قومی خواب میں تبدیلی کا آپشن

ایک روزن لکھاری
سید کاشف رضا

قومی خواب میں تبدیلی کا آپشن

(سید کاشف رضا)

دنیا کے نقشے پر ذرا نظر دوڑائیں تو لگ بھگ دو سو ملکوں کی سرحدیں نظر آتی ہیں۔ ان میں سے کچھ ملک ترقی یافتہ ہیں اور کچھ ملک بہت سے مسائل میں الجھے ہوئے ہیں۔ ان ملکوں کی الگ الگ فہرست بنائیں تو اس فہرست میں ایک پیٹرن سا نظر آئے گا۔ یورپ اور شمالی امریکا کے ملک ترقی یافتہ ہیں۔ یورپ اور افریقا کے درمیان چھوٹا سا سمندر بحیرہ ء روم پار کریں تو براعظم افریقا شروع ہو جاتا ہے جس کے زیادہ تر ممالک تاریکیوں میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ ایشیا ترکی سے شروع ہوتا ہے اور اس میں روس، چین اور جاپان جیسے ترقی یافتہ ملک شامل ہیں جب کہ باقی زیادہ تر ممالک ترقی پذیر کہے جاتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ کچھ ملک ترقی یافتہ اور کچھ ملک ترقی پذیر کیوں ہیں؟ کیا امیر ملک غریب ملکوں کو لوٹ کر کھا رہے ہیں؟

اگر ایسا ہے تو وہ ایک دوسرے کو لوٹ کر کیوں نہیں کھاتے؟ جاپان اور جرمنی تو دوسری جنگ عظیم میں اتحادیوں کے دشمن تھے۔ جنگ کے بعد اتحادیوں

قومی خواب میں تبدیلی
دنیا کے 20 امیر ترین ممالک کی فہرست

نے ان دو ملکوں کی بے مثال ترقی میں کوئی رکاوٹ کیوں نہیں ڈالی؟ ویت نام سے تو ابھی سن ستر کے عشرے میں بھی امریکا نے ایک خوں ریز جنگ لڑی اور عبرت ناک شکست کھائی۔ پھر امریکا پچھلے تیس سال سے ویت نام کی جی ڈی پی میں سالانہ چھ فی صد سے زیادہ اضافے کی اجازت کیوں دے رہا ہے؟ ویت نام کو سالانہ پانچ ارب ڈالر کی ایکسپورٹس کے بدلے وہاں سے سالانہ پچیس ارب ڈالر کا مال امپورٹ کرنے پر امریکا چلو بھر پانی میں ڈوب کیوں نہیں مرتا؟ جس دشمن نے دس سال امریکا کو اپنی سرزمین پر ناک رگڑوائی اسے پانچ روپے کی چیز بیچ کر بدلے میں پچیس روپے کی چیز خرید کر امریکا غیرت کھا کر مر کیوں نہیں جاتا؟

ان سوالوں کا جواب کچھ دیر بعد۔ پہلے ایک اور کہانی سنیے۔

میرا ایک دوست ٹی وی پر اینکر ہے۔ اس نے بتایا کہ ایک روز اس کی ایک یونی ورسٹی فیلو اس کے پاس آئی اور کہا کہ مجھے بیرون ملک کی فلاں یونی ورسٹی سے سکالرشپ کی آفر آئی ہے۔ مگر میں کیا کروں؟ ایک لڑکی ہوں۔ اتنا پڑھ بھی گئی تو آخر کار تو کہیں شادی ہی کرنی ہے ناں؟۔ کیا فائدہ؟ میرے دوست نے اسے مشورہ دیا کہ سکالرشپ کی آفر اتنی بیش قدر ہے کہ اسے فوراً قبول کر لینا چاہیے۔ باقی چیزیں بعد میں دیکھی جائیں گی۔ لڑکی نے اپنے گھر والوں سے بات کی۔ کافی رد و کد کے بعد وہ مان گئے۔

