تحریر کی آزادی کی مختصر تاریخ

Rahman Abbas aik Rozan writer
Rahman Abbas

تحریر کی آزادی کی مختصر تاریخ

(رحمن عباس) ممبئی، بھارت

یہ غلامی ہے اگر کسی کو اپنے خیالات پیش کرنے کا موقعہ نہ دیا جائے۔ (یوری پیڈس، د فونیشین ومن) انسانی زندگی کی تاریخ ، انسانی ذہن کی ساخت اوراذہان کے ارتقا پر تحقیق کرنے والے سائنسدانوں کے مطابق انسان کا سب سے بڑا وصف زبان کے استعمال کی صلاحیت ہے۔ زبان کی تشکیل تاریخ کے کس مرحلے میں ہوئی اس کا تشفی بخش جواب موجود نہیں ہے البتہ سائنس دانوں کے مطابق ۹ سے ۱۰ ملین برس قبل انسان خیالات کی ترسیل یا اظہار کے قابل ہو گیا تھا۔ پہلی تحریر ی زبان تین ہزار تا چار ہزار سال قبل مسیح وجود میں آئی جس کی نشانیاں مصر اور عراق میں دریافت ہوئی ہیں۔ یہ علامتی اظہاریہ نشانات تھے جن کے مدد سے خیال کو مرتسم کیا جاتا تھا۔

یہ بات بھی محض اتفاق نہیں ہے کہ تحریری زبانوں کی تاسیس کو انسانی تہذیب کی ابتدا سے منسوب کیا جا تاہے۔ زبان دراصل انسانی تہذیب و ثقافت کی ترسیل اور ترویج کا ایک اہم وسیلہ ہے۔ غالباً اسی لیے ساری سیاست زبان کے اردگرد گھومتی نظر آتی ہے۔ ہر تہذیب اپنے افکار، ثقافتی برتری اور نظریات کے فروغ کے لیے علاقائی اور مقامی بولیوں اور زبانوں پر فوقیت حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہے ۔ اردو کا دامن بھی اب اس داغ سے پاک رہا ۔اردو میں یہ رجحان گذشتہ چند دہائیوں سے دکھائی دے رہا ہے۔ اردو بطورِ زبان اپنی بقا اور ترویج کے لیے مذہب اور ایک مخصوص ثقافت کو کیموفلاج کے طور پر استعمال کرنے پر مجبور کی گئی ہے یا ہو رہی ہے۔ لیکن چونکہ اردو کی ادبی اور ثقافتی روایت کی اساس ،مذہبی ہم آہنگی ، رواداری اور آزاد خیالی پر مبنی ہے اس لیے اردو کے ادبا و شعرا نے اس رجحان کی تائید نہیں کی۔ وہ اردو کو ایک مخصوص مذہب کے ہتھیار کے طور پر استعمال کئے جانے کی مخالفت کرتے نظر آتے ہیں۔

زبان کو تحریر ی صورت عطا کرنے کے پس پردہ انسان کا مقصد اپنے خیالات کا مبسوط اظہار اور مکمل ترسیل تھی اور اسی کے ساتھ خیالات کو کنٹرول کرنے کی خواہش نے بھی جنم لیا۔ عظیم یونانی شاعر ہومر Homer (۷ یا ۸ صدی قبل مسیح) نے اظہارِ خیال کی آزادی کی وکالت، جبکہ صولن Solon (۶۳۰ تا ۵۶۰ قبل مسیح) جو اتھینز Athens کا پہلا عظیم قانوں داں تھا اس نے’زندہ اور مرے ہوئے خداؤں‘ کی برائی پر پابندی کی حمایت کی تھی۔ آگے چل کر ساری دنیا کو اس بات کا گواہ بننا تھا کہ ایتھینز کی اسمبلی نے عظیم فلسفی سقراط کو زہر کا پیلا نوش کرنے کا حکم صادر کیا۔ سقراط پر یہ الزام لگایا گیا تھا کہ اس نے غیر منظور شدہ خداؤں پر تقریر کی تھی اورنوجوانوں کے اخلاق کو کرپٹ کررہا ہے۔

