کچھ ذمہ داریاں فرد کی بھی ہیں!

قاسم یعقوب

بحیثیتِ فرد مجھ پر کون سی ذمہ داریاں ہیں۔ کیا میں معاشرے کو ٹھیک کرسکتا ہوں یا میرا اولین فرض اپنے آپ کو ٹھیک کرنا ہے؟ اس سوال کے جواب کی تلاش میں ہمیں سب سے پہلے فرد اور ایک معاشرے میں موجود فرد میں فرق کرنا ہوگا۔ ایک فرد پر بحیثیتِ فرد کیا ذمہ داریاں ہیں وہ نشان زَد کرنا ہوں گی۔
فرد جب معاشرے میں فعال اور غیر فعال دونوں سطحوں پر زندگی گزار رہا ہوتا ہے تو وہ دو طرح کی زندگی گزارتا ہے۔ اول: اُس کی وہ ذمہ داریاں اس سے جواب طلب ہوتی ہیں جو اُس کے بس میں یا اختیار میں ہو تی ہیں۔ جیسے ایک استاد کی بنیادی ذمہ داری تو یہ ہے کہ وہ اپنے طلبا کو مثالی طور پر پڑھائے۔ اسی طرح ایک باپ کی ذمہ داریاں، ایک بینک کار کی ذمہ داریاں ایک شہری کی ذمہ داریاں وغیرہ۔ ان میں بھی ہم تخصیص کر سکتے ہیں:
۱۔ وہ ذمہ داریاں جو ایک فرد پر پیشہ وارانہ ذمے داریوں کے طور پر لاگو ہیں۔
۲۔ وہ ذمہ داریاں جو فرد پر بحیثیت فرد اخلاقی طور پر لازمی فرض ہیں جیسے ٹریفک قوانین کی پابندیاں، کسی جگہ قطار کی پابندی یا وقت کی پابندیاں_____
جب ہم کسی فرد کا معاشرے میں فعال کردار ادا کرنے کا کہہ رہے ہوتے ہیں تو اُس پر ایک اخلاقی اور پیشہ وارانہ ذمہ داریاں کے بعد ایک اور اہم ذمہ داری اُس کا معاشرے کو تنقیدی نگاہ سے دیکھنا بھی ہوتا ہے۔ وہ اپنے اردگرد ماحول کو اپنی ذمہ دارانہ بصیرت عطا کرتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ ماحول میں یوں ہے تو یوں نہیں ہونا چاہیے یا ایسا کیوں ہے اور اگر ایسا ہو تو کیا چیزیں مانع ہیں۔ یہی وہ عمل ہے جب معاشرے میں تبدیلی کا عمل شروع ہوتا ہے۔ ایک فرد اپنی ذمہ داریوں کا دائرہ کار آگے بڑھاتا ہے۔ ہم نے پہلے ذکر کیا کہ فرد کا بحیثیت فردمعاشرے میں غیر فعال کردار تو یہ ہے کہ وہ اپنی اخلاقی اور پیشہ وارانہ ذمہ داریوں سے ماورا نہیں ہے۔ مگر ایک فعال کردار اس غیر فعال کردار کے بعد شروع ہوتا ہے۔ وہ معاشرے کو بدلنے کی خواہش کا اظہار کرتا ہے یا بدلنے کا عملی مظاہرہ کرتا ہے۔ بحیثیت فرد معاشرے میں فعال کردار کی بھی دو قسمیں ہو سکتی ہیں:
۱۔ جب فرد اپنی اخلاقی اور پیشہ وارانہ ذہم داریاں ادا کر رہا ہو تو اُس پر اپنی ان ذمہ داریوں کی طرح اتنا ہی یہ فرض ہے کہ وہ اپنے ماحول کو بدلنے کی خواہش رکھے ۔ وہ ماحول کی میکانیات کو سمجھے اور اپنے اخلاقی یا پیشہ وارانہ کردار تک محدود نہ رہے۔ اس کی مثال یہ دی جا سکتی ہے کہ اگر وہ ذمہ دار شہری کے طور پر کامیاب اور فرائض کی ادائیگی کے ساتھ زندگی گذار رہا ہے مگر اُس کے محلے کی سڑک گندگی کا ڈھیر بنی ہوئی ہے اور وہ یہ کہہ کے اپنی ذمہ داری سے جان چھڑا رہا ہے کہ یہ اُس کی بحیثیتِ فرد ذمہ داری نہیں تو وہ ایک سنگین جرم کا مرتکب ہو رہا ہے۔ ایک فرد کی حیثیت سے اُس کا فرض ہے کہ وہ غیر فعال کردار سے فعال کردار کی طرف جائے یعنی وہ اپنے ماحول کی درستی کی طرف قدم بڑھائے۔ چوں کہ یہ اُس کی پیشہ وارانہ یابراہِ راست اخلاقی ذمہ داری نہیں جو اُسی کے ذریعے انجام پانی ہے اس لیے اُس کا احتجاج یا آواز بھی اُس کی ذمہ داری ادا کر سکتی ہے۔ ایسے افراد جو صرف اپنی اخلاقی یا پیشہ وارانہ ذمہ داری ادا کر کے اپنے فرد ہونے کے اعلیٰ منصب کی تکمیل کر رہے ہوتے ہیں وہ یہ نہیں جانتے کہ وہ ماحول میں پیدا شدہ ابتری کی ایک وجہ بنے ہوئے ہیں۔
۲۔اب بحیثیت فرد اس سے بھی اگلا مرحلہ درپیش ہوجاتا ہے جب فرد اپنی پیشہ وارانہ اور آئینی اخلاقی ذمہ داریوں کے ادا کرنے کے بعد اپنے ماحول کی درستی پر آواز اٹھاتا یا اُس کے ٹھیک کرنے یا ہونے کی خواہش پیدا کرتا ہے۔ یہ اگلا مرحلہ یہ ہے کہ آپ اپنے اردگرد کو ٹھیک کرنے کے لیے کمر بستہ ہو جاتے ہیں اور بحیثیتِ فرد جو ہو سکتا ہے وہ کرنے کی عملی کوششوں پر اتر آتے ہیں۔ یوں آپ فرد کے دائرہ کار کو زیادہ وسیع کرنے لگتے ہیں۔ اس کی مثال میں کہا جا سکتا ہے کہ آپ نے سڑکوں کی تعمیر کے لیے عملی طور پر احکام سے ملاقاتوں کو بھی اپنے فرائض میں شامل کر لیا ہے۔ کسی جگہ زیادتی ہوئی ہے تو احکامِ بالا تک قانونی انداز سے روابط قائم کر لیے ہیں۔ یہ فرد کا اپنی ذاتی ذمہ داریوں کے بعد معاشرتی ذمہ داریوں کا عملی روپ ہے۔
اب ہم فرد کے دائرہ کار کوایک چارٹ کے ذریعے اس طرح بیان کر سکتے ہیں:

