ فنتاسی بھی سچائی کی ’اصل‘ ہوسکتی ہے،جس کی مثال ہمارے یہاں غالب کی شاعری ہے ،یا ہماری داستانیں ہیں۔غالب کی فنتاسی ،جو زبان کی رعایتوں کے مخصوص استعمال سے پیدا ہوتی ہے،معنی سازی یعنی سچائی کا منبع ہے۔یہی صورت داستانوں کی بھی ہے ،جن کی علامتیں غیر معمولی معانی رکھتی ہیں۔تاہم واضح رہے کہ فنتاسی بھی سماجی دنیا سے ’باہر‘ اور بلند نہیں،کیوں کہ یہ جن معانی کی آفرینش کرتی ہے ، انھیں سماجی دنیا ہی میں خود کو بہ طور معنی قائم کرنا ہوتا ہے۔اس اعتبارسے دیکھیں تو سچائی کی تخفیف ،تھیوری نہیں کرتی ،بلکہ سچائی کو محض معاشی مادی سمجھنے سے ،اس کی تخفیف ہوتی ہے۔
اینڈرسن اور دوسرے کلاسیکی ترقی پسند سچائی کی تخفیف سے یہ مرا دلیتے ہیں کہ سچائی ،مادی حقیقت سے کٹ کر محض ایک لسانی مباحثہ بن جاتی ہے ۔حقیقت صرف اتنی ہے کہ ساختیات اور نو مارکسیت دونوں سچائی کو مادی حقیقت کا ہو بہو عکس نہیں سمجھتیں۔ ساختیات ،سچائی کو زبان کے اندر تشکیل پاتا ہوا دیکھتی ہے ،اور نو مارکسیت ،آئیڈیالوجی (جو زبان ہی میں لکھی ہوتی ہے)کے اندر۔ یہیں دونوں میں فرق بھی پیدا ہوتا ہے۔ ساختیات ،سچائی (اور معنی) کو نشانات کے فرق کی پیداوار سمجھتی ہے ،جب کہ نو مارکسیت سچائی کو اس آئیڈیالوجی کی پیداورا قرار دیتی ہے، جسے آئیڈیالوجیائی ریاستی ادارے پھیلاتے ہیں۔
سچائی ،میثل فوکو (۱۹۲۶۔۱۹۸۴)کی فکر کا بھی اہم مسئلہ ہے ۔ہر چند فوکو اپنے لیے کوئی سابقہ پسند نہیں کرتے تھے،مگر ان کے نظریات پس ساختیات اور مابعد جدیدیت کو بنیاد فراہم کرتے ہیں۔ فوکو کے نظریات میں مابعد جدیدیت اور نو مارکسیت ایک دوسرے کے متوازی ،اور بعض اہم باتوں میں ایک دوسرے کا تکملہ محسوس ہوتی ہیں۔ مثلاً سچائی ہی کا مسئلہ لیجیے۔فوکو کے مطابق ،سچائی کہیں باہر ،ایک الگ تھلگ ،خود مختاردنیا میں وجود نہیں رکھتی ،بلکہ کلامیے (ڈسکورس) کے اندر وجود رکھتی ہے ،اور کلامیہ ہی اسے تشکیل دیتا ہے ۔فوکو کی نظر میں کلامیہ طاقت کی آرزو رکھتا ہے۔چوں کہ سچائی کو کلامیہ تشکیل دیتا ہے، اس لیے سچائی طاقت کے کھیل کا حصہ بن کر ظاہر ہوتی ہے۔
فوکو کے مطابق طاقت ہرجگہ ہے:ہر سماجی عمل میں، ہر ادارے کے پس پشت اور زبان کی تہ میں۔یہاں تک کہ وہ اے پس ٹیم یعنی ایک زمانے کے تمام علوم کی روح کے پیچھے بھی طاقت کارفرما دیکھتے ہیں۔ فوکو، طاقت سے متعلق اپنے خیالات پیش کرتے ہوئے، بہ قول راجر سکرٹن، کمیونسٹ مینی فیسٹو میں پیش کی جانے والی جدید تاریخ سے متعلق رہتا ہے۔