میں تیسرے درجے کا شہری کیوں

ایک روزن لکھاری
ظہیر استوری ، صاحب مضمون

میں تیسرے درجے کا شہری کیوں

از، ظہیر استوری

پاکستان کی تاریخ رہی ہے کہ لوگوں کو بنیادی حقوق دیتے نہیں بلکہ لیے جاتے ہیں۔ مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے میں بنیادی کردار پاکستان کا اپنا تھا، بلوچستان کو علحیدگی پسند بنانے میں پاکستان کا کردار بنیادی، مجاھدین بنائے پاکستان نے، طالبان اس کی پیداوار، مگر جب اس کے نتائج سامنے آئے تو پھر بیٹھ کے رو دیے کہ ہم تو دنیا کی مظلوم قوم ہیں اور ڈنڈھورا پیٹتے ہیں کہ ہماری قربانی سب سے زیادہ ہے۔ اندرونی صورت حال  یہ ہے کہ ایک دوسرے کے خلاف فتوے لگانے کے علاوہ کوئی کام بچا نہیں ہے۔

گلگت بلتستان کے ساتھ بھی یہی ہوتا آ رہا ہے۔ 1988 میں مولوی ضیاالحق نے “اسلام” کے نام پہ فرقہ واریت کی بنیاد یہاں سے جوڑ دی، اسامہ بن لادن اینڈ کمپنی کو ملٹری آشیر باد کے ساتھ اس سرزمین میں قدم رکھوایا اور فوجی گاڑیوں اور اسلحے کے ساتھ ایک خونخوار درندے کی طرح چھوڑ دیا۔ شیعہ سنی کے نام پہ ہزاروں لوگوں کا خون کرایا، ہزاروں گھر جلائے گئے، عورتوں اور بچوں کا قتل عام ہوا۔

تب سے آج تک شیعہ سنی ایک دوسرے کو واجب القتل سمجھتے آرہے ہیں اور جب بھی موقع ملتا ہے ایک دوسرے کی جان لینا ایک مذہبی فریضہ سمجھتے ہیں۔ ملٹری ایجنسیاں اس حد تک آزاد ہیں کہ کسی بھی بندے کو کسی بھی وقت بغیر کسی جرم و الزام کے غیر معینہ مدت تک اٹھا لیتی ہیں اور پوچھنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ ہزاروں ایکڑ زمینیں ان کی ملکیت ہیں۔ اعلٰی عدالتوں کے دروازے ہمارے لیے بند ہیں، نیشنل اسمبلی اور سینیٹ میں ہمارا داخلہ ممنوع ہے، سرکاری نوکریوں میں ہمارا حق نہیں ہے، لے دے کے ایک کاروبار بچا تھا اس میں بھی اب ٹیکس کے نام پہ لوگوں سے یہ حق بھی چھیننا شروع کردیا ہے۔ کوئی بھی ریاست اپنے شہریوں پر اس وقت تک ٹیکس نہیں لگا سکتی جب تک وہ اس کو بنیادی حقوق نہ دے سکے۔

اس ملک کے لیے ہم سے زیادہ کس نے قربانی دی ہے۔ کارگل سے لے کے ضربِ عضب تک، ضربِ عضب سے لے کر رد الفساد تک، سیاچن کی آسمان چھوتی برفانی چوٹیوں سے لے کر وزیرستان کی جان لیوا فسادی سرزمین تک اس ملک کی بقا کی خاطر سب سے زیادہ لہو اسی دھرتی کا ہے۔ ٹورزم انڈسٹری سے کروڑوں روپے سالانہ آمدنی ہوتی ہے اس کا پانچ فی صد بھی گلگت بلتستان کو نہیں ملتا، نانگا پربت، کے ٹو، اور گلیشئیرز کا نام جب آتا ہے تو بڑے فخر سے پاکستان کے نام کے ساتھ جوڑا جاتا ہے مگر حقوق کی جب بات آتی ہے تو جی بی آرڈر 2018 کی شکل میں اسے جدید زمانے کی لونڈی بنایا جاتا ہے۔

2017 میں ہیومن رائٹس کی رپورٹ کے مطابق نیشنل ایکشن پلان کے تحت ایجنسیوں کو کھلی چھوٹ دی گئی ہے کہ وہ جسے چاہیں جب چاہے بغیر کسی وجہ کے غیر معینہ مدت کے لیے حبسِ بے جا میں رکھ سکتی ہیں۔ ان اختیارات کی بنیاد پر ہزاروں ایسے نوجوان ہیں جن کا آج بھی کسی کو معلوم نہیں کہ وہ زندہ بھی ہیں یا نہیں۔ اس پر مزید ستم گری یہ ہے کہ نہ ہی سپریم کورٹ میں کوئی شنوائی ہوتی ہے اور نہ ہی پاکستانی میڈیا اس پہ بات کر سکتا ہے۔

ہیومن رائٹس کی اسی رپورٹ پر مرحومہ عاصمہ جہانگیر نے بی بی سی سے ایک انٹرویو میں فرمایا تھا “نیشنل ایکشن پلان کے تحت خفیہ اداروں کو اختیارات دے دیے گئے ہیں کہ وہ لوگوں پر نظر رکھیں اور جب بیس بائیس برس کے نوجوان واچ لسٹ پر ہوں گے تو اس سے خوف کی فضا تو پیدا ہو گی۔ اگر کوئی ذرا سی بھی تنقید کرے ایجنسیاں انہیں انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت فوراً گرفتار کر لیتی ہیں۔” اسی رپورٹ میں سی پیک کے بارے میں بھی لکھا ہے کہ مقامی لوگوں سے زمینیں زبردستی ہتھیا لی گئی ہیں۔

