ٹیپو سلطان کی ریاست میں نریندر مودی کی شکست

حسین جاوید افروز
حسین جاوید افروز

ٹیپو سلطان کی ریاست میں نریندر مودی کی شکست

از، حسین جاوید افروز

بھارت کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے طور پر جانا جاتا ہے۔ ایک وسیع وعریض جمہوری ملک ہونے کی بدولت وہاں ہر وقت کسی نہ کسی ریاست میں انتخابی عمل جاری وساری رہتا ہے اور یہی سرگرمیاں بھارت کے جمہوری عمل کی مسلسل آبیاری کرتی رہتی ہیں۔ تازہ ترین انتخابات رواں ماہ کرناٹک کی ریاست میں منعقد ہوئے جہاں کانگرس اور بھارتی جنتا پارٹی کے درمیان گھمسان کا رن پڑنے کی امید تھی اور ایسا ہی ہوا۔ ابتداء میں سیاسی پنڈتوں کے مطابق کانگرس کو اس معرکہ کا مضبوط کھلاڑی گردانا جارہا تھا مگر بعد میں جوں جوں الیکشن ڈے نزدیک آتا گیا تو بھارتی جنتا پارٹی امت شاہ کی انتخابی حرکیات پر گرفت اور مودی کے سحر کی بدولت اس کھیل کا سب سے طاقتور عامل بن کر ابھرنا شروع ہوئی۔

یوں 224 کے ایوان پر مشتمل کرناٹک اسمبلی میں بھارتی جنتا پارٹی 104 کانگرس 78 اور جنتا دل سیکولر 38 نشستیں جیتنے میں کامیاب ہوئی۔ جبکہ 2013 کے ریاستی چناؤ کے مقابلے میں اس بار کانگرس کو پچھلے انتخابات کے مقابلے میں 44 اور جنتا دل 2سیٹیں کم ملیں جو کہ ایک واضح گراوٹ رہی۔ جبکہ بھارتی جنتا پارٹی کا ووٹ بینک تیزی سے پھیلا جو 2013 کے مقابلے میں 64 سیٹیں زیادہ لے پائی۔ مگر امت شاہ اور مودی کی شاطر جوڑی 112 کا جادوئی فگر نہ حاصل کر پائی۔ حالانکہ کرناٹکا کا سیاسی قلعہ فتح کرنے کے لیے مودی نے 21 جبکہ امت شاہ نے 27 ریلیوں میں بھی جم کر پرچار کیا۔

دوسری جانب راہول گاندھی 47 ریلیوں میں شعلہ بیانیاں کرتے نظر آئے۔ البتہ اس بار مودی 33مسلم نشستوں میں 15اور دیہات کی 166 نشستوں میں 74 نشستیں بٹورنے میں کامیاب رہی۔ یاد رہے کہ چھ کروڑ آبادی کی حامل کرناٹک کی ریاست کو ابتداء میں میسور کے نام سے جانا جاتا تھا اور بعدازاں 1973 میں اس کا نام بدل کر کرناٹک رکھا گیا۔ آزادی کے70 سالوں میں 53 سال یہاں کانگرس کا راج رہا ہے۔ یہاں تک کہ 1977 کے لوک سبھا الیکشن میں جب کانگرس کو اندرا گاندھی کی ایمرجنسی کی بدولت پہلی بار شرمناک ہار کا سامنا کرنا پڑا تب بھی کرناٹک میں کانگرس کو ہی فتح نصیب ہوئی تھی۔ تاہم 80کی دھائی کے بعد سے یہ رجحان بھی دیکھنے میں آیا کہ ایک بار کرناٹک میں حکومت کرنے والی جماعت مسلسل دوسری بار حکومت لینے میں کامیاب نہیں ہوپاتی۔ اس حوالے سے اس بھارتی ریاست کا مزاج ہمارے خیبر پختونخواہ سے ملتا جلتا ہے۔ جبکہ یہ بات بھی مشاہدہ میں آئی کہ جوجماعت کرناٹک کے ریاستی چناؤ جیت لیتی ہے وہ اگلے لوک سبھا کے الیکشن میں اپنی جیت رقم کرنے سے قاصر رہتی ہے۔

