اگلے جنم موہے بٹیا نہ کیجیو

(فارینہ الماس)

کہا جاتا ہے کہ عورت مرد سے کمتر ہے۔یہ کہاوت کسی حد تک درست ہے ،اپنے کچھ اوصاف اور ان کے اظہار میں عورت ،مرد سے کمتر ہے ۔مثلاطاقت اور بہادری ایسے اوصاف ہیں جن میں مرد بالاتر ہے اور خواتین کی ایک وسیع تعداد اپنے تحفظ کے سلسلے میں مردوں پر انحصار کرتی ہے ۔لیکن یہ بھی اٹل حقیقت ہے کہ قدرت نے ایک خاص وصف عورت کو بھی ودیعت کیا ہے جو مرد میں نہیں اور اسی وصف نے دونوں اصناف کواحساس برتری کے احساس سے پیدا ہونے والے عدم توازن سے بچا یا۔خدا نے عورت کی کوکھ کو زرخیز بنا کر اسے تخلیقیت کے خدائی وصف میں حصہ دار بنا دیا۔وہ روح کو بدن کے لباس میں روئے زمیں پر لانے کی وجہ بنتی ہے۔اسی لیئے وہ اندر سے مکمل اورمطمئن ہے۔ وہ تخلیق کرتی ہے اور اس وقت تک تخلیق کرتی رہے گی جب تک اس کائنات کا نظام قائم ہے۔اسے تخلیق کا سانجھے دار بنا کر قدرت نے اسے مامتا کے خصائص میں بھی شریک کار بنایا۔وہ معاف کرنا،برداشت کرنا،درگزر کرنا اور درد کو سہنا جانتی ہے اورکبھی کبھی تو وہ درد کا اظہار بھی نہیں کرتی۔ ہیرٹ مورگن کا کہنا ہے کہ ’’ایک مضبوط عورت وہ ہے جو ہر صبح یوں مسکرائے کہ جیسے گزشتہ رات وہ بلکل بھی نہیں روئی‘‘۔اسکی فطرت میٹھے پانیوں کی ندی کی ٹھنڈک اور چاند کے روشن ہالے کی چاندنی کے امتزاج سے گوندھی گئی ہے۔اسکی زات میں عجیب سا ٹھہراؤ ہے ،ایسے صبر اور شکر کا وصف ہے اس کی فطرت میں ،کہ جو اسے تھوڑے پر بھی صابر وشاکر بناتا ہے ۔وہ تھوڑی سی بھی خوشی کو حاصل جاں بنا کر گزر بسر کر لیتی ہےimages ۔ یہ اسکی فطرت ہے کہ وہ امن چاہتی ہے،محبت چاہتی ہے۔وہ ہمیشہ تعمیر کا سوچتی اور تخریب سے نفرت کرتی ہے ۔وہ انسان کے برپا کئے بکھیڑے سمیٹنا چاہتی ہے۔ خون آلود ہاتھ دیکھ کر اسکا دل دہل جاتا ہے ۔کسی دوسرے کو تکلیف میں دیکھ کر وہ لرز کر رہ جاتی ہے ۔ اسکے برعکس مرد کے اندر ایک بے قراری اورایک ادھور ہ پن ہے وہ کبھی مطمئن نہیں ہوتا ۔اسکی سرشت میں شدت پسندی اور انتہا پسندی کے عناصر غالب ہیں۔ولیوں ،نبیوںؐ ،پیغمبروںؐ سے ہٹ کر ہمیں ایک طویل فہرست ایسے مردوں کی بھی ملے گی جنہوں نے عین اپنی سرشت کے تحت روئے زمین پر فساد اور جبر پھیلاکر اک طویل خونی داستان رقم کی۔ ہمیں چنگیز خان ،ہلاکو خان اور ہٹلر جیسے سفاک مردوں کی کہانیوں سے تاریخ بھری ہوئی ملے گی۔ہمیں اقتدار کی خاطر اپنے سگے بھائیوں دارا شکوہ اور مراد کے جسموں کی دھجیاں اڑاتا ہوااورنگ زیب بھی ملے گا۔مردکی نفسیات بڑی عجیب ہے وہ تسخیر کرنا چاہتا ہے حاکم بننا اور فتح حاصل کرنا چاہتا ہے اسی میں اسے تسکیں ملتی ہے ۔