قومی خواب میں تبدیلی 2
ویتنام میں بڑھتا ہوا معیار
زندگی

لڑکی بیرون ملک گئی۔ پڑھ کر وہاں ایک عمدہ ملازمت حاصل کی۔ لاہور میں ہوتی تھی تو گلیوں میں لڑکے اس پر آوازے کستے تھے۔ آج جہاں ہے وہاں کوئی مقامی اجنبی لڑکا ایکسکیوز می کہے بغیر اس سے اگلی بات نہیں کرتا۔ کوئی چائے وائے کی آفر مارتا ہے تو انتہائی تمیز اور تہذیب کے ساتھ۔ وہ انکار کر دیتی ہے تو سر جھکا کر اپنی راہ لیتا ہے۔ آج اس کی ترقی پر اس کے والدین رشک کرتے ہیں۔ وہ کہتی ہے کہ اگر اس نے لاہور میں اپنے دوست کی بات نہ مانی ہوتی تو کوئی چھوٹی موٹی ملازمت کر رہی ہوتی یا گھر داری کر رہی ہوتی۔

اس واقعے سے یہ دکھانا مقصود ہے کہ زندگی وقتاً فوقتاً ہمارے سامنے کچھ آپشن رکھتی چلی جاتی ہے۔ ہم دست یاب آپشن میں سے کسی ایک کا انتخاب کرتے ہیں اور آگے بڑھ جاتے ہیں۔ پھر کوئی اور مرحلہ آتا ہے جب ہم کسی دوراہے، سہ راہے، چہار راہے پر کھڑے ہوتے ہیں۔ ہم کوئی فیصلہ کرتے ہیں اور اس کے نتائج، اچھے یا برے، ہمارے سامنے آ جاتے ہیں۔ ہمارے میڈیکل کالجوں میں زیادہ تعداد لڑکیوں کی ہے۔ ان میں سے کچھ راضی بہ رضا رہتی ہیں اور ایم بی بی ایس کر لینے کے باوجود گھروں میں ہانڈی چولہا کرتی ہیں۔ کچھ لڑکیاں میڈیکل کے کسی شعبے میں تخصیص حاصل کرنے کے لیے مزید تعلیم حاصل کرتی ہیں اور آگے نکل جاتی ہیں۔ ہمارے عوام کی اکثریت اسے تقدیر کا کھیل کہتی ہے۔

ہاں! زندگی میں حادثات بھی ہوتے ہیں جو انسان کا راستہ روک دیتے ہیں۔ کسی کے گھر میں کمانے والے واحد باپ کی بے وقت موت ہو جاتی ہے اور اسے اپنے خواب ترک کرنے پڑتے ہیں۔ کسی کو کوئی حادثہ، کوئی معذوری پیش آ جاتی ہے۔ مگر ہم میں سے کئی لوگ یہ کہتے ہوئے ملتے ہیں کہ اگر میں نے فلاں موقع پر فلاں راستہ اختیار کیا ہوتا تو آج میں زندگی میں زیادہ بہتر مقام پر ہوتا۔ یہ سب اس لیے ہوتا ہے کہ ہم نے زندگی میں ایک آپشن کی جگہ دوسرے آپشن کو ترجیح دی ہوتی ہے۔

اپنے اپنے دادا نانا کی زندگی پر غور کریں۔ دادا نانا کے متعدد بچے تھے۔ انھوں نے ہر بچے کو ایک جیسی تعلیم دلانے کی کوشش کی۔ مگر کوئی بچہ لائق نکلا، کوئی نالائق۔ کسی نے زندگی کے لیے ایک آپشن کا انتخاب کیا، کسی نے دوسرے کا۔ آج آپ نتیجہ کیا دیکھتے ہیں؟ کیا آپ کے تمام چچا، تمام پھوپھیاں یا پھر تمام ماموں، تمام خالائیں ایک جیسے امیر یا غریب ہیں؟ ایک جیسے سماجی مقام پر فائز ہیں؟ میرا خیال ہے کہ ایسا نہیں ہے۔