لیکن ضروری نہیں کہ یہ سیاسی روایات ہمیشہ قائم بھی رہے۔ مگر اس مرتبہ یہاں یہ امر قابل ذکر رہا کہ عوام نے بھارتی جنتا پارٹی کے فرقہ ورانہ ایجنڈے اور کانگرس کی جانب سے دیے گئے لنگائیت کارڈ کو یکسر مسترد کردیا۔ لنگایت کمیونٹی کل آبادی کا 17 فیصد ہے جو کہ ستر سے ایک سو سیٹیوں پر اپنا گہرا اثر رکھتا ہے۔ یہ فرقہ خود کو ہندو دھرم سے بالکل الگ مانتا ہے اور بھگوان شیو کی پوجا کرتا ہے۔ لنگائیتی فرقے کی روایات ہے کہ یہ ہندوؤں کی طرح اپنے مردو ں کی چتا نہیں جلاتے بلکہ ان کو زمین میں دفن کرتے ہیں۔ ایک عرصے سے کرناٹک میں لنگائیت کمیونٹی اپنی الگ شناخت کے  لیے کوشاں رہی ہے۔ لیکن بھارتی جنتا پارٹی ان کو ہندو دھرم کا ہی حصہ سمجھتی ہے۔ اس بار بھارتی جنتا پارٹی نے لنگائیت فرقہ سے تعلق رکھنے والے لیڈر اور سابق وزیر اعلیٰ یدروپا کی مدد سے تقریباً 38 لنگائیتی سیٹیوں پر کامیابی حاصل کی جہاں لنگائیت فیکٹر موجود تھا۔

مزید دیکھیے: جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے بانکے

یہاں یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ یدروپا اس سے قبل اپنی ایک جماعت بنا کر کانگرس کے ساتھ 2013 میں اتحادی بن گئے اور اپنے دم پر 35 سیٹیں لے اڑے تھے جس نے بھارتی جنتا پارٹی کو کافی بھاری نقصان پہنچایا تھا۔ کرناٹکا میں انتخابی دنگل بہت ہی دلچسپ رہا جب ۱۱مئی کو ہونے والے الیکشنزمیں بی جے پی کامیاب ٹھہری۔ 16 مئی کو گورنر وجو بھائی والا نے یدروپا کو سرکار بنانے کی دعوت دی اور پندرہ یوم میں اکثریت ثابت کرنے کا ٹاسک دیا۔ جس پر کانگرس اور جنتا دل سیکولر سپریم کورٹ چلے گئے۔ یوں 18 مئی کو سپریم کورٹ کے فیصلے کے نتیجے میں یدروپا کو محض چوبیس گھنٹے میں اکثریت ثابت کرنے کا حکم دیا گیا۔ جس کے نتیجے میں19 مئی کو یدروپا نے بطور وزیر اعلیٰ استعفیٰ دیا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ان کے پاس اکثریتی ممبران جمع نہیں ہوسکے تھے۔

اس طرح بی جے پی اکثریتی جماعت ہونے کے باوجود اقتدار کے ایوانوں سے رخصت ہوگئی اور بعد ازاں جنتا دل اور کانگرس کے اتحاد سے کمارا سوامی نے بطور وزیر اعلیٰ کرناٹکا حلف اٹھایا۔ جبکہ نائب وزیر اعلیٰ اور اسپیکر کے اہم قلمدان کانگرس نے ہتھیا لیے۔ بلاشبہ یہ مودی اور امت شاہ کی بدقسمتی ہے کہ وہ سو سے زیادہ سیٹیں جیت کر بھی سرکار نہیں بنا سکے۔ البتہ دیوی گوڑا کی جنتا دل کو وہ تحفہ ملا جس کی کوئی امید نہیں تھی۔ اس شکست کے باوجود امت شاہ نے جس طرح بکھری بھاجپا پارٹی کو منظم کیا وہ قابل تعریف رہا۔ لیکن جوڑ توڑ کے کھیل میں شاطر امت شاہ مار کھا گئے کیونکہ جس طرح کانگرس نے اپنی پرانی حریف جنتا دل سیکولر کو ساتھ ملایا وہ بھاجپا کے لیے مکمل سرپرائز رہا۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ اگر کانگرس، جنتا دل اتحاد پہلے قائم ہو گیا ہوتا تو تو بھاجپا 70 سے زائد سیٹیں بھی نہ لے پاتی۔

