نثر میں شاعری:’’ نثم‘‘

Author: Muhammad Hameed Shahid

(محمد حمید شاہد)

ادبی حلقوں میں پھر سے نثر میں شاعری کے لیے مناسب نام کا مسئلہ موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ اسے’’ نثری نظم‘‘ کہا جائے، یا پھر جس طرح آزاد نظم کو اب محض نظم کہا جانے لگا ہے، اس کا بھی سابقہ اُڑا لیا جائے؟ بحث چل رہی تھی کہ ایک صاحب نے کہا ؛ مانیں نہ مانیں،نثرمیں شاعری کے لیے سب سے مناسب نام ہے ’’نثم‘‘۔ یہیں غزل کے ایک بے مثال شاعرریاض مجید کا ذکر ہوا اور اس خاکسار کا بھی ۔ ریاض مجید کا حوالہ یوں بنیادی ہے کہ اس خوب صورت شاعر ہی نے’’ نثر+نظم ‘‘ سے یہ نام اخذ کے تجویز کیا تھا ، اس نے خود نثمیں لکھیں اور اپنا ایک مجموعہ نثم کے نام سے مرتب کرکے اس کا دیباچہ لکھنے مجھے بھیج دیا تھا۔ میرے نام کے ساتھ نثم کے حوالے سے میری کئی تنقیدی تحریروں کا ذکر ہو رہا ہے اور ان نثموں کا بھی جو میں نے ایک زمانے میں لکھی تھیں اور جوازاں بعد ’’لمحوں کا لمس ‘‘ کے نام سے کتابی صورت میں بھی شائع ہوئیں ۔ یہ وہی نثمیں ہیں جو علامہ بشیر حسین ناظم اور پروفیسر شوکت واسطی جیسے سینئر شعرا نے انگریزی میں ترجمہ کردی تھیں اور The Touch of Moments کے نام سے چھپی تھیں۔ ایسے میں میرے اس مضمون کاحوالہ بھی آیا جو جنگ راولپنڈی کی سولہ مارچ ۲۰۰۱ء کی ادبی اشاعت میں چھپا تھا ۔ اس مضمون کے ساتھ میں نے ’’نثم کی ایک لغت ‘‘ بھی مرتب کی تھی ۔ جنگ نے اسے مضمون کے ساتھ ایک باکس میں بہت نمایاں کرکے چھاپا اور ادبی حلقوں میں موضوع بنا دیا تھا ۔ انہی دنوں مجھے ڈاکٹر ریاض مجید نے مبارک باد دی تھی کہ فارسی کی معروف لغت میں اسے ایک جدید اندراج کے طور پر قبول کر لیا گیا تھا ۔ ریاض مجید نے لغت کا متعلقہ صفحہ فوٹو اسٹیٹ کیا اور مجھے بھیج دیا ۔میں اسے کہیں رکھ کر بھول گیا ۔ تاہم یہ جو اس صنف کے حوالے سے نیا ہنگامہ برپا دیکھا تو میں نے انٹر نیٹ پر جاکر’’ نثم‘‘ کا لفظ لکھا ، ایک فارسی لغت کا صفحہ میرے سامنے تھا جس کا اندراج یوں ہے:Untitled

نثم۔[ نَ] ((اِ) در تداول اخیر، کلامی را گویند کہ نہ بہ نظم شباھت داشتہ باشد و نہ بہ نثر، و متتبعان اشعار عروضی آثار گویندگان 187شعر سفید171 را نثم نامند۔۔۔