آپشن اور راستوں کے اسی کھیل کا اطلاق اب قوموں کی زندگی پر کر لیجیے۔ دنیا بھر کے نقشے پر پھر سے نظر دوڑائیے۔ یہ جتنے ترقی یافتہ ملک آپ کو نظر آتے ہیں انھوں نے تاریخ کے کسی نہ کسی مرحلے پر کسی ایسے آپشن کا انتخاب کیا، جو انھیں ترقی کی راہ پر لے گیا۔ دوسرے ملکوں نے ان ملکوں کے خلاف سازشیں کیں تو ان ملکوں نے غصے میں انھیں گالیاں دینے کے بجائے ان سے بہتر اور برتر ٹیکنالوجی بنا کر ان پر غلبہ حاصل کر لیا۔

ترکوں نے قسطنطنیہ پر قبضہ کر کے بحیرہ ء روم کا راستہ عام تجارت کے لیے بند کر دیا تو یورپ نے ٹیکنالوجی پر فتح پا کر ایسی کشتیاں بنا لیں جو جنوبی افریقا کا چکر کاٹ کر ہندوستان اور چین تک سے تجارت کرنے لگیں۔ یورپ کے اندر ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کا مقابلہ ہوا۔ فرانس میں شاہ کا تخت الٹ کر خونیں انقلاب لایا گیا تو برطانیہ نے اس سے سبق سیکھ کر پرامن اصلاحات کا آپشن چنا اور فرانس سے آگے نکل گیا۔

دوسری عالمی جنگ میں بدترین تباہی کے صرف پندرہ برس بعد انیس سو ساٹھ میں جاپان دنیا کی دوسری بڑی معاشی طاقت بن گیا۔ میں یہاں ہر ملک کی کہانی الگ الگ بیان نہیں کر سکتا۔ تھوڑے بہت فرق کے ساتھ سب ترقی یافتہ ملکوں کی تقریباً یہی کہانی ہے کہ ان کے اربابِ بصیرت نے دستیاب راستوں میں سے

ترکی میں اسلام کی افزائش

ایک بہتر آپشن کا انتخاب کر لیا۔
ترقی اور عالمی برادری میں سر اٹھا کر کھڑا ہونے کا راستہ ہمارے پاس بھی موجود ہے۔ ہمارے پاس اثاثوں کی صورت میں ایک وسیع اور متنوع رقبہ اور بڑی تعداد میں نوجوان اور متحرک آبادی موجود ہے۔ پھر مسئلہ کیا ہے؟

ایک مسئلہ تو یہ ہے کہ ہم جاپان یا جنوبی کوریا کی طرح یک لسانی ملک نہیں۔ یک لسانی ملک اپنی پوری توجہ معاشی ترقی پر دے سکتا ہے، لیکن کثیر لسانی ملک اسی صورت میں برقرار رہ سکتا ہے جب اس کی معاشی ترقی سے تمام وفاقی یونٹ کسی نہ کسی حد تک یک ساں طور پر مستفید ہوں اور وفاق میں متحد رہتے ہوئے انھیں یہ اطمینان ہو کہ ان سے امتیازی سلوک نہیں کیا جا رہا۔

