خدائی نظر کی زد میں: سَماجی رزمِیّہ ’دَ ٹرُومین شو‘

فلم و عمرانیات

خدائی نظر کی زد میں: سَماجی رزمِیّہ ’دَ ٹرُومین شو‘

خدائی نظر کی زد میں: سَماجی رزمِیّہ ’دَ ٹرُومین شو‘

از، فرحت اللہ

ٹرُومین شو‘ پہلی فلم ہے جِس نے مجھے فلموں کے اندر سَماج کے ردِ تشکِیلی deconstructive عَناصِر سے رُو شَناس کرایا۔ جہاں سے مجھے فِطری آرٹسٹ کے کئی رُوپ (ہیرو، باغی، دانِش ور، مِس فِٹ، آؤٹ سائیڈر، پیرانائیڈ…) دیکھنے کے مواقع مِلے۔ جانا کہ آرٹسٹ سَماج کا رَدّ تَشکِیلی عُنصَر ہوتا ہے۔ جِس نے مجھے عَلَامَات کے ایک مخصوص سِلسلے سے رُو شَناس کرایا کہ جو اپنے اندر ’شخص کے فرد بننے کے لا شُعوری تڑپ اور سفر‘ کو سَمیٹے ہوئے ہیں۔ میرے نزدیک یہ فلم، آرٹسٹ یا ہیرو کے حوالے سے سَماجی رزمِیّوں کے ایک سِلسلے کا آغاز ثابِت ہوا۔ آج اِس فلم کے حوالے سے بات ہو رہی ہے۔

فلم کی کہانی کچھ یوں ہے کہ ایک ڈائریکٹر ایک انسان کی نِجی زندگی اوّل تا آخر دِکھانے کا اِہتِمام کرتا ہے۔ اس مقصد کے لیے ماں کے پیٹ سے بَچّوں کا اِنتِخاب کرتا ہے۔ اُن میں سے بھی ایک کو مُنتَخب کر لیا جاتا ہے۔ اُس بَچّے کو ایک بہت بڑے گُنبَد کے نیچے بَسائے گئے مَصنُوعی شَہر، جہاں صبح شام، سورج، چاند سِتارے، ہوا، سَمُندر سب ڈائریکٹر کے کنٹرول میں ہوتا ہے، میں اُس کے ’بِکے ہوئے والدین‘ کے ساتھ رکّھا جاتا ہے، جہاں اُسے باہَر سے مُکمّل طور سے بے خبر رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔  اور جہاں سے اُس کی ہر حرکت کو چوبیسوں گھنٹے، ہزاروں چُھپے ہوئے کیمروں کی مدد سے ٹی وی پر آن لائن دِکھایا جاتا ہے۔ اور بَچّے کو معلوم نہیں ہونے دیا جاتا کہ وہ نِگاہوں کی زَد میں ہے۔ اُسے تولا اور پَرکھا جا رہا ہے۔

اُس کے آس پاس موجود ہر انسان (بَشمُول اُس کے والدَین) ڈائریکٹر کے اِشاروں پر کَٹھ پُتلیوں کی طرح کام کر رہا ہے اور جو روزانہ کی روز مَرّہ زندگی ’تخلیق‘ کرنے بَل کہ دِکھاوا کرنے میں ایکسٹراز کا کِردار نِبھا رہے ہیں۔

بَچّے کی عُمر بڑھتی چلی جاتی ہے۔ اُس کی تعلیم و تربیّت مُکمل طور سے کنٹرولڈ رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ پِھر بھی کبھی کَبھار ’حَادِثے‘ ہو جاتے ہیں جو آگے جا کر اُس بَچّے کی تربیّت کو مُتاثِر کرنے والے ہیں۔ وہ بَچّہ اب جوان ہو جاتا ہے اور اُسے ایک لڑکی پَسند آجاتی ہے جو اُسے ایک روز کُتب خانے میں بتاتی ہے کہ یہ (ہمارے ہیرو کا ماحول) سب نقلی ہے۔ اُسے ہر وقت نظروں میں رکّھا اور دیکھا جا رہا ہے۔ ہمارا ہیرو، جِسے ٹرُومین کے نام سے جانا جاتا ہے، اِن باتوں کو سَمجھ نہیں پاتا اور پریشان ہو جاتا ہے۔


