گلگت بلتستان کا احساس محرومی

گلگت بلتستان کا احساس محرومی کو دور

گلگت بلتستان کا احساس محرومی

از، ڈاکٹر جابر حسین

پاکستان کے شمال میں واقع کوہ قراقرم، ہندو کش اور ہمالیہ دیگر پہاڑی سلسلوں میں محصور خوب صورت اور دل کش وادیوں پر مشتمل علاقہ گلگت بلتستان کہلاتا ہے، جسے پہلے شمالی علاقہ جات کے نام سے جانا جاتا تھا۔ گلگت بلتستان نام رکھنے کی خاص وجہ اس علاقے میں دیگر خوب صورت وادیوں اور علاقوں کاشامل ہونا ہے۔ گلگت میں چار اضلاع گلگت،دیامر، غذر اور استور شامل ہیں۔ جب کہ بلتستان میں صرف دو اضلاع سکردو اور گنگچھے ہیں۔

کشمیر کے شمال مغرب میں اور اس سے بالا دریائے سندھ کے دوسرے کنارے پر وادئِ گلگت واقع ہے۔ اس علاقے میں گلگت کے علاوہ استور، دیامر، غذر، ہنزہ، نگر بونجی، اور چلاس شامل ہیں۔ گلگت کا قدیمی نام سارگن تھا۔ سار کے معنی جھیل اور گن سے مراد راستہ ہے۔ گلگت کو اَزمنہِ قدیم میں گری گرت بھی کہا جاتا رہا ہے۔ گری کا مطلب ہے ہرن جب کہ گرت کا مطلب ہے ناچنا۔ یعنی ہرن ناچنے کی جگہ اس سے مراد  یہ ہے کہ ایک وقت ایسا بھی گزرا ہے کہ یہاں ہرنوں کی بہتات تھی اور وہ آزادانہ طور پر یہاں گھوما پھرا کرتے تھے۔

تاریخ سے یہ ثابت نہیں ہوتا ہے کہ قدیم زمانے میں کشمیر سے کوئی قوم آئی ہے اور گلگت بلتستان کو آباد کیا ہے۔ بل کہ تاریخ یہ کہتی ہے کہ افغانستان کے شہر بدخشان سے ایک قوم اس خطے میں آئی جو بروشو کہلاتی ہے۔ اسی قوم نے بتدریج کشمیر تک رسائی حاصل کی۔ کشمیر کو نہ صرف آباد کیا بل کہ اس کی جغرافیائی حیثیت کے پیش نظر نام بھی تجویز کیا اور کوشر نام رکھا۔ جو بعد میں کتی تہذیبوں کے باہم ٹکراؤ کی وجہ سے کوشر سے کشیر اور پھر کشمیر ہو گیا۔

پہلی بار ۱۳۴۶ تا ۱۳۵۹ء اور دوسری بار ۱۳۵۹ تا ۱۳۷۹ء میں ہمیں  چند کشمیری تاجر اور کاریگر گلگت بلتستان میں نظر آتے ہیں۔ کشمیریوں کی آمد کے حوالے سے یہ دور بڑا اہم تصور کیا جاتا ہے۔

۱۸۶۰ء کو جب ڈوگرہ فوج نے پوری طرح گلگت بلتستان کی باگ ڈور سنبھالی تو والئی پونیال کے علاوہ تمام اُمَراء جو ڈوگرہ فوج کو اپنی نجات کا ذریعہ سمجھتے تھے اپنے فیصلوں پہ پچھتانے لگے۔ اس دور میں ڈوگرہ افواج کی طاقت کے زیرِ اثر گلگت بلتستان کا علاقہ کشمیر کاحصہ بن گیا۔

۱۸۷۸ءتک ڈوگرہ گلگت بلتستان پر راج کرتا رہا، ۱۸۷۹ء کو گلگت میں پہلی برٹش ایجنسی قائم کی گئی اقتدار کی ڈوری ڈوگروں نے انگریزوں اور انگریزوں سے ڈوگروں تک منتقل ہوتی رہی اورگلگت بلتستان کے عوام ظلم و بربریت کی چکی میں پستے رہے۔

آخرِ کار یکم نومبر ۱۹۴۸ء کو گلگت بلتستان کو اللہ تعالیٰ نے آزادی جیسی عظیم نعمت سے سرفراز فرمایا اور غلامی کا طوق اتار کر سکھ کا سانس لیا۔ ڈوگرہ راج سے آزادی حاصل کرنے کے بعد یہاں کے مقامی حکمران راجاؤں  نے قائد اعظم محمد علی جناح کی ولولہ انگیز قیادت پر اعتماد اور دو قومی نظریہ نیز نظریہ پاکستان سے دلی و نظریاتی قربت و محبت کی بِناء پر پاکستان سے غیر مشروط الحاق کا اعلان کیا۔