اس کا مطلب یہ نہیں کہ فوکو ،مارکس کے خیالات کی تفسیر کرتا جاتا ہے ، اصل یہ ہے کہ وہ سماج ،سماجی ادراوں اور افراد کی تخلیقات کی توجیہ کے لیے مارکسی طریقِ کار سے انسپیریشن لیتا ہے۔(یوں بھی مابعد جدیدیت اور نو مارکسیت میں ’تخلیقی تناؤ‘ کا رشتہ ہے،جس کی وضاحت ہم آخر میں کریں گے)۔ مثلاً مینی فیسٹو میں سرمائے سے متعلق لکھا گیا ہے کہ ’’ سرمایہ شخصی نہیں، سماجی طاقت ہے‘‘۔فوکو طاقت کے اس تصور کووسیع کرتے ہیں ؛اس بنا پر انھیں ہر جگہ طاقت عمل آرا دکھائی دیتی ہے۔ تسلیم کرنا ہوگا کہ طاقت کا یہ تصور ،سماج کی استبدادی ،سیاہ اور یاس انگیز تصویر پیش کرتا ہے۔ اسی لیے ایڈورڈ سعید (جو فوکو سے اثرپذیری کا کھلے دل سے اعتراف کرتے ہیں)کہتے ہیں کہ ’’لگتا ہے کہ فوکو نے اس فرق کو دھندلا دیا ہے جو اداروں کی افراد کو اطاعت پذیر بنانے کی طاقت ،اور افراد کے اس سماجی عمل میں ہے جس کے مطابق وہ سماجی قوانین اور رسمیات کی پابندی کرتے ہیں‘‘۔ایڈورڈ سعید اپنی بات کی وضاحت میں کہتے ہیں کہ اگر آپ طاقت سے متعلق سوچیں توآپ کا سامنا ان چار صورتوں سے ہوگا:۱۔تصور کریں کہ آپ کیا کچھ کرتے اگر آپ کے پاس طاقت ہوتی؟ب۔قیاس کریں کہ اگر آپ کے پاس طاقت ہو تو آپ کیا کیا تصور کرتے؟ج ۔آپ اندازہ لگائیں کہ طاقت کے موجودہ نظام کوختم کرنے کے لیے،آپ کو کون سی طاقت درکار ہے، تاکہ آپ طاقت کا نیا نظام متعارف کروا سکیں؟د۔ آپ ان سب چیزوں کو فرض کریں جنھیں آپ طاقت کے موجودہ نظام کے اندر رہتے ہوئے کرنا چاہیں گے؟ ۔ سعیدکی رائے ہے کہ فوکو طاقت کی پہلی دو صورتوں کا تصور کرتے ہیں، مگر آخری دو کا نہیں۔ آخری دو صورتوں کا تعلق مزاحمت سے ہے۔ سعید اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ فوکوطاقت کی چیرہ دستیوں اور مظالم کی وضاحت تک محدود رہتے ہیں۔ مارکسی اصطلاح میں فوکو بورژوازی طاقت کی صورت اور حکمت عملی کا پردہ چاک کرتے ہیں، مگر پرولتاری طبقہ طاقت کی کن صورتوں کوکام میں لاسکتا ہے ،یعنی متبادلات تلاش کرسکتا ہے، اس طرف فوکو کی توجہ نہیں ہے۔گویا ہم کہ سکتے ہیں کہ فوکو طاقت کے مارکسی تصورکو وسیع کرتے ہیں،یعنی طاقت کو محض معاشی اور سماجی نہیں سمجھتے ،بلکہ علمی، علمیاتی ،لسانی ،ادارہ جاتی بھی سمجھتے ہیں،مگر وہ طاقت کے تصور کو اس کی ممکنہ نظری حدود تک کھینچ کے نہیں لے جاتے۔ اگر طاقت علمی اور علمیاتی ہے ،یعنی ذہنی ہے تو اس کی کوئی حد نہیں ہے؛چوں کہ کوئی حد نہیں ہے، اس لیے اس پر کسی ایک طبقے یا فرد یا ادارے کا مطلق اجارہ نہیں ہوسکتا۔