سقراط پر الزام تھا کہ وہ نوجوانوں کو اس بات پر بھی اکسا رہا ہے کہ وہ اقتدار کی کارگزاری پر سوالات اٹھائیں۔ (سقراط نے تحریر اور اظہار رائے کی آزادی کے لیے جان قربان کردی، اور اس کی یہ قربانی رائیگاں بھی نہیں گئی۔ سقراط کی موت مغرب کی ادبی اور فلسفیانہ تاریخ میں اظہارِ رائے کی آزادی کے ڈسکورس کو اساس فراہم کرتی ہے۔)

سترہویں اور اٹھارہوں صدی تک مطلق العنان بادشاہوں نے کسی نہ کسی طرح سینسر شپ جاری رکھی۔ عام لوگوں کو اس بات کی اجازت نہیں تھی کہ وہ مروجہ افکار اور اقتدار کی سفاکی کے خلاف اپنے خیالات کا برملا اظہار کریں۔ خیالات کو کنٹرول کرنے اور سینسر شپ کا سبب صرف یہ تھا کہ اقتدار یہ نہیں چاہتا تھا کہ اس کی پالیسی اورفیصلوں پر سوالات اٹھائے جائیں۔ یہ بات اپنی جگہ درست کہ پندرہویں صدی کی چوتھی دہائی میں جب جوہانس گوٹنبرگ Johannes Gutenberg نے پرنٹنگ پریس کو متعارف کیا اور زیادہ تعداد میں کتابوں کی اشاعت ممکن ہوئی تب اقتدار کو یہ فکرلاحق ہوگئی تھی کہ وہ تحریر کی آزادی یا اظہار رائے کی آزادی کو کس طرح کنٹرول کرے۔

یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ چرچ (جو مذہبی اقتدار کی علامت ہے) سینسر شپ کے سب سے بڑے وکیل کے طور پر سامنے آیا۔ ۱۵۵۹ میں کیتھولک چرچ نے ایک طویل فہرست ایسی کتابوں کی شائع کی جن کو بدعت یا مذہب مخالف کہہ کر ممنوعہ قرار دیا گیا۔ اس فہرست میں نیکولس کوپرنیکس Nicolus Copernicus کی کتا ب On the Revolutions of the Celestial Spheres (1543) بھی شامل ہے جس میں کوپرنیکس نے کائنات کا heliocentric model پیش کیا ہے جو چرچ کے تصور کائنات اور کائنات میں زمین کی مرکزی حیثیت کو رد کرتا ہے۔ دوسری طرف عظیم سائنسداں Galileo Galilee  کو چرچ نے عمر قید کی سزا سنائی کیونکہ اس نے کوپر نیکس کی تھیوری theories of planetary motion around the sunکو قبول کرتے ہوئے اس کا دفاع کیا تھا۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ چرچ نے اپنی اجاراداری قائم کرنے کے لیے یہ شرط رکھی تھی کہ کوپرنیکس، پوپ کے پیروں پر سر جھکائے اور اپنے نظریات کو باطل قرار دے۔ ۸ جنوری ۱۶۴۲ء میں ۷۷ سال کی عمر میں گیلیو کا انتقال ہوا۔

