گلگت بلتستان کی کہانی : کہیں ہم غلطی تو نہیں کر رہے نا

ایک روزن لکھاری
ظہیر استوری ، صاحب مضمون

گلگت بلتستان کی کہانی : کہیں ہم غلطی تو نہیں کر رہے نا

(ظہیر استوری)

1948 میں ڈوگر راج سے آزادی حاصل کرنے کے بعد گلگت بلتستان کے لوگوں نے قائد اعظم کے ہاتھوں بیعت کی اور ایک معاہدہ ہوا جس میں اس خطے کو باقاعدہ پاکستان کا حصہ بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔ یاد رہے کہ یہ آزادی گلگت بلتستان کے لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت حاصل کی تھی۔ اُس معاہدے سے لے کر آج تک اسکول سے لے کر یونیورسٹی تک مطالعہ پاکستان پڑھایا جاتا ہے جس میں اس وادی کا کہیں کوئی ذکر نہیں۔ اس خطے کی ملکی لیول پر نہ تو کوئی تاریخ پڑھائی جاتی ہے اور نہ ہی کوئی زبان کی ترویج ہو رہی ہے۔ 2009 میں صوبے کا سیٹ اپ دینے کے باوجود یہ خط آج تک متنازعہ ہے۔

 2014 میں گلگت بلتستان کی ایک انسداد دہشتگردی کی عدالت نے جیو کے مالک میر شکیل الرحمٰن کو 26 سال قید کی سزا سنائی تو اُس کے جواب میں سابق وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید نے بیان دیا تھا کہ گلگت بلتستان کے عدالتی فیصلے پاکستانی شہریوں پر اثر انداز نہیں ہوسکتے۔افسوس کی بات تو یہ ہے کہ اس بیان کے بعد گلگت بلتستان کے سیاستدانوں کو خیال آیا کہ ہم تو واقعی پاکستان کا حصہ نہیں ہیں۔

مجھے یہ سمجھ نہیں آتی کہ مقبوضہ کشمیر کو آزاد کرانے کے لئے ہر سطح پر اتنی کوششیں کی جاتی ہیں مگر جو آزاد ہیں اور اس ملک کا حصہ بننا چاہتے ہیں اُن کی طرف کبھی دیکھنا بھی گوارا نہیں۔۔! مشرقی پاکستان کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک ہوا تھا “ادھر ہم اُدھر تُم” جس کی بنیاد پر 1971 کی جنگ لڑنی پڑی اور اُس کے اثرات سے آج تک باہر نہیں نکل پا رہے ہیں۔ ہماری تاریخ رہی ہے کہ جو چیز ہمیں آسانی سے میئسر ہوتی ہے اُس کی قدر ہم کبھی نہیں کرتے اور جو لاحاصل ہوتی ہے اُس کے پیچھے زندگی صرف کر دیتے ہیں۔

گلگت بلتستان کی کہانی پاک چائنہ دوستی کی عملی بنیاد، قراقرم ہائی وے کی ابتدا، سے شروع ہوئی جس کی ابتدا 60ء کی دہائی میں ہوئی تھی پاکستان کو چائنہ سے ملانے والی واحد شاہراہ ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان میں سب سے بڑا آبی ذریعہ دریائے سندھ بھی اسی سرزمین کی کوکھ سے نکلتا ہے۔ دنیا کے بڑے پہاڑی سلسلوں میں سے 50 اسی دھرتی میں سموئے ہوئے ہیں۔ باقی حقوق تو ایک طرف آج تک اس جنت نظیر کو اس کے اپنے قدرتی ذخائر کی رائلٹی بھی نہیں دی گئی۔ حق مانگنے والے کے ساتھ یا تو مشرقی پاکستان جیسا سلوک کیا جاتا ہے یا اکبر بگٹی کی طرح گولیوں سے چھلنی کر دیا جاتا ہے اور پھر کہتے پھرتے ہیں کہ ہم انصاف کرتے ہیں۔ کہاں کا انصاف ہے یہ کہ آپ مقبوضہ کشمیر کی آزادی تک جنگ کا نعرہ تو لگاتے ہیں مگر جو خود آزادی لے کر آپ کے پاس آتے ہیں اُن کا حشر گلگت بلتستان جیسا کر دیتے ہیں۔

