تعلیم، بے روزگاری اور پاکستانی معاشرہ

(ڈاکٹر سید قلب نواز )

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ صحافت کو ریاست کا سب سے اہم ستون اور عوام کے مسائل کے حل کا ذریعہ، معاشرے اور حالات کے پسے ہوئے لوگوں کی آواز کو ارباب اختیار تک پہنچانے کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ جس مسئلہ کی جانب میں اعلٰی حکام اور تمام متعلقہ ذمہ داران کی طرف توجہ مبذول کروانا چاہتا ہوں، یہ فرد واحد کا مسئلہ نہیں بلکہ لاکھوں ماسٹر ڈگری ہولڈرز کا مسئلہ ہے۔ جو زیادہ عمر ہونے کی وجہ سے کسی بھی جگہ پر سرکاری ملازمت کیلئے درخواست دینے سے قبل ہی ٹیکنکل طور پر نااہل ہوجاتے ہیں۔ سرکار کی ظالمانہ، غیر منصفانہ overage پالیسی کے باعث اعلٰی تعلیم یافتہ افراد ان بے کار ڈگریوں کو لے کر سرکاری ملازمتوں کے حصول کے لئے پریشان ہیں۔ سرکاری ملازمت نہ ملنے کے باعث اعلٰی تعلیم یافتہ بے روزگار نوجوان اپنے والدین کی محنت کی کمائی سے پڑھائی مکمل کرنے کے بعد اپنے خاندان کا سہارا و معاون بننے کی بجائے انکی مشکلات میں اضافہ کا سبب بنے ہوئے ہیں، معاشرے، خاندان، عزیز و اقارب کے تیز و تند طعنوں کا سامنا کرنے کے بعد اعلٰی تعلیم یافتہ افراد کے دل و دماغ پر کیا گذرتی ہوگی؟ کیا کیا سوالات ان کے ذہنوں میں جنم لیتے ہونگے کہ وہ ان بے کار ڈگریوں کا اب کیا کریں؟ ان کو آگ لگا دیں یا پھر خود کو؟

سرکاری ملازمت کی عمر زیادہ ہونے پر اس ملک میں کئی بار نہ صرف قانون کو منسوخ کیا گیا بلکہ اس کی حالیہ شکل میں متعدد ترامیم بھی ہوچکی ہیں۔ قانون کو عوام کے مسائل کے حل کیلئے لچکدار بنایا جاتا ہے اور اس میں ترامیم کی جاتی ہیں، تاکہ وقت کی ضرورت کے تحت اسے عوام کی بھلائی کیلئے معاون کار بنایا جاسکے۔ حال ہی میں اگر ملک میں تیسری بار وزیراعظم بننے کے لئے اور اپنی حکومتوں کو طول دینے کے لئے آئین میں ترامیم کی جاسکتی ہیں تو اعلٰی تعلیم یافتہ بے روزگار نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے کے لئے زیادہ عمر ہونے والی پالیسی میں ترامیم کیوں نہیں کی جاسکتی، جس کی وجہ سے اعلٰی تعلیم یافتہ نوجوان اعلٰی تعلیم کے حصول کے بعد زیادہ عمر ہونے کے باعث نوکریوں سے محروم اور بے روزگار ہیں، اسی فکر کے ساتھ ان کی راتوں کی نیندیں اُڑگئی ہیں، وہ ہمیشہ اپنے بہتر مستقبل کیلئے فکر مند رہتے ہیں اور اس پر افسوس کا اظہار کرتے ہیں کہ اتنی محنت کے بعد ان کا مستقبل تاریک ہوتا نظر آرہا ہے اور تمام محنت ضائع ہوگئی ہے۔ پڑھے لکھے نوجوانوں کا موقف سامنے آیا ہے کہ ہم نے رات دن محنت اور مزدوری کرکے اپنی تعلیم مکمل کی، لیکن وقت گذرنے کے ساتھ ہر روز ابھرتا ہوا سورج ان کے لئے خوشی نہیں بلکہ نئے مسائل لے کر اُبھرتا ہے۔ ان لوگوں کا مسئلہ یہ بھی ہے کہ زندگی میں محنت مزدوری کرکے اپنی تعلیم مکمل کی CSS اور PMS میں کامیاب نہ ہوسکے، اب Overage ہونے کی وجہ سے دوسری نوکری کرنے کیلئے بھی نااہل ہوچکے ہیں۔

