اک منڈی ہے کھلی نت نئے پاکستانوں کی!

پاکستان میں سیاسی نعروں کی تاریخ جدید

سیاسی نعروں کی منڈی

 

(ذوالفقارعلی)

پاکستان کے مقتدر حلقوں، سیاسی پارٹیوں، جذباتی قسم کے ورکروں اور کُچھ دانشوروں کے منہ سے مُختلف ادوار میں نعروں کی گونج سُننے کو ملتی رہتی ہے۔ بیشتر سلوگنز ایسے مائنڈ سیٹ کے عکاس ہیں جو خالی نعروں کے ذریعے عام آدمی کو ٹرخاتے آئے ہیں۔ یہ نعرے باز دراصل ٹھوس منصوبہ بندی اور مناسب بندوبست سے کتراتے ہیں تاکہ اپنی نا اہلی کو چُھپا سکیں۔ آئیے ماضی میں رائج کُچھ کھوکھلے نعروں پر سرسری نظر ڈال لیتے ہیں تاکہ تاریخ کے جبر سے ان کی معروضیت اور حقیقت کا اندازہ لگایا جا سکے۔
مثال کے طور پر تحریک آزادی سے پہلے دو نعرے بڑے پاپولر تھے “پاکستان کا مطلب کیا لاالہ ال اللہ” اور “ہمیں پاکستان نہیں قائد چاہیے”۔

اس کے بعد ایوب کے دور میں ایک نعرہ بہت مشہور ہوا تھا جسے سرائیکی خطے کے لوگ کالجیٹوں کی تحریک کہتے تھے۔ دراصل مختلف یونیورسٹیوں کے سٹوڈنٹ کُتوں کے گلے میں پٹا باندھ کے زور زور سے کہتے پائے جاتے”ایوب کُتا ہائے ہائے”۔

پھر بُھٹو کے دور میں کُچھ ایسے نعرے لگے جن کا تعلق عام لوگوں سے تھا کیونکہ اُس وقت دُنیا کی سیاست بدل رہی تھی اور عام لوگوں کے حقوق کا ڈھنڈورا ہر طرف پیٹا جا رہا تھا۔ جیسے”مانگ رہا ہے ہر انسان روٹی کپڑا اور مکان” “بُھٹو فیملی ہیرو ہیرو، باقی سب زیرو زیرو”۔
اس کے بعد بھٹو کمزور ہوئے اور پی-این-اے نے تحریک چلائی تو ایک نعرہ بڑا مشہور ہوا تھا “گنجے کے سر پر ہل چلے گا، ہل چلے گا، ہل چلے گا تو پھل ملے گا”۔

ضیا کا تاریک دور شروع ہوا تو نعروں کی نوعیت بھی بدل گئی “مرد مومن مرد حق، ضیا الحق ضیا الحق” سے بوجھل فضا 11 سال تک گونجتی رہی۔ ضیا کے خلاف ایم-آر-ڈی نے تحریک چلائی تو نعروں کو نئی چولی پہنا دی گئی۔ جیسے”امریکہ کا جو یار ہے، غدار ہے غدار ہے” ، “جو طلبا سے ٹکرائے گا پاش پاش ہو جائیگا”، “لاٹھی گولی کی سرکار نہیں چلے گی نہیں چلے گی”۔

مصنف کی تصویر
ذوالفقار علی

ضیا آمریت کے بعد ملک میں بہت گُھٹن اور نفرت چاروں طرف گھر کر چُکی تھی۔ ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے اپنے قدم جمانے کیلئے پردے کے پیچھے جانا مناسب سمجھا۔ کیونکہ لوگوں کو جوڑنا بہت ضروری تھا تو اس مناسبت سے نعرہ لگا “چاروں صوبوں کی زنجیر بے نظیر بے نظیر”۔
بے نظیر کو اصل حکمرانوں نے اپنے پیروں کی بیڑی سمجھا اور بی بی کو کمزور کرنے کیلئے نئے کھلاڑی کو اُتارا اور اُس کو مضبوط کرنے کیلئے نعرہ تخلیق ہوا، “قدم بڑھاؤ نواز شریف ہم تمہارے ساتھ ہیں”، اور اس نے بعد میں “مُلک سنوارو قرض اتارو” کا نعرہ لگا کے ملک و قوم کی خوب خدمت کی۔

