انسانی عقل کی خودمختاری،ماڈرنیٹی اور یورپ

لکھاری کی تصویر
صاحب مضمون، ڈاکٹر ناصر عباس نیئر

انسانی عقل کی خودمختاری، ماڈرنیٹی اور یورپ

(ناصر عباس نیر)

یورپ یا مغرب کو ماڈرینٹی کا مہابیانیہ سمجھے جانے کا کرشمہ ہی ہے کہ مغرب یا یورپ کو ماڈرینٹی سے نہ تاریخی طور پر الگ کیا جا سکتا ہے نہ علمیاتی طور پر۔ امریکی عالم برناڈ لیوس ماڈرینٹی سے مراد کسی غالب اور مسلسل نمو پذیر تہذیب کے معیارات، اقدار اور روشیں لیتے ہیں۔ چوں کہ اب مغربی تہذیب غالب اور بہ قول اس کے مسلسل نمو پذیر ہے، اس لیے مغربی معیارات، ماڈرینٹی کے مترادف ہیں۔ ہر چند اس سے یہ استنباط کیا جا سکتا ہے کہ جب یونانی، لاطینی اور مسلم تہذیبیں غالب تھیں تو ان کے معیارات اور اقدار ماڈرینٹی تھے، مگر اس سے ماڈرینٹی کا ایک خالص علمی مگر غیر مغربی تصور پیدا ہوتا ہے۔ مابعد جدیدیت اس تصور کی تشکیل کا امکان رکھتی ہے، مگر جدیدیت اس تصور سے گریز کرتی ہے۔
جدیدیت اوّل کی تشکیل جن فکری عناصر سے ہوئی ہے، ان میں کلیدی عنصر بشر مرکزیت (Humanism) ہے۔ چارلس سنگر کی یہ راے درست ہے کہ جدید فکر، جدید سائنس، جدید آرٹ، جدید ادب سب بشر مرکزیت کی پیداوار ہیں۔بشر مرکزیت نے مغرب میں ایک نئیُ کونیات متعارف کروائی۔ بشر مرکز کونیات نے مغربی دنیا میں عیسائی/ دینیاتی کونیات کو بے دخل کیا۔ دینیاتی کونیات میں عیسائیت کے تصور خدا کو مرکزیت حاصل تھی اور بشر مرکز کونیات میں مرکزیت انسان کو دی گئی۔ ایک کونیات کی جگہ دوسری کونیات پوری پیراڈایم شفٹ تھی۔ تاہم نہ صرف دونوں میں مرکزیت قدر مشترک تھی بلکہ انسان کا اتنا ہی عظیم الشان تصور قایم کیا گیا جو بائبل میں خدا کا پیش کیا گیا تھا۔ مثلاً بائبل میں خدا کی یہ صفات دیکھیے :

“Behold, I am doing a new thing”
(Isaiah 43:19)
“I create new heavens and a new earth”
(Isaiah 65:17)
“Behold, I make all things new”
(Isaiah21:5)