مزید و متعلقہ: فردیت کیا ہے؟

لوئیس لاری Lois Lowry کے ناول پر بنی فلم The Giver کی علامتوں کا مطالعہ


ایک رات ساحلِ سَمُندر پہ مُلاقات طے کی جاتی ہے جس کے دوران اچانک ڈائریکٹر کے لوگ آ جاتے ہیں اور ٹرُومین کو ورغلانے والی ہیروئن کو لے جاتے ہیں۔ ٹرُومین اس بات پہ بے حد پریشان ہو جاتا ہے اور اس واقعے کا تعلّق اپنے بچپن کے حَادِثات سے جا جوڑتا ہے۔

اس اثناء میں ٹرُومین کو مزید ’پَھیلنے‘ سے روکنے کے لیے اُس کے ساتھ ایک اور لڑکی کو مِلوایا جاتا ہے اور چَٹ مَنگنی، پَٹ بیاہ کے مِصداق وہ لڑکی ٹرُومین کی زندگی میں داخِل ہو جاتی ہے۔ ٹرُومین کو باہَر کی زندگی کے بارے میں بہت کم بتایا گیا ہوتا ہے۔ سو وہ باہَر کو دریافت کرنے کی کوشش کرنا چاہتا ہے پر بیوی سَمیت کوئی بھی اُس کی حَوصلہ اَفزائی نہیں کرتا۔ باہَر تک رَسائی دینے والا ہر اِدارہ بناوٹی ہوتا ہے۔ کبھی فلائٹ نہیں مِلتی، کبھی ’بَس ڈرائیور‘  بَس اِسٹارٹ تک نہیں کر پاتا۔ مُعامَلات پیچیدہ اور گھمبیر ہوتے چلے جاتے ہیں۔

ٹرُومین کا شک بڑھتا جاتا ہے۔ اس دوران وہ ایک بار پھر اپنے باپ کو دیکھ  لیتا ہے جو ٹرُومین کے بچپن میں، ٹرُومین کے ساتھ کشتی کے سفر میں حَادِثے کا شِکار ہوتا اور نتیجے میں جان گنوا چُکا ہوتا ہے۔ ٹرُومین اِن سب واقعات کے تانے بانے سے کچھ اَخذ کرتے ہوئے، کیمروں کو دھوکا دیتے ہوئے ایک رات غائب ہو جاتا ہے۔

اُس کے والدین، اُس کا دوست، سارا پاس پڑوس، الغرض سارا شَہر اُسے ڈھونڈنے نکل پڑتا ہے۔ رات کو دِن میں بدلنے کےلیے سورج کو لایا جاتا ہے۔ آخرِ کار اُسے سَمُندر کی لہروں پر دیکھا جاتا ہے۔ اُسے واپس شَہر کی طرف لانے کےلیے اُس پر طُوفان لایا جاتا ہے پر وہ مقابلہ کر کے آخرِ کار ’اُفق‘ تک پہنچ جانے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔

اُفق کیا ہوتا ہے؟ وہ ہاتھ لگاتا ہے تو یہ دیوار نکل آتی ہے۔ (گِیارڈانو برُونو کے خواب کے مُتعلِّق آپ نے سُنا ہے؟) جِس کے ساتھ چند سیڑھیاں اُوپر اُٹھتی نظر آتی ہیں، اور جِس کے آخر میں ایک دروازہ نظر آتا ہے۔  ٹرُومین سیڑھیاں چڑھتا ہے تو با لکل اِسی وقت پہلی دفعہ ڈائریکٹر ٹرُومین سے بَذاتِ خود گفتگو کرتا ہے۔ اُسے لالچ دے کر، باہَر کی دنیا سے ڈرا دَھمکا کر واپس لانے کی کوشش کرتا ہے مگر ٹرُومین دروازہ کھول لیتا ہے۔

اب عَلَامَات کی طرف آ جاتے ہیں۔

۱۔ گنبد میں زندگی عُمرانیات sociology کے مطابق ہر سَماج حُدُود کا حَامِل ہوتا ہے۔ یہ حُدُود ما بعدُ الطِبیعیاتی بھی ہیں اور نَظریاتی بھی اور اِن کا تَعلُّق جُغرافِیائی حُدُود سے بھی بنتا ہے۔ اِن حُدُود میں رہ کر ہی کوئی ایک کِسی مخصُوص شَناخت کا حَامِل ٹھہرتا ہے۔ (حُدُود کا مزید واضح تَصوّر فلم ’تھرٹینتھ فلور‘ اور ’دَ گِیوَر‘ میں مِلتا ہے!)

