مائکرو فکشن کیوں؟

(سید تحسین گیلانی)

مائکرو فکشن کیوں؟
میں کہتا ہوں کیوں نہیں ….
کیا اردو ادب میں استبدادیت کا دور دورہ ہے ؟
کیا افسانچے کے بعد خط کهینچ دیا گیا ہے ؟
ناول تھا تو افسانہ کیوں آیا ….
افسانہ تھا تو افسانچہ کی ضرورت کیوں پیش آئی …؟؟
انگریزی و عربی فارسی ادب سے مستعار اردو ادب اور ادیب کب تک خود کو تحقیق اور جدت سے روکے رکهے گا ؟
جب بھی فکشن کا ذکر آتا ہے تو معروف انگریزی رائٹر ورجنیا وولف کا ایک سوال جس نے برسوں پہلے ادبی حلقوں میں کہرام برپا کیا تھا یاد ضرور آتا ہے ۔ ان کا مضمون ” جدید فکشن ” ایک خیال انگیز تحریر تھی اور ہے جس نے اس وقت جو سوال اٹھائے آج بھی اتنے ہی اہم ہیں ۔اس مضمون کی ابتداء میں ہی وہ لکھتی ہیں ۔
” ہم نے مشین بنانے میں بہت ترقی کر لی ہے ۔ نئے ماڈل کی کار کو دیکھتے ہی ہم بے اختیار کہہ اٹھتے ہیں کہ اس کی ساخت میں کچھ نئی چیزیں سما گئی ہیں لیکن کیا ہم نے اسی طرح کا کوئی نیا طریق ادب کی تخلیق بھی دریافت کیا ہے ؟ اور کیا اس طریق کو احساس تفاخر سے پیش کیا ہے کہ یہ فن پارہ پہلےفن پارے سے مختلف ہے ؟ ورجینا وولف نے لکھا کہ فیلڈنگ نے اچھا فکشن تخلیق کیا تو جین آسٹن اپنے زمانے میں فیلڈنگ سے سبقت لے گئی لیکن جو حیرت فیلڈنگ نے اپنی سادگی سے تخلیق کی تھی اور اسی طرح بعد میں جو حیرت جین آسٹن نے اپنے انداز میں جگائی تھی ویسی حیرت کیا ہمیں ان کے بعد فکشن میں نظر آئی ۔”
دیکھنے والی بات اس اقتباس میں یہ ہےکہ ورجینا وولف نے ارتقاء کے اگلے قدم کا اعتراف بھی کیا ماضی اور مستقبل کے ادب کا تقابل کرتے ہوئے اس کے زوال کی بات بھی کی اور ادب میں جمود کی صورت پر بھی بات کی یہ درست کہ یہ پرانی بات ہے اس کے بعد انگریزی ادب میں فکشن کئی طرح سے لکھا گیا اور عمدہ نمونے بھی سامنے آئے لیکن اگر میں اردو ادب میں فکش پر ایک نظر ڈالوں تو دور نہیں 90 کے بعد کے فکشن پر ناقد بھی زوال کا نوحہ کہتا نظر آئے گا ۔
جب میں نے مائکرو فکشن پر بات شروع کی تو ادبی حلقوں میں چہ مگوئیاں ہوئیں کہ جیسے ٹیسٹ کرکٹ سے ون ڈے کا دور آیا اور ون ڈے سے ٹی ٹونٹی کا یوں ہی ادب میں بھی ہم مختصر ترین کی جانب بڑھ رہے ہیں ۔
قارئین کے پاس پڑهنے کا وقت کم ہے یا نہیں ہے اس سے قطع نظر ادب کے معاملات الگ ہیں —ادب میں نئی اصناف کا آنا نئی اصناف کے ریسرچ ورک سے جڑنا انگریزی ادب کا خاصہ ہے اس لیے ہمیں سب وہاں سے ہی مروج ملا ہمارے ہاں قصہ گوئی یا داستان کی روایت ملتی ہے لیکن کیا وہ اردو کی اپنی اصناف تهیں یہ الگ سوال ہے ؟
میں یہاں ساوته آفریقہ میں ایک نجی کانفرنس میں شریک ہوا تو وہاں دوستوں سے تعارف کے بعد اردو ادب کا تذکرہ ہوا گوروں اور سیاہ فام ادباء کا سوال تھا اردو ادب میں کون سی اصناف لکھی جاتی ہیں تو میرا عمومی جواب یہی تھا کہ ناول / ناولٹ / افسانہ / نظم …ہمارے ہاں بالخصوص لکھی جاتی ہے تو انہوں نے ہنستے ہوئے کہا ارے بھئی یہ سب تو انگریزی ادب سے مستعار ہے اردو ادب کی اپنی کون سی صنف ہے جو آپ لکھتے ہیں ….تو یہ اچانک سوال میرے لیے خود حیران کن تھا خیر میں نے غزل کا نام لیا اور بات کچھ سنبھلی ….لیکن میں جانتا تھا غزل بھی کہاں اردو کی اپنی ہے ….
