مشال کی موت: کچھ اور پہلو بھی سامنے لائیں

قاسم یعقوب ، ایک روزن لکھاری
قاسم یعقوب ، صاحب مضمون

مشال کی موت: کچھ اور پہلو بھی سامنے لائیں

(قاسم یعقوب)
عدم برداشت اور عدم رواداری کی باتیں ہو رہی ہیں، توہین مذہب و رسالتﷺ کی بحثیں ازسرِ نَو زندہ ہو گئیں ہیں۔موت کی سزا اور عدالتی نظام کی بے بسی کو پھر ہر مسئلے کی کلید بتایا جا رہا ہے۔ یہ سب باتیں اپنی جگہ درست اور معنی خیز ہیں۔ مجھے فیاض ندیم صاحب کی ایک فیس بک پوسٹ تقل کرتا ہوں:

“ایک شخص کو مار دیے جانے پر سب افسوس کرتے ہیں،
سب کے دل خون کے آنسو روتے ہیں،
سب مرنے والے کی جیت کو تسلیم کر لیتے ہیں،
اور مارنے والوں کی ہار کا اعلان کرتے ہیں،
پھر کچھ دنوں کے بعدسب مل کر
اپنے ہی ایک اور شخص کو مار دیتے ہیں
اور پھر سے اپنا نوحہ کہتے ہیں
اور مرنے والے کی جیت سے جلتے ہیں
ہمارے دماغ ماؤف ہو گئے ہیں
اور عقل پر قفل ہیں
یہ سب ایک رواج کی طرح ہم میں شامل ہو گیا ہے
جو مسلسل ہے، جس کے ختم ہونے کی امید بھی دم توڑ چکی ہے۔
یہ ہم ہیں
ہم کون ہیں؟”