تسکانی Tuscany) ( کے ڈیوک Duke ، نواب فر نانڈو دوم نے اس کے جسدِ خاکی کو اپنے خاندانی قبرستان میں دفنانا چاہا لیکن پوپ آربن ہشتم Urban VIII اور اس کے رشتے دار کارڈینل فرانسیسکوباربرنی Cardinal Francisco Bernini نے اس کی مخالفت کی۔ ان کا اصرار تھا کہ کیتھولک چرچ گیلیو کی مذمت کر چکا ہے۔ چرچ بطور مذہبی اسٹیبلشمنٹ جس طرح مغرب میں تحریر کی آزادی کے خلاف سرگرم تھا اب ایسا لگتا ہے برصغیر امیں بہت سارے چھوٹے بڑے خود ساختہ دارلعلوم العملیات چرچ میں بدل گئے ہیں۔ گیلیو کا چرچ کے اقتدار کے خلاف سائنسی افکار کی حمایت میں ثابت قدم کھڑا رہنا مغربی علمی مباحث اور تحریر کی آزادی کو متاثر کرنے والا دوسرا بڑا واقعہ تھا۔

انگلینڈ میں Elizabeth I نے “Master of the Revels, کو فرمان جاری کیا تھا کہ شیکسپیئر کے ڈرامے Richard II کو سینسر کیا جائے۔ اسی دوران برطانیہ میں کورٹ آف اسٹار چیمبرز سیاسی مخالفین کو خاموش کرنے اور اشاعتی اداروں کے لائسنس کو کنٹرول کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ اقتدار اور اظہارِ رائے کی یہ سرد جنگ جاری تھی کہ عظیم شاعر جان ملٹن نے اظہار رائے کی حمایت میں ایک مضمون ۲۳ نومبر ۱۶۴۴ء کو Areopagitica (1644) کے عنوان سے لکھا۔ جان ملٹن کا یہ بیان سلگتی آ گ کی طرح پھیل گیا کہ :

“truth is most likely to emerge in a free and open encounter.”

آزادنہ ماحول میں سچ کے اظہار کے امکانات نسبتاً زیادہ ہوتے ہیں۔

اس مضمون کو دنیا کی تاریخ میں تحریر کی آزادی کی حمایت میں ایک بے حد متاثر کن اور فلسفیانہ دفاع قرار دیا جاتا ہے۔ ملٹن لائسینس آرڈر ۱۶۴۳ Licensing Order of 1643 کے سخت مخالفین میں سے تھا جس کی رو سے ادیبوں پر یہ لازم تھا کہ وہ اپنی کتابوں کی اشاعت سے قبل حکومت سے متن کومنظور کروالیں ۔ برطانیہ میں لائسنس ایکٹ کو 1688 کے انقلاب جسے (Glorious Revolution)کہا جاتا ہے کے بعد ردکیا گیا۔ اس انقلاب کے بعد Mary II اور William III کو اقتدار ملا تھا اوران کے اقتدارمیں آنے کے ساتھ یہ شرط بھی عائد تھی کہ وہ Bill of Rights. کو منظور کر لیں۔ ان کوششوں کے باوجود مطلق العنان بادشاہوں نے کسی طرح سینسر شپ کو قائم رکھنے کی کوشش کی البتہ تحریر کی آزادی کے لیے جاری کاوشوں سے اسی دوران آزاد میڈیا کی روایت کی ابتدا بھی ہوئی۔ ملٹن کا مضمون Areopagitica, لندن، امریکہ اور برٹش راج میں تحریر کی آزادی کے لیے ایک کارگر ہتھیار بن گیا۔ ۱۷۶۶ میں سوئیڈن نے سب سے پہلے سینسر شپ کو کالعدم قرار دیا ۔

ڈنمارک اور ناروے نے ۱۷۷۰ میں اس کی حمایت کرتے ہوئے اپنے یہاں بھی اس کا اطلاق کیا۔ امریکہ کے انقلاب کے بعد ۱۷۹۱ میں کانگریس نے دستور کی پہلی ترمیم کی منظوری دی جس نے اظہارِ رائے کی آزادی کا خیر مقدم کیا۔ والٹیر ( 1694 150 1778) فرانسیسی ادیب، تاریخ داں اور فلسفی چرچ کے اقتدار کی مخالفت اور تحریر وتقریر کی آزادی کی ایک توانا آواز کے طور دنیا میں مشہور ہے۔ والٹیرنے اپنے عہد کے غیر جمہوری آئین کا مقابلہ کیا اور مختلف آزادیوں کی حمایت میں قریباً بیس ہزار خطوط اور دو ہزار کتابیں مع پمفلٹ تحریر کیے ہیں۔