لیکن مسئلہ صرف یہی نہیں۔ مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہماری قوم بٹے ہوئے خوابوں کی قوم ہے۔ یہاں آبادی کا ایک کثیر طبقہ ایسا ہے جسے دنیا بھر میں مسلم غلبے کا خواب دکھایا گیا ہے۔ غلبے کا خواب دنیا کے دوسرے ملک بھی دیکھتے ہیں۔ ان میں سے جو جو کام یاب ہوئے ہیں ان کے ناموں پر پھر سے نظر دوڑا کر دیکھ لیجیے۔ یہ سب وہ ملک ہیں جنھوں نے ٹیکنالوجی کے میدان میں دوسرے ملکوں پر برتری حاصل کی ہے۔ ایک ہم ہیں کہ صرف دہشت گرد ایکسپورٹ کر کے سمجھتے ہیں کہ ہم دنیا پر غلبہ پا لیں گے۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ طاقت کے بل پر کسی دوسرے ملک پر غلبہ پا لے گا تو علم اس کا واحد ہتھیار ہونا چاہیے۔ ورنہ طاقت کو اصول مانا گیا تو طاقت ور ملک طاقت کے خواب دیکھنے والے ملک کو پہلے ہی کچل کر رکھ دے گا۔ اچھا چلیے ہم بھی اس خواب میں شریک ہو جاتے ہیں۔ ہمیں صرف یہ بتا دیجیے کہ اسلامی غلبے کے خواب کے ساتھ مراکش سے لے کر انڈونیشیا تک کون سا ملک دنیا کے دس، پندرہ، بیس طاقت ور ترین ملکوں میں شامل ہو سکا ہے۔

ایک خواب ان لوگوں کا ہے جو ملک میں کرپشن سمیت ہر قسم کے مسائل کے حل کے لیے ایک سینٹرلائزڈ فوجی حکومت کا خواب دیکھتے ہیں۔ اگر فوجی حکومتوں کے بتیس برسوں میں کرپشن کم ہو گئی تھی ، ملک کے رقبے میں اضافہ ہو گیا تھا اور قوموں کی برادری میں اپنے پاکستان کا سر فخر سے بلند ہو گیا تھا تو مجھے ان واقعات کی تفصیل بتا دیجیے۔

ایک اور آپشن، ایک اور خواب اسی ملک کے سیکولر اور ترقی پسند لوگوں نے دیکھا ہے۔ یہ خواب بنیادی طور پر صرف اور صرف تین خواہشات پر مشتمل ہے۔ ایک یہ کہ پاکستان کی تمام وفاقی اکائیوں کے ساتھ یک ساں سلوک کیا جائے، دوسرے یہ کہ ملک میں جمہوریت اور جمہوری اداروں کو مضبوط کیا جائے کیونکہ جمہوریت ہی متنوع زبانوں، علاقوں، مذاہب ، فرقوں اور طبقہ ہائے فکر کی امنگوں کو ایک لڑی میں پرو سکتی ہے۔ تیسرے یہ کہ ملک کو مذہبی بنیاد پرستی سے محفوظ کر کے ایک ترقی پسند اور مستقبل بیں فکر کو پروان چڑھایا جائے۔ یہ تینوں خواہشات ایک دوسری سے جڑی ہوئی ہیں اور کسی ایک میں رخنہ اندازی سے دوسری پر بھی منفی اثر پڑتا ہے۔

ایک نارمل ملک میں دانش ور ہر طرح کے خواب دکھانے کے لیے آزاد ہوتے ہیں۔ لیکن ہمارے ملک میں مذکورہ بالا تین خواہشات میں سے کوئی ایک خواہش پالنے والا غدار اور کافر قرار دیا جاتا ہے۔ اگر پاکستان صرف شمالی پنجاب کے عوام کی ترقی کے لیے بنایا گیا تھا تو پہلی خواہش غداری ہے۔ اگر پاکستان ایک فوجی انقلاب کے نتیجے میں قائم ہوا تھا تو دوسری خواہش زیادتی ہے۔ اور اگر پاکستان مسلمانوں کے صرف ایک فرقے کے لیے بنایا گیا تھا تو تیسری خواہش کفر ہے۔
اگر ایسا نہیں ہے تو پھر اس خواب، ان خواہشات کو بھی بحث مباحثے کے میدان میں اپنا سکہ منوانے کا موقع دیجیے۔ جاپان، جرمنی اور ویت نام کی مثال میں پہلے دے چکا کہ کیسے ان ملکوں نے اپنے قومی خواب سے عسکریت کو علاحدہ کیا اور آج کس مقام پر ہیں۔ زمین کی تاریخ بھی یہی بتاتی ہے کہ شدید موسمی تبدیلیوں میں وہی انواع زندہ رہ پاتی ہیں جو حالات کے مطابق خود کو ڈھال لیتی ہیں۔ جو انواع ایسا نہیں کر پاتیں وہ معدوم ہو جاتی ہیں۔