نے بہت دیر پریشان کئے رکھا کہ ہم مرنے والے کی جیت کا اعلان کرتے ہیں اوراسے مارنے والے کی موت قرار دیتے ہیں۔مگر کچھ ہی روز بعد ہم سب مل کر ایک اور قتل کر دیتے ہیں۔ مرنے والا مر جاتا ہے اور نیا مرنے والا تیار ہو جاتا ہے۔مشال خان کے واقعے نے ہمیں کچھ نیا سوچنے پر مجبور کیا ہے۔ توہین مذہب، یہ توہین وطن، یہ توہینِ رسالتﷺ ، یہ توہین عدلیہ وغیرہ کیا ہوتی ہے۔ ان کی حدود کیا ہیں؟ کس مجرم کو سزا مل رہی ہے۔ کون اس ’’بیانیے‘‘ کی تشکیل کر رہا ہے اور اسے تبدیل نہیں ہونے دے رہا؟ہمارے علما کرام خصوصاً وہ عالم حضرات جو اپنے مسلک کے ایک شخص پر جوتیاں پڑنے پر فوراً اسے امت کا مسئلہ بنا دیتے ہیں، سب کہاں ہیں؟ علما کی طرف سے ایک دم خاموشی تو یہی ظاہر کر رہی ہے کہ ہم نے ایک دوسرے کو مارنا ہے اور قتل ہوتے دیکھتے رہنا ہے۔
مشال واقعہ کا سب سے اہم اور خطرناک پہلو عدم برداشت ہے۔ کوئی شخص بھی ایک مسلمان کو قتل کے بعدیوں نفرت کا نشانہ نہیں بنا سکتا جسے دیکھ کر نبی پاکﷺ کا ایک ماننے والا کانپ نہ جائے۔یہاں ان پہلوؤں پر روشنی ڈالنے کی ضرورت ہے:
۱۔ یہ واقعہ یونیورسٹی طلباکے درمیان پیش آیا ،کوئی گلی محلہ یا بازار نہیں تھا۔
۲۔ طلبا کے درمیان کسی بحث مباحثہ میں لہجے کوتوہین قرار دیا جا رہا ہے۔
۳۔ قتل کرنا ایک انتہائی اقدام تھا، کیا کسی کو قتل کرنے کے بعد بھی کوئی قدم اٹھایا جا سکتا ہے؟ جی یہاں طلبا نے ’’عشق‘‘کی فراوانی کے باعث لاش پر پتھر گرائے اور لاٹھیاں ماریں۔ بالکل اسی طرح جس طرح شیطان پر ایک ایک پتھر مار کے حاجی ثواب حاصل کرتے ہیں۔
۴۔ آخری نکتہ وہی ہے جو فیاض ندیم نے پیش کیا کہ مرنے والا جیتا ہے یا مارنے والے؟
میرے خیال میں بحث کا رُخ ان نکات کی طرف موڑا جائے اور ان کے حل ڈھونڈے جائیں۔محض باتیں نہ کی جائیں۔
سب سے پہلی بات یہ کہ توہین مذاہب کی حدود متعین کی جائیں۔ ہمارے کم علم اور ’’عشق‘‘ کی دولت سے مالا مال افراد کو یہ باور کروایا جائے کہ توہین کیا ہوتی ہے۔میں نے تو کچھ اپنے سخت گیر مسلمانوں کو یہ کہتے بھی سنا ہے کہ عیسائی جب یہ کہتے ہیں کہ ہمارے نبی، محمد مصطفیﷺ نہیں ، بلکہ ہمارے لیے عیسیؑ ہی معتبر نبی ہیں تو یہ بھی گستاخی ہے۔ان کا موقف ہوتا ہے کہ یہ بھی درپردہ ہمارے نبی کو نہ ماننے کی گستاخی ہے۔ یہ نا بختگی اور نابالغی ہے۔ افسوس اس قسم کی دانش وری ہمارے پڑھے لکھے مذہبی طبقے کی طرف سے ہو رہی ہے۔یونیورسٹی طلبا نے ہی یہ ’’کارِ مشکل‘‘ کیوں انجام دیا۔ اس لیے کہ رقابت اور ذاتی مذہبی عناد کا فیکٹر یہاں بہت اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ مجھے یہ کہتے ہوئے ندامت ہو رہی ہے اور میں کچھ شرمندہ بھی ہوں کہ ہمارے پختون بھائی اس سلسلے میں زیادہ’’ مذہبی‘‘ ثابت ہوئے ہیں۔ لڑائی کا وقوعہ ہوجانا یا زیادہ سے زیادہ فائرنگ سے قتل ہوجانا ،ہمارے ہاں معمولی واقعات ہیں مگر قتل کے بعد یوں توہینِ انسانیت کا موجب بننا ایک المناک واقعہ ہے۔
ذرا سوچیے کہ مذہب ، مذہبی عقائد اور روایات سے کس قدر’’ محبت‘‘ ہو گی کہ طلبا لاش کو روند رہے ہیں، مار رہے ہیں، مگر ’’محبت‘‘ ختم نہیں ہو رہی جو بار بار تقاضا کر رہی ہے کہ اس نے میرا مذاق اڑایا ہے، اسے مزید مارو۔یہ عدم برداشت کی انتہا ہے۔ کسی کو قتل کر دینا اور عدم برادشت کی اس سطح پر پہنچ جانا کہ لاش کو مار مار کے ٹکڑے کر دینا دو الگ رویے ہیں۔ ان دونوں کو ایک ہی قتل کے ساتھ نہ جوڑیں۔ یہاں توعدم برداشت اور عدم رواداری کی انتہا ہو گئی ہے۔اتنی نفرت ہم اپنے سینوں میں چھپائے بیٹھے ہیں کہ کوئی بھی ،کسی وقت بھی کسی کا بھی نشانہ بن سکتا ہے۔
فیاض صاحب کے آخری نکتے کی طرف آئیے۔ جیت کس کی ہوئی؟ بھائی____جیت تو ان درندوں کی ہی ہوئی ہے۔ جنھوں نے مار دیا۔ ایک جان لے لی اور سب بھاگ گئے۔اپنے جیسے جو تقریبا آبادی کا آدھا حصہ ہیں، جیت انھی کی ہوئی ہے۔ ہم بلاوجہ مرنے والے کی جیت قرار دیتے آتے ہیں۔ اور مزید مرنے کے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔اس لیے ہمیں کسی خوش فہمی میں نہیں رہنا چاہیے۔
آئیے ذرا اس دفعہ جیت واقعی مرنے والے کی ،کر کے دکھائیں۔ کم ازکم ۵۰ افراد کو سرعام موت کی سزا کا حکم دلوائیں اور پتا چلے کہ جیت کس کی ہوئی ہے۔
آئیے ذرا اس وقت عدم برداشت پر لیکچرز دینے والے سامنے لائیں۔ اوروہ تمام مذہبی امن کے پیام بروں کو نشان زد کریں جو اب مکمل خاموشی پہن کے سو گئے ہیں۔آغاز تو کرنا ہے چلیں، یہیں سے سہی۔

 

About قاسم یعقوب 69 Articles
قاسم یعقوب نے اُردو ادب اور لسانیات میں جی سی یونیورسٹی فیصل آباد سے ماسٹرز کیا۔ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد سے ایم فل کے لیے ’’اُردو شاعری پہ جنگوں کے اثرات‘‘ کے عنوان سے مقالہ لکھا۔ آج کل پی ایچ ڈی کے لیے ادبی تھیوری پر مقالہ لکھ رہے ہیں۔۔ اکادمی ادبیات پاکستان اور مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد کے لیے بھی کام کرتے رہے ہیں۔ قاسم یعقوب ایک ادبی مجلے ’’نقاط‘‘ کے مدیر ہیں۔ قاسم یعقوب اسلام آباد کے ایک کالج سے بطور استاد منسلک ہیں۔اس کے علاوہ وہ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد سے وزٹنگ فیکلٹی کے طور پر بھی وابستہ ہیں۔