انیسویں صدی کے اختتام تک تحریر کی آزادی پر بحث جاری تھی لیکن کوئی حتمی رائے قائم نہیں ہوئی تھی۔ اسی دوران یورپ اور روس میں دوبارہ مطلق العنان اور کیمونسٹ حکومتوں کا قیام ہوا جس نے میڈیا کو مکمل طور پر اپنے کنڑول میں لے لیا۔ کمیونسٹ حکومتوں نے میڈیا، خیالات اور ضمیرِانسان کو ریاست کے تصور کی تبلیغ کے ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کی۔ Vladimir Lenin  کا یہ جملہ سبھی کو یاد ہوگا کہ “A lie told often enough becomes the truth.” ۔ اسٹالین نے Glavlit کی بنیاد رکھی جس کے تحت ریاست نے ایک انتظامی کمیٹی تشکیل دی جس کا مقصد سینسرشپ کواستعمال کرنا اور اقتدار کے مفاد سے ٹکرانے والے افکار کو کنٹرول کرنا تھا۔

اسی اثنا اسٹالین نے Writers Union (1932) کی بنیاد رکھی جو واحد قانونی یونین ادیبوں کی قرار دی گئی۔جن ادبا،فنکاروں اور صحافیوں نے اس پابندی کی مخالفت کی ان کو جیل کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں اور کئی ایک کو قتل بھی کیا گیا۔ جرمنی میں اقتدار میں آنے کی بعد ہٹلر نے Joseph Goebbels (18971501945) کو شعبۂ تبلیغ کا سربراہ مقرر کیا جس نے میڈیا میں یہودیوں کے خلاف جذبات مشتعل کئے۔ گویبل نے بڑے پیمانے پر کتابوں کو جلانے کی مہم میں بھی حصہ لیا تھا۔ اس واقعے کے بعد جرمن شاعر Heinrich Heine (1797-1856) کا یہ جملہ
Where they burn books, at the end they also burn people.”

دوبارہ جرمن معاشرے میں ڈسکورس کا حصہ بنا جو اس نے اپنی کتاب Almansoor: A Tragedy (1823) میں تحریر کیا تھا۔ آج ہم اس بیان کی بازگشت پاکستان اور چند دیگر ریاستوں میں دیکھ رہے ہیں جہاں عرب بادشاہت قائم ہے۔جہاں ان بادشاہوں کو مذہبی سربراہوں کی صورت مذہب کی پشت پناہی حاصل ہے جس طرح کسی زمانے میں مغرب میں مطالق العنان بادشاہت کو چرچ کی حمایت حاصل تھی۔
بیسویں صدی میں تحریر کی آزادی اور اقتدار کے مظالم کے خلاف جن لوگوں نے بلند حوصلے سے کام لیا ان میں کیوبا کے ادیب Reinaldo Arenas (19431509) چیک ادیب Vaclav Havel (1936)150، روسی ادیب Alexander Solzhenitsyn (1918150) اور دیگر ادیبوں کے نام تاریخ میں درج ہیں۔اقوام متحدہ کی تشکیل کے بعد اظہارِ رائے کی آزادی کے لیے Universal Declaration of Human Rights (1948) کا اجرا ہوا جس کے آرٹیکل ۱۹ نے اظہارِ رائے کی آزادی کو بنیادی انسانی حق کے طور پر تسلیم کیا۔ آرٹیکل ۱۹ میں یہ بات کہی گئی کہ

“Everyone has the right to freedom of opinion and expression; this right includes freedom to hold opinions without interference and to seek, receive and impart information and ideas through any media and regardless of frontiers.”

