کچھ وقت موجود کا جو ہو ادراک: علوم اسلامیہ میں تحقیق کے نئے چیلنجز

writer's name
ڈاکٹر عرفان شہزاد

کچھ وقت موجود کا جو ہو ادراک: علوم اسلامیہ میں تحقیق کے نئے چیلنجز

از، ڈاکٹر عرفان شہزاد

علامہ اقبال نے پنجابی مسلمان کے بارے میں کہا تھا:

تحقیق کی بازی ہو تو شرکت نہیں کرتا
ہو کھیل مریدی کا تو ہرتا ہے بہت جلد
تاویل کا پھندا کوئی صیاد لگا دے
یہ شاخ نشیمن سے اترتا ہے بہت جلد

حقیقت یہ ہے کہ یہ مزاج صرف پنجابی مسلمان کا نہیں بلکہ سارے مسلمانوں کو آج ہو گیا ہوا ہے۔ ہم جب تحقیق کی طرف آئے بھی ہیں تو اسی تقلیدی مزاج کے ساتھ۔ جب میں نے تحقیق کی دنیا میں قدم رکھا تو میرے ایک بہی خواہ سینئر محقق نے مجھے نصیحت کی کہ کوئی نئی بات تحقیق میں نہ لے آنا، دفاع کرنا مشکل ہو جائے گا اور نتیجتًا ڈگری ملنا مشکل ہو جائے گا۔ جو بھی لکھنا دیکھ لینا کہ پہلے کسی نے یہ کہا ہو، اس کا حوالہ دے دینا۔ یہ ہے جناب ایک وجہ ہمارے ہاں تحقیق کے نئے زاویے نہ کھل سکنے کی۔

ہمیں یہ کہہ سکتے ہیں کہ تحقیق کے نئے زاویے تب وا ہو سکتے ہیں جب آپ کا محقق طالب علم سوال کرنا جانتا ہو۔ لیکن افسوس ناک صورتِ حال یہ ہے کہ سوال کرنے کی پذیرائی بہت ہی کم کی جاتی ہے۔ تجسس اور تحقیق کا مادہ پیدائشی اور فطری ہوتا ہے لیکن ہمارے ہاں اس کو بڑی محنت سے ختم کیا جاتا ہے۔ سکول، کالجز تو ایک طرف ہیں یونیورسٹیوں میں بھی ایسا ہی ماحول پایا جاتا ہے ۔ کم از کم یونیورسٹیز میں ایساماحول نہیں ہوناچاہیےتھا۔ہونا یہ چاہیے کہ علمی آمریت کی بجائے ، علمی مکالمہ کی فضا بنائی جائے۔ ضرورت ہے کہ سوال کرنے کی حوصلہ افزائی کی جائے تب ہی تحقیق کی منازل طے کی جاسکتی ہیں اور تحقیق میں نئے روزن وا کیے جاسکتے ہیں۔

اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ سوال کیسے پیدا ہو؟ سوال پیدا ہوتا ہے، بے لاگ مطالعہ سے، غیر متعصب تفکر سےاور جاندار مشاہدہ سے۔

جہاں تک تعلق ہے بے لاگ مطالعہ کا، توعرض ہے کہ انسانوں کی تحقیق کو حرفِ آخر سمجھنے والا محقق نہیں ہو سکتا۔ اور پھر اپنے مسلک اور مشرب کے مطالعہ میں محدود شخص تحقیق کے نئے زاویے کبھی نہیں دیکھ سکتا۔
شاعر نے کہا تھا:

نہ ہو کفر مقابل تو لطف ایماں کیا؟

اشیاء اپنی ضد یعنی مخالف سے پہچانی جاتی ہیں۔ اپنے مذھب، مسلک اور مشرب کے دائرے تک محدود رہنا اور خود کو برحق سمجھنا، اکیلے دوڑ کر اوّل آنے والی بات ہے۔ دوسری بات یہ کہ غیر متعصب تفکر، بہت مشکل کام ہے۔ اس کے لیے خود کو غیر جانبدار بنانے کی سخت، طویل، شعوری محنت کرنا پڑتی ہے۔ اس خصوصیت کے حامل مشرق میں تو کجا، مغرب میں بھی کم ہیں۔

