موسیقی کی روح سے اُتری نظمیں: ٹامس سٹیمر

ترجمہ: نجیبہ عارف

ٹامس سٹیمرThomas) (Stemmer ایک جرمن شاعراور مصنف ہیں جو تحقیق و تخلیق کی مختلف الجہات سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ پاکستان ان کی دلچسپی کا خصوصی موضوع ہے۔ اس کا تازہ ترین ثبوت میڈرڈ، اسپین میں پاکستانی سفارت خانے کے لیے لکھی گئی ان کی کتاب ہے جس کا عنوان ہے،
“How Pakistan Saved Spain”
وہ جرمن، ہسپانوی اور انگریزی زبان میں شاعری کرنے کے علاوہ مصوری اور کولاژ بنانے میں خاص دلچسپی رکھتے ہیں۔ انھوں نے کلچرل انتھروپالوجی میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے۔
ذیل میں ان کی کچھ انگریزی نظموں کے تراجم درج ہیں جو انھوں نے موسیقی سے اخذ کی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ا یک مرتبہ انیسویں صدی کے ایک معروف شاعر کی گائی گئی نظموں کو سنتے ہوئے انھوں نے تخیل میں کولاژکی تعمیر ہوتے دیکھی اور یہیں سے انھیں موسیقی سے شاعری اخذ کرنے کا خیال آیا۔ یہ تمام نظمیں موسیقی کے مختلف اجزا کو سن کر تخلیق کی گئی ہیں۔ یوں انھوں نے آرٹ کے مختلف مظاہر کی یک جانی سے ایک انوکھی وحدت قائم کرنے کی کوشش کی ہے۔

 

دوسری سمفنی

سرچ لائٹیں، قیمتی اور پوشیدہ
گوشت، آلو، آئس کریم، چٹنی،
قبرستان اور گہرے سانس لیتے ہوئے جنگل
ان کے لیے جو جیتے ہیں
اوہ کتنی مرطوب فضا ہے

لیکن پھر بھی،
ہاں مجھے معلوم تھا
ابھی کچھ دیر پہلے کوئی تھا
محبت اور تعیش پر مصر صرف
اورسمندر کے کنارے
بے فکری سے سفر کرنے پر بھی!

 

پیانو کا گیت.

خوراک کی فراہمی
خطرے میں ہے
اس قدر مشکوک طور پر

انھیں جانچنے کے لیے
زندگی کی پراسرارسمت
کو جاننے کے لیے

ایسی پتلیاں بیچنے کی کوشش کرتے ہوئے
جن کے سر نہیں ہیں
ان لوگوں کے ہاتھ جنھیں کوئی پروا نہیں

پھر خاموشی
احساس پشیمانی کے الفاظ کے بغیر
ان تمام گھونسلوں میں ایسے پرندے جنھیں نکالا نہیں جا سکتا

اپنے سفر کو شوق سے متعین کر لو
اس سے پہلے کہ تم چل دو

بھوک
حرارت
ناپائیداری

سرما کے سفر میں دیکھا گیا ہے
کہ چاند میں کوئی خاص بات ہوتی ہے

ہر رومانی مزاج کے لیے اپنے خالص پن میں۔
دیکھا گیا ہے
امید بھی ہوتی ہے
اور میں خود کو رومانی کہتا ہوں
اور میرے دل کا یہ ٹکڑا بالکل خالص ہے۔
دیکھا گیا ہے
کہ ناپائیداری ہوتی ہے
اور آخر آخر، ایک لفظ زیادہ نہ کم!

شان دار سمفنی
دنیا زیادہ نہیں بدلی
میری غیر موجودگی میں
آگ بھڑک رہی تھی
ایک بے انت خلا میں
تاریک اور عمیق!
میں نے خواب دیکھے
میں سو گیا
لیکن پھر بھی میری فوج نے
اپنی لڑائی نہیں روکی
جنگ،دھماکے ،تپش اور گردباد
باہر ایک قدیم تالاب میں چھپا ہوا
میں غور کر رہا تھا
منظر پر (جوش، جدوجہد، سازشیں)
جنگ کے بعد میں آرٹ کی خدمت کروں گا
اسی جوش و خروش سے، جیسے پہلے کی تھی
لازوال‘‘ جیسے لفظوں کے ہجے کرتے ہوئے

 

ایک دھیمی سی سمفنی

آج کل
ہماریاس دیوانے دور میں
نظم کے پہلے ہی مصرعے میں
دکھ اٹھانا پڑ جاتا ہے

لہٰذا درد کی مشین میں سکہ ڈالو
تاکہ یہ تمھاری جگہ دکھ اٹھائے
اورتم آزاد ہو جاؤ
خوش ہوسکو

یہ نظم احمقانہ ہے
میں بخوشی اعتراف کرتا ہوں
لیکن پھر بھی اس میں نغمگی ہے
جو تمھیں کچھ دیر تروتازہ رکھے گی

 

پہلی کوشش

یہ رنگین پرندے برائے فروخت نہیں ہیں
یہ گیت گانے کے لیے نہیں آئے
کہانیاں سنانے،نغمگی بکھیرنے، خوشیاں منانے کے لیے
اوربریل کی ٹک ٹک بجانے کے لیے نہیں۔

کچھ پر مسرت، اداس سی سرگوشیاں
رات کو پرسکون کر دینے والی کہانیاں
خوشبو بھرے ورق، خط، ڈاک
ٹکٹ لگے لفافے، کتنے لطف آمیز۔

تو پانی تمھیں پینے پر مجبور کر دے گا
اور زندگی اڑان بھرنے پر
موسیقی دیافت کرنے والی پوشیدہ روشنائی۔

آسمان میں اڑان بھرنے کے لیے
روح ایک ٹمٹماہٹ کی طرف بڑھے گی
خاموشی میں الوداع کہتی ہوئی!