حسین جاوید افروز کی ایک روزن پر شائع شدہ دیگر تحریریں

تاہم انڈین میڈیا اور سیاسی تجزیہ نگاروں نے کرناٹک میں بی جے پی کی جانب سے اقتدار لینے کے لیے اپنے لگائے گئے گورنر وجو بھائی والا کے سیاسی استعمال پر کڑی تنقید کی کہ گورنر نے یہ جانتے ہوئے بھی کہ بی جے پی کے پاس جادوئی فگر حاصل کرنے کی سکت نہیں اسے کیونکر حکومت بنانے کی دعوت دی ؟اور پھر جس طرح سے پندرہ دن کے اندر ا کثریت دکھانے کے لیے بی جے پی نے ہارس ٹریڈنگ، دھونس اور ترغیبات کے ذریعے جنتا دل اور کانگرسی امیدواروں کے ضمیر خریدنے کی کوشش کیاس کو انڈین ذرائع ابلاغ اور کانگرس نے خوب لتاڑا۔ بحث کو سمیٹے ہوئے اب اگر ہم کرناٹک ریاستی الیکشن کے اثرات کا جائزہ لیں تو اس معرکے کے بعد بھارتی جنتا پارٹی کے اعتماد کو خاصی ٹھیس پہنچی ہے۔ کیونکہ اب لوک سبھا کے 2019 کے الیکشن کچھ زیادہ دور نہیں رہ گئے ہیں اور اب ابھی راجستھان، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ جیسی اہم ریاستوں کے انتخابات بھی سر پر ہیں۔ اور رواں برس گجرات کی ریاست جو کہ نریندرا مودی کے گھر کے آنگن کی حیثیت رکھتی ہے وہاں بھی مودی بمشکل کانگرس اور پٹیل برداری کو شکست دے پائے تھے۔

ایسے میں سوال اٹھتا ہے کہ کیا نوٹ بندی، جی ایس ٹی جیسے بڑے اقدامات کی ناکامی کے بعدمودی لہر روز بروز بھارت میں پھیکی پرتی جارہی ہے ؟یہاں تک کہ کرناٹک میں ٹیپو سلطان کے یوم پیدائش کے جشن کو بھی بی جے پی نے سیاسی ایشو بنا کر ووٹ بٹورنے کی کوشش کی مگر یہ حربہ بھی اس کے خاص کام نہیں آیا۔ ٹیپو سلطان جیسے عظیم مجاہد آزادی کی حمایت کئی نامور مورخین نے بھی دلائل کے ساتھ ثابت کی کہ میسور کا یہ حکمران محض مسلم رعایانہیں بلکہ ریاست میں بسنے والے طبقات کے لیے جدوجہد اور مزاحمت کا استعارہ رہا ہے۔ کانگرس نے بھی اس معاملے کو بروقت کیش کیا اور جوش و خروش سے ٹیپو کے جشن ولادت میں حصہ لیا۔ اس شکست نے جنوبی ہندوستان میں مودی لہر کو جہاں بے اثر کیا وہاں 2019 کے چناؤ کو سامنے رکھتے ہوئے مودی کے خلاف اپوزیشن میں بھی نئی روح پھونک دی ہے۔ راہول گاندھی گجرات میں شکست کے باوجود اپنی چھاپ چھوڑنے میں کامیاب رہے تھے مگر اب کرناٹک میں جنتا پارٹی کی شکست کے بعد اور زیادہ تازہ دم ہو کر 2019 کے الیکشن کے  لیے مشترکہ اپوزیشن کو مودی کے مقابل کھڑا کرنے کی سکت حاصل کرچکے ہیں۔

