انقلاب فرانس کیسے بگڑا

Naseer Ahmed
نصیر احمد

انقلاب فرانس کیسے بگڑا

از، نصیر احمد

انقلاب فرانس تاریخ کا اہم انقلاب ہے جو بعد میں آنے والے انقلابوں پر بھی اثر انداز ہوا۔ ہم کہ انقلاب دشمن ہیں، ہم تو کہیں گے جو جو بدی انقلاب فرانس کے رہنماؤں نے اختیار کی، وہ بعد کے انقلابوں میں بڑھتی گئی لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس انقلاب میں جو جو اچھی باتیں کہی گئیں، جن کی تمنا کی گئی، جن باتوں کے لیے جان دی گئی اور جن باتوں کے لیے جان لی گئی، وہ سب باتیں بھی کافی جگہوں پر بہتر ہوتی گئیں۔ خرد افروزی کی تحریک کے تحت آزادی، مساوات اور انسان دوستی جیسی باتوں پر یہ انقلاب مبنی تھا۔ بات کیسی بگڑی؟

پہلے روبس پئیر کہ انقلاب کے ایک رہنما تھے۔ آزادی، مساوات، اور انسان دوستی کے صالح، پرہیزگار، نیکو کار تھے، ایک ایسے فرد جنھیں آلائشوں سے پاک کہا جاتا تھا۔روبس پئیر رومانوی فلسفی روسو کے پیرو تھے اور اس کے افکار کا ایک کامل نفاذ چاہتے تھے۔ وہ ایک ایسے انسان تھے، جس سے معاملہ نہیں ہو سکتا تھا اور سمجھوتا نہیں کیا جا سکتا تھا۔ فرانس کے معطل کردہ بادشاہ لُوئی کے ٹرائل کے دوران روبس پئیر نے کنونشن میں ایک تقریر کی تھی۔ یہ کنونشن حکومت کرنے کے لیے منتخب کیا گیا تھا۔اس تقریر میں انقلاب کی تعمیر میں جو خرابی تھی وہ کافی تک عیاں ہو جاتی ہے۔ وہ تقریر کچھ یوں ہے:

“لُوئی بادشاہ تھا لیکن ہم نے جمہوریہ قائم کر لی ہے۔ جو مشکل مسئلہ ہم لوگ حل کرنے جا رہے ہیں اسے یہی بات حل کر سکتی ہے۔ لُوئی نے اپنے جرائم کی وجہ سے تاج کھویا۔ لُوئی نے فرانسیسیوں کو باغی  کہا۔ اس نے زنجیروں اور آمروں سے مدد چاہی، آمر جو اس کے بھائی ہیں۔ عوام کی فتح نے یہ بات ثابت کر دی کہ لُوئی تو خود باغی تھا ۔اس لیے لُوئی کے بارے میں کسی عدالتی فیصلے کی ضرورت نہیں ہے۔ لُوئی نے اپنے بارے میں یہ عدالتی فیصلہ خود سنا دیا ہے۔ وہ مَردُود ہو چکا ورنہ جمہوریہ مجرم بن جائے گی۔کسی بھی طرح سے لوُئی کا ٹرائل تجویز کرنا شاہی جباری اور آئین پسندی کی طرف ایک رجعتی سفر ہو گا۔

“یہ انقلاب دشمن خیال ہے کہ یہ خیال انقلاب کو مقدمے بازی میں الجھا دے گا۔ اگر لُوئی کا ٹرائل ہوتا ہے، وہ مجرم ثابت نہیں ہوتا یا معصوم ثابت ہوتا ہے۔ اور میں کیا کہوں؟ جب تک عدالتی فیصلہ نہیں ہوتا، وہ بے قصور ہی سمجھا جائے گا۔ لیکن اگر ٹرائل کے بعد وہ معصوم اور بے قصور ثابت ہو جاتا ہے، انقلاب کا کیا بنے گا؟ اگر وہ معصوم ثابت ہوتا ہے تو آزادی کے محافظ تہمت تراش سمجھے جائیں گے اور ہمارے دشمن، عوام اور صداقت کے دوست اور کُچلی ہوئی معصومیت کے محافظوں کا بہروپ دھار لیں گے۔ اور غیر ملکی درباروں کے فرامین ایک غیر قانونی گروہ کے خلاف جائز دعوے سمجھے جائیں گے۔

“لُوئی کی حراست کو ایک غیر منصفانہ اِیذا جانا جائے گا اور پیرس کے عوام  انقلابی فوجی اور فرانسیسی سلطنت کے حامی مجرم گردانے جائیں گے۔ اور فطرت کی عدالت میں ہونے والا یہ ٹرائل جس نے جرم اور نیکی، آزادی اور آمریت کے درمیان فیصلہ کرنا ہے، جرم اور جباری کے حق میں فیصلے کی وجہ بن جائے گا۔