61 سال تک اس کو آپ نام دینا بھی گوارہ نہیں کرتے اور اس کے بعد ایک برائے نام پہچان دے کر اسی دھرتی کا سینہ چیر کر آپ “گیم چینجر” کو چائنہ سے گوادر تک لے آتے ہیں مگر اسی سرزمین کو اس کے فوائد سے محروم رکھتے ہیں۔۔ آخر کیوں؟ کہنے کو اس خطے میں ملک کے باقی حصے سے لٹریسی ریٹ زیادہ ہے مگر آج بھی اس سرزمین کی بیوروکریسی میں باہر کے افراد شامل ہیں اور اسی “زیادہ تعلیم یافتہ” علاقے کی بھاگ ڈور “کم تعلیم یافتہ” علاقے کے افراد کر رہے ہیں۔۔۔ آخر کیوں؟؟

ایک سیکریٹری سے لے کر پولیس کے سربراہ تک دوسرے صوبوں سے آتے ہیں اور دوسرے صوبوں میں کوٹہ جیسی لعنت کا نام دے کر گلگت بلتستان کو قریب بھی نہیں آنے دیا جاتا ہے۔ 61 سالوں میں ہزار دفعہ آئین پاکستان میں من چاہی تبدیلیاں ہو گئی مگر اس خطے کے بارے میں کسی کو خیال تک نہیں آیا۔ مزید ستم ظریفی دیکھئے کہ وزیر اعظم پاکستان اپنے چاروں صوبوں کے وزراء اعلیٰ اور سینکڑوں دیگر افراد کو ڈیلیگیشن کی شکل میں چائنہ لے کے گئے مگر گلگت بلتستان کے کسی نمائندے کو دعوت تک نہیں دی گئی یاد رہے کہ گلگت بلتستان کا موجودہ وزیر اعلیٰ ن لیگ کا ہی نمائندہ ہے۔

ہم  اپنی تاریخ کو بھولتے آئے ہیں اور تاریخ بار بار خود کو دہرا رہی ہوتی ہے۔ ہم نے مجیب الرحمٰن کو حق مانگنے پر “ادھر ہم اُھر تم” بول دیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہمیں اپنا ایک بازو قربان کرنا پڑا۔ بلوچستان کے استحصال کے خلاف اکبر بگٹی اُٹھ کھڑے ہوئے تو اُن کو انہی کے گھر میں گولیاں مار دی اور اُن کو دہشتگرد قرار دیا گیا مگر آپ کے سینے پہ بیٹھ کر لوگ مذہب اور سماج کے نام پہ ہزاروں انسانوں کا خون پی چکے ہیں اُن کو دہشتگرد قرار دینے سے ہچکچاتے آئے ہیں۔

تاریخ سے ہم نے آج تک سبق نہیں سیکھا۔ اسی لئے تاریخ بھی ہمیں بار بار ایسے مقام پر لا کھڑا کر دیتی ہے جہاں ہمیں مجبور ہو کے سوچنا پڑتا ہے کہ اب کیا کرنا ہے  تب جا کے سوچنے بیٹھ جاتے ہیں کہ ہم صحیح کر رہے ہیں یا غلط۔ اُس کے بعد بھی ہم کوئی فیصلہ نہیں کر پاتے کہ ہمیں کرنا کیا ہے۔ سال کے چھے مہینے ہم سیلاب میں گھرے رہتے ہیں اور باقی کے چھے مہینے خشک سالی کا سامنا کرتے ہیں۔ انڈیا جب چاہے ہم پر پانی بند کر دیتا ہے اور ہم اقوام متحدہ میں جانے کی دھمکی دیتے رہتے ہیں۔ اس ملک میں کیا نہیں ہے، تھل اور تھر کے صحرا سے لر کر نانگا پربت جیسے برفانی پہاڑ تک، سندھ اور بلچستان کی جھلسا دینے والی گرمی سے لے کر سیاچن کی جما دینے والی سردی تک، ہمالیہ کے پہاڑی سلسلوں سے لے کر ہندوکش اور قراقرم کی دلکش وادیوں تک، سینڈک اور ریکوڈک کی سونے اور کاپر سے بھرپور زمین سے لے کر پنجاب کی سونا اُگلتی کھیتوں تک سب کچھ موجود ہے اگر نہیں ہے تو صرف انسان نہیں ہیں۔

ہم آج کے اس دور میں بھی غیرت اور مذہب کے نام پہ قتل کی سوچ سے باہر نہیں آئے کبھی یہ سوچنے کی زحمت نہیں فرمائی کی غیرت اور مذہب کے نام پہ قتل کی نوبت آخر آتی کیوں ہے۔؟؟ ان سب قدرتی وسائل کے باوجود بھیک کا کٹورا ہاتھ میں لے کے کبھی امریکہ کی طرف تو کبھی چائنہ کی طرف کیوں دیکھ رہے ہیں؟ ہمیں سوچنا چاہیئے اسے بہلے کہ دیر ہو جائے۔