مولانا فضل الرحمن کی سیاست کا فرض کفایہ

Maulana Ammar Khan Nasir aik Rozan
مولانا عمار خان ناصر، صاحب مضمون

مولانا فضل الرحمن کی سیاست کا فرض کفایہ

از، مولانا عمار خان ناصر

مذہبی سیاست سے عموما اور جمعیت علماء اسلام کی سیاست سے خصوصا، مجھے کوئی فکری مناسبت نہیں، بل کہ میں کئی حوالوں سے اس کا ناقد ہوں۔ البتہ مولانا فضل الرحمن کے انداز سیاست کے بعض پہلو میرے نزدیک بہت مثبت اور مطلوب رہے ہیں۔

ان پہلوؤں میں سر فہرست ایک تو دیوبندی طبقے کو دو بڑے چیلنجز، یعنی شیعہ سنی منافرت اور ریاست مخالف جہادی بیانیے کے سیلاب سے بحیثیت مجموعی بچا نکالنے میں کامیاب رہنا ہے، اور دوسرا پہلو اینٹی اسٹیبلشمنٹ سیاسی بیانیے کی نمائندگی ہے۔

مولانا نے اپنے سیاسی سفر کا آغاز ایم آر ڈی کے پلیٹ فارم سے کیا تھا اور سیاسی اتار چڑھاؤ کے مختلف مراحل میں وہ بنیادی طور پر اسی بیانیے کے ساتھ وابستہ رہے ہیں۔ (“بنیادی طور پر” کی قید ملحوظ رہے)
میرے نزدیک موجودہ صورت حال میں، جب کہ کم وبیش تمام سیاسی جماعتیں، عدلیہ، میڈیا اور اہل صحافت کی بڑی تعداد اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں co-opt ہو چکے ہیں، مولانا اس بیانیے کو زندہ رکھنے کا فرض کفایہ ادا کر رہے ہیں جو اس لیے بے حد اہم اور ضروری ہے کہ اس ملک کی سیاست اور سیاسی تاریخ اصلا اسی سوال کے گرد گھومتی ہے۔


مزید و متعلقہ: مولانا  فضل الرحمان کی خواہش

اکابرین دیوبند کا کردار تھا جو، وہ کیا ہوا؟ صد سالہ تاسیس جمعیت علماء اسلام

دارالعلوم دیوبند اور تاجِ برطانیہ کے خلاف مزاحمت


مجھے مولانا پر کرپشن، سیاسی مفاد پرستی، سیاسی اقربا پروری وغیرہ کے اعتراضات سے دل چسپی نہیں، اس لیے کہ یہ سب چیزیں مذکورہ تناظر میں غیر متعلق ہیں۔ اسی طرح ان کے موجودہ سیاسی موقف کے محرکات میں ایک بڑا محرک انتخابات میں شکست ہو، اس پر بھی کوئی بحث نہیں۔

آخر عمران خان پچھلے پانچ سال میں جو سیاسی اچھل کود کرتے رہے ہیں، اس کا محرک بھی یہی تھا۔ اگر عمران خان اپنے ذاتی کردار، سیاسی کہہ مکرنیوں اور سب سے بڑھ کر اسٹیبلشمنٹ کی سیاسی سرپرستی قبول کرنے کے باوجود اس لیے قابل قبول ہیں کہ ان کے پاس گڈ گورننس کا ایک ایجنڈا ہے تو مولانا فضل الرحمن کے سیاسی کردار کو بھی اسی معیار پر قبول کرنا چاہیے۔

پی ٹی آئی کو موجودہ سیاسی صورت حال میں حکومت بنانے اور اپنی کار کردگی دکھانے کا موقع ملنا چاہیے، اس پر ایک عمومی اتفاق رائے موجود ہے، لیکن یہ مرحلہ کس انداز میں سر کیا گیا ہے، اس پر اختلافی سیاسی موقف کی نہ صرف گنجائش بل کہ ضرورت موجود ہے۔ ضروری تو نہیں کہ اگر اسٹیبلشمنٹ نے ایک طرف سے دھوتی اٹھا رکھی ہے تو ساری قوم دوسری طرف سے دھوتی اٹھا کر کھڑی ہو جائے۔

ہذا ما عندی واللہ اعلم