مولانا فضل الرحمان کی خواہش

مولانا فضل الرحمان کی خواہش

مولانا  فضل الرحمان کی خواہش

از، ملک تنویر احمد

خواہشوں پر کوئی بندش نہیں لیکن خواہش اور حقیقت میں ہمہ وقت تال میل ضروری نہیں ۔ اس لئے تو شاعر کہہ اٹھا تھا:

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے

مولانا فضل الرحمان نے فرمایا ’’کسی فرقے کا نہیں اسلام کا نمائندہ ہوں‘‘۔ ہم مولانا کو رعایت لفظی مرحمت کر کے یہ نہیں کہہ سکتے کہ ’’مستند ہے آپ کا فرمایا ہوا‘‘۔ مولانا صاحب نے جمعیت علمائے اسلام کے بقول ان کے صد سالہ اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے یہ فرمان عالی شان جاری کیا۔ مولانا فضل الرحمان ہماری سیاست کا معروف نام ہے۔ ان کی ذات سے منسوب بہت سے مالیاتی معاملات اور مختلف حکومتوں سے ’’حصہ بقدر جثہ‘‘ سے زیادہ شےئر وصول کرنے کے ان کے سیاسی داؤ ایک طرف رکھ کر ہم اگر مولانا صاحب کی سیاست تک ہی اپنے آپ کو محدود رکھتے ہیں۔

ملک تنویر احمد، Malik Tanvir Ahmed
ملک تنویر احمد، صاحب مضمون

مولانا صاحب نے صد سالہ اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے جو ارشاد فرمایا کہ وہ اسلام کی نمائندگی کرتے ہیں کسی فرقے کی نہیں تو یہ ان کی طرز سیاست سے لگا نہیں کھاتا۔ مولانا صاحب کی جماعت بظاہر جمعیت علمائے ہند کی پاکستانی شاخ ہے جو تقیسم ہند کے بعد اس وقت پاکستان کی طرف ہجرت کرکے آنے والے علماء دین نے رکھی جو کبھی جمعیت علمائے ہند سے تعلق رکھتے تھے ۔ جمعیت علمائے ہند قیام پاکستان سے فکری اختلا ف رکھتی تھی اور ان کا نقطہ نظر اس وقت کے مسلمانان ہند نے مسترد کر کے مسلم لیگ کے پلڑے میں اپنی حمایت و تائید کا وزن ڈالا تھا تاہم جمعیت علمائے ہند مسلمانا ن ہند سے اٹھنے والے ان جید ناموں پر مشتمل ایک جماعت تھی جو اپنے نظریے اور مذہبی خیالات میں وسیع النظر اور کل ہند نمائندگی کی نمائندگی رکھتے تھے۔ مولانا صاحب اب جس جمعیت علمائے اسلام کے امیر ہیں وہ ایک محدود مسلکی فکر کی پیرو ہے اور اس کا انتخابی حلقہ بھی ایک محدود لسانی زبان بولنے والے افراد پر مشتمل ہے۔مولانا صاحب نے اپنے آپ کو اسلام کا نمائندہ قرار دیا۔

ان کی یہ خواہش نیک ہے اور اس کا خیر مقدم بھی کیا جانا چاہئے لیکن ان کی طرز سیاست اور عمل دیوبندی مکتبہ فکر کے ارد گرد گھومتا ہے۔ وہ پارلیمانی سیاست پر یقین رکھتے ہیں اور پاکستان کے مذہبی طبقے میں اعتدال پسند رجحانات کے عناصر میں ان کا شمار ہوتا ہے لیکن مولانا صاحب ابھی تک محدود مسلکی فکر سے باہر نکلنے کے لیے تیار نہیں۔ اگر وہ ذہنی طور پر اس کی جانب مائل بھی ہوں تو سیاسی مفادات ان کی راہ میں مزاحم ہوں گے کیونکہ پاکستانی سیاست کے منظر نامے میں وہ کبھی بھی ہمہ گیر وفاقی جماعت کے قالب میں اپنی جماعت کو نہیں ڈھال سکے۔مذہبی سے بڑھ کر ایک مسلکی سیاسی جماعت کی نمائندگی کر کے مولا نا صاحب نے اپنے فہم سیاست کو بھی اس حدتک محدود کر لیا ہے کہ وہ کسی اعلیٰ انسانی آدرش اور نظریے کی آبیاری کے لئے اپنے آپ کو تیار نہیں کر پائے۔

ان کی جماعت ملک میں نفاذ اسلام اور شریعت کی داعی ہے۔ آئین پاکستان جن پر ان کے والد مرحو م و مغفور نے بھی دستخط کئے تھے وہ ملک میں اسلام کی تعلیمات کے بر عکس کسی بھی قانون کے نفاذ کو یکسر مستر د کرتا ہے اس لئے اب مولانا صاحب کی سیاست کا یہ پہلو تو اپنی موت آپ مر جاتا ہے کہ اسلام کے قانون کے نفاذ کے لئے آئین پاکستان خود ضمانت فراہم کرتا ہے۔اب اگر ان کی دانست میں یہ نفاذ نہیں ہو سکا تو اس میں مولانا صاحب کی ذات گرامی بھی شکوک و شبہات کی پرچھائیوں میں آتی ہے کیونکہ وہ پچھلے تین عشروں سے پاکستان میں سیاسی اور فوجی حکومتوں کی ناک کا بال بنے رہے۔

انہوں نے کبھی بھی کوئی ایسی ہمہ گیر قومی تحریک ان کے حکومتوں کے خلاف بر پا نہیں کی جو ان کے بقول ملک میں نفاذ شریعت کی راہ میں حائل رہیں۔ مولانا صاحب کی جماعت نے اگرچہ اس وقت حکومتوں کو آڑے ہاتھ لیا جب انہیں کچھ ذاتی مفادات اور کچھ وزارتوں کا حصول مطلوب تھا۔مولانا کے سیاسی مخالفین ان کے بارے میں جو بد زبانی کرتے ہیں اس سے شدید اختلاف کرتے ہوئے عرض کرنا ہے کہ مولانا کوئی فرشتہ نہیں کہ ان سے لغزشیں سرزرد نہ ہوئی ہوں تاہم مولانا صاحب سے ایک مہذب انداز میں اختلاف کرتے ہوئے ان کے گوش گزار یہ کرنا ہے کہ مولانا صاحب اسلام کا نمائندہ ہونے کے آپ کا دعویٰ خواہش تو ہو سکتی ہے لیکن حقیقت نہیں کیونکہ بقول اقبال ع
پیر حر م کو دیکھا ہے میں نے
کردا ر بے سوز ، گفتار واہی !