یہ اندراج ایسا ہے کہ کم از کم اب ان لوگوں کو اپنے سوال کا جواب مل ہی گیا ہو گا جو ایک اعتراض کی صورت میں پوچھتے آرہے تھے کہ کس زبان کا لفظ ہے ؟، یہ کوئی لفظ ہے بھی یا نہیں ؟۔۔۔ خیر’’نثم ‘‘ نام کی قبولیت کا ذکر ہوا تو جی چاہتا ہے ، اس مضمون کے مندرجات سے بھی کچھ نقل کرتا چلوں ، جو جنگ کی وساطت سے ادبی حلقوں میں توجہ حاصل کر گیا تھا ۔ مجھے یاد آتا ہے ،میں نے اپنی بات کو آغاز دینے کے لیے اپنے محبوب افسانہ نگار منٹو کو یاد کیا تھا ۔ نثر میں شاعری کے باب میں منٹو کا ذکر یوں آگیا تھا کہ کوئی اسی سال پہلے منظر صدیقی اکبر آبادی اور مہرلال ضیا آبادی کی ادارت میں آگرہ سے چھپنے والے ماہنامہ’’کنول‘‘ میں معروف جاپانی شاعربونی لیو گوشی کی پانچ نظموں کا ترجمہ چھپا تھا، وہ ترجمہ منٹو نے کیا تھا۔منٹو نے ان نظموں کے لیے عنوان قائم کیا تھا’’نثر میں نظمیں‘‘۔ دسمبر ۱۹۳۵ء کے اس شمارے میں عنوان کے نیچے ایک نوٹ بھی جمایا گیا تھا :
’’بعض حضرات کے نزدیک نثر کی شاعری کا مخترع ترگنیف،مشہور روسی مفکر ہے،مگر ہمیں مسٹر ایکمرڈ کی تصنیف Life of Tolisty سے پتہ چلتا ہے [کہ]منثور اشعار لکھنے کا خیال سب سے پہلے تالسطائی کے دماغ میں آیا تھا ۔ تالسطائی نے اس قسم کی ایک نظم لکھی اور اپنے بوڑھے خادم کے نام سے ایک اخبار میں اشاعت کے لیے بھیجی مگر وہ ناقص ہونے کی وجہ سے واپس آگئی۔ یہ ناکامی دیکھ کر تالسطائی نے اپنے خیال سے ترگنیف کو مطلع کیا۔ موخر الذکر کی مشہور تصنیف ’’نثر میں نظمیں‘‘دراصل تالسطائی کے صناعانہ دماغ کی رہین منت ہے۔ اس تصنیف کی غیر معمولی قبولیت دیکھ کر جاپان کے اکثر شعرا اس میدان میں طبع آزمائی کر رہے ہیں۔ مسٹر بونی لیو گوشی کانام ان میں خاص اہمیت رکھتا ہے ۔ وہ بہت بلند تخیلات کے مالک ہیں اور ان کی مندرجہ ذیل نظمیں اس کی زندہ مثال ہیں ۔ وہ حضرات جو آج کل اردو میں ’’نثر کی شاعری‘‘جیسی پاکیزہ و لطیف صنف سخن کو اپنی جہالت اور بے ہودگی سے مسخ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں انہیں چاہیے کہ ہ ان نظموں کا بہ غور مطالعہ کریں۔‘‘
کوئی اڑتالیس سال بعد یعنی ۱۹۸۳ء میں افتخار امام صدیقی کی ادارت میں شائع ہونے والے ماہنامہ ’’شاعر ‘‘ بمبئی( شمارہ نمبر ۶،۷،۸) میں مدیر نے بونی لیوگوشی کی انہی نظموں کی طرف اپنے قارئین کی توجہ چاہی، جنہیں منٹو نے اُردو میں منتقل کیا تھا اورنثر میں شاعری کا مقدمہ پھر سے پیش کر دیا۔ مدیر کا کہنا تھا:
’’نثر میں نظمیں ،شعر منثور، انشائے لطیف، ادب لطیف،نثر میں شاعری کے عنوان سے ’’کنول‘‘ اور ’’شاعر‘‘ کے شماروں میں بہت کچھ شائع ہوتا رہا ہے۔ نظم کی مروجہ ہئیتوں میں تبدیلی کا تصور اور اس کے ماخذات کی بازیافت کرنے والے نقاد حضرات نوٹ فرمائیں،نثری نظم یاآزاد غزل کے ہئیتی تجربے کوئی آج کی بات نہیں ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ماضی کے رسائل کو کھنگالا جائے اور اپنے علمی ادبی اور تحقیقی سرمائے کو ازسرنو ترتیب دیا جائے۔‘‘