یکم نومبر ۱۹۴۸ء تا حال گلگت بلتستان کا یہ خوب صورت، قدرتی حسن و وسائل اور  قابلِ رشک تہذیب و ثقافت کا حامل پورا علاقہ پاکستان کے زیرِ انتظام ہے۔

بلتستان کا کل رقبہ ۱۰۱۱۸ مربع میل ۲۶۲۰۵ کلو میٹر ہے جس میں سے تقریباً     ۳۸۸ کلو میٹر ۱۹۷۱ کی جنگ میں بھارت کے قبضے میں چلا گیا ۔بلتستان کی آبادی ۱۹۵۱ کی مردم شماری کے مطابق ۱۲۵۱۶۲ تھی ۱۹۸۱ء میں محمد یوسف حسین آبادی کے مطابق ۲۲۳۲۹۶ تھی۔

۱۹۹۸ء میں گلگت بلتستان دونوں کی آبادی ۸۷۰۳۴۷ کے قریب تھی اس وقت ایک اندازے کے مطابق گلگت بلتستان کی تقریباً ۱۲۵ لاکھ کے قریب آبادی ہے۔

۱۹۹۹ میں گلگت بلتستان کے آئینی مسئلے سے متعلق سپریم کورٹ آف پاکستان نے  ایک جامع فیصلہ دیا۔ اس فیصلے کے مطابق یہاں کی عوام کو حقِ حکمرانی اور آزاد عدلیہ کے قیام کا آئینی حق حاصل ہے۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کا متعلقہ و مطلوبہ متن ملاحظہ کیجیے:

”We, further, allow the above petition and direct the Respondent Federation as under:

To initiate appropriate administrative, legislative, measures within a period of six months from today to make necessary amendments in constitution/relevant statute/statues/order/orders/notifications to ensure the people of Northern areas enjoy their above fundamental rights namely, to be governed through their chosen representatives and to have access to justice through an independent judiciary inter alia for enforcement of their fundamental rights guaranteed under the constitution.’’

سپریم کورٹ آف پاکستان  کے حکم کے مطابق گلگت بلتستان  کو پچھلی دھائی میں اگر چِہ پاکستان کے دیگر صوبوں کی طرح  بظاہر ایک صوبے کا درجہ تو دے دیا گیا لیکن اختیارات و وسائل اب بھی وفاقی وزیر برائے امور کشمیر ہی کے  زیرِ اختیار ہیں۔

۳۰ اگست 2009 کو وفاقی کابینہ نے اپنے متفقہ فیصلے میں گلگت و بلتستان کے انتظامی و قانونی ڈھانچے کو بہتر بنانے کے لیے اور وہاں کے عوام کو مزید اختیارات اور داخلی خود مختاری دینے کے لیے ایک نئے اصلاحاتی پیکیج کی منظوری دی ہے جسے ”ایمپاورمنٹ اینڈ سیلف گورننس آرڈر کا نام دیا گیا ہے۔ اس کے چار بنیادی نکات ہیں۔

۱۔ آزاد کشمیر طرز کی حکومت کا قیام

۲۔ ایک آزاد خود مختار منتخب حکومت

۳۔ منسٹریوں کا قیام

۴۔ بجٹ میں اضافہ

یہ آرڈیننس لیگل فریم ورک آرڈر 1994 کی جگہ لے گا۔ صدر پاکستان نے  ستمبر 2009 کو آرڈیننس پر دست خط کرتے ہوئے گلگت بلتستان کی اسمبلی کو تحلیل کرنے کا اعلان کیا اور نومبر 2009 میں نئے الیکشن کروانے کی منظوری دی۔ ستمبر 2009ء کو باقاعدہ پیکیج کا اچانک اعلان ہو گیا اور صرف 20 دنوں میں ووٹر فہرستیں تیار کر کے 12 نومبر 2009ء کو انتخابات کروا دیے۔

۲۰۱۸ء میں گلگت بلتستان آرڈر ۲۰۱۸ء کے نام سے ایک حکومتی پالیسی پر مشتمل آرڈر لاگو کیا گیا ہے جسے عوامی نمائندوں سمیت عوام کی اکثیریت یہاں کے حقوق و وسائل  پر استحصالی قبضے کی کوشش قرار دیتے ہوئے قبول کرنے کو دل سے تیار نہیں، البتہ مقامی حکومت بالجبر عوام الناس پر اس آرڈر کے نفاذ کو اپنی کامیابی اور آئندہ سیاسی کیریئر کے لیے ضروری سمجھتی ہے۔ “عوام کے لیے عوام پر عوامی حکومت”جمہوریت کہلاتی ہے لیکن اگر عوام کی اکثریت جس اقدام کو نہ سراہے اسے بالجبر جاری رکھنا نہ صرف جمہوریت پر بہت بڑا سوالیہ نشان ہے، بل کہ پاکستان سے دل و جان سے محبت کرنے والی عوام الناس کے دل و دماغ  میں پاکستان کے خلاف غم و غصے کو ہوا دینے کے مترادف اقدام ثابت ہو سکتا ہے۔