خلاقی کی یہ غیر معمولی صفات، بشر مرکزیت نے انسان سے منسوب کیں۔ گویا بشر مرکزیت نے ’’خدائی انسان‘‘ کا تصور قایم کیا۔ دینیاتی کونیات میں خدا کائنات کا تنظیمی اصول تھا اور بشر مرکزیت کے تحت انسان کو تاریخ کا تنظیمی اصول قرار دیا گیا۔ ایک طرح سے انسان کو خدا کا مقابل اور حریف بنا کر پیش کیا گیا، جس کی انتہا نطشے کے یہاں ظاہر ہوئی، جس نے خدا کی مرگ اور سپر مین کے جنم کا نعرۂ بلند کیا، مگر دل چسپ بات یہ ہے کہ بشرمرکزیت میں انسان کا تصور ماورائی تھا نہ فلسفیانہ۔ یہ ایک حقیقی اور زمینی فرد تھا۔ اس فرد کو ’’دریافت‘‘ کرنے میں یونانی ادب اور آرٹ نے یورپی ذہن کی مدد کی۔ یہ ایک غیرمعمولی بات ہے کہ ایک یک سر نئی کونیات کی تشکیل میں سب سے بڑا ہاتھ، ادب اور آرٹ کا ہے، فلسفے و سائنس کا نہیں ہے۔ تاہم جب یہ کونیات قایم ہو چکی تو نیا فلسفہ اور نئی سائنس وجود میں آئی۔ بشرمرکزیت اوّل اوّل تعلیمی تصور تھا اور یہ ان یونانی علوم کی تدریس کو محیط تھا جنھیں انسانی علوم کا نام دیا گیا۔ یعنی Studia humanitatis۔ قرونِ وسطیٰ میں ان کے پڑھنے کی اجازت نہیں تھی۔ تیرھویں صدی میں اٹلی میں انسانی علوم کی تدریس کا آغاز ہوا۔ اور جو لوگ اس کام سے وابستہ تھے، وہ بڑے مفکر اور فلسفی نہ تھے، مگر جنھوں نے کسی بڑے مفکر سے بڑھ کر مغربی ذہن کو متاثر کیا۔ انھوں نے دراصل نظریہ سازی کے بجاے قدیم یونانی کلاسکس کی جمع و تدوین کی اور ان کے ’’حقیقی مطالعے‘‘ کا ذوق پیدا کیا۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ بشرمرکزیت کی تحریک نے الہامی متون کی جگہ ’بشری متون‘ کو دی۔ واضح لفظوں میں بائبل کی جگہ طبعی اور پھر سماجی سائنسوں نے لی۔ عیسائی دنیا میں الہامی متون نے ہر فکر کا سرچشمہ اور ہر عمل کا جواز خدا میں تلاش کرنے کا رویہ پیدا کیا تھا اور بشری متون کے زیر اثر ہر فکر کا سرچشمہ اور عمل کا جواز انسان میں 190190 اس کی عقل میں 190190 تلاش کرنے کی روش وجود میں آئی۔ پہلے فطرت خدا کی مقدس عبارت تھی، جس کی قرأت تو کی جا سکتی ہے، اس کی تحسین بھی کی جا سکتی ہے، مگر جسے اپنی عقل سے سمجھنے اور اپنے مقاصد کے مطابق ڈھالنے کا خیال بھی نجس سمجھا جاتا، لیکن اب فطرت ایک مظہر قرار دی گئی۔ اس پر پڑے تقدس کے ہالے کو توڑ دیا گیا، اس کے باطن میں جھانکنے، اسے سمجھنے اور بعد ازاں اسے اپنے مقاصد و اغراض کے لیے بروے کار لانے اور اسے تبدیل کرنے کا عمل شروع ہوا۔ الہامی متون کے اقتدار نے عیسائی دنیا کو سماج و تاریخ کے مطالعے سے بے نیاز رکھا تھا۔ اس اقتدار کے کم زور ہوتے ہی سماجی و تاریخی مطالعات شروع ہوے اور یہ سارا عمل عقلی خود مختاری کے اس تصور کے بغیر ممکن نہیں تھا، جسے بشر مرکزیت نے تشکیل دیا تھا۔