“شہریو، خبردار ہو، غلط قسم کے کیے خیالات تمھیں احمق بنا رہے ہیں۔ تم ان مثبت شہری حقوق کو انسانی حقوق کے عالمی اصولوں سے گڈ مڈ کر رہے ہو۔ تم آپسی شہری رشتوں کو دوسری قوموں اور سازشی دشمنوں کے ساتھ ہمارے رشتوں کو خلط ملط کر رہے ہو۔

“تم انقلابی حکومت اور تصدیق شدہ حکومت کو آپس میں خلط ملط کر رہے ہو۔ اپنی صورت حال کو ایک ایسی حکومت کے ساتھ خلط ملط کر رہے ہو جو اپنا نظام حکومت بچانے کے ایک حکومتی عُہدے دار کو سزا دیتی ہے۔ لیکن ہم نے تو حکومت گرائی ہے۔ ہم ایک غیر معمولی کیس میں ان خیالات اور اصولوں کا سہارا لے رہے ہیں جن کا ہم پر اطلاق نہیں ہوتا کیونکہ ہم صرف انھی سے واقف ہیں۔

روبس پئیر ایک قانون دان بھی تھے لیکن لُوئی اور اس کی حکومت سے ان کی نفرت اس قدر بڑھی ہوئی ہے کہ وہ قانون کے بنیادی اصولوں کےغیر معمولی حالات کی بنیاد پر خاتمے کے خواہاں اور لُوئی کی غداری کو ٹرائل کے بغیر ثابت کرتے ہوئے انقلابی حکومت کے ضمانت کردہ  شہری حقوق کا اطلاق بھی لوئی پر نہیں کرنا چاہتے۔ اور کچھ غیر ملکی مداخلت کے خوف سے بھی بے قرار ہیں۔ ان کے خیال میں نئی دنیا کو پرانی دنیا کے اصول اور خیالات نہیں اپنانا چاہییں۔ لیکن اس جذبۂِ جنُون کے دوران وہ یہ فراموش کر چکے ہیں کہ پرانی دنیا مکمل طور پر مُنہدم نہیں کی جا سکتی اور نئی دنیا کو بھی اپنے قوانین سے وفادار ہونا پڑتا ہے۔

ہندوستانی فلموں میں قانون اور ٹرائل کے خلاف اس طرح کے مکالمے سننے کو ملتے رہتے ہیں مگر بنیادی حقوق کی معطلی اور قانونی طریقۂِ کار کی  تنسیخ، آزادی، مساوات اور انسان دوستی کی معطلی اور تنسیخ بن جاتی ہے۔ انقلاب دشمن اور انقلابی کے درمیان فرق ختم ہو جاتا ہے۔

یہاں آپ کو ایک شُعلہ بیان خطیب نظر آ جاتا ہے جو قانون اور اخلاقیات کو کسی اعلٰی مقصد کے لیے منسوخ کر دینا چاہتا ہے۔ ایک آمر بھی نظر آ جاتا ہے جسے اپنی صداقت کو اس قدر یقین ہے کہ وہ دوسرے کو اپنے دفاع کا موقع ہی نہیں دینا چاہتا۔اور ایک خوف زدہ شخص بھی  دکھائی دیتا ہے جو اپنے اعمال کے احتساب سے بچنا چاہتا ہے۔ یہ سب باتیں آزادی، مساوات اور انسان دوستی کے لیے زہرِ قاتل ہیں اور جب روبس پئیر کنونشن کی قائم کردہ عوامی تحفظ کی کمیٹی کے آمر بنے تو انھوں نے قانونی طریقۂِ کار کو معطل بھی کیا، ایک مُنصفانہ ٹرائل کا حق بھی منسوخ کیا اور ہزاروں بے گناہوں کی گردنیں گلوٹین (ایک مشین) کے ذریعے کاٹنے کا سبب بھی بنے۔

ٹرائل کی معطلی ان کی پرہیز گاری کا ایک ثبوت ہے۔ ایک اور جگہ وہ اس نیکو کاری  کا اصل چہرہ کچھ ایسے واضح کرتے ہیں۔