تو ہمارے سامنے آپشن کیا ہے۔ آپشن ہے اپنے قومی خواب میں تبدیلی۔ اس خواب میں سے عسکریت اور تشدد پسند مذہبیت کا اخراج۔ اگر ہم ایسا کرنے میں کام یاب ہو گئے تو یاد رکھیے جس امریکا نے جرمنی، جاپان اور ویت نام کو زبردست معاشی ترقی سے نہیں روکا تو وہ پاکستان کو بھی نہیں روک سکے گا۔ دنیا کی پچھلے پانچ سو برسوں کی تاریخ یہی بتاتی ہے کہ یہ خواب ایک بہتر آپشن ہے۔

آزاد فکری کے ماحول میں ہم نے ٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی کی تو ہمارے ملک کی چھیانوے فی صد آبادی تب بھی مسلمان ہی رہے گی۔ ترکی میں اسی نوے سال کے سیکولرازم کے بعد بھی وہاں مسلمانوں کی آبادی کم ہونے کے بجائے بڑھ گئی ہے تو پاکستان پر بھی اللہ اپنا کرم ہی کرے گا۔

دانش کو شکنجوں میں مت جکڑیے۔ غیر مذہبی علم کو مذہب مخالف علم مت سمجھیے، اس میں آپ کا فائدہ ہی ہے۔ فائدہ نہیں ہے تو آج کے بعد مغربی تعلیم سے آراستہ کسی بھی ڈاکٹر سے علاج کرانے سے انکار کر دیجیے۔ اگر اس زمینی دنیا سے آپ کا کوئی لینا دینا نہیں تو ایک مُصلّیٰ سنبھال کر آخرت کی فکر کیجیے اور توقع رکھیے کہ دنیا کے دیگر ملک فقط آپ کی پر خلوص دعاؤں کے طفیل آپ کی تذلیل کرنے کے قابل نہیں رہ سکیں گے۔

اگر ہلاکو خان کے حملے کے وقت بغداد کے علماء کی دعائیں قبول ہو گئی تھیں تو آپ کی بھی ہو جائیں گی۔

About سیّد کاشف رضا 26 Articles
سید کاشف رضا شاعر، ادیب، ناول نگار اور مترجم ہیں۔ ان کی شاعری کے دو مجموعے ’محبت کا محلِ وقوع‘، اور ’ممنوع موسموں کی کتاب‘ کے نام سے اشاعتی ادارے ’شہر زاد‘ کے زیرِ اہتمام شائع ہو چکے ہیں۔ نوم چومسکی کے تراجم پر مشتمل ان کی دو کتابیں ’دہشت گردی کی ثقافت‘، اور ’گیارہ ستمبر‘ کے نام سے شائع ہو چکی ہیں۔ اس کے علاوہ وہ بلوچستان پر محمد حنیف کی انگریزی کتاب کے اردو ترجمے میں بھی شریک رہے ہیں جو ’غائبستان میں بلوچ‘ کے نام سے شائع ہوا۔ سید کاشف رضا نے شاعری کے علاوہ سفری نان فکشن، مضامین اور کالم بھی تحریر کیے ہیں۔ ان کے سفری نان فکشن کا مجموعہ ’دیدم استنبول ‘ کے نام سے زیرِ ترتیب ہے۔ وہ بورخیس کی کہانیوں اور میلان کنڈیرا کے ناول ’دی جوک‘ کے ترجمے پر بھی کام کر رہے ہیں۔ ان کا ناول 'چار درویش اور ایک کچھوا' کئی قاریانہ اور ناقدانہ سطحوں پر تحسین سمیٹ رہا ہے۔ اس کے علاوہ محمد حنیف کے ناول کا اردو ترجمہ، 'پھٹتے آموں کا ایک کیس' بھی شائع ہو چکا ہے۔