داستانِ سیرِبلتستان (دوسری قسط)

داستان سیر بلتستان (دوسری قسط)

داستان سیر بلتستان (دوسری قسط)

از، علی اکبر ناطق

خپلو،،،، دلاورعباس ،ذی جاہ ، دلاور کا دوست تنویر اور مَیں تیسرے دن سویرے طوطیوں کی چہکار کے ساتھ ہی خپلو روانہ ہو گئے ۔ گاڑی کی باگ تنویر کے ہاتھ میں تھی جو ایک جی دار انسان کے ساتھ عمدہ کار سوار بھی ہے ۔ خپلو

سکردو سے پچاس یا ساٹھ میل دور شمال مشرق کی طرف ہے ۔ تمام سفر دریائے سندھ کے کنارے کنارے اور چیر ی ،خوبانی ،شہتوت،ناشپاتی،سیب،آڑو اور اخروٹ، اور سہانجنے کے درختوں کے سائے سائے طے ہوتا ہے ۔ کہیں کہیں خشک چٹانیں بھی آتی ہیں مگر کم کم آتی ہیں ۔ چھوٹے چھوٹے سینکڑوں ہی گاوں سڑک اور دریا کے کنارے کنارے آباد ہیں جن کے بسنے والے اور بسنے والیاں اپنی چھوٹی مگر ہری بھری کھیتیوں میں کام کرتی نظر آتی ہیں ،اِن کھیتیوں کو سیراب کرنے والے سینکڑوں چشمے اور ندی نالے سرد اور اُؤنچے پہاڑوں سے گویا پگھلی ہوئی چاندی بہا کر لاتے ہیں اور کھیتیوں میں چھوڑ دیتے ہیں ۔ جہاں تک چلتے جایئے سڑک کے دو رویہ پاپلر کے سرو قامت درختوں اور خوبانی کے پیڑوں کے جھنڈ کے جھنڈ نگاہِ مسافرانہ کواصلی سبز باغ دکھاتے ہیں ۔ گاوں میں پھلدار درختوں کی چھاوں ایسی ایسی گھنی تھی کہ وہیں پِسر جانے کو جی کرتا تھا ۔ کئی بار ہم گاڑی سے اُترے شہتوت اور خوبانی کے درختوں کی چھاوں میں بہتے شفاف چشموں اور ندیوں اور نالوں کے آبِ حیات سے جی ٹھنڈا کیا، خنک ہوا سے فرحت لی ،درختوں سے تازہ پھل کھایا اور آگے کی اُور رینگے ۔ ایک کے بعد دوسرا گاوں ہمارے پاوں پکڑ لیتا تھا اور آگے جانے سے روکتا تھا اور کہتا تھا کہ یہاں سے آگے کہیں جنت ہے تو شوق سے جائیے ورنہ زندگی یہیں کاٹ دیجیے مگر ہم لطفِ منظر لے کر حسرتانہ گزر جاتے تھے ۔ تیس میل سکردو سے دور نکل کر ایک حصہ مہدی آباد اور منٹھوکا آبشار کی طرف ہو جاتا ہے اور دوسرا خپلوکی طرف ،جس سمت سیاچن کا بکھیڑا بھی ہے ، ہم اُسی سمت کو پھِر گئے اور دریا کے شانہ بشانہ پہلو ملاتے ملہاریں گاتے چلے جاتے تھے ۔ خدا گواہ ہے بے نور آنکھیں پُر نور ہوئی جاتی تھیں اور جذبوں کی ویران وادی میں سر سبزی بھری جاتی تھی ۔ دل کی گرہیں ،جو شہروں کی بے رونقی سے مضبوط ہو چکی تھیں ،یہاں کھُلتی جاتی تھیں ۔ 2 کچھ آگے گئے تو اچانک ہمیں ایک مصیبت نے آ لیا ۔ خدا جانتا ہے اِس بھرے پُرے مومنین کے خطے میں کہاں سے وہابیوں کا ایک قافلہ نمودار ہو گیا ۔ دس بارہ گاڑیاں داڑھی دار جانوروں سے بھری ہوئی ہمارے آگے سے نکل سڑک پر بھر گئیں ۔ سڑک تنگ تھی اور یہ مولوی چوڑے ،اُس پر طرہ یہ کہ آپے سے باہر جانے کیا کیا نعرے بکے جاتے تھے اور راستا نہیں دیتے تھے ،نہ ہم میں راسا مانگنے کی جرات تھی کہ عقل کی آواز کا شور کے بیچ کیا کام ۔ مولوی حضرات گاڑیوں کے اندر لدے تھے اور جوان لونڈے (سب نے داڑھیاں چھوڑ رکھی تھیں ) اُن جیپوں کی چھتوں پر اور اِدھر اُدھر مڈگارڈوں کے ساتھ لٹکے تھے ۔ ان کے ہاتھوں میں نعرہ تکبیر کے جھنڈے تھے اور زبانوں پر طرح طرح کے آگ بگولا نعرے تھے ۔ یہ جیپیں نہ خود تیز دوڑتی تھیں ،نہ رستہ دیتی تھیں ۔ بس ہمارے سروں پر خاک پھینکتی چلی جاتی تھیں ۔ پتا چلا کہ خپلو تک جائیں گے اور سارا رستہ یونہی ہمارا جی جلائیں گے ۔ واللہ اِنھوں نے تمام سفر کا مزا ایک دم کِرکرا کر دیا۔ رستے میں کئی گاوں ایسے تھے کہ ہمیں اِن کی وجہ سے بے بصارت ہی گزارنے پڑے ۔ اللہ اللہ کر کے نعرہ ء تکبیر کے سائے میں ہم خپلو کے علاقے کی حدود میں داخل ہو گئے ۔ وہاں ایک جگہ پولیس کا ناکہ لگا تھا ۔ پولیس نے اس بے ہنگم ریلی کو وہیں روک لیا اور کہا کے اُنھیں شہر میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ۔ وہاں اِن کا پولیس کے ساتھ دنگا شروع ہوگیا ۔ہم چاروں ڈر کے مارے ایک ٹیلے پر چڑھ گئے اور یہ منظر دیکھنے لگے ۔ سب سے بڑی مصیبت یہ تھی کہ پولیس بھی کہیں ہمیں اِنھی کا ساتھی نہ سمجھ لے۔ اِسی کشمکش میں ہم نے ایک پولیس افسر سے اپنی بپتا بیان کی کہ کس طرح دُور سے اِن کی قید میں چلے آتے ہیں اور راہ نہیں پاتے ہیں ۔ اللہ بھلا کرے پولیس کے سمجھ دار افسر کا ،اُس نے ہمارا درد پہچان کر راستا دیا اور اُن کے چُنگل سے آزاد کرایا اور اُن کو لاٹھی چارج سے بھگایا ۔ چنانچہ جدھر سے یہ ریوڑ آیا تھا اُدھر ہی کو دفان ہوا۔ یوں ہماری اُن دیو مانسوں سے جان چھٹی اور کچھ ہی دیر میں خپلو کی ٹھنڈے سایوں والی دہلیز پر قدم رکھا ۔ بڑے اور گہرے درختوں کی دھرتی نے ہمیں اپنے دامن میں گویا چھپا لیا ۔ تھوڑی دیر پی ٹی ڈی سی ہو ٹل میں ٹھیکی لی ، وہاں کے دوستوں سے درود و صلواۃ ہوئی ،چائے پی اور اگلی منزل کی طرف کوچ کیا ۔ کچھ فاصلہ ، غالباً چار یا پانچ میل طے کرنے کے بعد لکڑی یا کشتی پُل کہہ لیں ، کے ذریعے دریا کو مکرر پار کیا ۔ پُل سے اُترتے ہی گول اور سنہرے پتھروں سے بھری ہوئی وادی میں داخل ہو گئے ۔ یہ وادی پہلے دریا کا پاٹ تھی مگر چند سالوں سے دریا نے اِسے تنہا چھوڑ دیا ہے اور شرقی سمت کو آبِ نعمت سے فیضیاب کر رہا ہے ۔ اِس وادی میں سے گزرنے کے لیے مقامی لوگوں نے چھوٹے چھوٹے گول پتھروں سے ایک سڑک بچھا رکھی ہے جہاں سے ہمارے جیسے آوارہ منش گاڑی موٹر سائکل وغیرہ گزار کر سیلنگ کی طرف جاتے ہیں ۔ اِس کے چاروں اُور پہاڑوں کا منظر ایسا ہے ،جیسے آسمان کی چھت کو سہار دینے کے واسطے اُونچے اور چوڑے ستون کھڑے کر دیے گئے ہوں ۔ جن پر اُونچی کلغی والا آسمان کھڑآ زمین کے کیڑے مکوڑوں پر نیلی بصارت پھینک رہا ہو ۔ پہاڑوں کی یہ فصیلیں دل پر ہیبت ایسی طاری کرتی ہیں کہ نگاہ بلند نہیں اُٹھتی ۔ 3 سیلنگ ہمارا پڑاو تھا اور ہم کچھ ہی دیر بعد وہاں موجود ہو گئے ۔ اب اس جگہ کا قصہ میں کیا کہوں ،جھیلیں ہی جھیلیں تھیں ، میٹھے پانی کی جھیلیں ،ٹھنڈے پانی کی جھیلیں ، ٹراوٹ مچھلی والی جھیلیں اور دریا کی پڑوسن جھیلیں ،بڑی بڑی اور گھنی اور خوشبو دار اور ہری بھری اور سُرمئی جھاڑیوں والی جھیلیں ۔