کب سائنس دانوں کی ضرورت نہیں رہتی

Naseer Ahmed
نصیر احمد

کب سائنس دانوں کی ضرورت نہیں رہتی

از، نصیر احمد

رئیسوں کی پانچ چھ سو کٹی ہوئی گردنیں تمھاری تسکین و مسرت کا باعث بنیں گی لیکن ایک جھوٹی انسانیت نے تمھارے ہاتھ تھام لیے ہیں، تمھارے وار روک لیے ہیں مگر تمھارا یہ عمل تمھارے لاکھوں بھائیوں کی جان لے لے گا۔

ژاں پال مرا خرد افروزی اور انقلاب فرانس کے زمانے کے درمیانے طبقے کے اکثر لوگوں کی طرح بہت سارے علوم پر نظر رکھتے تھے: سیاست دان، سائنس دان، طبیب، صحافی اور انقلابی۔ ان کے ہاں پچھڑوں کے لیے، غریبوں کے لیے، دُھتکارے ہوؤں کے لیے، بے کسوں اور بے گتوں کے لیے مخلصانہ ہم دردی بھی تھی مگر یہ رومانوی دھند میں لپٹی ہوئی اور انتقامی جنون میں گندھی ہوئی اور انقلابی جوش میں رچی ہوئی تھی۔

ان کی سائنس بھی کچھ ایسی ہی رومانوی تھی۔ کہتے تھے حیوانی مقناطیسیت کی پیدا کردہ ایک توانائی ہوتی ہے جو ایک آتشی مائع پیدا کرتی ہے جسے مرا چٹانوں سے لیک ہوتے ہوئے اور بنجمن فرینکلن کے سر سے بھی نکلتے ہوئے دیکھ چکے تھے۔ ان کا یہ پیپر فرانس کی شاہی اکیڈمی میں پیش ہوا۔ کیمیا کے معروف ماہر ڈاکٹر لیوازے بھی اکیڈمی کے رکن تھے۔ وہ اس سائنس سے کچھ متاثر نہ ہوئے اور مرا کو متوقع اعزازات نہ مل سکے۔ ان اعزازات کے نہ ملنے کی وجہ سے مرا درد و رنج و الم میں مبتلا ہوئے اور رئیسوں کے خلاف ان کے دل میں نفرت گہری ہوتی چلی گئی۔

یہ نفرت لیوازے کو کافی مہنگی پڑی کہ مرا جب انقلاب کے اہم صحافی اور سیاست دان بنے تو وہ لیوازے کے خلاف نفرت پھیلاتے رہے۔ اور ان کی پھیلائی ہوئی اسی نفرت کے باعث لیوازے کی گردن کٹ گئی۔ لیوازے کی موت پر ان کے کسی سائنس دان دوست نے کہا کہ لمحوں میں جو سر تم نے تن سے جدا کیا ہے، ایسے سر کے لیے شاید فرانس کو صدیوں انتظار کرنا پڑے۔ لیکن انقلابی مذہبی ہوں، لبرل ہوں، اشتراکی ہوں یا نسلی، وہ اتنی دور کی کہاں سوچتے ہیں۔ انھوں نے یہی کہا کہ، اب فرانس کو سائنس دانوں کی ضرورت ہی نہیں ہے۔

خیر انقلاب کے ہنگام مرا سائنس ترک کرتے ہوئے صحافی بن گئے۔ اور اپنے اخبار کے ذریعے رئیسوں سے نفرت بڑھانے لگے۔رئیس دشمنی معاشرے میں موجود تھی، آہستہ آہستہ مرا کی بات معتبر ہوتی گئی۔ لوگ ان کو ماننے لگے۔ ان کی معاشرے میں طاقت بڑھنے لگی اور انھوں نے اپنی طاقت کا غلط استعمال کرتے ہوئے رئیسوں سے انتقام لینا شروع کر دیا۔ اب قومی کنونشن جو انقلابیوں نے حکومت کی غرض سے قائم کیا تھا، وہاں مرا کی تقریر اور مرا کے اخبار میں ان کی تحریر موت کے فرستادے بن گئے۔ یعنی وہ اپنی تحریرو تقریر لوگوں کو انقلاب دشمنوں کے قتل پر اکسانے کے لیے استعمال کرنے لگے۔

انھوں نے اخبار میں لکھا، لوگوں کا فرض کیا ہے؟ اب انھوں نے جو کرنا ہے وہی سچ بھی ہے دانائی بھی، وہ جیل میں جائیں، غداروں اور ان کے ساتھیوں کو نکالیں اور ان کے تلواریں گھونپ دیں۔ ان کے ٹرائل کرنا تو پاگل پن ہے۔ ان کا ٹرائل ہو چکا۔ ہتھیاروں سمیت تم نے انھیں پکڑا جب وہ ہماری سر زمین کے خلاف غداری میں مصروف تھے۔ سپاہیوں کو تو تم ہلاک کر ہی چکے ہو، اب افسروں کو کیوں چھوڑتے ہو، یہ تو بڑے مجرم ہیں۔ انھیں تو تمھیں وہیں مار دینا چاہیے تھا، ان کا اور کوئی علاج نہیں ہے۔