صاحب، فرصت کس کے پاس تھی کہ وہ اپنے علمی و ادبی سرمائے کو کھنگالتا، ہاں اس کی فرصت ہی فرصت تھی کہ چند گنجلک یا بے معنی سطروں کو بہ طرز نظم لکھ کر اسے نثری نظم کے دعویٰ کے ساتھ کسی بھی پرچے میں چھپوا لیں اوراس کے شاعری ہونے پر اتراتے پھریں ، حالاں کہ جو کچھ ہمیں پڑھنے کو فراہم کر رہے ہوتے ہیں،اس میں نہ خیال کی تنظیم ہوتی ہے نہ نثر کی اپنی خوبی۔ ایسے سہل پسندوں نے بہ قول سعادت حسن منٹو ’’اپنی جہالت اور بے ہودگی‘‘سے اس ’’پاکیزہ صنف کو مسخ‘‘ کردیا ہے اور مسلسل مسخ کر رہے ہیں۔
نثر میں شاعری کو نظم کے ساتھ رکھنے والوں کو یا پھر اسے آزاد نظم جیسا سمجھنے والوں کو یہ دن تو دیکھنا ہی تھا ، سو دیکھ رہے ہیں ۔ آزاد یعنی نظم کی جدید صورت چاہے ہماری شعری روایت میں بہت بڑا انحراف سہی مگر یہ فنی سطح پر کلی انحراف نہ تھاکہ اس باب میں ہماری روایت مدد کو موجود تھی۔ طرفہ دیکھیے کہ اپنی روایت کا( ایک حد تک ہی سہی) پاس کرنے والی اس نظم کو بھی اپنے آپ کو منوانے کے لیے بہت کھیکھن کرنے پڑے تھے ۔یہیں راشد کی یگانہ سے ایک ملاقات کا دلچسپ مکالمہ یاد آتا ہے۔ یہ تب کی بات ہے جب ن م راشد دلی میں تھا۔ یگانہ کا دلی آنا ہوا تو آل انڈیا ریڈیو کی ریکارڈنگ کے دوران جدید شاعری پر گفتگو چل پڑی ۔ جی جدید شاعری، جس کے بارے میں یگانہ نے کہیں لکھ رکھا تھا کہ ’’جس کاغذ پر یہ جدید شاعری چھپتی ہے میں اسے اپنے ساتھ پیخانے میں بھی لے جانا گوارا نہیں کرتا،،۔ جدید شاعری پر یگانہ کسی طوربات کرنے پر راضی نہ ہورہاتھا۔ کسی نے وہیں راشد کو جدید شاعری کے علم بردارکہہ کر اس کی شاعری سننے کی تجویز دی تو یگانہ نے کہا ’’ بھئی میں بوڑھا آدمی ۔ میںیہ کلام سن کر کیا کروں گا۔اور پھر راشد تو ان لوگوں میں سے ہے جنہیں اہل پنجاب نے رشوت دے رکھی ہے تاکہ اردو شاعری کو خراب کریں۔ ‘‘ راشد نے اس واقعہ کو خود روایت کیا اور بتایا تھا کہ یگانہ اس سے نظمیں سننے پر آمادہ ہو گیا تھا اور اس نے جب اپنی نظم ’’بے کراں رات کے سناٹے میں‘‘ سنائی تو اسے یگانہ نے تین بار یہ کہتے ہوئے سنا تھا کہ اس میں قافیہ نہیں تھا۔ پھر یہ کہتے ہوئے گلے لگالیا تھا کہ’’میاں اگریہی جدیدشاعری ہے تو سبحان اللہ۔ تمہیں حق پہنچتا ہے کہ شعر کہو‘‘