یہاں اِس فلم میں گُنبَد سَماج کی جُغرافِیائی اور ما بعدُ الطِبیعیاتی حُدُود کا اِستِعارہ بن کے سامنے آتا ہے۔ اور ہر سَماج کی مانِند  ہمیشہ کی طرح، زندگی کے مَحدُود شُعور کی نُمائِندَگی کرتا ہے۔ آگے چل کر یہ گُنبَد ڈائریکٹر کے کِردار اور اُس کے اِختِیارات کے ساتھ مِل کر مذہبی ڈھانچے کی بھی تَرجُمانی کرتا ہے۔ یہاں اَرجنٹائنی ادیب بورخیس کی ایک مُختصر شان دار کہانی ”دَستِ خُداوند“ یاد آ جاتی ہے۔ جس میں وہ آدھے دائرے (گُنبَد) کے نیچے زندگی کرنے کے جبر کو بیان اور واضح کرتے ہیں۔

ہم mythology یا دیو مالا کے حوالے سے یہ بات جانتے ہیں کہ ہیرو ایک بار پَیدا ہونے کے بعد دو بارہ پَیدا ہوتا ہے، جِسے ما بَعدِ نفسیات یا میٹا سائیکالوجی میں ”باز پیدائِش“ rebirth  کہتے ہیں۔

اِس نُقطۂ نَظر سے دیکھیں تو گُنبَد ”رِحمِ مادَر“ womb کا بھی اِستِعارہ ٹھہرتا ہے۔ جہاں سے ٹرُومین سَمُندر کو پار کر کے ہی باز پَیدائِش کے عَمل سے گُزر سکے گا۔

۲۔ ڈائریکٹر یہ کِردار خدائی اِختِیارت کے تَصوّر پر مَبنی ہے۔ یہ خدائی اِختِیارات سَماج کے بھی ہو سکتے ہیں اور مذہب کے بھی۔ یہ کِردار  God Complex کی بھی تَرجُمانی کرتا ہے۔

۳۔ والِدَین عُمرانیات کے مُطابِق سَماج یا رِیاسَت کی اِکائی ’خاندان‘ ہے۔ اس طرح سے دیکھیں تو سَمجھ آ جاتا ہے کہ کِسی خاندان سے تَعلُّق رکھنے والا بَچّہ ایک اِنجنیئرڈ نِظام کی جَبرِیّت determinism کا شِکار ہوتا ہے۔ وہ اپنی پَیدائِش سے پہلے ہی، اپنے سَماجی شَناخت کے مارے اور تَناظُر کے بَدلے رِہین والِدَین کے ہاں پابَند ہو جاتا ہے۔ سادہ الفاظ میں کہیں تو والِدَین یا خاندان پر مُشتَمِل سَماجی اِکائی کِسی بھی قِسم کی تَبدِیلی کو مُلتَوی کرنے/ رکھنے والے اِبتِدائی اور بُنیادی عنصر ہوتی ہے۔

۴۔ کیرکٹر ایکٹر ٹرُومین کے عِلاوہ  اُس کے والِدَین، مَحبوبہ اور دوست، فلم کے تمام  کِردار ایک ایسے کِردار میں ڈَھل کر سامنے آتے ہیں، جِسے ہم عوام، اِجتِماع، ہُجُوم یا کَار کُن کے اِسمِ جمع plural noun سے جانتے ہیں۔ سَماج اور خارِج کی طرف شدید لا شُعوری توجّہ رکھنے والے یہ لوگ کِسی نہ کِسی سَطح پر اپنے کِردار کو سَماج یا مذہب کے مسلسل خدا کی نظر کی زد میں مَحسُوس کرتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ بَناوٹ اِس کِردار کا خاصا ہے۔

