میڈیا ہمارا سماجی قتل کر رہا ہے

لکھاری کی تصویر
عافیہ شاکر

میڈیا ہمارا سماجی قتل کر رہا ہے

از، عافیہ شاکر

کیا آپ نے کبھی نیوز چینلز پر خبروں کی پیش کش کا جائزہ لیا ہے؟ نہیں لیا ہوگا_____اس لیے کہ ہم سب میڈیا کی سنسنی خیزی کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔ ہمیں سنسنی خیزی، چونکا دینے والے کیفیت اور پریشان کر دینے والی صورتِ حال کا سامنا نہ کرنا پڑے تو شاید ہم ٹی وی دیکھنا ہی چھوڑ دیں۔ چلیں۔۔۔ آج اپنے ٹی وی پر پیش کی جانے والی خبروں کا جائزہ لیجیے______نیوز کاسٹرز کس طرح خبروں کو بڑھا چڑھا کر پیش کر رہی ہوں گی۔ ساتھ مختلف لہجوں اور باڈی لینگوئج کا بھی سہارا لیا جا رہا ہوگا۔اگر کسی طرح بات نہیں بنے تو فوٹیج ہی ایسی لگا دی جاتی ہے کہ کھانا، پینا سب چھوٹ جاتا ہے۔
کبھی ہم نے سوچا کہ ایسا کیوں ہوتا ہے۔ اس لیے کہ ہم سب ایک خاموش قاتل کے حصار میں چلے آئے ہیں۔ میڈیا ہمارا سماج کا قاتل بنتا جا رہا ہے۔میڈیا کی ’’ہائپ‘‘ نے سب کچھ اپنے حصار میں لے لیا ہے۔ ہر طرف ’’چونکا دینے والی خبریں‘‘ پڑی مل رہی ہیں۔  ہمارا ارد گرد ہر طرف ایک ہلچل اور بے چینی میں ہے۔
پاکستانی میڈیا ابھی بڑھنے کے مراحل میں ہے۔ بے شک میڈیا کاکام بروقت خبر عوام تک پہنچانا ہے، معیاری اور درست صورتِ حال کا نقشہ کھینچنا ہے، تجزیہ کرنا ہے اور محکوم طبقوں کو حق دلانا ہے لیکن ریٹنگ اور مقابلہ بازی کے چکر میں ان ایشوز کے نام پر عوام کو بیوقوف بنایا جارہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ہمارے ارد گرد ماحول ہی ایسا ہے ، میڈیا وہی کچھ دکھا رہا ہے۔ مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔خبریں اس طرح نہیں ہوتیں جس طرح دکھائی جاتی ہیں۔اگر کوئی خبر نہ ہو تو خود بنالی جاتی ہے۔سوشل میڈیا پہ ایدھی صاحب کی وفات سے پہلے کئی مرتبہ ان کی موت کی خبر دی گئی۔ اسی طرح آج کل عمران خان کی شادی کی خبریں پھر زور پکڑ رہی ہیں۔ کیا پاکستانی میڈیا کے کوئی پرامیٹرز ہیں جو ایک اخلاقی ضابطہ کہلا سکے؟
سب سے پہلے نیوز بریک کرنے کی دوڑ میں جو خطرناک چیز جنم لے رہی ہے  وہ ہے ’’میڈیاسٹریس‘‘___پچھلے دنوں عید کا چاند دیکھنے کے سلسلے میں میڈیا کے نماندوں نے کانفرنس ہال میں اس قدر تناؤ کا ماحول پیدا کر دیا کہ نہایت دھیمے مزاج والے مفتی منیب الرحمن بھی جلال میں آ گئے۔بات کیا تھی کہ کسی طرح چاند دکھا دیا جائے اور سب سے پہلے میں اپنے چینل کو خبر دے دوں۔
اسی میڈیا سٹریس میں پوری قوم مبتلا ہے ، ٹی وی کا چہرہ خون میں لت پت ہوتا ہے۔جب ٹی وی لگائیں، ہر طرف لاشیں اور احتجاج ___، حکومت اب گئی اور اب گئی____اورجب سوشل میڈیا کی طرف رُخ کیا جائے تو ہاٹ کمنٹس کا انبار لگا ہوتا ہے۔ایک دوسرے کو گالیاں دی جا رہی ہوتی ہیں۔نہایت جذباتی پوسٹیں لگائی جا رہی ہوتی ہیں۔ ان حالات میں گھر بیٹھا شخص بھی ڈپریشن کا شکار ہو جاتا ہے۔