لیکن روسی حکمرانوں کی دخل اندازی سے آرٹیکل ۱۹ کو یا یوں کہہ لیجئے تحریر کی آزادی کو پبلک آرڈر سے مربوط کرنے کی کوشش ہوئی۔اسی پس منظر میں “The New International Information Order” کو دیکھا جا سکتا ہے جس کو یو این، یونیسکو ، سویت یونین اور کئی ترقی پذیر ممالک نے پیش کیا جس کی رو سے میڈیا کی آزادی کو ان ممالک کی غیر صحت مند کوریج سے روکنا مقصود تھا۔ لیکن مذکورہ آرڈر اس لیے پاس نہیں ہوا کہ بیشتر مغربی ممالک نے اقوام متحدہ کو خیر باد کہنے کی دھمکی دے دی۔ حالانکہ ۱۹۸۰ کے آس پاس سوویت یونین منتشر ہوگیا لیکن اس کے باوجود اقوام متحدہ آج بھی کسی ایسے نظام کی تشکیل کرنے میں مکمل طور پر کامیاب نہیں ہوا ہے جس میں اظہار رائے کی آزادی کو حتمی شکل دی گئی ہو۔

دوسری طرف ترقی پذیر اور ترقی یافتہ ممالک کی آویزش اور مغرب کی دنیا کے کمزور ممالک پرغیر قانونی اور غیر انسانی یلغار نے اس بحث کو مزید نقصان پہنچایا ہے۔ ہماری دنیا میں آج بھی تقریباً ۶۳ ممالک ایسے ہیں جہاں ڈکٹیٹر شپ ، بادشاہت یا کمزور جمہوریتیں قائم ہیں اور ان ممالک کے افراد اظہارِ خیال کی آزادی سے محروم ہیں۔ دوسری طرف intellectual propertyکو تباہ کرنے کی کوشش ہو رہی  ہے جس کی مثال سربین فوجیوں کے ہاتھوں بوسینا کی لائبریری کی تباہ کاری ہے یہی کام روسی فوجیوں نے چیچنیا میں کیا تھا ۔اس مذموم حرکت کا مقصد اجتماعی یادداشتوں کو مٹانا ہوتا ہے۔ یہ جرم ہندستان میں انگریزوں نے مسلمانوں کی تحریر کردہ کتابوں کے ساتھ بھی کیا ہے۔

عہد حاضر میں عریانیت، نفرت انگیز تقاریر، سیاسی مخالفت جیسے موضوعات زیر بحث ہیں اور اس پر مکالمہ جاری ہے کہ ان کی کتنی آزادی ممکن ہے اور اس آزادی کا ناجائز استعمال کرنے والوں کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی کیا صورت ہو سکتی ہے۔ ان باتوں پر مکالمہ لازمی ہے لیکن آج تحریر کی آزادی یا اظہار رائے کی آزادی کو خطرہ ان قوتوں اور ممالک سے ہے جو اظہارِ رائے کو دبانے کے لیے قوت کا سہارا لیتے ہیں اور خیال کی مخالفت کے لئے قانون کے بجائے تشدد پر یقین رکھتے ہیں۔ اظہارِ رائے کی آزادی کا یہ مطلب نہیں ہے کہ یہ ہم دیگرافراد کے مذہبی عقائد کو باطل قرار دیں اور ان کا مذاق اڑائیں۔