 

 

ایک اور سمفنی

گلاب کے شگوفوں کی
فطرت کو پرکھنے کے لیے
ایک خاص طرح کی خستگی کی ضرورت ہوتی ہے

خوشبو اور
خوابوں کے عود کو پہچاننے کے لیے،
خواب نیم روز کی عادت چاہیے

مہتاب کی کی کمین گاہوں
سے آشنا ہونے کے لیے
صدیوں پرانے
خفیہ نقشے کھنگالنے پڑتے ہیں

تمہارے ہاتھوں اٹھائی ہوئی
میری سبھی ذلتوں کو سمجھنے کے لیے
دن رات
نرمی سے مسکرانے کی مشق ہونی چاہیے

 

کلیسا کی کھڑکی

آج شب شدید برفباری ہے
ملکوتی پیمانوں کی ا?ب یاری کرتے ہوئے
رنگین شیشوں کے شب زاد سایوں پر
اور بھاری سانس لیتی ہوئی قدیم دیواروں پر
یہ سرگوشیاں شہد اور دودھ سے زیادہ شیریں ہیں
سایہ دار، نیلگوں، سفید اور سنہری
اگر تم مجھے اپنی خوبصورت زمین دوز راہداریوں میں آنے کی دعوت دو
اگر یہ ذرا سی تبدیلی
مجھے سازوں کے بغیر موسیقی کی بات کرنے کی اجازت مل جائے
اگر مجھے ویرانوں کو سراہنے کا موقع دیا جائے
یہاں تک کہ کوئی فرشتہ
برودت اور برف میں میری روح قبض کر لے
کبھی بدبودار اور کبھی غلیظ
ہاں، یہاں تک کہ موت میرا دل اڑا لے جائے
زیست سے موت تک برف میں اور برودت میں
جیسے راکھ سے راکھ تلک
خاک سے خاک تلک
یہاں تک کہ روشنی کی کرنیں
رنگین شیشوں سے گزر جائیں گی
سہل انگاری سے، نرم خرامی سے،
پھر میں برف باری روک دوں گا
تاکہ تم ان قدیم دیواروں سے آشنا ہو جاؤ
اور سنو!میں نے آزاد نظم لکھی ہے
مجھ پر یقین رکھو!

 

 

مریخ: جنگوں کا سیارہ

ایک بند دریچے کے پیچھے پوری طرح گم شدہ عرصہ ? عمر
دعائیں بے یقین اور گیت ان سنے
نظامِ ہضم اتنا خراب کہ صاف ظاہر ہو جائے
کھڑکیاں کھول دو!
ہاں سب کھڑکیاں کھول دو!
کیوں کہ میں سانس نہیں لے سکتا
درختوں میں پرندے اور درخت
ہاں درخت ہیں جنھیں لوگ بس درخت پکارتے ہیں
وہاں پرچھائیں بناتے ہوئے جہاں کچھ نہیں ہے
کوئی رنگ نہ صورت ،بس مسلسل شرمیلے سے
تمہارے مرے ہوئے لوگوں کو ظاہر کرتے ہوئے
تدفین ان کے لیے سستی ہے جو بچ جاتے ہیں
میں سوچ سکتا ہوں کہ میں آرام کر سکتا تھا
یا شاید نہیں کر سکتا تھا
ڈاکٹر جس نے اپنی آنکھیں کھولیں تھیں
بولا، دیکھو تمھیں کیا ملا ہے،
جوگیوں کے لیے
جوگیوں کا ایک راز
جو سب کو جوگی بنا دے
عرش سیعرش کی طرف اترتا ہوا،
عدم آباد کی جانب،
رک جاؤ،
ایک لفظ بھی اور نہیں!

 

صرف ایک نظم

کچھ دروازوں کے لیے
جو کبھی نہیں کھلتے
کچھ بہانے ہیں
صدیوں کے صندوق میں
آرائشوں میں
فرشتے اور شہزادیاں ہیں
میری
ایک ناکام فن کار کی سی زندگی
ایڈولف ہٹلر کی ابتدائی زندگی سے ملتی جلتی ہے
میری بیوی نے ابھی ابھی بتایا ہے۔

واقعات بس رونما ہورہے ہیں
نیم پوشیدہ گیتوں میں
ایک روشنی جو کبھی ناکام نہیں رہتی
کبھی مدھم نہیں ہوتی
بلکہ مسکراتی ہے
جیسے تسلسل میں ایک ہی سْر

اداس، تیز رفتار مسکراہٹیں
شکوک و شبہات پر قابو پالیتی ہیں

1 Comment

Comments are closed.