‘نیکی اگر امن کے دنوں میں مَقبولِ عام حکومت کا سر چشمہ ہے تو انقلابی حکومت کی نیکی کا سرچشمہ نیکی اور دہشت کا آمیزہ ہے۔ دہشت نیکی کے بغیر تباہ کن ہے لیکن نیکی دہشت کے بغیر نپنسک (شہوانی قوت کے بغیر) ہے۔ دہشت ہی فوری، شدید اور بے لچک انصاف ہے۔ یہی نیکی کا ظہور ہے۔ یہ ایک واضح اصول ہی نہیں بلکہ عمومی جمہوری اصولوں کا ایک نتیجہ بھی ہے جس کا اطلاق ملک کی بڑھتی ضرورتوں میں کیا جاتا ہے۔ انقلابی حکومت در اصل  شاہی آمریت کے خلاف آزادی کی جباری ہے۔

اس طرح روبس پئیر زور پارسائی میں ایک اعلٰی مقصد کے لیے قانون اور اخلاقیات کے خاتمے کے بعد  جمہوریت اور انسانیت کے خاتمے کی طرف بڑھتے ہیں۔ نیکی اور دہشت کا جب بھی یہ آمیزہ بنے گا، اس سے خیر برآمد نہیں ہوتا۔ بعد میں لینن، ماؤ اور خمینی کے انقلابوں نے اس  آمیزے کی ہلاکت خیزی خوب آشکار کی۔

لیکن روبس پئیر روسو کے افکار کے مرد صالح تھے جن میں ایک نظریہ عمومی  رضائے عامہ کا بھی ہے۔ عمومی رضائے عامہ رُوسو کے دوسرے تصورات کی طرح رُومانوی اور دھند میں لپٹی ہوئی ہے۔ لیکن اس کا مسئلہ یہ ہے کہ یہ وفادار حزب اختلاف پر مہربان نہیں ہے اور اقلیتی آوازوں کو دبانے کے لیے استعمال کی جا سکتی ہے۔ روبس پئیر بڑی آسانی سے اس رضائے عامہ کا اظہار بن گئے اور  ان کے تصور حیات کی جن لوگوں نے بھی مخالفت کی، گِلوٹین Guillotine کے نیچے ان کی گردنیں کٹتی رہیں۔ روسو کے مطابق  عمومی رضائے عامہ میں جب دراڑیں نمودار ہوتی ہیں تو اختلافات اور جھگڑے  برپا ہوتے ہیں۔ روبس پئیر اپنے جنون میں یہ قتل اس لیے کرتے رہے کہ وہ یہ دراڑیں بھر سکیں۔

 وہ جمہوریت کی فطرت نہیں سمجھ سکے کہ اختلاف ہی اس کا حسن ہے اور عمومی رضائے عامہ جمہوریت میں قائم نہیں کی جا سکتی۔ ہٹلر کی لندن پر بمباری کے دوران تھوڑے سے عرصے کے لیے یہ عمومی رضائے عامہ شاید برطانیہ عظیم میں موجود تھی لیکن زیادہ تر تو بات بے بات اختلاف ہوتا ہے۔ چرچل ہٹلر سے متعلقہ خدشات سے برطانوی عوام کو آگاہ کرتے رہے۔ نیول چیمبرلین نے ہر قیمت پر امن کو اپنا مقصد حیات بنا لیا۔ اور بادشاہ سلامت جن کی محبت کے لیے بادشاہی قربان کرنے پر دنیا میں بڑی عزت ہے، ہٹلر کو پسند کرتے تھے اور ہٹلر ان پر مہربان تھا۔

یہ ایک ہی معاملے پر ایک ہی طبقے کے تین بڑے آدمیوں کا اختلاف تھا تو حِزبِ مخالف اور عوام میں تو اختلافات جا بجا پھیلے ہوتے ہیں اور جمہوریت نے ان اختلافات کو برداشت کرنا ہو تا ہے۔ یکتائی اور یگانگی کا رضا سے حصول کی نیت کتنی بھی اچھی کیوں نہ ہو اور مقصد کتنا ہی اچھا کیوں نہ ہو ممکن نہیں ہوتا۔ اور اس ناممکن بات کو ممکن بنانے کے لیے روبس پئیر جیسے دہشت اور نیکی کا ایک آمیزہ بناتے ہیں اور خون ریزی میں گم ہو جاتے ہیں۔

مزید دیکھیے: صنعتی انقلاب، درحقیقت صارف انقلاب تھا اور میڈیا کا صارفیت ماڈل

عوامی تحفظ کی کمیٹی کے تحت مورخین کے مطابق روبس پئیر نے  پچپن ہزار فرانسیسی گلوٹین کی نذر کیے۔ اس کا اتحادی دانتاں اور اس کا دوست کمیل اس ظلم کے خلاف احتجاج کرنے لگے۔ دانتاں عوام میں کافی مقبول تھا، لیکن کچھ سُست اور بد عنوان بھی سمجھا جاتا تھا۔ لیکن پرہیز گاری کی عدم موجودی کی وجہ سے اس کی عقل سلامت تھی اور دہشت کی حکومت کا وہ سخت مخالف تھا۔