یہ اسکی فطرت ہے کہ وہ اپنے راستے کی ہر دیوار کو جبرو تشدد سے ہٹانے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتا ۔لیکن دنیا کا ہر مرد حکمرانی اور بادشاہت کے مرتبے کو چھو نہیں سکتا، اور اسے اپنی فرسٹریشن کو نکالنے کا کوئی نا کوئی راستہ بھی درکار ہوتا ہے ۔اپنی ذات کی تشفی کے لئے اپنی طاقت ،مردانگی اور غلبہ کی دھاک بٹھائے رکھنا اسکے لئے ازحد ضروی ہے ۔وہ اپنی حکمرانی کی جبلت کی تسکین اپنے گھر میں قائم بادشاہت سے پوری کر لیتا ہے۔ اور یہاں اسکی رعایا اس سے طاقت میں کمتر مخلوق۔یعنی’’ عورت‘‘ہے جو بیوی،بیٹی اور بہن کے روپ میں ہے ۔عورت ہی تو ہے جس سے وہ اپنی تمام تر کمزوریوں اور ناکامیوں کا بدلہ باآسانی لے سکتا ہے کیوں کہ وہ اسکے دئیے دکھوں اور محرومیوں کے گرداب میں تا عمر پھنسی رہے گی اور اف تک بھی نا کرے گی ۔لہذا وہ ازل سے اسے باندی بنا کر اپنی حاکمیت کی تسکین کرتا ،اور اپنی آسودگی کے لئے اسے غیر انسانی سلوک کا مستحق بناتا آیا ہے۔اسے خود بھی معلوم نہیں کہ وہ ایسا کیوں کرتا ہے ؟یہ عورت کے اعلی اوصاف میں برتری کے احساس سے اسکے اندر جنم لینے والی فرسٹریشن بھی ہوسکتی ہے یا شاید اسکے لاشعور کے کسی کونے کھدرے میں یہ احساس بھی دم سادھے بیٹھا ہے کہ اسکی جنت سے بے دخلی میں کہیں نہ کہیں عورت بھی زمہ وار ہے۔ اسی لیئے عورت ازل سے ہی اس کی ناانصافیوں اور مظالم کا شکار بنتی آئی ہے ۔اسکے خلاف سرزد پانے والے جرائم مختلف النوع اذیتوں سے عبارت ہیں۔جیسے جیسے زمانہ ترقی کی منازل طے کر رہا ہے یہ مظالم عجیب بھیانک اور سفاکانہ شکل اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ان میں سے سر فہرست جرم ’’غیرت کے نا م پرقتل‘‘ ہے۔جس کے پیچھے یہ سوچ کارفرما ہے کہ جب ایک لڑکی خاندان کی عزت کا سودا کرتی ہے تو اس کی سزا صرف اور صرف موت ہی ہوتی ہے۔یو۔این۔او کے مطابق ہر سال دنیا میں تقریباً پانچ ہزار خواتین غیرت کے نام پر قتل کر دی جاتی ہیں۔اصل حقائق تو اس سے بھی بڑھ کر ہیں ۔انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق یہ تعداد بیس ہزار کے لگ بھگ ہے۔ان میں سے اکثریت ایسے کیسوں کی ہے جو فائل ہی نہیں ہوتے یا انہیں اقدام خودکشی قرار دے کر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔عورت سے برتی جانے والے اس نا انصافی کا مظاہرہ صرف ایشیائی یا افریقی ممالک میں ہی نظر نہیں آتا بلکہ امریکہ اور یورپ بھی اسکا شکار ہیں۔لیکن ان ممالک میں بھی ایسے اقدام قتل میں ملوث خاندانوں کا ذیادہ تر تعلق مسلم گھرانوں سے ہی ہوتا ہے جو معاشی طور پر تو ترقی یافتہ ہو چکے ہیں لیکن اپنی سوچ وفکر میں وہ آج بھی جہالت کے اس دور میں جی رہے ہیں جب اسلام کی آمد سے پہلے لڑکیوں کو زندہ دفن کر دیا جاتا تھا ۔ تہذیب یافتہ ممالک میں آباد مہذب لوگوں کو یوں تو تعلیم اور تفکر نے بہت کچھ سوچنے اور بدلنے پر مجبور کردیا کہ آخرکار وہ خواتین کے افکار اور اعمال کی آزادی پر آمادہ نظر آتے ہیں۔لیکن یہاں بھی مرد کی سرشت دوسرے کئی طریقوں سے اپنا اظہار کر لیتی ہے مثلاً امریکہ اور یورپ میں 15 سے 44سال تک کی خواتین گھریلو تشدد کا شکار ہوتی ۔یورپ میں ہر پانچویں عورت جسمانی اور جنسی تشدد برداشت کر رہی ہے ۔امریکہ میں ایسے تشدد کا شکار خواتین کے لئے تقریباً 15000 پناہ گاہیں بنائی گئی ہیں ۔یہاں تین سے چار ملین خواتین ہر سال گھریلو تشدد کا شکا ر ہوتی ہیں۔عورت سے وابستہ ان مسائل کی بھی ایک طویل داستان ہے جس کی بہت بھیانک صورتحال کا نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا کو سامنا ہے۔لیکن یہ ازلی اور ابدی سانحات ہیں ۔ غیرت کے نام پر ہونے والے قتل یوں تو ہمارے ہمسایہ سیکولر ملک بھارت میں بھی اسی تواتر سے ہو رہے ہیں۔sacrifice وہاں انسانی جان سے ذیادہ ذات برادری کو مقدم سمجھا جاتا ہے،اسی لئے برادری سے باہر شادی کر لینے والی لڑکیوں کو الگ الگ واقعات میں زندہ جلائے جانے کے متعدد واقعات ہوتے رہتے ہیں ۔لیکن شدید قابل افسوس امر یہ ہے کہ ایسے واقعات کا بڑا شکار اسلامی ممالک ہی ہیں۔کیونکہ ان میں سے ستر فیصد واقعات کا تعلق اسلامی ممالک سے ہے۔پاکستان اور افغانستان جیسے ممالک کے قبائل اور قدیم دیہات ایسی وارداتوں کی آماجگاہ ہیں ۔پاکستان میں گزشتہ سال تقریباًً1100لڑکیاں غیرت کے نام پر قتل کی گئیں۔ 2014میں 1000لڑکیوں کا قتل کیا گیا۔ایسی اموات ہر سال بڑھ رہی ہیں اب تو خود عورت کو بھی ذہنی طور پر دھونس،جبر اور تشدد سے ایسے قتل میں شریک کار بنا لیا گیا ہے۔دوسری اہم تبدیلی یہ ہوئی ہے کہ ایسے اقدامات کا دائرہ کار بڑھ کر دیہاتوں سے شہروں تک پھیل گیا ہے ۔ایسے واقعات کے لئے مذہب،ذات برادری،وراثت اور خاندانی روایات کی آڑ لی جاتی ہے۔کیوں کہ خاندانی وراثتی نظام مرد کے ہاتھ میں ہوتا ہے اس لئے عورت کو ہر صورت مرد کی تابعداری کرنا ہوتی ہے۔قبائل اور دیہاتوں میں تو اسے جانور سے بڑھ کر کوئی درجہ حاصل نہیں لیکن شہروں میں بھی ایک وسیع طبقہ ایسا ہے جہاں غلامی کی صورتحال تو یہ ہے کہ ایک لڑکی کو اگر پڑھنے کی اجازت دی بھی جاتی ہے تو وہ کیا پڑھے گی اور کتنا پڑھے گی اس کا فیصلہ اسکا باپ یا بھائی کرتا ہے۔66% خواتین کواپنی مرضی کا پروفیشن اپنانے اور حتی کہ اکیلے سفر کرنے کی بھی اجازت نہیں۔