تیسری بات یہ ہے کہ جاندار مشاہدہ سے میری مراد یہ ہے کہ آپ کا علم آپ کو معاشرے سے کاٹ نہ دے کہ لوگ کفر اختیار کرنے پر مجبور ہو رہے ہوں اور اور آپ حیلہ ناجزہ اختیار کرنے سے انکار کر رہے ہوں۔ چوتھی بات یہ ہے کہ تحقیق میں نئے زاوئے تب وا ہوتے ہیں جب آپ کو نئے چیلنجز کا ادراک ہو۔اور آ پ پوری صلاحیت سے اپنے مطالعہ اور سمجھ بوجھ کے اطلاق کی ہمت رکھتے ہوں۔

آج کے چیلنجز بہت بڑے چیلنجز ہیں۔ان کا علمی جواب دینا آسان نہیں۔ نظریاتی میدانوں میں پہلوں کےجو جواب آج کی نسل کو مطمئن نہیں کر پا رہے ہیں، ان کو دہرانے سے کوئی فائدہ نہیں ۔ضروری ہے کہ چیلنجز کا مکمل ادراک کرتے ہوئے نئے جواب تلاش کئے جائیں۔

اب یہاں تحقیق کے چند نئے زاویوں کو پیش کرنےکی جسارت کرتا ہوں جو میرے محدود مطالعے اور مشاہدے میں آئے ہیں۔

1۔ میری نظر میں اسلام کو درپیش نظریاتی چیلینجز آج کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ مثلًا داعش اور طالبان قرآن اور حدیث سے ثابت کرتے ہیں کہ وہ جس منزل کے حصول کے لیے یہ سب جو کر رہے ہیں، وہ خود ہماری کتابوں میں لکھا ہوا ہے، اور وہ  قرآن ، حدیث اور فقہ سے حوالے دیتے ہیں۔ ان کو جواب دینا آسان نہیں۔ ہمیں دیکھنا ہوگا کہ مذھبی بیانیہ کہاں غلط ہوا، جس نے ان جیسی تنظیموں کی صورت اختیار کر لی اور درست بیانیہ کیا ہے۔ یہ تحقیق کا بہت اہم موضوع ہے۔ شدت پسندی کی جتنی دیگر صورتین ہیں ان کا بھی یہی مسئلہ ہے۔

2۔ اسی طرح الحاد ، کا بہت غلغلہ ہوا ہے۔ فلسفہِ وجودیت کے زیرِ اثر ، الحاد نے لا ادریت کے سائے میں انسان کو نئے الحاد سے متعارف کرایا ہے جو خدا کا انکار تو نہیں کرتا مگر اس اقرار بھی نہیں کرتا، یہ نیا الحاد مسلمان کو غیر مسلم تو نہیں بناتا لیکن اسے مسلمان بھی نہیں چھوڑتا۔ یہ دعوت وتحقیق کا بڑا میدان ہے۔

3۔ قرآن کی تفسیر شانِ نزول کے تحت کرنےسے قرآن کی سورتوں کی ترتیب کی کیا اہمیت رہ جاتی ہے؟ بلکہ سورتوں کے اندر آیات کی ترتیب کی اہمیت کیا رہ جاتی ہے؟ شاہ ولی اللہ کا نقطہ نظر اہل علم جانتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود شان نزول کو اب بھی تفسیر کی کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ قرآن کی سورتوں اور آیات کی ترتیب اور شان نزول کی اپنی اپنی حیثیت متعین کرنا بہت ضروری ہے۔ اگر ایسا ہو جائے تو قرآن کے تفسیری اختلافات کے حل کرنے میں بہت مدد مل سکتی ہے اور اس سے مسلکی چپقلش ختم کرنے کی راہ کھل جائے گی ۔یہ تحقیق کا اہم موضوع ہے۔ اس طرح بے شمار سوالات ہیں جو پیدا ہوتے ہیں۔لیکن اس کے لئے بیدارعقل اور بے لاگ مطالعہ درکار ہے۔

آخر میں تحقیق و تدوین کے بارے میں اپنے محدود تجربے کی روشنی میں چند گزارشات کرنا چاہوں گا جو یقینا محققیقن کے لیے مفید ثابت ہوں گی:

1۔ یہ بات مشاہدہ میں آئی ہے کہ ہمارے ہاں عمومًا تحقیقی مزاج کی کمی ہے اسی کی نتیجہ ہے کہ تحقیقی مقالہ جات کا اسلوبِ بیان بھی تحقیقی مزاج کا حامل نہیں ۔ ایک مقالے میں یہ الفاظ نظر سے گزرے: Allah created him for to serve this purpose ۔ آپ کو کیسے معلوم ہو ا کہ اللہ کا ان کو پیدا کرنے کا یہ مقصد تھا؟