لگ بھگ یہی کچھ ’’نثم‘‘ کے باب میں بھی ہوتا رہا ہے؛ نام کے حوالے سے اور نثر میں اس شعری تجربے کے حوالے سے بھی ۔ پھر یوں ہوا کہ اس صنف میں بہت اعلی سطح پر تخلیقی اظہار کے نمونوں کے فراہمی ہونے لگی اور ’’میں نہ مانوں‘‘ والے ہٹ دھرم مات کھانے لگے تو تخلیق کاروں کے ہاں اس کی قبولیت کے دروازے کھلتے چلے گئے ۔ ایسے میں سے ایک اور مشکل سے واسطہ پڑا۔ وہ لوگ جن کا مزاج اس صنف کے لیے موزوں تھا ہی نہیں ، وہ بھی ادھر کو لپکے اور’’نثری نظم‘‘ کے نام پر سطحی تحریروں کے ڈھیر لگا دیے۔ یہ لگ بھگ ویسا ہی منظر نامہ ہے جیسا علامتی افسانے کی مقبولیت کے زمانے میں، اس فیشن میں لکھنے والوں کے سبب بن گیا تھا ۔ تب کئی ’’علامت نگار‘‘ فرمایا کرتے تھے کہ ان کا افسانہ نثری نظم ہو گیا ہے حالاں کہ وہ نظم تو کجا اچھی نثر بھی نہ ہوا کرتا تھا ۔
کون نہیں جانتا کہ شاعری اور فکشن زندگی کی لغت ہیں۔ زندگی کی عین عنایت یہ ہے کہ یہ دَم بہ دَم بدل کر ہمارے سامنے آتی ہے، تبھی تو بھلی لگتی ہے۔ وہ جو کہتے ہیں ،نئی کہانی گڑ سے میٹھی، تو اپنے نئے پن ہی کی وجہ سے یہ زندگی نئے نئے ستم ڈھائے چلے جانے کے باوجود نہ صرف گوارا ہوتی ہے ، ہمیں اپنے حسن کا لوبھی اور اپنے اسرار کا اسیر بنائے رکھتی ہے۔ورنہ جو کہیں ٹھہر گئی ہوتی یا پھر ٹھہری رہتی تو اس میں سے سڑاند اُٹھ رہی ہوتی۔ متلون مزاج زندگی کے اسرار اپنے اظہار کے لیے نئے تخلیقی سانچوں کا تقاضا کرتے ہیں اور نثم اسی ضرورت کو پورا کرنے کی ایک صورت ہو گئی ہے ۔ یہیں مجھے یاد آتا ہے، کوئی بتیس سال پہلے شمس الرحمن فاروقی کچھ سوالات کے مقابل ہوتے ہوئے تو Borges کو یاد کرکے ایک دلچسپ بات کہی تھی۔ یاد رہے تب فاروقی نے نثری نظم کی اصطلاح کو رد کیا تھا اور کہہ رکھاتھا کہ’’نظم محض نظم ہوتی ہے اور نثر صرف نثر‘‘، مگر جب Borges کا یہ کہا مقتبس کیا کہ’’میں نظم اور نثر میں کوئی خاص فرق نہیں کرتا ۔ میں دیکھتا ہوں کہ کوئی فن پارہ کس طرح پڑھا جارہا ہے۔ اگر نثر کی طرح تو نثر اور نظم کی طرح تو نظم ہے‘‘، تو فاروقی نے اپنے کہے پر یہ کہہ کر بھی شک کا اظہار کردیا تھا کہ:’’Borgesکی یہ بات سو فی صد درست نہ سہی لیکن یہ نہ بھولنا چاہیے کہ اس وقت اس سے بڑا شاعر روئے زمین پر شاید کوئی نہیں ہے۔ اس لیے اس کی بات میں کچھ نہ کچھ وزن تو ہوگا ۔یعنی ہم اسے اس حد تک تو مان بھی سکتے ہیں کہ محض منضبط آہنگ کے موجود نہ ہونے کی بنا پر کسی تحریر کو نظم کے دائرے سے خارج نہیں کیا جا سکتا۔‘‘( یاد رہے یہ بات فاروقی نے ۱۹۸۳ء میں کہی تھی ۔ تب Borges زندہ تھا ، وہ تو بعد میں ،جون ۱۹۸۶ء میں فوت ہوا تھا)۔
