فردیت کیا ہے؟

فلم و عمرانیات

فردیت کیا ہے
Illustration courtesy, Foundation for Economic Education

فردیت کیا ہے؟ 

از، فرحت اللہ

حکیم بقراط نے کہا تھا کہ زمین آسمان کے درمیان اتنے ہاتھ نہیں، جتنا کہ انسانوں کی فطرت میں تنوع ہے۔ آسان الفاظ میں کہا جا ئے گا کہ انسانی طبیعتوں کا تنوع ہی فردیت کا محور ہے۔ انسانی طَبائع، معاشرے اور اس کی قائم کردہ دنیا داریاں برتتے، ان میں رہتے سہتے اور انہیں قائم رکھنے کی خاطر اپنے فطری مزاج پر دباؤ ڈالے رکھتے ہیں۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے جہاں انسان ‘علمِ سماج’ کے بنیادی اصولوں کو وضع اور واضح کرتے چلے جاتے ہیں، وہاں یہ پیشگی طور سے سوسائٹی یا  معاشرے کے سسٹم کو امکانی تبدیلیوں سے بچانے کے لیے مزاحمتی ڈھال کے طور پر ڈھال دیتا ہے۔ سسٹم میں تبدیلی کی ہر انسانی کوشش کو نفسی خرابیوں پر محمول کیا جاتا اور ان کی سختی سے مزاحمت اور شدت سے مذمت کی جاتی ہے۔

ان نفسی خرابیوں کا مطلب کیا ہے؟ یہ بقولِ اٹو رینک ‘آرٹ اور آرٹسٹ کے باہمی تعلق کے احیاء’ کا واقعہ ہے۔ دوسرے  لفظوں میں کہا جائے تو یہ امکان در اصل فردیت اور فرد کا تعلق ہے۔ یہاں ہم، اس مضمون میں، ‘اٹو رینک’ کے حوالے سے فرد کو بطورِ آرٹسٹ لیں گے، (ہم آرٹ کے میڈیم کو فی الحال زیرِ بحث نہیں لائیں گے) کیوں کہ آرٹ کے کم ترین درجے پر بھی خیال کا تنوع موجود رہتا ہے اور یہ سماج کے مابعد الطبیعیاتی ماحول میں اجنبی کی حیثیت سے سامنے آتا ہے اور سماج کے منجمد ماحول کو  مقداری سطح پر quantum level بدلنے کی قوت رکھتا ہے۔

آرٹ کی تبدیلی کی خواہش کو، فرد کے سماجی اصول و ضوابط میں انجماد پر اور آزادانہ حرکت کی اجازت نہ ملنے پر تشویش کے اس فطری رویّے کو ‘سماج شکن’ سمجھا جاتا ہے کہ ایسے لوگوں کا ظہور جو سماج کی لگی بندھی زندگی میں دراڑیں ڈالنے کی جسارت کرتے ہیں، جن کے ساتھ شَکوک، بےچینی، نیند نہ آنے کی بیماری اور عمومیت کے خلاف بغاوت کی طاقتور زیریں لہر آتی ہے۔ جیسا کہ ‘تنہائی کے سو سال’ میں ہوتا ہے۔ ذرا آرٹ کے بارے میں چند خیالات ملاحظہ ہوں تا کہ آرٹ کے بارے میں ہماری سوچ کسی حد تک واضح ہو:

a person who habitually practices a specified reprehensible activity.

a person whose work exhibits exceptional skill.

”آرٹ طویل جب کہ زندگی مختصر ہے۔“ بقراط

”آرٹ در حقیقت وجود کی تصدیق، تحفہ اور معبود سازی ہے۔“

فریڈرِک نِطشے

”آرٹ مرئی visible کو پیش نہیں کرتا بل کہ یہ تو چیزوں کو مرئی بناتا ہے۔“ پال کلی

”آرٹ ایک جھوٹ ہے جو ہمیں سچ کی قدر افزائی کرنا سِکھاتا ہے۔“ پابِلو پِکاسو

”آرٹ کوئی چیز نہیں بلکہ یہ تو ایک طرزِ زندگی/راستہ ہے۔“ ایلبرٹ ہَبرڈ

”آرٹ ایک فاحشہ ہے جو (سماجی حوالے سے) شادی کے قابل نہیں، آپ کو اس سے ناجائز تعلقات رکھنے پڑتے ہیں۔“ ایڈگر ڈیگاس