مجھے اس بات نے بطور اردو طالب علم جھنجھوڑا کہ واقعی ان کا سوال چبهنے والا تھا ہم نے اردو ادب کو کیا دیا ؟؟
افسانے کی ہی بات کر لیں –
افسانہ خود اپنے پیٹرن وقتاً فوقتاً  بدلتا رہا ہے اور یہ ایک اچهی روایت رہی ہے اردو ادب میں کہ افسانہ میں تجربات ہوئے ترقی پسند تحریک نے کہہ سکتے ہیں کہ ل- احمد اور سجاد حیدر یلدرم کے دور میں ۔
اردو افسانہ ماورائیت کا مفسر اور اعلی آدرشوں کے حصول میں کوشاں رہا –
Idealism اور Realism
کی رو میں افسانہ بہا، یوں اس کا رد عمل 1960 میں تجریدی افسانے کی شکل میں سامنے  آیا –
پهر 90 کی دہائی میں افسانہ علامت کی جانب واپس لوٹا لیکن دیکها جائے تو یہی ادوار افسانے میں انگریزی ادب اور اردو ادب میں بیک وقت گزرے ….مطلب ہم وہ ہی کر رہے تهے جو مغرب میں ہو رہا تها چلیں مانا علوم کا لین دین ممنوع نہیں اس میں کوئی مضائقہ نہیں اگر ایسا ہوا بهی …
لیکن یہی محبت اگر اردو دان اردو کی اپنی الگ صنف بنانے میں کرتے جس کی ہئیت خود اردو کی وضع کی ہوتی تو ہم آج کہہ سکتے کہ فلاں صنف اردو کی صنف ہے -اسی سوچ کے پیش نظر میں نے مائکرو فکشن پر تحقیقی کام کا آغاز کیا کہ ایک صنف تو ہو جو اپنی نئی شکل کے ساتھ سامنے آئے جسے ہم افسانچے / منی منی سٹوری / فلیش فکشن سے الگ کہہ سکیں –
اب آپ کہہ سکتے ہیں کہ  صنف اپنی تو نام بھی اپنا ہونا لازم ہے تو اس حوالے سے عرض ہے کہ یہ الفاظ اب اردو میں رائج ہیں اور عام فہم تو ان کا یونہی رائج ہونا میرا نہیں خیال غلط ہو –
لیکن میں نے تحقیقی کام میں اس پر غور جاری رکھا اور بالخصوص نام کے حوالے سے بار بار ادباء کی رائے لی ان مکالموں میں بہت سے نام سامنے بھی آئے دنیا بھر کے ادباء نے بہت سے ناموں کی تجویز دی مباحث ہوتے رہے کسی نے خرد افسانہ کہا کسی نے مفسانہ کسی نے مفکشن …آخر کار کراچی سے ہمارے ایک محترم دوست شفقت محمود صاحب نے “مائکروف ” کی اصطلاح کو استعمال کرنا شروع کیا میں نے دیکھا کہ ادباء کی کثیر تعداد نے اس” مائکروف ” کو معتبر حیثیت دی اور خود بخود یہ نام مستعمل ہوتا گیا اور اسے قبولیت کی سند ملی ، یوں نام کا قضیہ ختم ہوا- اس دوران انہماک فورم پر اردو کے معتبر ترین ناقدین و ادبا سے مکالمے بھی جاری رہے اس ضمن میں اب تک شموئل احمد ( انڈیا ) ستیہ پال آنند ( امریکہ ) نیلم احمد بشیر ( لاہور ) طلعت زہرا ( کینیڈا ) نسیم سید ( کینیڈا ) محمد حمید شاہد ( اسلام آباد ) شمسہ نجم ( امریکہ ) سلمی جیلانی ( نیوزی لینڈ ) ابرار مجیب ( انڈیا ) فارس مغل ( کوئٹہ ) صدف اقبال ( انڈیا ) عمار اقبال ( کراچی ) سلمی اعوان ( لاہور ) سلمی صدیقی ( راولپنڈی ) عاکف محمود ( لندن ) رفیع اللہ میاں( کراچی  ) شین زاد ( کراچی ) نعیم بیگ ( لاہور ) سید فصیح احمد ( سعودی عرب ) علی کاظم ( مری ) فیصل سعید ( کراچی) مایا مریم ( کراچی )  عمار اقبال ( کراچی ) شفقت محمود ( کراچی ) سیدہ تسکین (ساہیوال ) نصرت اعوان ( کراچی )جواد حسنین بشر / ابن مسافر ( کراچی ) ان سب کے مضامین/ خطوط / نوٹس و آراء مائکرو فکشن کے حوالے سے انہماک فورم میں منظر عام پر آ چکے ہیں جنہوں نے اس صنف کے اسلوب و ہیئت کے حوالے سے بالخصوص بات کی اور کئی ادباء اردو میں اس کے روشن امکانات و مستقبل کی نشاندہی کی کچھ ادباء نے اسے مجذوب کی بڑ بهی کہا اور ناپسند قرار دیا لیکن ایسا رد عمل چند ایک ادباء کی جانب سے ہوا جو ذہنی طور پر اردو میں کچھ نیا ہونے سے خائف ہیں یا تجربات کے حق میں نہیں …شروع میں اس صنف کو خاصی مزاحمت کا سامنا رہا اور ایسا ہونا میرے لیے نیا نہیں تها مجھے یاد ہے جب ہم تحریک تعمیم انشائیہ سے منسلک ہوئے تو ڈاکٹر وزیر آغا ( مرحوم ) اور استاد گرامی اے غفار پاشا صاحب کے ساتھ انشائیے کے حوالے سے کام کرنے کا موقع ملا اس وقت بهی مزاحمتی رد عمل سامنے آیا لیکن ایک عرصے بعد کثیر تعداد میں انشائیے سامنے آئے اور مقالے لکھے گئے تو صنف اپنا مقام خود بناتی چلی گئے آج انشائیہ پر پی ایچ ڈی کے مقالے لکھے جا رہے ہیں –
اردو میں بہت کم کچھ الگ نیا کرنے کی روایت رہی ہے ..ہاں
اسی ضمن میں عرض کروں …تنقید نے اردو ادب میں سب سے زیادہ ترقی کی ہے اردو ادب میں تنقیدی میدان میں آج تنقید تاثراتی تنقید سے ہوتی ہوئی .. مارکسی تنقید / مظہریت/ساختیاتی تنقید / نو آبادیاتی تنقید / تانیثی تنقید / رد تشکیل / پوسٹ ماڈرن ازم/ پوسٹ پوسٹ ماڈرن ازم اور امتزاجی تنقید تک پہنچی اور اس پر کام بھی ہوا ہے گو کہ یہ بهی بیشتر مغرب کی تهیوریز ہیں ” رد و قبول” لیکن  ان پر کام ہوا ہے ڈاکٹر وزیر آغا نے امتزاجی تنقید کی بنیاد رکهی اور جمیل آذر صاحب نے انشائی تنقید کا آغاز بهی کیا ہے- …مغرب میں تهیوریز پیش کی جاتی ہیں اور پهر اس پر مکالمہ ہوتا ہے یوں بات آگے بڑھتی ہے ہمارے ہاں کوئی یہ نہیں دیکهتا کہ بات کیا ہو رہی وہ اہم ہے یا نہیں سب یہ دیکهتے ہیں کہ کہہ کون رہا ہے …..