غرض انھیں کوئی نام دے لیں ، اتنی زیادہ تھیں کہ نظریں ایک کو دیکھ کر دوسری کی طرف دوڑتی تھیں ۔ اور جھاڑیوں کے درمیان کبھی اِن کا رنگ سبز نظر آتا ، کبھی بادل گھِر آنے سے سُرمئی ہو جاتا ، کبھی آسمان صاف ہونے پر نیلمی روپ دھار لیتیں اور اپنے اندر سے باہر کے سب جلوے آئینے کی طرح دکھاتیں ۔ یعنی ، آسمان ، بادل ، جھاڑیاں ، خوبصورت ناریاں ، ،ہم نے تو اِنھیں جھیلوں کے آئینوں سے دیکھے ۔ پہلو میں شیر دریا بہتا ہے ۔ ہمارا جی نہانے کو پُر جوش ہوتا تھا مگر پانی ٹھنڈا اتنا کہ بیچ میں پاوں رکھتے ہی جوش پھر سرد پڑ جاتا تھا مگر ہائے ،وہاں کے چھوٹے چھوٹے بالکے اُن جھیلوں کے اندر ایسے ڈبکیاں بھرتے پھرتے تھے اور تیرے پھرتے تھے، جیسے مچھلیوں کے بطن سے نکلے ہوں ، مگر ہماری ہمت نہ پڑتی تھی کہ اُن کا ساتھی بنیں ۔ بس دیکھ کے رہ جاتے تھے ۔ بہت لوگ اور بھی سیر کے واسطے پھر رہے تھے ۔اپنے اپنے پکوان لیے اور سیلفی کیمرے لیے ۔ ہم کھانے کو کچھ نہ لے گئے تھے اور اُن کے پکوانوں پر حسرت سے نظر کرتے تھے ، کہ اتنے میں وہیں ہمارا یعنی دلاور عباس اور کا ایک دوست مل گیا جو اپنے ساتھ وافر کھانا لایا تھا ۔ اللہ اُس کا بھلا کرے ،اُس نے ہماری سیر دوبالا کر دی ۔ یہاں ایک دوکان بھی ہے ، جس میں سوائےسیون اپ اور بھُنی دال کے کچھ دستیاب نہیں البتہ پاس ہی ایک پارک ہے ، اِس میں ٹروٹ مچھلیاں سیاحؤں کو دکھانے کے واسطے چھوڑ رکھی ہیں ۔ اسی میں کھانے پینے کی ایک چھوٹی سی ہوٹل بھی ہے، مگر ہم وہاں سے کچھ نہ کھا سکے ۔ یہاں دلاور عباس کا ایک دوست سیلفی والا کیمرہ بھی لے آیا ،جس کی کھنچی ہوئی تصویریں آپ دیکھیں گے ۔ اس جگہ سے ہلنے کو جی نہیں کرتا تھا مگر اس مقام سے متعلق ایک کہاوت ہے کہ یہ وادی اور جھیلیں دن کے وقت انسانوں کے لیے ہیں اور رات کو پریوں کے واسطے ہیں ۔لہذا لوگوں کو دن ہی دن میں یہاں سے چلا جانا چاہیئے ۔ کہاوت جھوٹی ہو یا سچی ،مجھے اس سے غرض نہیں مگر اتنا وثوق سے کہتا ہوں کہ بچپن میں دادی اماں جن پربتوں اور جھیلوں کے بارے میں بیان کرتی تھیں کہ وہاں دیو اور پریاں رہتی ہیں اور شہزادہ اُن کے چنگل میں پھنس جاتا ہے ،وہ یہی جگہ ہے ۔ اور میں تو بھائی شہزادہ ہوں یا نہ ہوں مگر اُس جگہ کے چنگل میں پھنس چکا ہوں ، ۔دلاور عباس تیرا اور تیرے دوست تنویر کا کس منہ سے شکر ادا کروں کے تم نے مجھے دادی اماں کی کہانی والے دیس کی ،پربت کی اور جھیلوں کی سیر کرا دی ۔خیر پانچ بجے شام تک ہم نے یہیں پاوں پسارے ،جھیلوں کے کنارے ،بلند پہاڑوں کو دیکھا ، ٹھنڈی ہواوں کو چھوا، نیلے پریوں کا لمس محسوس کیا اور اِن دو شیشے جیسی آنکھوں سے اُن کی زیارت کی ۔ واپسی پر گول گاوں میں رُکے چائے پی ،اور گاوں کے چشموں پر منہ دھویا ، رات آٹھ بجے واپس سکردو لوٹے ۔ اور اگلے دن سنگریلا اور کچورا کا منصوبہ گانٹھا اور سو لیے ، لو بھئی کل کچورا کا دل فریب قصہ سُنیے گا ۔( جاری ہے )