ایسی حرکت کا نتیجہ عوام کو مشتعل کرتا ہے اور پبلک آرڈر کو متاثر کر سکتا ہے۔ تحریر کی آزادی حقائق کو پیش کرنے اور اقتدار کی غیر سفاکانہ کارروائیوں کو طشت از بام کرنے سے عبارت ہے۔ کچھ لوگوں نے اپنے مفادات کے لئے اس کا استعمال دیگر مذاہب کے اکابرین اور مقدس ہستیوں کو نشانہ بنا کر کیا ہے جس کی مذمت ضروری ہے۔ (مسلمانوں کے ایک گروہ کے مطابق سلمان رشدی نے اپنے ایک ناول میں ان کی مقدس ہستیوں کی بے حرمتی کی ہے وہیں کچھ ہندؤں کے مطابق ذاکر نائیک نے ہندو دیوی دیوتاؤں کو باطل قرار دے کران کی دل آزاری کی ہے۔ ہندو معتقدین نے درست راستہ اپنایا اور ذاکر نائیک کے خلاف مقدمہ درج کیا۔ چنانچہ ان دنوں ذاکر نائیک کہیں نظر نہیں آتے جبکہ مسلم لیڈران نے رشیدی کی مذکورہ حرکت کو بھی ووٹ بینک میں بدل دیا ہے۔ سلمان رشدی کے خلاف کورٹ سے رجوع کرنے کے بجائے مسلمانوں کو غیر ضروری طور پر احتجاج پر اکسایا جاتا ہے۔

انگریزی کے مشہور ناول نگار جارج آرویل نے اپنے مضمون liberty میں لکھا ہے کہ’اگر آزادی کے کوئی معنی ہیں تو وہ ان باتوں کو کہنے کا حق ہے جسے لو گ سننا نہیں چاہتے۔‘ جہاں تک گزشتہ سو برسوں کی ہماری ادبی تاریخ کا تعلق ہے، آزادی سے پہلے انگریز حکومت تحریر کی آزادی کو کنٹرول کرنے میں مستعد تھی ۔اٹھارہ سو ستاون کی پہلی جنگ آزادی کے بعد اس میں شدت پیدا ہوگئی تھی۔ دوسری طرف سرسید کے اصلاحی نظریات اور اقبال کے خدا سے دوٹوک بات کرنے کے انداز سے کچھ مولوی یا مولوی ٹائپ لوگوں نے ان پر ’کافر‘ ہونے کا فتوی لگایا تھا۔ یگانہ چنگیزی کے ساتھ جو کچھ ہوا اسے آج کے عہد میں مذہبی شدت پسندی بھی کہا جاسکتا ہے۔ برٹش راج میں پریم چند کے افسانوی مجموعے ’سوزِ وطن ‘ کی کاپیاں ضبط کی گئی تھیں۔ ’انگارے ‘کی اشاعت پر طوفان کھڑا ہوا تھا۔ دوسری طرف عصمت چغتائی کی کہانی ’لحاف‘ اور سعاد ت حسن منٹو کے متعدد افسانوں پر مقدمات چلے۔

کچھ اور واقعات بھی ہو سکتے ہیں لیکن اہم بات یہ ہے کہ ان مقدمات کا تعلق عموماً فحاشی کے الزام سے رہا ہے یہ مفکرانہ خیالات اور اقتدار کی سفاکی کو expose کرنے کے سبب ہونے والے بھیانک حکومتی اقدام سے عبارت نہیں ہیں ۔ ادب میں فحاشی کا موضوع بہت subjective نوعیت کا حامل ہے۔ ایک بات کسی کے لیے فحش، کسی کے لیے آرٹ ہوسکتی ہے۔ دہلی ہائی کورٹ نے ایم ایف حسین کی مصوری پر لگائے جانے والے فحاشی کے الزامات پر اپنے تاریخی فیصلے کی ابتدا عظیم مصور پابلو پکاسو کے اس جملے سے کی ہے:

“Art is never chaste. It ought to be forbidden to ignorant innocents, never allowed into contact with those not sufficiently prepared. Yes, art is dangerous. Where it is chaste, it is not art.”