اسی اثنا میں پنجابی اسٹیبلشمنٹ اپنے پاؤں جما چُکی تھی اب کی بار اسٹیبلشمنٹ کے اندر کا جھگڑا پھوٹا تو اردو سپیکنک کمیونٹی نے پنجابی اسٹیبلشمنٹ سے اپنا حصہ پکا کرنے کیلئے جو نعرے بنائے اُن پر بھی نظر ڈال لیتے ہیں “ہم کو منزل نہیں راہنما چاہیے” ، “قائد کے فرمان پہ جان بھی قربان ہے” ، “جو قائد کا غدار ہے وہ موت کا حقدار ہے” ، “کراچی کس کا ؟ ایم کیو ایم کا” اس ایرا کے بعد اردو سپیکنگ اسٹیبلشمنٹ کے نمائندہ فوجی آمریت نے اپنے پیر مضبوط کر لئے اب کی بار پنجاب کی نمائندہ حکومت کا تختہ اُلٹ کر اقتدار پر قبضہ کر لیا گیا۔ اور منڈی میں ایک نیا نعرہ متعارف کیا گیا جسے “سب سے پہلے پاکستان”۔ کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ اس نعرے کے بعد پاکستان کا جو حشر ہوا وہ ہم سب کے سامنے ہے۔

مگر وقت بدلا تو نعرے بھی بدل گئے اور اس بار وکلاء تحریک نے زور پکڑا تو مارکیٹ میں نئے نعرے متعارف ہوئے اور پنجابی اسٹیبلشمنٹ نے اپنی طاقت کو پھر سے مجتمع کیا۔ اس بار جو نعرے لگے وہ کچھ یوں تھے “چاچا وردی لاہندا کیوں نئیں، پنشن لے کے جاندا کیوں نئیں” We made Pakistan & we will save the Pakistan ۔ اور اس تحریک میں انہوں نے کامیابی حاصل کی۔

مُشرف رجیم کے بعد نعرے تو بدل گئے مگر عوام کے حالات نہیں بدلے کیونکہ جب بھی کوئی آمریت آتی ہے تو وہ مُلک کو کمزور کرکے چھوڑتی ہے۔ اس عرصے میں سندھ سے تعلق رکھنے والی اسٹیبلشمنٹ کو پنجاب کسی قیمت پر برداشت نہیں کرنا چاہتا تھا کیونکہ وکلاء کی تحریک میں انہوں نے بہت زیادہ انویسٹ کیا ہوا تھا اور اردو سپیکنگ اسٹیبلشمنٹ بھی اپنی سپیس چھوڑنے کیلئے تیار نہیں تھی جس کے باعث محترمہ بی بی کو بھی شہید کر دیا گیا تو لوگوں کو پھر سے جوڑنے اور مُلک کو بچانے کیلئے پیپلز پارٹی کو استعمال کیا گیا جس کو زرداری نے ” پاکستان کھپے ” کہہ کر تقویت دی۔ بعد میں اس نعرے کو بھی مذاق بنا دیا گیا تاکہ “محب وطن” کی مارکیٹ پر قبضہ برقرار رکھا جا سکے۔

ری ایکشن کے طور پر ایک حلقہ کی طرف سے کہنا پڑا “ایک زرداری سب پہ بھاری”۔اس نعرے کا بھار اُٹھائے زرداری حکومت نے اگرچہ کسی نہ کسی طرح اپنا دور حکومت مکمل کر لیا مگر اس دوران اپوزیشن کی طرف سے نعرے لگتے رہے۔ جیسے علی بابا چالیس چور، دیکھو دیکھو کون آیا، شیر شکاری، صاف چلی شفاف چلی اور سب سے زیادہ مقبول “نیا پاکستان” کا نعرہ ہوا۔

اس نئے پاکستان کی کہانی بھی بہت دلچسپ اور کھوکھلی ہے۔ کیونکہ جس قوت نے “سب سے پہلے پاکستان” کا نعرہ لگایا اب کی بار وہ قوت پنجاب کے پُرانے کھلاڑیوں پر بھروسہ نہیں کرنا چاہتی تھی جس کے باعث ایک نئی قوت کو نئے نعرے کے ساتھ مارکیٹ میں لانچ کر دیا گیا جو اس بات کا پتا دیتا ہے کہ حقیقی طاقت کے مرکز میں بھی سپلٹ گہری ہو چکی ہے۔ ویسےآپ دُنیا کی تاریخ اُٹھا کے دیکھیں ایک آزاد مُلک میں اس طرح کا نعرہ کبھی نہیں لگایا گیا۔ آپ لوگوں نے کبھی سُنا ہے کہ “نیا انڈیا” نیا چین، نیا روس یا نیا سعودی عرب کہا گیا ہو۔ بلکہ نئے کپڑے، نئے جوتے، نیا مکان اور نئے بال اُگائے اور بنائے جا سکتے ہیں یہ نیا پاکستان کیا ہے اس کی مُجھے تو سمجھ نہیں آتی۔