مسلسل تناؤ کو Chronic Stressکہتے ہیں جس کے نتیجے میں ایک بڑی تعداد PTSDیعنی Post-Traumic Stress Disorderکا شکار ہو رہی ہے۔انسانی دماغی بے ترتیبیوں(Disorders)کی وجہ سے ہائی بلڈ پریشر،ڈپریشن اور نیند میں خلل پیدا ہوتا ہے۔ مستقل سٹریس کی وجہ سے دماغ سکڑ جاتا ہے اور دماغی خلیے یعنی Neuronsکی تعداد میں کمی واقع ہوجاتی ہے۔ دماغ کا اپنے ایک جزوamygdalaسے ربط کمزور ہو جاتا ہے۔ اس جزو کا کام ہمارے احساسات(Emotions)کا اظہار ہوتا ہے۔ مستقل تناؤ میں رہنے کی وجہ سے طبیعت میں چڑچڑا پن آ جاتا ہے۔ اسےMood Swingکہتے ہیں۔ اس سے انسان کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت پر بھی برا اثر پڑتا ہے۔یا انسان وہی کچھ سوچتا ہے جس سے اُسے کچھ طمانیت ملے، ذرا سا اختلاف ناقابلِ برداشت ہو جاتا ہے۔
کسی بھی ہنگامی صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے ہمارے جسم میں Cortisolنامی Hormoneپیدا ہوتا ہے۔ مسلسل ملنے والے سٹریس کی وجہ سے اس کی مقدار میں غیر معمولی اضافہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے جسم مسلسل ہنگامی حالت(Emergency)میں رہتا ہے۔ جس کی وجہ سے انسان ہائی بلڈ پریشر کے مرض اور Anorexiaیعنی بھوک نہ لگنا وغیرہ کا شکار ہو جاتا ہے جو جسم میں قوتِ مدافعت کو کم کرنے کا باعث بنتاہے۔
آپ دیکھیے میڈیا جو سنسنی پھیلا رہا ہے اس کی وجہ سے عوام کس قدر سنگین صورتِ حال سے گزر رہے ہیں۔اس طبعی تبدیلیوں کو بتانا ناگزیر اس لیے بھی ہے تاکہ ہم اپنے ماحول کو تنقیدی نگاہ سے دیکھ سکیں۔ ہم جان سکیں کہ کس طرح ہمیں ایک مستقل عذاب دیا جا رہا ہے۔ کہتے ہیں کہ کسی خبر یا واقعہ میں خوف ناک پہلو بھی موجود ہو تو اسے اُس Dozeکی طرح دماغ کے اعصاب تک پہنچایا جانا چاہیے کہ گراں نہ گزرے بلکہ اُس سے ردعمل کا امکان کم ہو جائے مگر یہاں اس سنگین جرم پر ریٹنگ کی جاتی ہے اور کاروبار سجائے جاتے ہیں۔
پیمرا(Pemra)کا کردار اس سلسلے میں بہت اہم ہونا چاہیے۔ خاص طور پر جرائم کی عکس بندی کے حوالے سے میڈیا کو لگام ڈالنا بہت ضروری ہے۔Re-actmentپر مکمل پابندی ہونی چاہیے۔ایسا نہ ہو کہ ہم بہ حیثیت قوم عادی جنگی قیدیوں کی طرح بے حس اور بے مقصد ہو جائیں۔ابھی کچھ رمق باقی ہے۔ اللہ نگہبان ہو۔

About عافیہ شاکر 7 Articles
عافیہ شاکر میڈیکل کی سالِ اول کی طالبہ ہیں۔ سائنس اور سماجیات دونوں میں دل چسپی لیتی ہیں۔ فطری اور سماجی سائنس کو میڈیکل کی تعلیم کے لیے ناگزیر سمجھتی ہیں۔ مستقبل میں سائنسی فورم بنانے کا ارادہ رکھتی ہیں اس کے لیے اچھی کتابوں کے تراجم میں بھی دلچسپی لیتی ہیں۔

2 Comments

  1. بہت خوبصورت، ان موضوعات پر گفتگو ہونی چاہیئے جو ہماری پوری سوسائیٹی کو بیمار کر رہے ہیں۔

  2. انتہائی۔اہم موضوع پر !!!! بہترین تحریر ۔ مدلل اور رواں اسلوب دیگر عنوانات بھی دلچسپ مزید رائے پڑھنے کے بعد

1 Trackback / Pingback

  1. خواہش اور خبر — aik Rozan ایک روزن

Comments are closed.