”آرٹ یا تو سرقہ ہے یا انقلاب!“ پال گوگین

”آرٹ ایک روگ ہے۔“ گیاکومو پَچینی

”آرٹ ابتری اور سائنس تنظیم ہے۔“ جورجس براق

”آرٹ گھر چھوڑے بغیر فرار کا نام ہے۔“  ٹائلہ تھارپ

ہم ذرا غور کریں تو مندرجہ بالا آرٹ کی تعریفیں ایک منفیت کی حامل نظر آتی ہیں۔ اس کا مطلب یہ بالکل بھی نہیں کہ نئی سوچ یا خیال کی تخلیق کا عمل منفی ہوتا ہے بل کہ یہاں چونکہ سوسائٹی یا معاشرہ چند ایک  dogmas اور انفرادی کٹر شناختی اصولوں کی بنیاد پر قائم رہتا ہے، اور چوں کہ آرٹ یا آرٹسٹ فکر و اظہار کےلیے ‘کُھلے پن’ کا متقاضی ہوتا ہے جو سوسائٹی کے بند ماحول کے اندر کافی حد تک عنقا ہوتا ہے، اس بناء پر آرٹسٹ کو سماجی بندھنوں یا حدوں کے پَرے جا کر اپنے آرٹ کے لیے کُھلا پن تلاش کرنا پڑتا ہے۔ یا فرد کو سانس لینے کےلیے اپنی مَن مرضی کا ماحول چاہیے ہوتا ہے، وہ لکیر کا فقیر بن کر ‘زندگی کرنے’ کے بجائے ‘زندگی گزارنے’ کے خیال ہی سے مُتوحّش ہو جاتا ہے۔ وہ شخصیت کے بجائے ذات کا متلاشی ہوتا ہے۔

تبدیلی کو حقیقت مان کر سماج کے مابعد الطبیعیاتی برف زاروں میں حرکت و حرارت پیدا کرنے کا خواہش مند ہوتا ہے۔ بالکل برونو کی طرح چھتری نما پردے پر بنے آسمان کے کَناروں تک پہنچ کر پردے اٹھانا چاہتا ہے۔

یہ بات کُھلے طور سے سماج کے انفرادی اصولوں کی خلاف ورزی تصور کی جاتی ہے، اور یہی وہ چیز ہے کہ جس بناء پر آرٹ، آرٹسٹ یا فرد و فردیت کی سماجی حیثیت اور وجود غیرموزوں، کراہت آمیز اور نا قابلِ ستائش سمجھی جاتی ہے۔

فرد (بطورِ آرٹسٹ، باغی، مِس فِٹ، سالک، دانش ور یا آؤٹ سائیڈر، کہ اِنحراف ہی جن کا نقطۂ اتصال ہوتا ہے)  کے نصیب میں ‘سماج کی حاشیہ نشینی’ لکھی ہوتی ہے۔ نئے خیالات کا پرچار، سماجی بندھنوں یا ضوابط سے چُھٹکارا پانے کے لیے کسمساہٹ یا پرانے خیالات پر چوٹ اور شکست و ریخت کے بعد عبوری دورانیہ سماج کے بند ماحول کے حق میں مُضر ثابت ہوتے ہیں۔


مزید دیکھیے: لائف آف پائی، نفسیات اور تصوف کا سُرمئی علاقہ


یہ کام  دو طرح سے وقوع پذیر ہوتا ہے۔ ایک تو ‘اجنبی خیالات’ ایک لمحاتی سراب یا بَصری واہمے کی صورت دکھائی دے جاتے ہیں، جو معاشرے میں وقتی ہَلچل پیدا کر دیتے ہیں۔ دوسری طرف اِن اجنبی خیالات کا بہاؤ باقاعدہ تَواتُر و تَسلسُل سے گویا بمباری کی صورت میں ہوتا چلا جاتا ہے۔ جو سماج کے ترتیب و تنظیم میں خَلل ڈالتا چلا جاتا ہے۔

آگے کی کہانی کچھ یوں ہے کہ حادثات و واقعات بعض اوقات کسی انسان کو زندگی کے ایسے موڑ پہ لاکھڑا کردیتے ہیں، جہاں سے وہ اپنے معاشرے کے نظامِ اقدار پر خصوصاً اور پڑوسی معاشروں کے نظامِ اقدار پر عموماً نظر ڈالنے، نظرِثانی کرنے، ان کی معنویت کُریدنے کی پوزیشن میں آ جاتا ہے۔ اس پوزیشن پر آنے کی کئی  وجوہ ممکن ہیں۔