اچھا ، اس صنف کے لیے نام کا تنازع اتنا بڑا نہ تھا کہ طے نہ ہو پاتا مگر نیا نام تسلیم کرنے میں ایک وقت لگتا ہے ، سو وہ تو لگے گا ۔ میرا اب بھی یہ اصرار ہے کہ اس صنف کو جب تک اپنے الگ نام سے اور الگ صنف کے طور پر نہیں چھاپا جانے لگے گا ، اس صنف میں اچھے برے کی پہچان میں مشکلات کا سہارا لے کر شاعری کے نام پر بُری نثر لکھنے والے’’ متناثموں‘‘ کا ایک گروہ اس میں گھسا رہے گا ، بالکل ان متشاعروں کی طرح جو محض وزن میں مصرع کہہ لینے کو ہی شاعری سمجھتے رہے ہیں۔
نثر میں شاعری کے لیے ’’نثم‘‘ کا نام کا ذکر ہوااور اس لغت کا بھی جو میں نے اس باب میں تجویز کی تھی تو جی چاہتا ہے ، وہ مجوزہ لغت آپ کے ذوق مطالعہ کے لیے یہاں فراہم کردوں۔ کیا خبر اس میں سے بھی کچھ قبول کر لیا جائے کہ بہ ہر حال اس صنف کے لیے ’’نثری نظم‘‘ کے نام کے ساتھ اس طرح کے امکانات کہاں میسر ہو سکتے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’نثم‘‘ کی مجوزہ لغت
نثم:(ن+ث+م)، (اسم ، مونث) :نظم اور نثر کے مشترکہ ابتدائی حرف’ن‘ کے علاوہ نثر سے ’ث‘ اور نظم سے’م‘ لے کر بنایا گیا ایک نام۔ نثر کے آہنگ میں شعری تجربے کی تنظیم اور تظہیر کی صنف
ناثم : (ن+ا+ث+م)،(صفت، مذکر): نثم کو تخلیقی ذریعہ اظہار بنانے والا۔
ناثمہ:(ن+ا+ث+م+ہ)،(صفت، مونث): نثم کہنے والی
ناثمین:(ن+ا+ث+م+ی+ن): ناثم کی جمع
ناثمات:(ن+ا+ث+م+۱+ت): ناثمہ کی جمع
نثم گستری: نثم ترتیب دینا
نثم سنجی: دیکھئے نثم گستری
نثم ہونا: (امکانی محاورہ):کسی مضمون کا نثم کے پیرائے میں ڈھل جانا
نثمانا:(اسم مصدر): کسی مضمون کو نثم میں ڈھالنا
ناثمانہ:(صفت):ناثم کی طرز پر، نثم سے منسوب
مناثمہ:(مذکر): اجتماعی نثم خوانی کا عمل۔ ایسی تقریب جس میں نثمیں پڑھی جائیں
مناثمہ جمنا:(امکانی محاورہ):نثم کی محفل کا رنگ پر آنا ۔
مناثمہ اُکھڑنا:(امکانی محاورہ): نثم کی محفل کا بدمزہ ہونا
متناثم :(صفت): جو ناثم نہ ہو مگر اپنے آپ کو ناثم ظاہر کرے، خراب نثر کو نثم کے نام پر پیش کرنے والا، بے وزن شاعری کو نثر میں شاعری کے لبادے میں پیش کرنے والا
منثوم:(مذکر):نثم میں ڈھلا ہوا کلام ۔
منثومہ:(صفت):دیکھئے منثوم(واحد)،(جمع، منثومات)
نثمیں: نثم کی جمع
نثمات: دیکھئے نثمیں
نثمانی:(مونث، اسم):چھوٹی نثم
نثمی ادب:ایسا ادب جو نثم سے متعلق ہو۔
