سوشل میڈیا ۔۔۔ایشوز۔۔۔ نان ایشوز

لکھاری کی تصویر
ارشد معراج

سوشل میڈیا ۔۔۔ایشوز۔۔۔ نان ایشوز

از، ارشد معراج

سوشل میڈیا کی ایجاد حیرت انگیز ہے۔ یہ مہذب قوموں کے لیے بنا ہے۔ جہاں ہر فرد کو آزادی رائے اور اظہار کا حق حاصل ہے تاکہ مختلف النوع آراء سے زیادہ سے زیادہ لوگ آگاہ ہوسکیں اور خاص و عام کو ہر موضوع پر رائے دینے کا حق حاصل ہو، اس طرح معاشرہ مختلف آرا سے آگاہ ہوتا ہے اور سوچ وفکر کے انداز سے استفادہ کرتا ہے۔ دوسروں کی رائے کا احترام کرتا ہے مدلل اختلاف بھی جنم لیتا ہے لیکن یہ اختلاف مکالمے کی سطح تک محدود رہتا ہے۔ اس طرح کی اقوام وسیع المشرب، اعتدال پسند، تعقل پسند اور اخلاقیات سے آراستہ ہوتی ہیں۔ متمدن معاشروں کا یہی چلن ہے۔
پاکستان میں سوشل میڈیا کا کردار پوری دنیا سے یکسر مختلف ہے۔ بائیس کروڑ کی آبادی میں محتاط اندازے کے مطابق چوالیس کروڑ سے زائد فیس بک اکاؤنٹ ہیں۔ جن میں فیک اکاؤنٹ کی بھرمار ہے۔ چلیے یہ تو ایک الگ معاملہ سہی ۔ میں اصل موقف کی طرف آتا ہوں۔ سوشل میڈیا بااثر میڈیا ہے۔ جہاں ہر کس و ناکس کی رسائی ہے۔ کوئی بھی اکاؤنٹ ہولڈر اپنی وال پر کسی معاملہ میں اپنی رائے کا اظہار کرتا ہے اور اپنے دوستوں کو اس پر اظہار خیال کی دعوت دیتا ہے لیکن یہاں صورت احوال بہت گھمبیر ہے۔ کچھ لوگ اس رائے کو سراہتے ہیں تو کچھ اختلاف کرتے ہوئے اس قدر جذباتی انداز اختیار کرتے ہیں کہ پوسٹ لگانے والے کو اپنی پگڑی سنبھالنا مشکل ہو جاتی ہے۔ ہمارا انداز استدلالی نہیں جذباتی ہوتا ہے اور اظہار کرتے ہوئے کف اُگلنے لگتے ہیں یہاں تک کے گالی گلوچ اور ذاتیات پر کچڑا اچھالنے لگتے ہیں۔ یہ میڈیا کچھ سیاسی ومذہبی پارٹیاں، نسلی و لسانی گروہ بھی بھرپور انداز میں استعمال کر رہے ہیں۔اس ضمن میں کچھ ایسے واقعات بھی دیکھنے میں آئے ہیں کہ لوگوں کو اپنی جان کے لالے پڑ گئے ہیں۔ یہ بالکل ایساہی ہے۔ جیسے بندر کے ہاتھ میں ماچس آ جائے کیونکہ یہ ذریعہ ابلاغ کسی ایڈیٹر کسی خاص گروہ یا قومیت نسل رنگ زبان سے آزاد ہے اس لیے اس کے اخلاقی تقاضے بھی بالکل مختلف ہیں۔ لیکن اخلاقیات کا معیار قوموں سے وابستہ ہوتا ہے جبکہ پاکستان معاشرہ قوم نہیں ایک ہجوم ہے ایسا ہجوم جس میں ہر شخص خود کو راست باز، سچا، عقل کُل، باشعور اور اپنی رائے کو حتمی تصور کرتا ہے جبکہ سامنے والے کو چھوٹا، مکار، بدنیت ، ایجنٹ کسی کا آلہ کار کر دانتا ہے۔
بات انسانی بنیادی حقوق کی ہو یا تاثنیت کی سیاسی ہو یا ادبی علمی ہو یا مذہبی، معاشی ہو یا اخلاقی سمجھا یہ جاتا ہے کہ بات کرنے والا خلوص نیت ہماری اصلاح و فلاح کی بجائے مخصوص مقاصد کے حصول کے لیے ایسا کر رہا ہے گو کہ وہ گروہ ایسا ہیں جس کے عزائم خطرناک ہیں اسلیے ہر خاص و عام اپنا فرض عین تصور کرتا ہے کہ اس کا سدباب کیا جائے۔