(’’آرٹ کبھی پاکیزہ شئے نہیں ہوتی۔ اس لیے لازم ہے کہ معصوم جاہلوں پر یہ ممنوع ہو۔آرٹ کے قریب ان لوگوں کا جانے نہ دیا جائے جو اس کے لے پوری طرح تیار نہ ہوں۔ ہاں، آرٹ خطرناک ہے، اور جہاں آرٹ پاکیزہ ہو، وہاں وہ آرٹ نہیں ۔‘‘) اردو میں تحریر کی آزادی کے دفاع میں منٹو کے مضامین اور منٹو کی تحریروں کے دفاع میں لکھے گئے مضامین بہت اہم ہیں جن میں ہاجرہ مسرور،ممتاز شریں ،محمد حسن عسکری اور دیگر ادیبوں کے مضامین شامل ہیں۔ اردو میں اس موضوع پر جو اہم مضامین لکھے گئے ہیں، جتنے ادیبوں ، شاعروں پر فحاشی کے الزامات لگے ہیں اور جن بد نصیبوں پر مقدمات ہوئے ہیں ان کی تفصیل پر ایک جامع کتاب ’روشنی کم ، تپش زیادہ‘ کے عنوان سے سنیئرپاکستانی صحافی اور کراچی پریس کلب کے سابق صدر علی اقبال نے ۲۰۱۱ میں مرتب کی ہے۔

اردو میں فحاشی کی بحث کی اٹھان بیسویں صدی کی چوتھی دہائی سے عام طور پر نظر آتی ہے ورنہ اس سے قبل اردو کی ادبی تاریخ میں طلسم ہوش ربا کا ایک بہشتی دفتر ہے جو بیان کی بے شمار حدوں سے تجاوز کرتاہے۔ اور خیال کی آزادی کے ساتھ ساتھ انسانی تصور کی رفعت کو محفوظ کرتا ہے۔ اردو کی ادبی تاریخ کے سب سے متاثر کن نقادوں میں محمد حسن عسکری کا شمار ہوتا ہے اور ان کا یہ بیان فحاشی کی بحث میں تاریخی حیثیت کا حامل ہے کہ ’’سفید رومال سے چہرہ صاف کر کے کہا جاتا ہے کہ جنس کے ذکر میں لذت کا اظہار نہ ہوناچاہئے اور نہ تر غیب کا عنصر۔ مگر مجھے اس سے اختلاف ہے کیونکہ حقائق کو بھی اس سے اختلاف ہے۔ آخر لذت سے اتنی گھبراہٹ کیوں؟ جب ہم کسی پیٹر کو ،کسی کردارکے چہرے کو، اس کے کپڑوں کو، کسی سیاسی جلسے کو، مزے لے لے کر بیان کر سکتے ہیں اور تنقید اسے ایک اچھی صفت سمجھ سکتی ہے تو پھر عورت کے جسم کو یا کسی جنسی فعل کو لذت کے ساتھ بیان کرنے میں کیا بنیادی نقص ہے۔

دراصل اس اعتراض کی بنیاد وہ روایتی احساس ہے جو جسم کے بعض حصوں اور بعض جسمانی افعال سے جھجکتا ہے اور انھیں فی نفسہ گندہ اور پلید سمجھتا ہے۔ اور ان کے وجود کو، ابدی لعنت کا داغ۔‘‘(ادب و فن میں فحش کا مسئلہ) محمد حسن عسکری کا مذکورہ مضمون فحاشیت کی بحث کو آرٹ اور صنمیات کے پس منظر میں انسانی افکار سے مربوط کرتا ہے۔ اس ر شتے کو سمجھنے میں مد د گار ہے۔