50 فیصد خواتین کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ وراثت میں اپنے حق سے دست بردار ہو جائیں ۔اورایسے حالات میں اگر قبائلی یا فرسودہ نظام کے تحت چلنے والے علاقوں میں عورت وراثت کا مطالبہ کرے گی یا اپنی پسند سے جیون ساتھی چنے گی تو اسکا مقدر غیرت کے نام پر قتل ہی ہو گا ۔زمین بچانے کے لئے بھی ایک لڑکی کو قتل کیا جاتا ہے۔اور یسے جرائم کا جواز عموماً’’کاروکاری ‘‘ کو بنایا جاتا ہے ۔ایسے علاقوں میں ایک لڑکی کو ’’ کاری‘‘ قرار دینا کوئی مشکل کام نہیں۔اسطرح کے واقعات میں عموماً لڑکی کو’’ کاری ‘‘کر کے مار دیا جاتا ہے اور ’’کارو‘‘یعنی لڑکے کو بچالیا جاتا ہے۔تاکہ تاوان کی شکل میں اس سے زمین ،عورت یا معاوضہ طلب کیا جا سکے۔اسطرح کے اقدام قتل کے پیچھے پسند کی شادیاں بھی کارفرما ہوتی ہیں۔پاکستان میں مجموعی طور پر پسند کی شادیوں کی شرح 2.25% ہے ۔شادیوں کی ایک قسم وٹہ سٹہ بھی ہے جس کی شرح 10.9% ہے۔ایک طریقہ کار دلہن کی قیمت ادا کرکے شادی کرنے کا بھی ہے۔جس کی شرح 14.87%ہے۔25 سے 40 فیصد شادیاں کزن میرج کے زمرے میں آتی ہیں۔جن میں ذیادہ تر جائیداد بچانے کے لئے زبر دستی کی جاتی ہے۔پاکستان اور افغانستان کے قبائلی نظام میں قتل کے تاوان کے طور پر بھی لڑکی کو پیش کیا جا سکتا ہے ۔جس میں قتل کرنے والے خاندان کو تاوان کے طور پر دوسرے خاندان کو اپنی 5 سے 12 سال تک کی کنواری لڑکی کا رشتہ دینا ہو تا ہے۔ خواہ وہ کسی بچے سے یا معمر مرد سے اسے بیاہ دیں یہ تاوان وصول کرنے والے خاندان کی اپنی صوابدیدپر مبنی ہے۔اور شادی کے بعد عموماً بدلے کے طور پر اس سے بھیڑ بکریوں والا سلوک روا رکھا جاتا ہے ۔اس طریقہ کار کو ’’ونی‘‘ کہا جاتا ہے۔ایسی بے جوڑ اور زبردستی کی شادیاں عورت کے وجود کی نفی ہیں وہ ان کے آزار سہتے سہتے وہ روحانی طور پر ٹوٹ چکی ہے ۔وہ خود بھی اپنے آپ کو محض بھیڑ بکری سے بڑھ کر اب اورکچھ نہیں سمجھتی ۔اور اگر کوئی بھیڑ بکری اپنے کھونٹے سے آزاد ہو کر اس گھٹن سے نکلنے کی تمنا کرے تو اسکی ایسی بغاوت پر اسے زندہ درگور کرنے یا انتہائی سفاکی سے اسکی جان لے لینے میں کوئی عار نہیں سمجھا جاتا۔پسند کی شادیوں کے بڑھتے رحجان کی وجہ ماں باپ کی عزتوں کے جنازے نکالنا نہیں بلکہ ان کے ناروا سلوک اور بے درد رویے سے نجات پانے کی ایک ناکام سی کوشش ہے ۔یہ زات برادریوں کے ازیت ناک رواجات سے انحراف ہے۔عموماًپسند کی شادیاں گھر سے بھاگ کر ہی کی جاتی ہیں اور ایسی لڑکیوں کو خاندان کی تزلیل کا باعث سمجھا جاتا ہے اس حد تک ان سے نفرت کی جاتی ہے کہ انہیں جان سے مار دینے میں ہی تسکین روح میسر ہو پاتی ہے۔