اِس بات کو فرانسیسی وجودی فلسفی ’ژاں پال سارتر‘ کے الفاظ میں آسانی سے سَمجھا جا سکتا ہے کہ جب ہمیں عِلم ہو جاتا ہے کہ ہمیں دیکھا جا رہا ہے، تب ہم خُود میں نہیں ہوتے بَل کہ خُود میں ہونے کی ادا کاری کرتے ہیں۔ یہاں اس فلم میں، یہ تمام پاس پڑوس کے لوگ بَناوٹی یا جَعلی روز مَرّہ تَرتِیب دینے کی کوششوں میں لگے رہتے ہیں، جِس کی وجہ سے بعض اوقات وہ ظَرِیفانہ اَفعال کے بھی مُرتَکِب ہوجاتے ہیں۔

۵۔ پہلی مَحبّت اِس سِلسِلے کے پہلے مضمون ’لائف آف پائی‘ میں ہم فلم کی ہیروئن کو ہیرو کا نَظریۂ زندگی فرض کر چکے ہیں۔ اِسی تَسَلسُل میں ہم دیکھیں تو ٹرُومین کی مَحبوبہ ’لورین/سِلوِیا‘ اُس کا وہ خیال، وہ سوچ ہے، جو مَوجُود کو نا کافی گَردانتا ہے اور ’مُسَلسَل دیکھے جانے‘ کو مَحسُوس کرتا ہے۔ یہ مَحبوبہ ہی ہوتی ہے جو اُسے کُتب خانے (شُعُوری/مَنطِقی کا اِستِعارہ) میں بتاتی ہے کہ اُسے دیکھا جا رہا ہے۔ اِس کے بر عکس، ٹرُومین کی بیوی ’میرل‘ اُسے ’کچھ بھی اَلگ نہیں۔ سب ٹھیک اور قدرتی ہے‘ کی لوری دیتی جاتی ہے۔

سو دیکھا جائے تو مَحبوبہ تَنّوُع اور بیوی یکسانیت کا بھی مَظہَر ہے۔

ہمارا یہ خیال تب  دُرُست ثابِت ہوتا ہے، جب ٹرُومین، یکسانیت کی سَازِشی اور فِکسڈ زندگی سے اُکتاتے ہوئے، چوری چُپکے مُختلِف تَصاوِیر کے خَد و خَال مِلا کر اپنی مَحبوبہ کی تصویر بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ اِس مَظہَر کو ہم  ٹرُومین کا تَفکُّر بھی کہہ سکتے ہیں، اپنی فِکر وَ خیال پہ نَظرِثانی بھی اور تَدوِین بھی کہہ سکتے ہیں۔

اسی طرح ٹرُومین کی بیوی مَحبوبہ کے مُتَبادِل کے طور پر سامنے لائی جاتی ہے۔ بیوی کا کِردار چُوں کہ تھوپا گیا ہوتا ہے، اِس لیے اب یہ سَماجی دَباؤ کی عَلَامَت بن گئی۔ یہاں بیوی بیڑی یا زَنجیر کا کام دیتی ہے۔ جو سَماج سے بَزورِ طاقت جوڑے رکھنے کا کام کرتی ہے۔

۶۔ کیمرے فلم میں پانچ ہزار سے زائد کیمروں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ٹرُومین کی نِگرانی کر رہے ہیں۔ یہ کیمرے سَماجی مِعیارات کی نُمائندَگی کرتے ہیں۔ سَماجی مِعیارات وہ اِشاریے indexes  ہیں جو بَتاتے ہیں کہ سَماجی اَقدار social values کے حوالے سےکَون کِتنے پانی میں ہے؟ یعنی جِتنے زیادہ کیمرے آپ کو سَماجی اَقدار پر عَمل پَیرا دِکھائیں گے، اُتنا ہی آپ سَماج کے مرکز میں جَگہ پائیں گے، اُتنا ہی آپ سَماج کے بُنیادی خَد و خَال کو برقرار رکھنے والے،  جوڑے رکھنے والے قرار دیے جائیں گے۔ (اُتنے ہی آپ کافِر یا مُسلمان ٹھہرائے جائیں گے!)