اس تصور کی رو سے طاقت مسلسل حرکت کی حالت میں رہتی ہے ،اپنے مقام بدلتی رہتی ہے،اپنی صورتیں تبدیل کرتی رہتی ہے،اور تبدیلی کے اس عمل میں طاقت ان مقاصد کو تہ وبالا کرسکتی ہے ،جس کی خاطر اسے وضع کیا گیا ہوتا ہے ،یا اس پر اجارہ حاصل کرنے کی کوشش کی گئی ہوتی ہے۔ اس کی مثال میں نو آبادیاتی تاریخ کے کئی واقعات پیش کیے جاسکتے ہیں ،جہاں استعمار کار کے علوم،اور اداروں کی طاقت کو خود استعمار کار کے خلاف استعمال کیا گیا؛یعنی غلام سازی کے ہتھیار کو غلامی سے نجات کا وسیلہ بنالیا گیا۔لیکن ہمیں ماننا ہوگا کہ ایسا اسی وقت ہوتا ہے جب طاقت کو ’شے ‘کے طور پر نہ لیا جائے، اس کی اساسی تخلیقی جہت کو گرفت میں لیا جائے۔ یوں بھی اگر کوئی مقتدر طبقہ، یا استعمار کار طاقت کو شے کے طور پر رائج کرنے میں کامیاب ہوجائے اس سے محض استبداد اور جبر پید اہوتا ہے؛تب طاقت سے نجات کا عمل بھی استبدای رخ اختیار کرتا ہے۔طاقت کے خلاف حقیقی مزاحمت، اس کی اصلی اساس یعنی اس کی تخلیقی جہت پردسترس ہے،یعنی اس سرچشمے پر دسترس ،جہاں سچائیاں وضع ہوتی ہیں۔اس کے بعد ہی وہ متبادل بیانیے تخلیق ہوسکتے ہیں ،جو ان ’سچائیوں ‘کا جواب ہوسکتے ہیں،جنھیں مقتدر طبقوں کا ڈسکورس تشکیل دیتا ہے۔

About ناصر عباس نیرّ 36 Articles
ڈاکٹر ناصرعباس نیر اردو زبان کے تنقیدی ادب کا ایک با اعتبار حوالہ ہیں۔ اس سلسلے میں کئی مستند کتابوں کے مصنف ہیں: ان میں ● جدید اور مابعد جدید تنقید ● لسانیات اور تنقید ● متن ،سیاق اور تناظر ● مجید امجد: حیات، شعریات اور جمالیات ● ثقافتی شناخت اور استعماری اجارہ داری ● مابعد نو آبادیات اردو کے تناظر میں ● اردو ادب کی تشکیل جدید شامل ہیں۔ ان کی زرخیز ذہنی صلاحیتوں کے با وصف ہم یقین رکھ سکتے ہیں ک کتابوں کی یہ فہرست بڑھتی ہی جائے گی۔ حال ہی میں فکشن میں بھی اپنا ایک توانا حوالہ اپنی افسانوں کی کتاب ●خاک کی مہک کی صورت مہا کر چکے ہیں۔ جبکہ ● چراغ آفریدم انشائیہ کی طرف ان کی دین ہے۔ ● اردو تنقید پر مغربی اثرات کے عنوان سے ڈاکٹریٹ کا مقالہ تحریر کیا۔ اس کے علاوہ ہائیڈل برگ سے پوسٹ ڈاکٹریٹ کے حامل ہیں۔ ite here abotu Nasir abbas

2 Comments

  1. I believe that this postmodern rejection of absolute truth has many social implications. Its ‘paralogical’ nature challenges the hegemony of the ‘particular’ over ‘universal’. It teaches us that the TRUTH does not exist but we can ‘co-exist’ with our individual ‘truths’. Never read an article like that in Urdu. Its brilliant.

Comments are closed.