یہ بھی بطور خاص اہتمام کیا جاتا ہے کہ لڑکی کی موت دنیا بھر کے لئے عبرت کا نشان بن سکے۔اسلئے انہیں آسان موت نہیں دی جاتی بلکہ لرزہ خیز انجام سے ہمکنار کیا جاتا ہے،مثلاًً اینٹوں کے وار سے تڑپا تڑپا کے مارنا،نوکیلی چھریوں کے اتنے زخم دینا کہ وہ تڑپ تڑپ کے جان دے،یا اسے آگ کی چنگاریوں میں اتنی دیر تک سلگھتا چھوڑ دینا کہ اسکے بدن کا ایک ایک حصہ کوئلہ ہو جائے۔یا تیزاب کے بھیانک پانی سے جھلسا کر رتی رتی موت کے منہ میں دھکیلنا ۔لڑکیوں کو جلا دینے کی حالیہ رسم شاید ہمسایہ ملک بھارت سے متاثر ہو کر اپنائی گئی ہے۔ حالانکہ ہندو تو ایسی رسم کے عادی ہیں کہ بدن کو مکتی دینے کے لئے اپنے مردے کو جلادیا کرتے ہیں دفنایا نہیں کرتےprotest-domestic-violence۔اور ہم تو مسلمان ہیں اگر ہم اپنے جیتے جاگتے مردے دفن کرنے کی بجائے جلانے لگیں گے تو پھر تو ہمیں بھی شمشان گھاٹ بنا لینے چاہیں ۔اور اپنی خوشیوں کی تلاش میں نکلنے والی تمام تر لڑکیوں کو جو اپنے ماں باپ کی عزت کا سودا کرتی ہیں اور انتہائی قابل نفرت ہوجاتی ہیں انہیں لے جا کر اس شمشان گھاٹ میں جلانا دینا چاہئے۔ہمارے مولانا حضرات اسے عورت کی بے راہ روی گردانتے ہیں اور اس جرم کی پاداش میں لڑکیوں کو ذندہ درگور کرنے کے درپے ہیں لیکن وہ کبھی بھی عورت پر ہونے والے مظالم پر آواز بلند نہیں کرتے۔اس وقت بھی نہیں جب کچھ وحشی مرد ایک نابینا ، مفلس اور نصف جھلسی ہوئی عورت، جو کہ مرد کے جنسی جزبات کو کسی طور بھی ورغلانے کا باعث بننے کے قابل نہیں،کو اپنی حوس کا نشانہ بناتے ہیں ۔وہ عورت کے لئے تو سزائیں تجویز کرتے ہیں لیکن ایسے مردوں کو قابل سزا نہیں گردانتے۔ جناب آپ کی تجویز کردہ ہلکی پھلکی مار تو عورت مدتوں سے سہہ رہی ہے یقین نہ آئے تو ایک سروے کر دیکھیں یہاں ہر دوسری یا تیسری عورت گھریلو تشدد کا شکار ہے حتی کہ پڑھی لکھی خواتین بھی ۔اگر پھر بھی آپ کے سفاکانہ جزبات کو تسکین نہیں ملتی تو ملک بھر میں جل کر کوئلہ ہوئی خواتین کے مردہ ڈھانچوں کی بڑی بڑی تصاویر جگہ جگہ آویزاں کر والیں اور آتے جاتے انہیں دیکھ کر اپنی اونچی پگڑیوں اورہرے،کالے،سفید عماموں کو درست کرتے ہوئے مونچھوں کو فخر سے تاؤ دیں اور مطمئن ہو جائیں ۔یہاں توکچھ پڑھے لکھے سکالرزبھی ایسے ہیں جنہیں عورت کی فحاشی تو دکھائی دیتی ہے لیکن اسکے تیزاب سے سڑے ہوئے یا آگ سے بھسم ہوئے وجود نظر نہیں پڑتے۔آج عورت جل رہی ہے اس سلگتی عورت کے ساتھ اسکی کوکھ بھی بھسم ہو رہی ہے۔ اور شاید ایسا اسی لئے ہورہا ہے کہ اس جہاں سے نسل انسانی کے خاتمے کا وقت قریب ہے۔۔۔۔۔۔