ہمارا اسلام اور آئین عورتوں اور مردوں کو مساوی حقوق دیتا ہے مگر یہاں تو معاملہ بالکل ہی الگ ہے۔ دہرا معیار یہ دیکھنے میں بھی آیا ہے کہ مردوں کو بلائی عمر کی حد میں صرف 5 سال جنرل Relaxation یعنی زیادہ سے زیادہ 35 سال اور عورتوں کو بلائی عمر میں 8 سال کی Relaxation، یعنی زیادہ سے زیادہ 38سال؟ کیا انکی ڈگریاں میل کی تعلیمی قابلیت سے زیادہ اہمیت رکھتی ہیں یا پھر انکا تعلیمی دورانیہ میل سے زیادہ ہے۔ ہمارے ملک میں مساوی نظام کیوں نہیں ہے؟ یہ بھی حقیقت ہے کہ ملکی ترقی میں مرد و خواتین دونوں کا ہی اہم کردرا ہوتا ہے، لیکن ’’طالبات/خواتین‘‘ کی نسبت ’ طلبا/ مردوں‘‘ کو سب سے زیادہ ملازمتوں کی ضرورت ہوتی ہے، جبکہ ہمارے معاشرے میں نظام زندگی چلانے کیلئے عورتوں کی نسبت مردوں کی ہی ذمہ داری زیادہ ہے۔ لہذا اسی بنا پر خواتین سے زیادہ مردوں کو سب سے زیادہ ملازمتوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ آجکل پنجاب گورنمنٹ نے محکمہ تعلیم میں نائب قاصد کیلئے عمر کی حد 40 سال کی ہے، کیا وہ اعلٰی تعلیم یافتہ افراد کی نسبت زیادہ قابلیت رکھتے ہیں؟ کتنے ظلم اور افسوس کی بات ہے کہ حاکم وقت سے کوئی پوچھنے والا نہیں۔ ان پڑھ یا کم تعلیم یافتہ نائب قاصد کیلئے عمر کی تو حد 40 سال جبکہ پڑھے لکھے اور اعلٰی تعلیم یافتہ افراد کیلئے کوئی رعایت نہیں؟ یہ صرف حکمرانوں کی جانب سے اپنے ایم پی ایز اور ایم این ایز کو نوازنے کیلئے درجہ چہارم کی آسامیوں کی عمریں بڑھائی گئی ہیں، جو پڑھے لکھے نوجوانوں کی کھلم کھلا تذلیل کئے جانے کے مترادف ہے۔

اس سے پتہ چلتا ہے کہ کہ آیا ہمارے ملک میں آئین کی حکمرانی ہے یا پھر پالیسی کی؟ اگر ملک کو پالیسی پر ہی چلنا ہے تو آئین کی کیا ضرورت ہے۔ پالیسی بنانے کا مقصد عوام کو ریلیف مہیا کرنا ہوتا ہے نہ کہ ان کا نقصان۔ اس سے پہلے ماسوائے PMS/PCS کے امتحان کے علاوہ دیگر مقابلے کے امتحانوں میں متعلقہ محکمہ کا سیکرٹری قانون کے مطابق Overage امیدوار کو بالائی عمر میں Relaxation دینے کا اختیار رکھتا ہے اور ماضی میں اسکی روایات بھی قائم تھی، لیکن انکے یہ اختیارات سلب کر لئے گئے، مگر اب یہ اختیارات متعلقہ سیکرٹری کے پاس ہونے کے باعث پالیسی کے مطابق اب وہ ایسا نہیں کرسکتے۔ کیا یہ پالیسی بے روزگاری میں اضافہ نہیں کر رہی؟ کیا یہ ہمارے خادم اعلٰی پنجاب کی جانب سے اچھا اقدام ہے؟ کیا یہ پالیسی عوام کے حق میں بہتر ہے؟ کیا اعلٰی تعلیم یافتہ افراد کے بہتر مستقبل کیلئے پالیسی میں ترامیم نہیں ہوسکتیں، جو تعلیم یافتہ افراد کے معاشی قتل اور انکے مستقبل تاریک کرنے کا سبب بن رہی ہے؟ مگر دیکھنے میں آیا ہے کہ حکمرانوں کے اپنے مفادات کیلئے آئین میں ترامیم تو ہوجاتی ہیں، لیکن ان کی جانب سے عوام کے مفادات کی ترامیم دیکھنے میں نہیں آتیں، جس کا فائدہ براہ راست عوام کو پہنچتا ہو۔

