مارٹن لوتھر ، یورپ کی تقسیم اور اسلامی دنیا کا حال

مارٹن لوتھر ، یورپ کی تقسیم اور اسلامی دنیا کا حال

از، علی عبداللہ

رواں سال مارچ میں منعقد ہونے والی مارٹن لوتھر کی 500 سالہ یاد گاری تقریبات کی تیاریاں عروج پر ہیں۔ جرمنی بھر میں ایسی تقریبات کا انعقاد کیا جائے گا جس میں جرمن لوتھرز اور کیتھولک بشپ کے مابین باہمی مصالحتی اقدامات کی حوصلہ افزائی کی خاطر دعائیں کروائی جائیں گی۔ صرف مشرق وسطی میں ہی نہیں بل کہ پوری دنیا میں بدعنوانی اور مذہبی کشیدگی کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔ گو کہ یورپ میں مذہب کی جانب رجحان رکھنے والوں کی تعداد کم ہے اور یورپ کی صرف ایک تہائی آبادی عیسائیت کو زندگی کا لازمی جزو سمجھتی ہے۔ ان میں سے بھی کچھ لوگ ہی لوتھر اور کیتھولک پوپ کے مابین کشمکش سے واقفیت رکھتے ہیں۔ یورپ کی اس فکری تقسیم کی وجوہات جاننے کے لیے تاریخ کے اوراق کو پلٹ کر دیکھنا ہو گا۔

قسطنطین کی عیسائیت قبول کرنے اور عسائیت کو سرکاری مذہب کی شکل میں رائج کر دینے سے عیسائی دنیا کافی مشکلات سے چھٹکارا پا چکی تھی اور ایک لمبے عرصے تک دنیا رومن سلطنت کے زیر اثر رہی۔ لیکن بعض نسلی اور مذہبی اختلافات پیدا ہونے پر عیسائیت دو حصوں میں تقسیم ہو گئی۔ اس کے ساتھ ساتھ چرچ کے بھی دو حصے ہوئے جن میں ایک حصہ رومن کیتھولک اور دوسرا حصہ ہولی آرتھوڈوکس کہلایا۔ مذہبی اختلافات کی بنیاد پر ان دونوں چرچوں کے درمیان بہت سی لڑائیاں ہوئیں جنہیں اردو میں نفاق عظیم کہا جاتا ہے۔ انہی لڑائیوں کے نتیجے میں بدعنوانیوں کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوا جن میں انجیل کا ترجمہ کرنا کسی عام شخص کے لیے ممنوع قرار دیا گیا اور خود ساختہ مغفرت ناموں کا اجراء سر فہرست تھے۔

1517 میں یونیورسٹی آف وٹن برگ کے راہب مارٹن لوتھر نے 95 مقالوں کی فہرست ترتیب دی جس میں کیتھولک چرچ کی جانب سے گناہ معاف کروانے کے عوض پیسے لینے پر تنقید کی گئی تھی۔ یہ وہ شخص تھا جس نے عیسائیوں میں پروٹسٹنٹ فرقے کی بنیاد رکھی اور کیتھولک چرچ کو بدعتی کہا۔ مارٹن لوتھر اور اس کے ماننے والوں کا عقیدہ ہے کہ عیسائیوں کی ایک مشہور رسم عشائے ربانی کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں بل کہ یہ کیتھولک چرچ کی خود ساختہ رسم ہے۔ علاوہ ازیں پروٹسٹنٹ فرقہ انجیل مقدس کی 38 کتابوں میں سے 13 کتابوں کو مشکوک سمجھ کر الہامی نہیں مانتا اور ان کتابوں کو Apocrypha کہا جاتا ہے۔

مارٹن لوتھر کے ان نظریات کی حمایت میں جرمنی کے کسان اور شہزادوں کے ساتھ ساتھ انگلستان کا بادشاہ ہنری ہشتم بھی تھا۔ لہٰذا کیتھولک اور پروٹسٹنٹ کے درمیان جنگوں کا ایک سلسلہ شروع ہوا جو تقریباً ایک صدی تک جاری رہا۔ اب 500 سال بعد جرمنی کے لوگ اس مصالحتی اقدام کی حوصلہ افزائی کریں گے جس کا آغاز 2016 میں پوپ فرانسس نے لوتھر کے حامی ملک سوئیڈن سے کیا تھا۔ بعض رومی پادری تاحال اعتراض کر رہے ہیں کہ کیتھولک اور پروٹسٹنٹ کے مصالحتی اقدامات ٹھیک نہیں ہیں۔

درحقیقت عیسائی دنیا میں پرٹسٹنٹ اور کیتھولک دونوں خود کو ایک ہی کشتی کا سوار سمجھتے ہیں کیوں کہ یورپ میں عقلیت پسندی اور لبرل ازم کا دور دورہ ہے۔ ایسے عیسائیوں کی تعداد بہت کم ہے جو لوتھر کے اس نظریے سے متفق ہوں کہ اچھے کاموں کی نسبت ایمان ہی نجات کا ذریعہ ہے۔ اب وہ اس دنیا سے نکل چکے ہیں جس میں بعد از مرگ تکالیف میں کمی کے نام پر اپنی جمع پونجی چرچ کے حوالے کرتے تھے۔ عدم رواداری اور بدعنوانی کے روز بروز بڑھنے سے یورپ دوبارہ سے لوتھر کو اپنانا چاہتا ہے۔ جس کو مزید تقویت آئیندہ ماہ ہونے والی تقریبات سے ملے گی۔

اسلامی دنیا میں بھی کچھ ایسے ہی حالات ہیں۔ مسالک کی بنیاد پر فکری تصادم اور فکری یتیموں کا ماڈرن اسلام کا نعرہ دن بدن نئے رجحانات سے آشنا کروا رہا ہے۔ ممبر و محراب کو اندرونی و بیرونی دونوں طرف سے خطرات لاحق ہیں۔ لہٰذا اسلامی دنیا کو چاہیے کہ اب مسلکی منافرت سے جان چھڑا کر باہمی اتحاد اور مذہبی روا داری پر مستقل اقدامات کریں اور ایک اکائی کی صورت میں ابھر کر اسلام کو منتشر ہونے سے بچائیں۔ ورنہ کچھ بعید نہیں کہ اسلامی دنیا کا بھی یورپ جیسا حال ہو اور اندرونی دشمن ہی مذہب سے دوری اور بیزاری کا سبب بن کر لوگوں کو گمراہ کر دیں۔