نواز شریف میٹرو بنا کے کہتا ہے یہ ہے نیا پاکستان، عمران خان چوہے مار کے کہتا ہے یہ ہے نیا پاکستان، بلاول وزیر اعلٰی بدل کے نیا پاکستان کا تاثر دیتا ہے تو باقی سیاسی جماعتیں بھی اس طرح کی حرکتیں کر کے نیا پاکستان، نیا پاکستان کا راگ الاپتی رہتی ہیں۔ ان نعروں کے پیچھے مقتدر طبقے کی اپنی مجبوریاں اور مفادات وابستہ ہوتے ہیں جس کی وجہ سے وہ مُلک کے جینوئن مسائل پر بات نہیں کرتے تاکہ عوام میں کنفیوژن برقرار رہے اور ان کے نعروں کا جذباتی بازار تیز رہے۔

اگر واقعی پاکستان میں تبدیلی لانی ہے اور نیا پاکستان کا اتنا درد اور شوق ہے تو نعروں سے ہٹ کے معروضی حالات کو بدلئے اور عوام کو عزت دے کر انہیں شریک اقتدار بنائیے اور یہ سوال اُٹھائیے کہ جنرلوں کو زمینیں الاٹ کیوں اور کیسے ہوتی ہیں، دہشت گردوں کو فنڈنگ کہاں سے ملتی ہے، نیشنل ایکشن پلان بے توقیر کیوں ہو رہا ہے، میزائلوں کے نت نئے تجربے کتنے ضروری ہیں، عسکری اور سویلین اداروں کی جنگ کب تک جاری رہےگی، عدالتوں سے انصاف ناپید کیوں ہو چُکا ہے، لوگ اغوا اور قتل کس جُرم میں ہو رہے ہیں، ہر بار طیبہ جیسے بچے کیوں تشدد کا نشانہ بنتے ہیں، فرقہ وارانہ تنظیمیں کافر کافر کا کھیل کس کی ایما پے رچاتی ہیں، فتوے بانٹنے کا حق کس کو ہے، سوال اُٹھانے والوں کو غائب کون کرتا ہے، خارجہ پالیسی کس نے بنانی ہے، بُنیادی حقوق کا تعین کون کریگا، ماحولیاتی تبدیلیوں سے کس طرح نمٹا جائے، تعلیم، صحت اور خوراک کے مسائل کے حل کیلئے کون سی پالیسی اپنائی جائے، ادب اور آرٹ کو کیسے فروغ دیا جائے، ملکی وسائل کو کس طرح بروئے کار لایا جائے، خارجہ اور داخلہ پالیسی کی ڈوریں کون ہلا ہلا کے منتخب حکومتوں کو لال جھنڈی دکھاتا رہتا ہے۔ مگر ان پے کوئی بات نہیں کرتابلکہ پانامہ پیپر، اصل اپوزیشن کون، اگلی باری کس کی، چی پیک، منی ٹریل، شخصی بحثیں اور پتا نہیں کیسے کیسے واہیات قسم کے ایشوز پر بحث ہو رہی ہے کیا یہ عوام کے ایشوز ہیں کیا ان مسائل کے حل ہو جانے سے بہترپاکستان بن جائیگا؟ ہرگز نہیں!

About ذوالفقار زلفی 63 Articles
ذوالفقار علی نے پولیٹیکل سائنس میں ماسٹرز کیا ہے۔ آج کل کچھ این جی اوز کے ساتھ وابستہ ہیں۔ ایکو کنزرویشن پر چھوٹے چھوٹے خاکے لکھتےہیں اور ان کو کبھی کبھار عام لوگوں کے سامنے پرفارم بھی کرتے ہیں۔ اپنی ماں بولی میں شاعری بھی کرتے ہیں، مگر مشاعروں میں پڑھنے سے کتراتے ہیں۔ اس کے علاوہ دریا سے باتیں کرنا، فوک کہانیوں کو اکٹھا کرنا اور فوک دانش پہ مبنی تجربات کو اجاگر کرنا ان کے پسندیدہ کاموں میں سے ہے۔ ذمہ داریوں کے نام پہ اپنی آزادی کو کسی قیمت پر نہیں کھونا چاہتے۔