یہ کہ کسی انسان کا متعلقہ معاشرہ اور اس کے اقدار کسی خاص انسان کی ضروریات پوری نہیں کر پاتے۔ یہ بھی ممکن ہے بقولِ شہزاد احمد صاحب، کہ ضروریات کی حد سے آگے کا سوچا جا رہا ہو۔ یہ جنسی انگیختیں (فرائیڈین لبیڈو) بھی ہوسکتی ہے اور اِڈلر کی طاقت کے حصول کی خواہش، یا ابراہم ماسلو کے مطابق ‘اعلی ترین واردات’ کے حصول کی خواہش یا پھر وجودی نفسیات کے مطابق ‘حِسِ اقدار’ کی فعالیت بھی ہو سکتی ہے۔ (اس کا مزید بیان ‘فلم اور عمرانیات’ کے ذیل میں آگے آ رہا) اس طرح مذکورہ انسان اپنے متعلقہ اقدار پر تنقیدی نگاہ ڈالنا شروع کر دیتا ہے اور سوال اٹھانے کا عذاب بھگتتا چلا جاتا ہے۔

عام طور سے فرد کی زندگی کا ہر لمحہ ‘حضوریِ ذات’ کا پَر تَو نظر آتا ہے۔ وہ اپنا ہر قدم سوچ سمجھ کر، شُعوری سطح پر اٹھاتا چلا جاتا ہے۔ یہ عمل تصوف میں ‘سُلوک’ کہلاتا ہے۔ (یہ نقطہ خاص طور سے یاد رہے) یہاں، اس نقطہ پر ہمیں ایک فرد اور سالک کے صورتِ احوال کی یکسانیت، یا مُتوازیت بھی کہہ سکتے ہیں، نظر آنی شروع ہوجاتی ہے۔ فرد اور سالک دونوں کا رویّہ سُلوک میں بدلنا شروع ہو جاتا ہے۔

دونوں میں روایت کے معاملے میں ایک احتیاط اور گریز جگہ پکڑنے لگتی ہے۔ اگر تھوڑی دیر کے لیے ہم ‘انا’ (فردیت کے ابتدائی مراحل پہ) اور ‘مُرشِد’ کو بھول جائیں تو فرد اور سالک دونوں ہی شعور کے چوبیس گھنٹوں میں داخل ہوجاتے ہیں۔

یہ شُعور ‘انا یا مُرشِد’ کا تجویز کردہ ہو کر بھی ان معنوں میں شُعور کہلا سکتا ہے کہ اب فرد اور سالک اپنا ہر قدم، ہر فیصلہ روایتی اکتسابی رویّوں سے نہیں بلکہ ہر کیس، ہر معاملے کی الگ الگ صورت احوال کو قبولتے ہوئے اور ان کے مخصوص تَناظُر میں رکھتے ہوئے دیکھ  پرکھ اور جانچ پڑتال کرنے لگتا ہے اور اس معاملے میں دَخیل رسم و رواج کو نکال باہر کرتے ہیں۔

ایک سالک دنیا کو فاصلے پہ رکھ  کر، عادتوں کی تخفیف کر کے، دنیاوی عَلائِق سے کَنارہ کرتے ہوئے، اس کے مابعد الطبیعیاتی سرحدوں کے باہر رہتے ہوئے دنیا کا مشاہدہ کرتا ہے۔ یاد رہے کہ یہ عبوری مرحلہ ہوتا ہے۔ اسی طرح فردیت کی عمل پذیری میں ‘فرد’ بننے والا اپنے سماج کے رسم و رواج کو زیادہ سے زیادہ پَرے avoid کرنے کی کوشش کرتا ہے تا کہ زندگی کی معنویت کو معروضی objectively طور سے سمجھ سکے۔ فرد کا یہ عمل بھی عبوری مرحلہ ہوتا ہے۔

وقت گزرنے کے ساتھ سالک اپنے نصاب کے مطابق (مجاہدہ، ریاضت، ترکِ عادات، اتباع مُرشِد، نفی و اِثباتِ ذات وغیرہ کے غیر مادی وسائل سے)  اور فرد اپنے ہی رنگ سے (مشاہدہ، تجربہ، مطالعہ، مکالمہ، تَشکِیک، نفی و ترکِ اقدار وغیرہ سے) اپنے احوالِ روحانی یا احوالِ نفسی میں تغیّر پاتا ہے۔ سالک کی رہنمائی تو مُرشِد کے طفیل ہوتی ہے جب کہ فرد اپنے وجدان و علم  کے سہارے آگے بڑھتا چلا جاتا ہے۔

مختصراً ایک مرحلہ ایسا آجاتا ہے کہ مُرشِد سالک کو ایک فاصلے پر رہتے ہوئے، خودی یا ذات (جو ذاتِ حق کے جُزو یا پَرتَو کی حیثیت سے سامنے آتا ہے) یا  نِروان پر زَد لائے بغیر دنیا داری نبھانے کی اجازت دے دیتا ہے جب کہ فرد پر بھی ایک وقت ایسا آجاتا ہے کہ وہ دنیا دارانہ موضوعیت، سماجی اصول و ضوابط کو اپنی ذات پر کوئی سمجھوتے کیے بغیر قبول کر لیتا ہے۔