منثوم ادب: ایسا ادب جو نثم ہو۔
نعتیہ نثم: ایسی نثم جس میں نعت کا مضمون ہو ۔
منثوم نعت: ایسی نعت جو نثم کے پیرائے میں ہو۔
نثمی حمد: ایسی حمد جو نثم کے پیرائے میں ہو ۔
حمدیہ نثم: ایسی نثم جس میں حمدیہ مضامین کو برتا گیا ہو۔
منثوم حمد: حمد کا مضمون جو نثم کے پیرائے میں بیان ہوا ہو۔
نثمی کلام: ایسا کلام ، جو نثم میں ہو
کلام نثم: دیکھئے نثمی کلام
نثمیرہ:(ن+ث+م+ی+ر+ہ)،(اسم ،مذکر): نثم کی سطر(سطر یا مصرع کے لیے متبادل)
نثمرہ جات:(مذکر، جمع):نثم کی سطریں
مناثیر:(مذکر، جمع) :دیکھیے نثمرہ جات
تثمین: (مونث)(جمع:تثانیم):کسی کلام کو نثم میں ڈھالنا
۔۔۔۔۔ باقی پھر سہی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

4 Comments

  1. حمید شاھد آپ نے ثمن کے بارئے میں بہت ہی اچھا مکالمہ کیا ہے.کسی بھی نئی صنف کو قبول کروانا بڑا چئلینج ہوتا ہے.

  2. جناب حمید شاہد نثم کے فارسی میں معنی ملاحظہ ہوں

    نثم نثم . [ ن َ ] (ع مص ) زشت گفتن . (منتهی الارب ) (آنندراج ) (ناظم الاطباء). زشت و قبیح به زبان آوردن . تکلم به قبیح . (از اقرب المو…
    نثم نثم . [ ن َ ] (اِ) در تداول اخیر، کلامی را گویند که نه به نظم شباهت داشته باشد و نه به نثر، و متتبعان اشعار عروضی آثار گویندگان …
    نسم نسم . [ن َ س َ ] (ع اِ) دَم روح . (منتهی الارب ) (آنندراج ) (ناظم الاطباء). نفَس روح . (ناظم الاطباء) (اقرب الموارد) (المنجد). ج ، ان…
    نسم نسم . [ ن َ ] (ع مص ) سخت وزیدن باد. (از ناظم الاطباء). نسیم . نَسَمان . (المنجد) (از اقرب الموارد) (از منتهی الارب ). رجوع به نسیم …
    نسم در گویش دماوندی به کار میرود و به چم جایی که آفتاب رو نیست و بیشتر زمانها سایه است. در این جا برف به مدت درازی روی زمین برجای میماند. در گوی…
    لسانی تشکیلات اتنی آسان نہیں جب میں نے ادبیات میں چھپنے والے نثری نظم پر چھپنے والے اپنے مضمون میں اور پھر اپنے شعری مجموعے شناخت کے پیش لفظ می ںنثنظم کی جو اصطلاح استعمال کی تھی اس پر احباب نے توجہ نہیں دی اس لیے آپ کی کی ہوئی لسانی تشکیل کے جو فارسی معنی ہیں پیش کرنے کے بعد آپ کی لغت سازی میں مندرجہ ذیل ترامیم پیش کرتا ہوں

    ’’نثنظم‘‘ کی مجوزہ لغت
    نثنظم:(ن+ث+ن + ظ+م)، (اسم ، مونث) :نظم اور نثر کے مشترکہ ابتدائی حرف’ن‘ کے علاوہ نثر سے ’ث‘ اور نظم سے’م‘ لے کر بنایا گیا ایک نام۔ نثر کے آہنگ میں شعری تجربے کی تنظیم اور تظہیر کی صنف