یہ کیمرے نِگرانی کا تقریباً حَتمی نِظام ہے۔ جِس کے درمیان رَخنَہ پاتے ہی ٹَرُومین نَظروں سے بَچ نکلنے میں کامیاب ہو جاتا ہے، اور وہ کچھ اَنجام دینے کی کوشش کر بَیٹھتا ہے، جِس سے ٹرُومین کو دُور رکھنے کے لیے یہ سارا سَماجی نِظام پَھیلایا گیا ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ ہر سَماج اپنے مُمکنہ ہیرو کی راہوں پر پہرے بِٹھائے رکھتا ہے۔

پھر بھی ہیرو آتا ہے، اور پہرے توڑتا اور سَماج کو کُھلا پن دینے کے لیے حُدُدو کو ہَٹاتا، مِٹاتا، آگے یا پیچھے کِھسکاتا ہے۔ سَماج اور ہیرو کا رشتہ  ambivalence یا دو گُونیت پر مُشتَمِل ہوتا ہے۔ یہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ مَحبّت اور نفرت کے مِلے جُلے جذبے سے جُڑے ہوتے ہیں۔ دونوں میں سے ہر ایک دوسرے کو تبدیل کرنا چاہتا یا ختم کرنا چاہتا ہے۔

۷۔ “تم کبھی پار نہیں جاؤ گے!” ــ چُوں کہ ٹرُومین کے بَچپن میں ایک حادِثہ تَخلِیق کیا گیا تھا، جِس میں وہ اپنے والد کے ساتھ کَشتی میں سَمُندر پہ جاتے ہیں، جہاں ’حادِثہ‘ ہو جاتا ہے، اور جِس میں ٹرُومین کو اپنے والد سے ہاتھ دھونا پڑتے ہیں۔ ’سَمُندر میں کَشتی کا حادِثہ‘ اس لیے تَخلِیق کیا گیا تھا کہ ٹرُومین جان لے کہ کبھی بھی کَشتی سَمُندر کی شوریدگی اور تَلاطُم خیزیوں کا مُقابلہ نہیں کر سکتی۔ جزیرہ یا خُشکی ٹھہراؤ، قیام کی اِستِعارہ ہے اور سَمُندر زندگی اور تَناظُر کی عَدم موجودگی کا (perspectiveless life)۔

سو اس مَصنُوعی حَادِثے میں یہ پَیغام چُھپا تھا کہ ٹرُومین! تمھاری شَناخت اور تمھارا تَناظُر یہی ہے۔ اِس کے باہَر محض بےمعنویت  meaninglessness اور سَپاٹ پَن ہے۔ کوئی ثقافتی رنگا رنگی نہیں۔ کوئی رِشتہ، کوئی تَعلُّق نہیں، مَحض ’ہونا‘ ہے اور بَس! یعنی سَماج کے باہَر (ٹرُومین!) تمھارے لیے کوئی جگہ نہیں!

یوں اِس حَادِثے کے سبب، مُستَقبِل میں ٹرُومین فِکری تَحَرُّک، اَنجان زمینوں کی سِیاحَت اور سَماج کو چھوڑ جانے کے اِمکانی خیالات سے باز آ جائے۔ یہ حادِثے ہر سَماج میں، سَزا و جَزا کی شکل میں ’تَرتِیب‘ دیے جاتے ہیں۔ جس کی مثالیں سَماجی رَوایات کی خِلاف ورزی کرنے والوں کی تادِیب و سَرزَنِش کے اِنتہائی واقِعات ہیں، جو آنے والی نَسل کے اِمکاناتِ فِکری تَحَرُّک و فَرار کو دَبا دیتے ہیں۔

۸۔ سمُندر زندگی یا آنات کا بہاؤ بےتَناظُر زندگی کا اِستِعارہ ہے۔ سَمُندر زندگی کو کِسی بھی قِسم کی دِل فریب نَظریاتی عینک میں سے دیکھنے کے بجائے نَنگی آنکھوں سے دیکھنے کی عَلَامَت ہے۔ زندگی کا ایسا رُوپ، جہاں تَناظُر سے محروم کوئی بھی شَخصِیت (کَشتی) زیادہ دیر نہیں ٹِک پاتی۔ بے تَناظُر، ہر دَم رَواں دَواں، شور آمیز تَلاطُم خیزیوں کی حَامِل زندگی سَپاٹ پَن  سے مملُو ہے۔ ایک وُسعَت ہے، جو خوف کو جنم دیتی ہے۔ یہ سَپاٹ پَن زندگی کو بے مقصد اور بِلا منزِل کے دِکھاتا ہے، جو وَجُودِی فلسفے کے مطابق مَتلی nausea کا باعِث بنتا ہے۔

