سائبر کرائم قانون: حضور، ایسے تو اب بھی نا ہوگا!

یاسر چٹھہ
سائبر کرائم بِل کو باضابطہ طور پر پارلیمانی ایکٹ بننے میں محض صدارتی دستخطوں کی رسمی کارِروائی کا وقفہ ہے۔ سینٹ کے ارکان کی جانب سے مجوزہ پچاس ترمیموں کو قومی اسمبلی نے حرف بہ حرف قبول کرکے خود بھی اس قانون کو اکثریت رائے سے منظور کرلیا ہے۔ کچھ ارکان پارلیمان نے اس قانون کی چند شقوں کو سوال زَد ضرور کیا؛ اور، ہر چند اس قانون کے کچھ حصوں پر انسانی حقوق کی تنظیموں، معاشرے کے باشعور اور متحرک افراد و تنظیمات کی طرف سے کافی تنقید کی گئی، لیکن یہ قانون آ کر ہی رہا۔ لگ ایسے رہا تھا کہ کوئی “غیر مرئی طاقت” اپنے کسی see through پردے میں رہ کر اس قانون کو آگے آگے دھکا دے رہی تھی۔ لگتا ہے طاقتور گرُدوں سے اترے قطار اندر قطار فرشتے برق رفتاری کی میراتھن لگوا رہے تھے۔
 ان سطور کا راقم بھی اس بات سے متفق ہے کہ ان کے زیادہ تر احباب سائبر کرائم قانون کی کچھ شقوں کے بے پیندے برتن سے حقیقی طور پر رنجیدہ ہیں۔ ان کے خدشات کافی حد ٹھیک، جائز اور حقیقت پسندانہ بنیادوں پر استوار ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ ہماری ریاست کی تاریخ گواہ ہے کہ یہاں کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی اچھی خاصی تعداد کی نیت اور تشریحات کرنے کی روش میں منطق و تعقل کے گھوڑے بیچ دینے کی روایت کی جڑیں گہری ہیں۔
اس نوزائیدہ قانون کے “بُرے اثرات” کی پہلی قسط کے طور پر کچھ سوشل میڈیا کے پیجز اور ہینڈلز کو فوری طور پر ممنوع بھی قرار دیئے جانے کا قوّی امکان و خدشہ ہے۔ یہ اندازہ ہم “غیر مرئی دھکا دینے والی قوتوں” کی سنجیدگی سے لگا سکتے ہیں۔  کچھ ترقی پسند اور “غیر سرکاری سوالات” اٹھانے والے حلقوں کے ترجمان سوشل میڈیا ذرائع کے متعلق ایسا اعلٰی کام تو ماضی قریب میں بھی ہوتا رہا ہے، البتہ عمر میڈیا نوع کے اور دیگر دہشت گردی کی ترویج کرنے والے ذرائع کی ابلاغی حرکات کے سلسلے میں اداروں کے کانوں ہر جوئیں نا رینگ پائیں۔ مستقبل قریب میں ممنوع ہوجانے کے خدشات کے سلسلے میں کچھ نام اگرچہ قیاسی طور پر ذہن میں آ رہے ہیں لیکن نام لینا اس وقت مناسب نہیں لگ رہا۔ راقم کو خود بھی ان سوشل میڈیا پیجز اور ٹویٹر ہینڈلز کے ممنوع ہو جانے کا بہت دکھ ہوگا۔
پر ایسا کرنے کا سوچنے والوں کی نا جانے یادداشت اتنی نحیف کیوں ہے۔ ان کا اس بات پر بھی تو دھیان رہے کہ ملک عزیز میں ہزاروں “گمشدگیوں”، موت کے “سرکاری پَیٹی ٹھیکیداروں” کی گولی، بندوق اور بارود کی حشر سامانیوں کے سہنے کے باوجود، چہروں پر غداری کا بد رنگ گارا لگوانے کے بعد بھی سب کے سب ابھی “جماعتِ شکرانہ” اور لشکرِ ڈاکٹر دانش و لقمان مبشر اور شاہد مسعود کے سادہ وردی والے مجاہد نہیں بنے۔ وطنِ عزیز کے کچھ باسی آج بھی ریاستی درباری بننے سے کوسوں دُور ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں لینا چاہئے کہ مزید درشت رسمیاتِ قانون و تعزیر سے ان کی زبانوں اور قلم پر زنجیریں لگائی جا سکتی ہیں۔ ہماری معاشرت، تہذیب اور تاریخ مزاحمت اور آزاد منش لوگوں کی ایک اچھی خاصی تعداد سے عبارت ہے۔ اگر یہ اس قدر خوف کا شکار ہونے والے ہوتے تو انگریز استبداد کے چُنگل سے یہ دھرتئِ پاکستان بھی وجود میں نا آ پاتی۔ یہ اعتبار کر لینا حقیقت سے آنکھ چرانا نہیں ہوگا کہ موجودہ تاریخ بھی اسی رواں تاریخ کا ہی تسلسل ہے۔ نا یہ سیارہ نیا ہے اور نا تمام کے تمام لوگوں کے شعورِ رواں میں کوئی انتشارِ ذہنی آگیا ہے۔
سائبر کرائم قانون کے بعد بھی “کمبلوں کے اندر فطری لباس میں لیٹے” ہوؤں کی لفظی و تنقیدی ابلاغی تصویر کشی ہوتی رہے گی۔ جن کو طاقتور طبقات کی کریم پاؤڈر سے تیار کردہ اور فوٹو شاپ قسم کی مصنوعی پارسائی و پاکیزگی پر سوال  کرنا ہونگے وہ اپنا ما فی الضمیر کے اظہار کے طریقے ڈھونڈ ہی لیں گے۔ زبان و بیان کی نئی رسمیات وضع ہوں گی۔ لسانیات کے ایک ادنٰی سے طالب علم کی حیثیت سے چشمِ تصور سے دکھائی دیتا ہے کہ نیا ذخیرۂِ الفاظ جنم لے گا، لفظ نئے معانی سے آشنا ہونگے، نئے رنگ و آہنگ کے سگنیفائر (signifier) اور سگنیفائیڈ (signified) جنم لیں گے۔ مزید تخلیقی انداز کے طنز کے پیرایہ ہائے سخن رواج پائیں گے۔ بات اور روشنی کے امکانات بھلا کب قانونوں کی اندھیرے کوٹھڑیوں میں قید ہوتے ہیں۔ حرفِ سوال، لفظِ شکوہ، جملۂِ تنقید نا ہی مارا جاسکتا ہے اور نا ہی مر سکتا ہے۔ ہاں، ایسا سوچنا بزعمِ خود دانا، پر فی الحقیقت کسی دیوانے کا خواب ضرور ہوسکتا ہے۔
دیکھئے صاحب، جیسے آپ سوچ رہے ہیں ایسے نہیں ہو پاتا۔ تاریخ گواہ ہے بہت سارے افرادِ اختیار جو اپنے آپ کو عقلِ کُل سمجھتے تھے؛ اور ان کے جملہ مشیر بھی اپنے آپ کو تاریخی شعور کا جوہری سمجھتے تھے، وہ بہت بار غلط ثابت ہوئے۔ کہتے ہیں پرانے وقتوں میں ایک فرعون ہوا کرتا تھا۔ اس کے مفادات کو کسی موسٰی سے خدشات لاحق ہوگئے تھے۔ بہت سے نوزائیدہ بچے ایک خدشے کی بیخ کنی میں اسی خدا کو لوٹا دیئے گئے کہ جس کی فطرت پر وہ معصوم پیدا ہوئے تھے۔ حالانکہ مفادات کا دردِ سر ایک موسٰی سے اس وقت کے فرعون کو تھا۔ لیکن فطرت اپنے ودیعت شدہ اصولوں کی پابند ہوتی ہے۔ موسٰی تو خطرے کے خوف سے دوچار محل کے اس باسی کے گھر میں ایسے پلا بڑھا جیسے بتیسی کے اندر زبان۔
پر یہ بھی تو جان لیجئے کہ ان زمانوں میں وقت اور تھے، اب حضور وقت بدلے بدلے سے ہیں۔ اب اگر فرعونوں کی تعداد کو حسابی ضرب لگ چُکی تو اب روحِ عصر نے موسٰی بھی بڑھا دیئے ہیں۔ اب تو اُس وقت کو گزرے بھی صدیاں بیت چُکیں جب زمین بے چارہ سورج زمین کے گرد گھوم گھوم کر تھک گیا تھا اور گھومنے اور چکرانے کی ذمے داری زمین کے گلے آن پڑی تھی۔ اس وقت کے کئی طاقتور کلیسائی فرعونوں نے زمین کو اس کوفت سے بچانے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔
حضور، با ادب گزارش ہے کہ اب جب وقت کے پُلوں کے نیچے سے کتنی صدیوں اور اطلاعات کی تکنیکیات کا پانی گزر چکا تو اب خود کو نئے زمانے کے مطابق ڈھال لینے میں کوئی خاص حرج نہیں ہونا چاہئے۔ بلکہ بھلا ہی ہے۔ اب اپنے کو درست کرنا مناسب اور جواز سے بھرپور کام دکھائی دیتا ہے۔ اب اپنی ذمے داری کو اپنے اوپر فرض کر لینے کا وقت ہے، اور اگر کبھی خدا نخواستہ کسی درجے کی ناکامی کا سامنا ہو تو اپنے نقاد کی زبان کھینچنے کا بندوبست کرنے کی نسبت اپنے آپ کو، اپنے اندر کی نفسیات کو، اپنے پارہ جیسے مضطرب وقار اور مورال کو مضبوط بنیادوں پر کھڑا کرنے کا وقت ہے۔ اب اچھے اور قائل کرنے والے جواب دینے کا وقت ہے، نا کہ ہر چھوٹے موٹے سوال پر کسی “قومی مفاد” کو گزند پہنچ جانے کی جذباتی بلیک میلنگ کا۔
اس وقت یہ خیال دُہرا کر اجازت چاہیں گے کہ نا تو لفظ مرتا ہے، اور نا ہی حرفِ سوال۔ سنتے کانوں، دیکھتی آنکھوں، سوچتے دماغوں، لکھتی انگلیوں پر اب زنجیریں نہیں بندھ سکتیں، ہر چند لوہار لاکھ بولے کہ اُس نے نا قابلِ شکست زنجیر تیار کردی ہے۔ سن لیجئے کہ اب صائب حکمت عملی یہ محسوس ہوتی ہے کہ سوالوں کے جواب اور تنقید سے پیشانی پر سِلوٹیں نا آئیں بلکہ منطقی بیانیے بنائے جائیں،  لوگوں کو قائل کیا جائے۔ ڈاؤن سائزنگ اور ریشنلائزیشن کا زمانہ ہے، لوگ اب اب بہت ساروں کو خُدا ماننے سے تنگ  آ چکے ہیں۔
About یاسرچٹھہ 240 Articles
اسلام آباد میں ایک کالج کے شعبۂِ انگریزی سے منسلک ہیں۔ بین الاقوامی شاعری کو اردو کےقالب میں ڈھالنے سے تھوڑا شغف ہے۔ "بائیں" اور "دائیں"، ہر دو ہاتھوں اور آنکھوں سے لکھنے اور دیکھنے کا کام لے لیتے ہیں۔ اپنے ارد گرد برپا ہونے والے تماشائے اہلِ کرم اور رُلتے ہوئے سماج و معاشرت کے مردودوں کی حالت دیکھ کر محض ہونٹ نہیں بھینچتے بَل کہ لفظوں کے ہاتھ پیٹتے ہیں۔

2 Comments

  1. زیادہ تر احباب سائبر کرائم قانون کی کچھ شقوں کے بے پیندے برتن سے حقیقی طور پر رنجیدہ ہیں۔ ان کے خدشات کافی حد ٹھیک، جائز اور حقیقت پسندانہ بنیادوں پر استوار ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ ہماری ریاست کی تاریخ گواہ ہے کہ یہاں کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی اچھی خاصی تعداد کی نیت اور تشریحات کرنے کی روش میں منطق و تعقل کے گھوڑے بیچ دینے کی روایت کی جڑیں گہری ہیں۔……………….. Buht Umda

  2. سن لیجئے کہ اب صائب حکمت عملی یہ محسوس ہوتی ہے کہ سوالوں کے جواب اور تنقید سے پیشانی پر سِلوٹیں نا آئیں بلکہ منطقی بیانیے بنائے جائیں، لوگوں کو قائل کیا جائے۔ ڈاؤن سائزنگ اور ریشنلائزیشن کا زمانہ ہے، لوگ اب اب بہت ساروں کو خُدا ماننے سے تنگ آ چکے ہیں۔… well said Yasser Chattha sb Its a great conclusion

Comments are closed.