لہٰذا عقلیت پسندی کو جدیدیت اوّل یا ماڈرینٹی کا دوسرا اہم فکری ستون قرار دینا چاہیے۔ جدید یورپی ذہن نے محض انسانی عقل میں اعتقاد پختہ نہیں کیا، انسانی عقل کو ان تمام زنجیروں سے رہائی بھی دلائی، جو قرونِ وسطیٰ میں اسے پہنائی گئی تھیں۔ قرونِ وسطیٰ کا یورپی ذہن محض اس حد تک آزاد تھا کہ وہ مذہبی تصورات، روایات اور توہمات کی تشریح کر سکتا یا مذہبی کونیات کے مطابق کاینات کی منطقی توجیہات پیش کر سکتا تھا۔ ایک تسلیم شدہ سچائی کو ثابت کرنے تک اس کی تگ و تاز محدود تھی، مگر بشرمرکزیت نے یورپی ذہن کو آزادی اور خود مختاری دی۔ نہ صرف فکر و تحقیق کے میدان منتخب کرنے کی آزادی دی، بلکہ فکر و تحقیق کے طریقے اختیار کرنے کے سلسلے میں بھی اسے خود مختار قرار دیا۔ چناں چہ مغربی ذہن ممنوعات کے در پر دستک دینے، نامعلوم کی تاریکیوں میں اترنے، اجنبی منطقوں کو دریافت کرنے نکل کھڑا ہوا۔
فلسفے میں روشن خیالی اور ادب میں نوکلاسیکیت کی تحریکوں نے عقلیت پسندی کو ہی راہ نما بنایا تھا۔ دوسرے لفظوں میں ادبی سطح پر ماڈرینٹی کا اظہار نوکلاسیکیت میں ہوا۔ مثلاً بولیو نے لکھا ہے :
’’شاعری کو عقل کے قوانین کے مطابق ہونا چاہیے ۔۔۔ شاعری عقل کا جوا ضرور قبول کرے گی، جو اسے مجروح کرنے کے بجاے الہامی بنا دے گا ۔۔۔ عقل سے محبت کرو اور جو کچھ تم لکھو اس میں عقل سے حسن، قوت اور روشنی حاصل کرو۔‘‘
(’’فن شاعری‘‘ (ترجمہ (جمیل جالبی) ارسطو سے ایلیٹ تک ص ۲۶۵۔۲۶۶)
بعض لوگ ماڈرینٹی کا آغاز روشن خیالی سے کرتے ہیں۔ اصل یہ ہے کہ روشن خیالی (۱۸ویں صدی کا نصف آخر) کے عہد میں ماڈرینٹی کے وہ تمام نقوش واضح ہو گئے، جو بشر مرکزیت کے تحت بننا شروع ہوے تھے۔
انسانی عقل کی خود مختاری کو تسلیم کرنے کی وجہ سے ماڈرینٹی، علم کا معروضی، حقیقی اور غیر جانب دارانہ ہونے کا تصور بھی تشکیل دیتی ہے۔ چوں کہ انسانی عقل اپنے قوانین کے علاوہ کسی اور پر منحصر نہیں (اور یہاں ’کسی اور‘ سے مراد قبل جدید عہد کے الہامی ذرایع علم ہیں، رائج توہمات اور صدیوں سے چلی آ رہی روایات ہیں) اس لیے فطرتِ خارجی اور تاریخ انسانی کا حقیقی علم حاصل کیا جا سکتا ہے۔ نیز یہ علم حقیقی ہی نہیں آفاقی بھی ہے۔ جدیدیت اوّل نے جس طرح زماں کو مکاں سے علاحدہ کیا : ایک مخصوص زمانی نکتے پر وقوع پذیر ہونے والے واقعے کو اس کے مکانی تعلق سے الگ کیا، اس طرح علم کو تناظر سے الگ کیا۔ فطرت اور تاریخ کے علم کو ایک طرح سے ’’خود مکتفی‘‘ قرار دیا۔ مثلاً الیا پرائی گوگین نے لکھا ہے کہ ہم جسے حقیقت کہتے ہیں، یہ ہم پر اس ’’تشکیل‘‘ کے ذریعے منکشف ہوتی ہے، جس میں ہم حصہ لیتے ہیں۔یعنی علم ایک تشکیل ہے، جس میں محض ناظر ہی حصہ نہیں لیتا، وہ صورتِ حال اور تناظر بھی شریک ہوتا ہے، جس میں کسی شے کا علم حاصل کیا جا رہا ہوتا ہے۔ سائنسی علم کو پیراڈایم اور سماجی علم کو ڈسکورس اور آئیڈیالوجی کنٹرول کر رہے ہوتے ہیں۔ ماڈرینٹی، علم کا معروضی تصور قایم کرنے کے جوش میں ان تمام باتوں کو فراموش کیے ہوے تھی۔

About ناصر عباس نیرّ 36 Articles
ڈاکٹر ناصرعباس نیر اردو زبان کے تنقیدی ادب کا ایک با اعتبار حوالہ ہیں۔ اس سلسلے میں کئی مستند کتابوں کے مصنف ہیں: ان میں ● جدید اور مابعد جدید تنقید ● لسانیات اور تنقید ● متن ،سیاق اور تناظر ● مجید امجد: حیات، شعریات اور جمالیات ● ثقافتی شناخت اور استعماری اجارہ داری ● مابعد نو آبادیات اردو کے تناظر میں ● اردو ادب کی تشکیل جدید شامل ہیں۔ ان کی زرخیز ذہنی صلاحیتوں کے با وصف ہم یقین رکھ سکتے ہیں ک کتابوں کی یہ فہرست بڑھتی ہی جائے گی۔ حال ہی میں فکشن میں بھی اپنا ایک توانا حوالہ اپنی افسانوں کی کتاب ●خاک کی مہک کی صورت مہا کر چکے ہیں۔ جبکہ ● چراغ آفریدم انشائیہ کی طرف ان کی دین ہے۔ ● اردو تنقید پر مغربی اثرات کے عنوان سے ڈاکٹریٹ کا مقالہ تحریر کیا۔ اس کے علاوہ ہائیڈل برگ سے پوسٹ ڈاکٹریٹ کے حامل ہیں۔ ite here abotu Nasir abbas