۹۔ کَشتی نِقاب persona  یا سَماجی رَوایت سے اِستِفادے کی عَلَامَت ہے۔ یہاں ایک بات قابِلِ غور ہے کہ اِس فلم کے ساتھ ساتھ ایک اور فلم ’آئی لینڈ‘ میں بھی، کَشتی نِقاب کی عَلَامَت ہونے کے ساتھ ساتھ ایک رَخنے میں سے نکل بھاگنے یا فَرار کی نُمائِندہ ٹھہرتی ہے۔ فلم ’دَ گیوَر‘ کے سَلیڈ Slade کی طرح،  جو تَحَرُّک اور آغاز کے اِستِعارے کی صورت میں سامنے آتا ہے۔

۱۰۔ روزمَرّہ کی اَشیاء کی تَشہِیر فلم میں مُختلِف اَشیاء کی تَشہِیر کی جاتی ہے۔ غور کیا جائے تو یہ کِسی سَماج کے وہ عَناصِر ہیں جو وہ باہَر کے سَماج پر اپنی بَرتَرِی جَتانے کےلیے اور اپنے مُتَعلِقَین کو بطورِ اِنعام پیش کرتا ہے۔ ہم اپنے سَماج میں، اپنے آس پاس دیکھتے ہیں کہ جب بھی کوئی اِنسان، مَفرُوضہ (یا حقیقی) غَلَط کام کرتا ہے تو تَقرِیباً چاروں طرف سے اُس کو رَاہ پہ آنے کی تَبلِیغ کی جاتی ہے۔ آُسے سزا سے ڈَرایا جاتا ہے اور اِنعامات کا لالَچ دیا جاتا ہے۔ تا کہ بَندہ ’کہیں اور‘ نہ نکل جائے۔ اِس تَشہیری مُہِم کو ہم اصل مَسائِل اور سوالات سے توَجُّہ بَھٹکانے کے مقاصد کہیں گے۔

 یہ اُن تَوہُّمَات کا بھی اِستِعارہ ہیں جو کِسی سَماج کے طَرزِ حَیات کو اِنفِرادیت بَخشنے کے دَعوے دار یا ذِمّہ دار ہوتے ہیں۔ مزید آسان الفاظ میں کہا جائے تو یہ سَماجی یا مذہبی ما بَعدُ الطِبیعیاتی پروپیگنڈا ہوتا ہے، جِس کی سِگمنڈ فرائڈ ”ٹوٹم اینڈ ٹیبو“ کے نام سے تَوضِیح کرتا ہے۔

۱۱۔ ٹرُومین کا دوست مارلن سب سے اہم نُکتہ پہ دِھیان دیجیے گا۔ ٹرُومین، مارلن، میرل اور لورین/سِلوِیا چار الگ کِردار نہیں ہیں، بَل کہ یہ ایک ہی کِردار کے اَلگ اَلگ رُوپ ہیں۔ اگر مرد کو طاقت اور پَھیلاؤ جب کہ عورت کو نَظریہ اور گہرائی کی عَلَامَت تَسلِیم کیا جائے تو مارلن مَجہُول طاقت ہے، یہ ٹرُومین کے کِردار کا وہ حِصّہ ہے جو اپنے کلچر سے جُڑا ہوا ہے اور جُڑا رہنا چاہتا ہے جب کہ ٹرُومین کِسی بھی صورت بھاگ نکلنا چاہتا ہے۔

اِسی طرح میرل، ٹرُومین کی بیوی اُسے باندھے رکھنا چاہتی ہے (ایک نَظریہ)، جب کہ لورین/سِلوِیا اُسے حُدُود کے پار جانے پہ اُکساتی ہے۔ (ایک اَلگ نَظریہ!)

فلم ’دَ گِیوَر‘ میں جوناس اور اَشر بھی ایک ہی کردار کے دو رُخ ہیں۔ اَشر، جوناس کے کِردار کا وہ رُخ ہوتا ہے جو ثَقَافت اور تَربِیّت کے زیرِ اَثر ہوتا ہے جب کہ جوناس اَشر کے برعکس بَغاوت مِزاجی کی عَلامَت ہے۔

اِس پہ ایک الگ مَضمون لکھا جائے گا۔