روبس پئیر نے اسے ساتھ ملانے کی کوشش کی لیکن عقل کی سلامتی کے باوجود اس نے آمریت کے خاتمے کے لیے جان کی قربانی دینے کا فیصلہ کر لیا۔ اس کا ٹرائل ہوا۔ اس نے ٹرائل میں شان دار تقریریں کیں۔ اپنی طرف سے گواہوں کی موجودی پر اصرار کیا۔ دانتاں نے ہی یہ کمیٹی قائم کروائی تھی جس اب روبس پئیر نے اپنی پارسا آمریت کا آلہ کار بنا لیا تھا۔

روبس پئیر نے اپنی مرضی کی جیُوری بھی چنی تھی۔ جج بھی اس کے اپنے ہی تھے۔ دانتاں کو اس کے گواہ نہیں پیش کرنے دیے گئے۔ بلکہ چونکہ اس کی تقریریں عوام کا دل موہ رہی تھیں، اس لیے اس کا ٹرائل اس کی عدم موجودی میں کیا گیا۔ اور دانتاں اور اس کے دوستوں کی گردن گلوٹین کے نیچے کٹ گئی۔

اس واقعے کے بعد عوامی تحفظ کی کمیٹی کے خلاف آوازیں اٹھنے لگیں۔ سازشوں کی ترتیب ہونے لگی۔ روبس پئیر کے خلاف گروہ بننے لگے۔ اور ایک دن اس کی تقریر کے دوران اتنا شور و غُل برپا ہوا کہ اس کے گلے میں اس کی آواز اٹکنے لگی۔ کسی نے کہا، روبس پئیر لگتا ہے تمھاری آواز کو تمھارے گلے میں پھنسا ہوا دانتاں کا خون اٹکاتا ہے۔

روبس پئیر کی آواز جب بحال ہوئی تو اس نے کہا، بزدلو، تم نے دانتاں کی جان کیوں نہیں بچائی۔ مگر دیر ہو چکی تھی، دانتاں کی جان اب کسی نے کیا بچانی تھی، روبس پئیر کی جان بھی خطرے میں تھی، اسی لیے صالح خطیب کی آواز گلے میں اٹکتی تھی۔

کنونشن نے روبس پئیر کے خلاف فیصلہ  دے دیا۔ گرفتاری کے دوران اس کے چہرے پر گولی لگ گئی اور اسی اذیت کی اسی حالت میں گلوٹین کے نیچے روبس پئیر کی گردن بھی کٹ گئی۔ فرانس میں آزادی، مساوات اور انسان دوستی بڑے لمبے عرصے تک مُلتوی ہو گئی۔ لیکن جب ان کی واپسی ہوئی تو بنیادی حقوق، قانونی طریقہ ہائے کار اور منصفانہ ٹرائل اس کے ہمراہ تھے اور نیکی اور دہشت کا آمیزہ اس جمہوریت کا حصہ نہیں تھے لیکن آج کل نیکی اور دہشت کا آمیزہ فرانس میں پھر سر اٹھانے لگا ہے۔

روبس پئیر کے معتقدین اور مقلدین، لینن، سٹالن، ماؤ جیسے لوگوں کی شکل میں موجود رہے اور آج کل دنیا میں روبس پئیر کا عروج ہی ہے۔ عوامی مقبولیت کے ذریعے اختلاف اور اقلیت کے لیے بہت سارے ملکوں میں جینا مشکل ہو گیا ہے اور اس انسان دشمنی کے جواز کے لیے پارسائی کا ہنگامہ بھی برپا ہے۔

ایک اچھی جمہوریت کے لیے انسانی حقوق، اختلاف رائے، جمہوری قوانین اور اقلیتوں کا تحفظ بہت ضروری ہے۔ انقلاب اگر اس سمت گامزن ہو جائیں تو وہ انسانیت کی کامیابی کی وجہ بن جاتے ہیں لیکن اگر یہ رخ نہ اختیار کر سکیں تو وہ ایسی دہشت بن جاتے ہیں جس کو پارسائی کی تصنع سے چھپانے کی کوشش کی جاتی ہے۔

دہشت اور تصَنع پر مبنی حکومت بہرحال انسانیت کے مفاد کے انتہائی خطرناک ہے۔ فرانس کے انقلاب کے بگڑنے کی یہ چند اہم وجوہات ہیں کہ روبس پئیر نے انقلاب کی جس طرف رہنمائی کی اس کی تعمیر کی بنیادوں میں ہی خرابی تھی۔