ایک حقیقت ہے کہ ابھی بھی کانگرس اپنے دم پر مودی کے سامنے بند نہیں باندھ سکتی۔ اس کے لیے راہول کو اپنی سیاسی ٹیم کی ترتیب نو کرنا ہوگی اور عوامی جڑیں رکھنے والے لیڈروں کو ٹکٹ دینا ہوگا کیونکہ عوام کی نبض جانچنے کا موسم آگیا اور بھارت کی سیاسی فضا بھی تیزی سے بدل رہی ہے۔ دوسری جانب مودی کے اتحادی چندرا بابو نائیڈو وزیر اعلیٰ آندھرا پردیش بھی ان کے رویے سے نالاں ہیں کیونکہ مودی ابھی تک آندھرا پردیش کو سپیشل سٹیٹس دلانے میں اپنا وعدہ نبھانے میں ناکام رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نائیڈو کے اشارے پر کرناٹک میں مقیم آندھرا ووٹ بینک بھی بھارتی جنتا پارٹی کے خلاف گیا ہے۔

مودی کے لیے ایک اور بڑا چیلنج بھارت کے کسانوں کی حالت زار بھی ہے جو مسلسل قحط، بھوک، اور قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق 1995 سے اب تک تین لاکھ کسان غریبی، افلاس کے سبب خود کشی کر چکے ہیں۔ جبکہ صرف مودی راج میں تیس ہزار سے زائد کسان اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ قحط سے متاثرہ ریاستوں میں مہاراشٹرا، کرناٹکا اور تلنگانہ نمایاں ہیں۔ جبکہ مودی کے بھاری بھرکم دعوے بھی ان کے گلے کا طوق بن سکتے ہیں جیسے انہوں نے بہت طمطراق سے کہا تھا کہ اگر اقتدار ملا تو سالانہ کیونکہ ایک کروڑ نوکریاں فراہم کریں جبکہ حقیقت تو یہ ہے اب مودی سالانہ دو لاکھ تیس ہزار نوکریاں ہی دے پائے۔ جبکہ ہر سال ڈگریاں لیے ایک کروڑ بیس لاکھ نوجوان نوکریوں کے منتظر رہتے ہیں۔

اس پر ستم یہ کہ مودی کا یہ وعدہ بھی عوام اور میڈیا کو خوب یاد ہے کہ باہر سے لوٹا ہوا دھن بھارت واپس لائیں گے یوں ہر بھارتی کے اکاؤنٹ میں پندرہ لاکھ روپے آ جائیں گے۔ علاوہ ازیں گجرات میں نوجوان سیاست دانوں ہاردک پٹیل، جگدیش میوانی اور الپیش ٹھاکر نے بھی مودی کو ان کی آبائی ریاست میں بھرپور انداز سے چیلنج کرکھا ہے۔ اس پر ستم یہ کہ دلتوں کی جانب سے اپریل میں بھارت بند تحریک نے بھی دلتوں کو بھارتی جنتا پارٹی کے خلاف مکمل طور پر بیدار کردیا ہے۔ نریندرمودی اب بھی ان تمام مسائل کے باوجود 2019 کے چناؤ میں سب سے مضبوط دعویدار ہیں مگر عوام کا موڈ کب بدل جائے اس کی جھلک ان کو گجرات، پنجاب، اور اب کرناٹک کے نتائج سے محسوس ہونا شروع ہوگئی ہے۔

About حسین جاوید افروز 84 Articles
حسین جاوید افروز جیو نیوز سے وابستہ صحافی ہیں۔