ہم ایک ابتذال زدہ، زوال آمادہ معاشرے میں زندہ ہیں جہاں نچلے طبقات کے استحصال کی بات کی جائے تو یہی طبقات انہین جوتے مارتے ہیں۔ اگر کوئی یہ بتائے کہ آپ کہ ایشوز، غربت، بڑھتی ہوئی مہنگائی، بے روزگاری ، پینے کے صاف پانی کی عدم دستیابی، طبی سہولتوں کا فقدان ، تعلیم کے شعبہ میں ناکامی ، ملاوٹ، گیس اور بجلی کا بحران، دہشت گردی، بنیادی انسانی حقوق کی عدم دستیابی، بڑھتے ہوئے ٹیکس، عدم تحفظ، ناانصافی، انتظامیہ عدلیہ مقننہ کی ناکامی ملکی سلامیت کے نام پر بحث کا بڑا حصہ دفاعی اخراجات پر صرف کرنا ، رشوت ، سفارش ، انہیں ایشوز نہیں سمجھے گا حد یہ کہ آپ انہیں یقین دلائیں کہ آف شور کمپنیوں کے ذریعے آپ کا پیسا دیگر ممالک میں ذاتی سرمایہ کاری کے لیے بھیجا جاچکا ہے۔ تو پھر بھی شیر آیا شیر آیا۔ بلا آیا بلا آیا۔ جیوے بھٹو، جیوے بھٹو کے نعرے لگاتے ہوئے بے خبر لوگ آپ کا منہ چڑایں گے۔ موٹر سائیکلوں کے سائلسز سے بانسری نکال کر شور کی آلودگی میں اضافہ کرتے آپ کے کانوں کے پردے بھاڑتے اسلحہ کی نمائش کرتے ہوئے نظر آئیں گے۔ لیکن ملاحظہ ہو کہ نان ایشوز مثلاً قندیل بلوچ کا قتل (غیر ت کے نام پر قتل معمول کی بات ہے) ایدھی کے انٹرویوز پر طویل مباحث کرتے ہوئے تھکیں گے نہیں یہ سمجھے بنا کہ ایدھی کا مقصد حیات کیا تھا اس نے اس مردہ بے ضمیر ہجوم میں کیا کارہائے نمایاں سرانجام دیئے ہیں۔ ایک نان ایشوزجو مذہبی جذباتیت کے حوالے سے ہے اس پر بات کرتے ہوئے میرے بھی پرجل رہے ہیں ہوسکتا ہے کہ میں یہ سطریں لکھوں اور کل شام گھر سے نکلوں اور گلی کی نکڑ پر دو موٹر سائیکل سوار مجھے گولی مار دیں میری بیوی بیوہ اور میرا بیٹا یتیم ہو جائے اور ان کا واحد کفیل ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے اور اخبار کے کسی کونے میں صرف یہ خبر چھپی ہو دو نامعلوم موٹر سائیکل سواروں نے ایک راہ گیر کو گولی مار کر قتل کر دیا۔ نہ کہیں کوئی ایف آئی آر درج ہوگی نہ مجرم کی شناخت۔ لیکن ایسے نان ایشوز سے سوشل میڈیا بھرا ہوا ہے اور ایشوز نہ تو کوئی سیاسی پارٹی، گروہ، اجتماعی حتیٰ کہ این جو آز اپنے منشور کا حصہ بناتی ہیں نہ ہی یہ ہجوم اس پر ذاتی و اجتماعی ردعمل کا اظہار کرتا ہے۔
یہ اخلاقیاتی زوال کا سب سے بڑا المیہ ہے لیکن زوال ابھی مکمل نہیں ہوا۔ زوال مکمل ہونے بھی نہیں دیا جائے گا کیونکہ نان ایشوز کی بھرمار ایشوز کا گلہ گھونٹ دیتی ہے۔ زوال کی تکمیل شاید کوئی سبق سکھانے میں کامیاب ہو جائے۔
یہی اسباب ہیں کہ بہت سے مجھ ایسے ایشوز پر بات کرنے سے کتراتے ہیں مبادا کہیں سٹرک کنارے لاش پڑی ہو یا کوئی گاڑی اُٹھائے اور بندہ غائب پھر اس عالم میں ملے کہ نہ ہوش ہوں نہ حواس اور زبان پر ایسا تالا جو صدیوں تک کھلنے پر آمادہ نہ ہو۔
ایسے عالم میں کیا اصلاح کیا فلاح کیا دانش وری کیا ادب و علم کیا فلسفہ وفکر کیا ادب و فنون کا فروغ جو مہذب قوم کا نرم گوشہ اقوام عالم کے سامنے پیش کیا جاسکے۔ ذرا سی مختلف رائے رکھنے والے ملک بدر ہو جاتے ہیں اور لٹھ برداردندناتے پھرتے ہیں۔ اس ملک کا تمام اعلیٰ اذہان پردیس سدھار گئے ہیں اس ہجوم کی نفسیات کا بخوبی اندازہ آپ سڑک پر رواں دواں ٹریفک سے لگا سکتے ہیں۔ ہارن بجانا گالی سمجھا جاتا ہے۔ یہ ہارن پر ہارن بجاتے ہیں گالیاں بکتے ہیں حتیٰ کہ ہاتھا پائی تک نوبت آ جاتی ہے۔ ہر کوئی جلدی میں ہے دوسرے کو پچھاڑنے نیچا دکھانے کی کوشش میں سرگرم عمل ہے۔ پھر بھی یہ ہجوم فخرکرتا ہے کہ ہم دنیا کی مہذب قوم ہیں ۔ مجھے یوں لگتا ہے جیسے سوشل میڈیا انارکسٹوں کے ہاتھوں میں کھلونا بنا ہوا ہے۔

1 Comment

Comments are closed.