ادب کے طلبہ اور ادیبوں کو اس مضمون کی روشنی میںآرٹ ، جنس اور انسانی افکار کی تاریخی حقیقت کو آگے بڑھا نا چاہئے کیونکہ یہاں چند برسوں سے اردو معاشرے میں تحریر کی آزادی کو کنٹرول کرنے کا رجحان سامنے آرہا ہے۔ جس کی ایک تازہ مثال سلام بن رزاق کے افسانے ’زندگی بھی افسانہ ہے‘ پر ریاست مہاراشٹر کے شہر سولاپور میں ہونے والا احتجاج نما احتجاج اور سلام بن رزاق کو نامعلوم مقامات سے معلوم اور نا معلوم افراد کے کئے گئے فون کولز ہیں۔ ساجد رشید کے سیاسی خیالات سے اختلاف کرنے والے لوگوں نے ان پر جان لیوا حملہ کروایا تھا۔ شمس الرحمن فاروقی کے ناول پر اعتراض کرتے ہوئے اسلم غازی نے خدائی فوج دار بنتے ہوئے شمس الرحمن فاروقی کو جنت سے محروم ہونے کی بشارت دینے کی کوشش کی تھی۔

مشرف عالم ذوقی کے ادبی و سیاسی موضوعات پر لکھے گئے مضامین کو جواز بنا کر ہنگامہ بپا کیا گیا تھا۔ منٹو صدی کے موقع پر کچھ لوگ سوشیل میڈیا میں منٹو اورعصمت چغتائی کے متعلق نا زیبا الفا ظ استعمال کر رہے ہیں۔ میرے پہلے ناول نخلستان کی تلاش ‘ پر جاری فحاشی کا مقدمہ بالآخر دس برسوں بعد ختم ہو گیا ہے۔ دوسری طرف میرے دوسرے ناول ’ ایک ممنوعہ محبت کی کہانی‘ پر ایک اردو افسانہ نگار نے پہلے تومجھے خط لکھ کر ناول اور بیانیہ کی تعریف کی پھر چندمہنیوں بعد ا سی ناول کی زیروکس کاپیاں بنوا کر کچھ نیم سیاسی لوگوں میں تقسیم کیں۔ ان کویہ کہہ کر ورغلانا چاہا کہ ثقافتی اور لسانی سیاست پر میں نے جن باتوں کی طرف اشارہ کیا ہے اس کو جواز بنا کر مجھ پر مقدمہ کیا جائے۔

میرا جی چاہتا تھا کہ میں ان سے کہہ دوں کہ اب مجھے کورٹ میں حاضری لگانے کی عادت ہے لیکن میں نے ایسا نہیں کیا۔ کیوں کہ میں جانتا ہوں وہ صاحب بھی اتنے ضدی ہیں کہ پھر خود کو مجھ پر مقدمہ کرنے سے نہیں روک پائیں گے۔ان کے بارے میں یہ بات بھی مشہور ہے کہ اگر ایک بار کچھ ٹھان لیتے ہیں ( تو پھر کچھ دیر یا دنوں کے لیے) وہ اپنی بھی نہیں سنتے۔ یہاں نیشنل کونسل فار پروموشن آف اردو کے صدر بنتے ہی ارتضی کریم نے تحریر کی آزادی پر قابل مذمت حملہ کیا تھا لیکن بھارت کے اردو، انگریزی اور دیگر زبانوں کے ادیبوں کے ملک گیر احتجاج نے بی جے پی حکومت کو مجبور لیا کہ وہ کریم کا غیر جمہوری فرمان واپس لے۔

مذکورہ واقعات کے باوجود اردو معاشرہ خوش نصیب ہے کہ حکومت ، اقتدار اور اسٹیبلشمنٹ اردو افکار کو کنٹرول نہیں کر رہا ہے لیکن بہت ممکن ہے آنے والی دو تین دہائیوں میں یہ سلسلہ شروع ہوجائے۔ بیشتر اردو اخبارات یوں بھی سسٹم کے ایجنٹ ہیں لیکن اردو کے کالم نگار اور ادیب جو کسی حد تک آزاد ہیں اگر حکومتی پا لیسی پر تنقید کریں گے اورا گر ان کی آواز موثرہوگی تو بہت ممکن ہے ان کو بھی اورن دھتی رائے اور بنائیک سین کی طرح بہت سارے سرکاری سوالوں اور صعوبتوں سے گذرنا پڑے گا۔