    نثناظمم : (ن+ث+ن+ا + ظ+م)،(صفت، مذکر): نثنظم کو تخلیقی ذریعہ اظہار بنانے والا۔
    نثناظمہ:(ن+ث+ن+ا + ظ+م+ہ)،(صفت، مونث): نثنظم کہنے والی
    نثناظمین:(ن+ث+ن+ا + ظ+م+ی+ن): نثناظم کی جمع
    نثناظمات:(ن+ث+ن+ا + ظ+م+۱+ت): نثناظمہ کی جمع
    نثنظم گستری: نثنظم ترتیب دینا
    نثنظم سنجی: دیکھئے نثنظم گستری
    نثنظم ہونا: (امکانی محاورہ):کسی مضمون کا نثنظم کے پیرائے میں ڈھل جانا
    نثنظمانا:(اسم مصدر): کسی مضمون کو نثنظم میں ڈھالنا
    نثنظمانہ:(صفت):نثناظم کی طرز پر، نثنظم سے منسوب
    منثنظمہ:(مذکر): اجتماعی نثنظم خوانی کا عمل۔ ایسی تقریب جس میں نثنظمیں پڑھی جائیں
    منثنظمہ جمنا:(امکانی محاورہ):نثنظم کی محفل کا رنگ پر آنا ۔
    منثنظمہ اُکھڑنا:(امکانی محاورہ): نثنظم کی محفل کا بدمزہ ہونا
    متنثناظمم :(صفت): جو ناثم نہ ہو مگر اپنے آپ کو ناثم ظاہر کرے، خراب نثر کو نثنظم کے نام پر پیش کرنے والا، بے وزن شاعری کو نثر میں شاعری کے لبادے میں پیش کرنے والا
    منثنظوم:(مذکر):نثنظم میں ڈھلا ہوا کلام ۔
    منثنظومہ:(صفت):دیکھئے منثوم(واحد)،(جمع، منثومات)
    نثنظمیں: نثنظم کی جمع
    نثنظمات: دیکھئے نثنظمیں
    نثنظمانی:(مونث، اسم):چھوٹی نثنظم
    نثنظمی ادب:ایسا ادب جو نثنظم سے متعلق ہو۔
    منثنظوم ادب: ایسا ادب جو نثنظم ہو۔
    نعتیہ نثنظم: ایسی نثنظم جس میں نعت کا مضمون ہو ۔
    منثنظوم نعت: ایسی نعت جو نثنظم کے پیرائے میں ہو۔
    نثنظمی حمد: ایسی حمد جو نثنظم کے پیرائے میں ہو ۔
    حمدیہ نثنظم: ایسی نثنظم جس میں حمدیہ مضامین کو برتا گیا ہو۔
    منثنظوم حمد: حمد کا مضمون جو نثنظم کے پیرائے میں بیان ہوا ہو۔
    نثنظمی کلام: ایسا کلام ، جو نثنظم میں ہو
    کلام نثنظم: دیکھئے نثنظمی کلام
    نثنظمیرہ:(ن+ث+ن+ظ+م+ی+ر+ہ)،(اسم ،مذکر): نثنظم کی سطر(سطر یا مصرع کے لیے متبادل)
    نثنظمرہ جات:(مذکر، جمع):نثنظم کی سطریں
    منثنظمایر:(مذکر، جمع) :دیکھیے نثنظمرہ جات
    تثنظمین: (مونث)(جمع:تثانیم):کسی کلام کو نثنظم میں ڈھالنا

  3. boht hi jandar mazmon ha mager meri naqdana raye ye ha is sinf ka naam kisi naqqad ko rakhne ki bazaye wo log tajwez kren jinhon ne ake arse se nasri nazmen likhi han or apne shaair hone me shak ke zindan se guzre han jaise afzaal ahmed syed,azra abbas,abdul rasheed,shahid zubair,sahir shafiq etc

Comments are closed.