آزادی ہم نے اپنی مدد آپ لی، ریاست پاکستان سے الحاق بھی ہمارا اپنا فیصلہ تھا، ہندوکش، ہمالیہ اور قراقرم کی آسمان چھوتی، برف پوش پہاڑی سلسلوں کی برف اس دھرتی کے خون سے رنگی گئی۔ سیاچن کی جما دینے والی چوٹیوں سے لے کر وزیرستان کی فسادی سر زمین تک اسی دھرتی کا لہو صرف اس لیے بکھرا کہ اس ملک پر کوئی آنچ نہ آئے۔ سی پیک اسی دھرتی کے سینے کو چیرتا ہوا پاکستان کی قسمت بدل رہا ہے، دریائے سندھ اسی کی کوکھ سے نکل کر خیبر پختونخوا سے لے کر سدنھ کے صحراؤں تک آباد کرتا ہے، دنیا کے مشہور اور بڑے پہاڑی سلسلے، جو کہ پاکستان کی پہچان ہیں، اس سر زمین کی چار دیواری ہیں۔ مگر آج تک اس دھرتی کو اپنا حصہ سمجھنے میں عار محسوس کرتے ہیں۔۔۔کیوں؟

مزید ملاحظہ کیجیے: ہم، گلگت بلتستان کے مجرم

یہاں کا انفراسٹرکچر چین نے بنایا حالانکہ یہ کام تو حکومت کا ہوتا ہے، سرکاری نوکریوں میں کوٹہ نام کی لعنت انٹروڈیوس کرا کے پہلے ہی ٹیلنٹ کا قتل عام کر چکے ہیں۔ سب سے زیادہ لٹریسی ریٹ اس علاقے کا مگر عملی طور پر کوئی مواقع ملتے ہی نہیں جہاں یہ اپنا ٹیلنٹ دکھا سکیں، چیف سیکرٹری سے لے کے ایک پولیس آئی جی تک فیڈرل گورنمنٹ اپنی مرضی سے بھیجتی ہے۔ جو کہ وہاں کے سیاہ و سفید کا مالک ہوتا ہے اور اسے پوچھنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ اس کا ثبوت اسے زیادہ کیا ہو سکتا ہے کہ جب بھی الیکشن ہوتے ہیں گلگت بلتستان میں وہی پارٹی بر سرِ اقتدار آتی ہے جو کہ فیڈرل گورنمنٹ میں پہلے سے موجود ہوتی ہے۔ اور ہر آنے والی حکومت چار لوگوں کو نواز کر کھڑا کر دیتی ہے اور وہ “سب ٹھیک ہے باس” بول کر اپنی آنے والی نسلوں کو ایک صدی پیچھے دھکیلنے میں ان کی مدد کرتے ہیں۔

ظہیر استوری کی ایک روزن پر شائع شدہ دیگر تحریریں

آپ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے میں کتنا ہاتھ پاکستان کا اپنا تھا؟ مجیب الرحمن کو غدار قرار دے کر “اُدھر تم، ادھر ہم” کا نعرہ کس نے لگایا تھا؟ جب آپ خود دشمن کو مواقع فراہم کرنے لگتے ہیں تو پھر باغی، غدار اور واجب القتل جیسے الفاظ کا اپنی ہی ڈکشنری میں اضافہ کرنا مجبوری بن جاتی ہے۔ زیادہ دور نہیں جائیں مولوی ضیاالحق کے “اسلام” کے بعد سے اب تک طالبان کے متعلق بدلتی رائے کو ہی دیکھ لیجیے آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ “ایک لمحے کی لغزش کئی نسلوں کو سزا دیتی ہے۔”

اسی طرح آپ جی بی آرڈر 2018 کو اٹھا کر دیکھ لیجیے پورے آرڈر میں گلگت بلتستان کو جدید زمانے کی لونڈی سے زیادہ کوئی حثیت نہیں ملے گی، نیشنل ایکشن پلان کے بعد اس میں ایجنسیوں کو کھلی چھوٹ دی گئی ہے کہ آپ جب بھی بور ہو جائیں تو گلگت بلتستان کے جتنے چاہے لوگوں کو اٹھا لو ان پر ہاتھ صاف کر کے اپنی بوریت ختم کرو کیونکہ ان کی حثیت تمہارے لیے انٹرٹینمنٹ سے زیادہ کچھ نہیں۔

اس آرڈر کو مد نظر رکھ کر آپ اپنی فیصلہ ساز قوتوں کی دور اندیشی کا بڑی آسانی سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ آنے والے دور میں یہ اس ملک کو کہاں پہنچا سکتے ہیں۔ اس دھرتی کے لوگ آج بھی اور ابھی تک پاکستان کے حق میں نعرے لگا رہے ہیں۔ ان کی غلطی یہ ہے کہ انہوں نے بھی دوسروں کی طرح ملک گیر ہڑتالیں شروع نہیں کی ہیں اور یہ بات سچ ہے کہ اس ملک میں اپنے حق کے لیے جب تک آپ ہڑتال نہیں کرتے، روڈ بند نہیں کرتے، توڑ پھوڑ نہیں کرتے تب تک آپ کو بے وقوف سمجھا جاتا ہے۔ موجودہ صورتِ حال میں یہ ملک ان سب کا متحمل نہیں ہے لہٰذا فیصلہ ساز قوتوں، میڈیا اور انٹلیکچولز کو چاہیے کہ اس آرڈر پر نظر ثانی کریں ایسا نہ ہو کہ اس کے تنائج بھی خدا نخواستہ برے نکلیں۔