معاشرے میں فردبحیثیت فرد
۱۔ اخلاقی ذمہ داریاں ۲۔ پیشہ وارانہ ذمہ داریاں
معاشرے کی بالواسطہ ذمہ داریاں
۱۔ فرد کی احتجاجی آواز ۲۔ فرد کاعملی احتجاج
فرد قوموں کے مزاج کا آئینہ ہوتے ہیں۔ قوموں کا زوال افراد کی سطح پر شروع ہوتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں فرد کے کردار کو بہت محدود سمجھا گیا ہے جو صرف اپنی اخلاقی یا پیشہ وارانہ ذمہ داریوں تک محدود ہے۔ اس سلسلے میں مذہبی طبقے نے تو حد ہی کر دی ہے۔ ان کے نزدیک فرد ان ذمہ داریوں کے ادا کرنے سے پہلے خدا کے احکامات کو ادا کرنے تک خود کو محدود کر ے ۔ یعنی اگر وہ شریعت پر عمل پیرا ہے تو اُس کی اخلاقی اور پیشہ وارانہ ذمہ داریاں ادا ہونا ضروری نہیں۔ ایسا اکثر دیکھا ہے کہ نماز کے اوقات میں جس برے انداز سے دفتری معاملات کی دھجیاں اُڑائی جا رہی ہیں، جس طرح غیر مہذب انداز سے سائلوں کو دھکے دیے جا رہے ہیں اور عوامی گالیوں کو سامنا کیا جا رہا ہے وہ سب بیان سے باہر ہے۔ صرف اس ایک ذمہ داری کے لیے کہ نماز ادا کی جا رہی ہے۔ فرد کی تکمیل صرف شریعت کے احکام ادا کرنے سے ممکن نہیں اگر یہ کہیں ممکن ہے تو ہو گا مگر ہمارے معاشرے میں فرد کو یہ احساس دلانے کی ضرورت ہے کہ فرد کی حدود بہت وسیع ہیں۔ وہ ذاتی ذمہ داریوں کے بعد معاشرتی ذمہ داریوں کا بھی پابند ہے جسے رد نہیں کیا جا سکتا۔

About قاسم یعقوب 69 Articles
قاسم یعقوب نے اُردو ادب اور لسانیات میں جی سی یونیورسٹی فیصل آباد سے ماسٹرز کیا۔ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد سے ایم فل کے لیے ’’اُردو شاعری پہ جنگوں کے اثرات‘‘ کے عنوان سے مقالہ لکھا۔ آج کل پی ایچ ڈی کے لیے ادبی تھیوری پر مقالہ لکھ رہے ہیں۔۔ اکادمی ادبیات پاکستان اور مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد کے لیے بھی کام کرتے رہے ہیں۔ قاسم یعقوب ایک ادبی مجلے ’’نقاط‘‘ کے مدیر ہیں۔ قاسم یعقوب اسلام آباد کے ایک کالج سے بطور استاد منسلک ہیں۔اس کے علاوہ وہ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد سے وزٹنگ فیکلٹی کے طور پر بھی وابستہ ہیں۔

1 Comment

Comments are closed.