ایک بات ضمناً عرض کروں گا –
مائکرو فکشن( مائکروف) کو لے ہمارے ادبا خائف کیوں ہیں وہاں ‘دریدا ‘ کے مطابق زبان میں افتراق اور التوا کا کھیل ہے کہہ کر سب لکها ،کہا ، رد کر گیا ہے اور اس کا جواب ابهی تک کوئی دے نہیں پایا اس کا کہنا ہے کہ کوئی متن حتمی معنی ، مطلق و واحد معنی نہیں رکھتا وہ مسلسل ملتوی ہو رہے ہیں یعنی یہ ” انٹر پلے ” ہے مسلسل اور لامتناہی -اور ہمارے ہاں سیب درخت سے گرے تو  اسے کھا لینے کا مزہ ہی نہیں چھوٹتا
خیر عرض ہے کہ اگر وہ منی سٹوری کے  بعد فلیش فکشن اور سائنس فکشن اور دیگر فکشن کو متعارف کروا سکتے ہیں تو ہمیں افسانچے کے انڈے پر ‘مرغا’ بن کر کب تک بیٹهے رہنا ہے یہ اب ہم سب مل کر طے کر لیتے ہیں –
اب آپ دیکھ لیں اردو ادب و ادیب کو نئی صنف پر کام کرنا ہے یا نہیں …یہ کتنا لازم ہے ،نہیں ہے -وہ دوست طے کر لیں –
رہی بات مائکرو ہارر فکشن کی تو ہم نے موضوعات کو بدل بدل کر اب تک دنیا بھر کے مصنفین سے 500 کے قریب مائکروف لکھوائے ہیں جن پر دنیا بھر کے معزز ناقدین نے تبصرے کیے آراء دیں ہیں تاکہ اس صنف میں نئے نئے موضوعات پر زیادہ سے زیادہ لکها جائے تاکہ مصنفین و قارئین کا ذائقہ بهی بدلتا رہے اور مشق بهی جاری رہے –
رہی بات انہماک میں شامل مائکرو فکشن مثالوں کی تو عرض ہے وہ نشستیں مشق سخن سے متعلق ہیں ان سب سے ہی بہترین مثالوں کو سامنے رکھ کر ہم اس کی صورت گری کرتے چلے جائیں گے اس پر کام ہو رہا ہے میں اور دیگر دوست نوٹس بنا رہے ہیں …….لیکن یاد رہے یہ سب کہانی کے بهیتر ہی ہوگا ..انجام …منظر نگاری ….حیرت ….ہر مائکرو فکشن کا حصہ ہوں گے – ہارر مائکروفکشن میں جزئیات نگاری کو خاصی اہمیت حاصل ہو رہی کیونکہ وہاں  لفظوں سے قاری کو سارا منظر دکهانا ہوتا ہے لکھتے لکهنے قلم مائکرو فکشن کی جسامت کو تو بھانپ گئے ہیں اور ان کا قلم خود بخود طے کرتا گیا کہ اس کا حجم کیا ہو موضوع کے اعتبار سے لفظوں کی تعداد 600 تک جا سکتی ہے –
مائکروف جدید دور کی اہم ترین ضرورت بهی ہے اور اس صنف میں تخلیقی بیانیہ زیادہ اہم ہے ہمارے ہاں سو لفظی کہانیوں کا چرچا ہے اچھا ادب میں ایسی اصناف کی پزیرائی ہونا چاہیے لیکن مائکروف افسانچے / سو لفظی کہانی سے الگ ایک ایسی صنف ہیں جس میں داستان کا لطف / قصہ گوئی کی چاشنی / افسانے کا فسوں اور ناول کی جزئیات نگاری ،مکالمے کا تیکھا پن اور نظم کا لطف سب در آ سکتے ہیں کم لفظوں میں بڑی بات گہری بات اور گہری فکر سے جوڑتا مائکروف اس وقت ادباء کے لیے لکهنے کا ایسا تخلیقی رستہ ہے جہاں سب خود کو جیتا جاگتا اور مکمل تخلیق سے جڑا ہوا پاتے ہیں –
اس صنف پر مزید مضامین و تحقیق کی ضرورت ہے۔خوش آئند بات ہے کہ حال ہی میں لاہور سے “ندائے گل ” لاہور کا خصوصی مائکرو فکشن نمبر بھی منظر عام پر آ چکا ہے ۔ میں ادباء سے گزارش کروں گا کہ اپنے طور پر اس صنف کی ہیئت و اسلوب میں بہتری کے لیے مقالے لکھیں اور اس تحقیقی کام میں ہمارا ساتھ دیں –

1 Comment

  1. In fact, recognization for what, ? Aamer Jilail very truly said Urdu is language , flourished naturally not having own soil ; kissing Multan – Saraiki including Sindhi ,the civilization of sweetness of love due to Sufis, so why we may shay to bring out its fragrances, the clear cut message:
    Love for God, love for nature , love for mankind.
    We need enternal and external peace. Our roots are in the soil of love and peace which fragrance is our modernization , a un limited canvas of creativity ; symbolic , simple and smart.
    Let’s grow the seed of love , enjoy fruit of love

Comments are closed.