2014ء میں سندھ کی عوام کی بے روزگاری کو مدنظر رکھتے ہوئے سندھ گورنمنٹ نے Overage پڑھے لکھے نوجوانوں کو 15 سال کی Age Relaxation کا نوٹیفیکیشن جاری کیا۔ ہمارے صوبہ کے خادم اعلٰی پنجاب تو کہیں زیادہ ان سے اپنے صوبے کی عوام کا خیال رکھنے اور انکے مسائل کو کم کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں تو کیا خادم اعلٰی پنجاب عوام کی بھلائی کیلئے یہ سب نہیں کرسکتے؟ یہ تو خدا جانتا ہے کہ ان تعلیم یافتہ بے روزگار افراد کے دلوں پر کیا گزر رہی ہے؟ اس ملک میں کسی ریٹائرڈ آدمی کو تو اعلٰی عہدے پر فائز کر دیا جاتا ہے، یا کسی کی مدت ملازمت بڑھا دی جاتی ہے، اپنے سیاسی مفادات کی خاطر قانون میں ترامیم بھی ہوجاتی ہے اور پالیسی بھی بن جاتی ہے، مگر ملک میں اعلٰی تعلیم یافتہ افراد کے مستقبل کو محفوظ کرنے اور انہیں روزگار فراہم کرنے کیلئے کچھ بھی نہیں کیا جا رہا۔ overage کے باعث بے روگاز افراد کس کے در پر فریاد کریں، کونسا دروازہ کھٹکھٹائیں، کونسی عدالت میں جائیں اور وکیل کی فیس کہاں سے ادا کریں؟ ان کی فریاد کو سننے والا کون ہے؟ یہ تمام سوالات حل طلب ہیں، جن کے جوابات نہ ملنے پر یہ پڑھے لکھے لوگ ذہنی مریض بنتے جا رہے ہیں اور ان کے ذہنوں میں منفی سوچ جنم لے رہی ہے کہ وہ خود کشی کریں یا ملک چھوڑ دیں یا پھر اپنے آپ کو معذور کر لیں؟ کرے تو کیا کریں؟

ان سب بے قاعدگیوں اور ان سے ہونے والی زیادتیوں کا عدالت عظمٰی یا عدالت عالیہ کیوں نوٹس نہیں لیتی؟ کیا انہیں یہ سب نظر نہیں آرہا؟ ملک میں قانون صرف کمزور لوگوں کیلئے ہے؟ ملک میں قانون رائج نہیں بلکہ اسکی جگہ پالیسی راج رائج ہے۔ زائد العمر کے باعث بے روزگار فراد کا یہ مطالبہ سامنے آیا ہے کہ انکی بھی بالائی عمر فی میلز کے مطابق ہونی چاہیے اور بالائی عمر میں کم سے کم 15 سال جنرل Age Relaxation دلوائی جائے۔ اس عمل سے تمام پڑھے لکھے بے روزگار اپنی تعلیمی استعداد کے مطابق مقابلے کے امتحان اور مختلف محکموں میں نوکریاں حاصل کرنے کے قابل ہوجائیں گے۔ یہ مسئلہ قومی سطح کا ہے اور حقائق پر مبنی انتہائی سنگین معاملہ ہے، ارباب اختیار کو اس غیر مساوی نظام پر اپنی آنکھیں بند نہیں کرنی چاہیے، اس لئے کہ بے روزگاری کے باعث پڑھے لکھے نوجوانوں کے گھروں میں سنگین معاشی اور سماجی مسائل جنم لے رہے ہیں، وفاق اور صوبہ پنجاب کے ذمہ داران کو ہنگامی بنیادوں پر مذکورہ بالا خدشات کے پیش نظر جنرل Age Relaxation پالیسی پر نظرثانی فرماتے ہوئے پانچ سال سے بڑھا کر کم از کم 15 سال کی بجائے یا عمر کی پابندی کو مکمل ختم کیا جائے، تاکہ ان افراد کی محرومیوں کو دور کرنے کے ساتھ ساتھ ملک سے بے روز گاری کے خاتمہ کو یقینی بنایا جائے، تاکہ ہمارا ملک اور ہمارے تمام ادارے اعلٰی تعلیم یافتہ نوجوانوں کے علم و تجربہ سے مستفید ہوسکیں۔

 

(خصوصی شکریہ: ڈاکٹرسید قلب نواز اور اسلام ٹائمز)