نصیر احمد کی ایک روزن پر شائع شدہ مزید تحریریں

پھر وہی ہو جیسے مرا چاہتے تھے۔ بلوہ ٹولیاں بن گئیں، جیل میں پہنچیں اور ایک ہزار کی تعداد میں لوگوں کو اذیتیں دے دے کر ہلاک کر دیا۔ مرا کے احساس طاقت کی تسکین ہوئی اور وہ اس کے بعد جو اعتدال پسند تھے ان کا اثر کم کرنے لگے۔ لیفائت فرانس اور امریکہ دونوں کے ہیرو ہیں۔ انھوں نے دونوں انقلابوں میں حصہ لیا تھا ان کا اثر و رسوخ مرا کی انتہا پسندی کی وجہ سے کم ہوا۔اور لیفائت فرانس سے مفرور ہو کر آسٹریا میں قید ہوئے۔

اس کے بعد انقلابیوں میں جو اعتدال پسند تھے ان کی باری آ گئی۔ مرا نے ایک سلگتی ہوئی تقریر کرنی ہو تی تھے اور ایک بھڑکتا ہوا مضمون لکھنا ہوتا تھا اور ان اعتدال پسندوں کی زندگی اور موت کے فیصلے ہو جاتے تھے۔ جب انقلابیوں کے اپنے اعتدال پسندوں کے لیے فرانس کی زمین تنگ ہوئی تو ایک اعتدال پسند انقلابی لڑکی شارلٹ نے مرا کو امن کے لیے قتل کر دیا۔ ادھر عوامی تحفظ کمیٹی کے رہنما روبس پئیر تھے، انھوں نے مرا کو شہیدِ انقلاب بنایا اور قتل وغارت بڑھ گئی۔ سیاست اور صحافت رومانوی تصوراتی کے تحت بہت ہلاکت خیز ہوتی ہے۔

غریب دوستی ایک احسن جذبہ ہے لیکن ہر قسم کے احسن جذبوں کی طرح اجتماعی سطح پر تو ہر حال میں اسے توازن، تناسب اور اعتدال سے باہر لے جانا ایک ایسی حماقت ہوتی ہے جو انتہا پسندی کے فروغ کی وجہ بن جاتی ہے۔ اور اس تناسب، توازن اور اعتدال کے تحفظ کے لیے قوانین ترتیب دینے پڑتے ہیں۔ لیکن ان قوانین سے پہلے ایک معاشرتی سمجھوتے کی بھی اشد ضرورت ہوتی ہے جو غم وغصہ اور غیض و غضب کی کیفیات پر قابو پانے کے بعد ہی ممکن ہوتا ہے۔

مزید ملاحظہ کیجیے: فکری و سائنسی پسماندگی، اور ڈاکٹر پرویز ہود بھائی کی جدوجہد

عوامی جذبات بے قابو کرنا بہت آسان ہوتا ہے اور ان کو تشدد کی دشا بھی دکھانا کافی سہل ہوتا ہے لیکن اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انقلاب اپنے بچوں کو کھانے لگتا ہے کہ بپھرے ہوئے لوگوں کو قابو کرنے کے لیے اس قدر زیادہ تشدد کرنا پڑتا ہے کہ جو اچھی زندگی وعدہ کی ہوتی ہے، وہ تو کہیں گم ہو جاتی ہے اور جو بچتی ہے اس میں ہر کوئی کسی نہ کسی سطح پر مجرم ہی ہوتا ہے۔

غریبوں کا تحفظ انقلاب نہیں کرتے بلکہ اچھے قوانین جو بتدریج بہتر ہوتے جائیں اور جن پر عمل اخلاص سے کیا جائے، وہ غریبوں کی صورت حال میں بہتری لے آتے ہیں۔ سیاسی تصورات سے منسلک رومانویت سے تو بہر صورت گریز کرنا ہی دانائی ہے جو بہتر پالیسیوں کی طرف گامزن کرتی ہے۔اور اگر اس رومانویت کو تدارک نہ ہو سکے تو کوئی نپولین نمودار ہو جاتا ہے، کوئی سٹالن معاملات پر قابض ہو جاتا ہے اور کوئی خمینی اس رومانویت کو مرا کی طرح اپنی طاقت بڑھانے کے لیے استعمال کرنے لگتا ہے۔