تعلم ما فی نفسی و لا اعلم ما فی نفسک۔

“تو جانتا ہے میرے دل میں کیا ہے۔ میں نہیں جانتا کہ تیرے دل میں کیا ہے۔”

یہ تحقیق کا اسلوب ِ بیان نہیں۔ میں نے ایک بار اپنا ایک آرٹیکل اوسلو یونیورسٹی کے ایک دوست کو دکھایا، اس نے کہا کہ آپ نے کہیں کہیں subjective language استعمال کی ہے، میں نے کہا، کہاں، اس نے بتایا کہ آپ بار بار لکھ رہے ہیں تو the holy prophet، وہ  ہولی یعنی مقدس بے شک ہیں، لیکن تحقیق میں اس لفظ کا بار بار استعمال subjectivity کہلاتا ہے اور تحقیقی اسلوب میں مناسب نہیں سمجھا جاتا۔

یہ ایک وجہ ہے ہمارے طلباء کے مقالہ جات، بین الاقوامی جریدوں میں شائع نہ ہو سکنے کی۔ہماے ہاں تو مقالوں میں دعائیں تک بھی لوگ لکھ دیتے ہیں، جیسے اللہ ان کے درجات بلند کرے، طنز بھی، جیسے ‘فاضل عالم کو تو یہ بھی معلوم نہین’، اور ‘ لگتا ہے فلاں صاحب تو فلاں علم کی ابجد سے بھی واقف نہیں۔

یہ بات دھیان میں رکھنے کی ہے کہ تحقیق کی زبان معروضی یعنی objective، اور خارجی نوعیت کی ہوتی ہے، اس میں داخلیت یعنی subjectivity کا کوئی شائبہ نہیں ہونا چاہیے۔

دوسری بات یہ ہے کہ محققین کوچاہیے کہ کمپیوٹر یا لیپ ٹاپ پر ٹائپ کر کے لکھا کریں۔ ٹائپنگ 3 سے 4 دن میں آ جاتی ہے۔ اس سے وقت اور توانائی کی بہت بچت ہوتی ہے۔ کانٹ چھانٹ کرنا آسان ہوتا۔ ترامیم کرنا بہت آسان ہوتاہے۔ چھوٹی موٹی ترامیم کی وجہ سے بار بار پورے پورے صفحے لکھنے نہیں پڑتے۔ اردو ، عربی، انگریزی تینوں کی ٹائپنگ آنی چاہیے۔ فونیٹک کی بورڈ اگر استعمال کریں تو الگ الگ کیز یاد رکھنے کی ضرورت بھی نہیں پڑتی۔

انٹرنیٹ کے استعمال کے طریقے سیکھیں تو تحقیق میں بہت آسانی رہتی ہے اور اچھی تحقیق کی جا سکتی ہے۔ ان پیج کی جگہ ایم ایس ورڈ زیادہ مفید ہے۔ اس میں زیادہ فنکشنز ہیں۔ مثلا آپ حوالہ جات کو آٹو میٹک طریقے سے ڈال سکتے ہیں۔ اگر ایک حوالہ ختم کرنا پڑے یا حوالہ تبدیل کرنا پڑے تو بقیہ حوالہ جات کے نمبر خود بخود ایڈجسٹ ہو جاتے ہیں۔ یہ کام ہاتھ سے کرنا پڑے تو بے حد وقت صرف ہوتا ہے ۔

جو محققین انگریزی میں لکھتے ہیں ان کے لئے ضروری ہے کہ اپنے مقالہ جات کے غیر انگریزی الفاظ کی ٹرانسلیٹیریشن ضرور کریں۔، اس کے بغیر ان کے مقالہ جات بین الاقوامی سطح پر پذیرائی نہیں پا سکتے۔

4 Comments

  1. نہایت اہم موضوع پر نہایت اہم ڈیبیٹ۔۔۔ کاش ہمارے علما کرام اس طرح کے مسائل کو علمی انداز سے دیکھنے کی عادت اپنائیں۔ شاید ہم اس طرح اس کشتئ فکر کو کسی کنارے لگا سکیں
    ڈاکٹر صاحب کا شکریہ

Comments are closed.