پچھلے دنوں میں نیوز چینل ۹۲ پر آرمی کے ایک ریٹائرڈ آفیسر امجد شعیب کے ایک قطعی غیر ذمے دارانہ بیان، گلگت بلتستان کے موجودہ چیف سکرٹری بابر حیات کے افسرِ شاہی رویے اور شیڈول فور کے تحت محب وطن  مخلص عوامی نمائندوں کو جیل بھجوانے کے نا روا اور غیر دانش مندانہ اقدامات کا عوامی سطح پر نہایت غلط تاثر پھیل رہا ہے۔ پاکستان کے عسکری شہداء کی تاریخ گواہ ہے  کہ الحاقِِ پاکستان سے تا حال سرحدی حفاظت کی کڑی اور کٹھن ذمے داری ادا کرنے میں یہاں کے جوانوں کا کیا کردار رہا ہے۔


متعلقہ:  بلتی اور اردو  زبان کا صوتی، املائی اور معنوی اشتراک  از، ڈاکٹر جابر حسین

گلگت بلتستان اور پاکستان  از، دیدار علی شاہ

گلگت بلتستان کی کہانی : کہیں ہم غلطی تو نہیں کر رہے نا  از، ظہیر استوری


آئینی و صوبائی حقوق سے محروم رکھے جانے کے با وجود عوام  و خواص کے دلوں میں پاکستان، پاکستان کی آزادی، پاک فوج اور پاکستانی قومی ہیروز سے والہانہ اور بے لوث محبت اس وقت بھی اتنی شدت سے پائی جاتی ہے جس کی مثال شاید  مکمل طور پر صوبائی و آئینی حقوق سے استفادہ کرنے والے اہلِ وطن بھی پیش کرنے سے قاصر ہوں۔

وقت بہت تیزی سے بدل رہا ہے اور خود آگہی پھیلتی جا رہی ہے۔ اپنے وسائل و مسائل کے حوالے سے مقامی اہلِ فکر و علم  اور اہل فن و دانش میں تشویش و تَحیّر پایا جاتا ہے۔ اب وقت آیا ہے کہ اس خوب صورت علاقے کو اس کے آئینی و صوبائی حقوق دیے جائیں۔

حکومت پاکستان کو چاہیے کہ گلگت بلتستان کے محب وطن جس احساسِ محرومی کے شکار ہیں اسے فوری طور پر عوامی امنگوں اور آئینی تقاضوں کے مطابق فوری طور پر ختم کرنے کے لیے ضروری اقدامات اٹھائے۔ مشتے از خروارے کے طور پر چند شعری مثالیں اس ضمن میں پیش کی جاتی ہیں جن سے مُتذَکَّرہ بالا مُدعا کی تصدیق کی جا سکتی ہے۔

ایک آزاد نظم جس کا عنوان ہے: چھیاسٹھ سال بیتے پر ابھی تک اجنبی ہوں میں

سرِ افلاک سے محوِ تکلم حضرتِ کے۔ٹو مرا ہمدم
جو ہم دوشِ قمر دیوسائی کا سر سبز میداں ہے،
وہ میرا ہی تملک ہے۔
فلک بوسی کیا کرتی ہے دستارِ فضیلت جن کی،
مرے کہسار ہی تو ہیں۔
ہزاروں ٹن ذخیرہ آبِ یخ بستہ لیے آغوش میں کہسار ہیں میرے۔
گلیشیر ایسے ایسے ہیں کہ جن کو دیکھ کر عقلِ بشر حیران رہ جائے۔
مرا تو کُل وجود اک شاہکارِ دستِ قدرت ہے۔
پڑوسی میرے دو ایسے ہیں جن سے رشتہ پاکستان کا بے حد نمایاں ہے،
بھارت اک طرف اور چین میری دوسری جانب
یہ باتیں اک طرف اور دوسری جانب مرا یہ حال،
تشخص میرا مُبہم کر دیا جاتا رہا ہے،
چھیاسٹھ سال بیتے پر ابھی تک اجنبی ہوں میں

                                                       جابر حسین

       ۔۔۔۔۔

مری ہمت کہاں میں چھوڑ جاؤں

مجھے پیرس مجھے جاپان گلگت

درخشان جب رہا ہے اس کا ماضی

اخوت کی تھی ایک پہچان گلگت

                                          امجد متاثر

۔۔۔۔۔۔

روک دےیہ انتخابی جھوٹ پر مبنی نظام

پہلے میری آئینی وہ حیثیت واضح کرے

                                آصف علی آصف

۔۔۔۔۔۔۔۔

کیا سوچ   کے اجداد نے آزاد کیا تھا

کیا سوچ کے پھر ہم کو غلامی میں رکھا ہے

اب کے تو تمہیں ہوش میں آنا ہے ضروری

پاؤں جو ابھی برف کے پانی میں رکھا ہے

                            شاہ جہاں مظطر