ہم جانتے ہیں کہ تشخُّص/ شخصیّت personality اختیار کی جاتی ہے یا خارجی طور سے تھوپی جاتی ہے اور شخصیت کو مختصراً ‘دکھاوا’ fake identity کہہ سکتے ہیں،  جب کہ ذات self وہ ہے جو ہم در اصل ہوتے ہیں، یہ معنویت ہے، کائنات سے ہم آھنگی ہے، آرٹ اور تخلیقی قوت ہے، وہ شے ہے جسے سماج کے مفاد میں قربان کیا جاتا ہے، شخصیت کے نیچے چُھپا کے رکھا جاتا ہے۔

فردیت کا یہ سفر دائرے کا سفر ہے۔ اس میں فرد جہاں سے شروع کرتا ہے، وہی پہنچ جاتا ہے۔ لیکن فرق بقولِ کانسٹنٹائن کوافس، یہ ہوتا ہے کہ اسے یہ معلوم ہوتا ہے کہ راستے کہاں جا کر ختم ہوتے ہیں؟ جب کہ عام سماجی آدمی اس راستے کو سیدھا سمجھتے ہوئے چلتے ہیں۔ اس کے بعد واپسی کے سفر میں، زندگی کی معنویت کھوجنے کے عمل میں ‘فرد’ اپنے تَشخُّص کے دنوں کے دیکھے بھالے ‘معیاراتِ ثقافت’ اور سماجی موضوعیت کی طرف پلٹ آتا ہے۔ اس کی وجہ fear of life بھی ہو سکتا ہے، یا پھر وقت بچانے کا مقصود بھی ہو سکتا ہے۔

فردیت کے عمل  individuation سے گزرنے والے (گزرے ہوئے نہیں کیوں کہ اپنے ہر عمل کو اکتسابی رویّوں سے، جِبِلّتوں سے یا ردّ عمل سے سرانجام دینے کے بجائے ہر لمحہ اپنے اعمال کی اخلاقی ذمّہ داری قبول کرنے والا کبھی اپنے کردار میں انجماد نہیں لانے دیتا)  افراد کے بارے میں شہزاد احمد صاحب ‘کارل ژونگ’ کے حوالے سے لکھتے ہیں:

”خود تشکیل لوگ اپنے کردار میں بےجھجک spontaneous کہے جا سکتے ہیں، مگر باطنی طور پر اس قدر بے جھجک نہیں ہوتے، ان کے خیالات اور انگیختوں سے اس کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ ان کا رویّہ سادہ اور فطری ہوتا ہے۔ وہ مصنوعی طرزِ عمل اختیار نہیں کرتے اور نہ تکلف کا بوجھ سر لیتے ہیں، مگر اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ وہ ہمیشہ ہی غیر روایتی طرزِ عمل کا اظہار کریں گے۔ اگر ہم یہ شمار کرنے کی کوشش کریں کہ ان خود تشکیل  self actualising لوگوں نے کس حد تک غیر روایتی رویّہ اختیار کیا ہے؟ تو یہ گنتی بہت زیادہ نہیں ہوگی۔ ان کا غیر روایتی پن سطحی نہیں ہوتا۔ خود تشکیل لوگ زندگی میں مطابقتیں پیدا نہیں کرتے۔ ان معنوں میں کہ وہ موجودہ کلچر کو قبول بھی کرتے چلے جائیں اور اس کے ساتھ مماثلت بھی پیدا کریں۔ وہ بہت سے رخ سے ثقافت کو اپناتے ہیں مگر وہ  سب کے سب یہ کہا جا سکتا ہے کہ شان دار اور پُرمعنی حوالے سے، خواہ مخواہ کی ثقافت پسندی کو قبول نہیں کرتے اور اس سے عملی فاصلہ رکھتے ہیں۔“

یاد رہے کہ یہاں تصوف و فردیت کی ‘دنیاداری کی طرف مُراجِعت’ کو ایک متوازی عمل کے طور پر سامنے لانا ہے۔ کوئی حکم جاری کرنا مقصود نہیں۔ فرد اور سالک کے احوال کی یکسانی کی کسی حد تک تفصیل آپ کو اس سلسلے کے اگلے مضامین میں مل جائے گی۔ آخر میں ایک سوال،  کیوں کہ ہم فلم، ادب اور دیو مالا میں ہیرو کے تصور پہ بھی بات کر نے والے ہیں، کہ کیا (تصوف کے سالک سے کَنارہ کرتے ہوئے) ’فردیت‘ کا رجوعی یا دوبارہ سے اپنی جڑوں کے ساتھ منسلک ہونے والا ‘اینٹی ہیرو’ ہوتا ہے؟