آہستہ کہ برگ زہر فشاں

Naseer Ahmed
نصیر احمد

آہستہ کہ برگ زہر فشاں

از، نصیر احمد

ذاتی نفرت کی آنکھ مچولی عجیب سی صورتِ حال اختیار کر لیتی ہے۔ اب ایاز امیر کو ٹکٹ نہیں ملا تو نواز شریف سے دشمنی کے اظہار کے لیے، جتنی بھی آمریتوں کے بارے میں انہیں کچھ اطلاعات ہیں، وہ چاہتے ہیں وہ ساری ایک ساتھ ہی پاکستان میں نافذ ہو جائیں۔ شریف خاندان میں سے کوئی جیل میں جائے، کسی کے دُرے پڑیں، کوئی الٹا لٹکے، کسی کی گردن میں گولی لگے، کسی کی لاش گڑھے میں دبا دی جائی اور ہر کوئی ان کا ذکر آتے ہی گالیاں بَکے۔ ان کی لاشیں چِیل کَوّے نوچ نوچ کر کھائیں بل کہ ایاز صاحب کے بس میں ہو تو ان کے کلیجے بھی چبائیں۔ اور ساتھ ساتھ گیت بھی گاتے جائیں۔

انا ابن الشکوال
ولغلام لدجال
یا معشر الشکوال
واشربو دم الٓال

کہ چکوال والو آؤ مل کر پورے کنبے کا خون پی جائیں۔

یہ سفاک قسم کی بے مہری ایاز صاحب تک ہی محدود نہیں ہے بل کہ ایک رویے کے طور پر معاشرے میں ہر سطح پر موجود ہے۔ ایاز صاحب کا تو ٹکٹ جیسا عظیم نقصان ہو گیا یہاں تو کسی حماقت پر دبی دبی ہنسی بھی مکمل بربادی جیسے معاملات کی طرف دھکیل دیتی ہے۔ اب حکومت کو آدابِ نفرت کے بارے میں تعلیم درسی کتابوں کا حصہ بنانی پڑے گی کہ نفرت کی انتہائی صورتوں میں کچھ کمی واقع ہو سکے۔

کچھ اس طرح کی تعلیم:

پیارے بچو بڑے ہو کر جب ساس یا سسر بنیں تو بہو کو صرف طعنے ہی دیں، جلانے کی سازش مت رچائیں، بل کہ اگر وہ طعنوں سے تنگ آ کر خود کشی کا سوچنے لگے تو طعنوں میں خاطر خواہ کمی لے آئیں اور اگر ہو سکے تو کچھ تعریف بھی کر دیں کہ بہ ہرحال انسانی زندگی قیمتی ہوتی ہے۔

بھارت، افغانستان اور دیگر ممالک اگر چِہ ہمارے دشمن ہیں لیکن آپ اپنی سائنسی اور ریاضیاتی تعلیم پر توجہ دیں کہ کل یہی کام آئے گی۔ ان ممالک کی دشمنی میں نفسیاتی امراض کا شکار بن جانا آپ کی تعلیمی کار کردگی کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ عالمی حالات بدلتے رہتے ہیں اور کم از کم ذہن و دل میں اتنی گنجائش ضرور رکھیں کہ اگر منافع بخش بہتر تعلقات ممکن ہوں، وہ ہماری نفرت کی شدت کی وجہ سے ناممکن نہ ہو جائیں۔

اگر کوئی دکان دار آپ کو جِھڑک کر اپنی دکان سے نکال دے تو اسے وہیں دو چار موٹی موٹی گالیاں دے کر اس کی خواہش پوری کر دیں۔ اور بات کو بھولنے کی کوشش کریں، راکٹ لانچر لا کر دکان اڑانے کی کوئی ضرورت نہیں، اس سے شہری امن کی بربادی ہو جائے گی جو کسی کے لیے اچھی نہیں ہے۔

اختلاف رائے کے سلسلے میں نسل کشی کی منصوبہ بندی کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ بس اچھی اچھی کتابیں پڑھیں، ممکن ہو تو کچھ سوچ بھی لیں تا کہ اختلاف رائے کا بے تشدد اظہار ممکن ہو سکے۔ پانی سے بھگوئی ہوئی جوتیوں سے لوگوں کے چہرے خراب کرنے کی آرزو پر قابو پانے کی کوشش کریں کہ جوش صاحب فرما گئے ہیں کہ چہرے نگاہوں کے حرم ہوتے ہیں۔

دنیا میں ہر قسم کے لوگ ہوتے ہیں اور ان لوگوں میں اچھے لوگ بھی شامل ہوتے ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ ان کی تعداد میں اضافہ شاید نفرت میں کمی کر دے اور بت شکنی کے کارِ ثواب میں کچھ دخل اندازی ہو لیکن جب ان کی بات کوئی سن نہیں رہا تو ان کے مکمل خاتمے سے کیا حاصل ہو گا۔ بس کونے کھدروں میں پڑے رہنے دیں۔ کم  از کم اچھائی برائی کا فرق تو معلوم ہوتا رہے گا۔ اگر مستقبل میں کبھی اچھائی کی ضرورت ہی پڑ جائے تو یہ لوگ مفید بھی ہو سکتے ہیں۔


مزید دیکھیے: Indian Novelist Writes Open Letter to PM of Pakistan

آزادی اظہار کے خلاف کریک ڈاؤن

انسانی حقوق اور آزادئ اظہارکے جدید تصورات

تحریر کی آزادی کی مختصر تاریخ

5۔ ایک فکری مثلث: تحریر، محرر اور تخیل


اگر کلاس میں کوئی آپ سے اچھے نمبر لے آئے تو اس کے بازو یا ٹانگیں توڑنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ آج کل تو دھرنے چلتے ہیں۔ آپ مُمتحنوں کے خلاف دھرنا دے کر اپنے نمبر بڑھوا لیں۔ اور کسی سے بھی محبت کرنے سے پہلے محبت اور نفرت کے درمیان جو فرق ہوتے ہیں ان کو جاننے کی کوشش کریں ورنہ یہ جاننا مشکل ہو جائے گا کہ محبت کیا ہوتی ہے اور نفرت کیا۔ اور محبت کے نام پر اگر نفرت کرتے رہیں گے تو آدم خوری کی ترویج ہو گی۔ جس سے بچنا انتہائی ضروری ہے۔

رائے کے آثار نمو دار ہوتے ہی توہین کے ذریعے رائے کا قلع قمع کرنے کی کوشش نہ کریں کہ رائے سکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں، ہسپتالوں اور دیگر سہولیات کی بہتری کی اساس ہے۔ کچھ عرصہ بونگیاں مارنے کے بعد لوگ کچھ نہ کچھ سیکھ ہی جاتے ہیں۔ رائے کے کراماتی ظہور کے لیےاس عمل کا مکمل خاتمہ نہ کریں جو رائے کی تشکیل میں معاون ہو سکتا ہے۔ نفرت کا بہتر علاج نفرت کی وجوہات ڈھونڈنے کے ذریعے کیا جا سکتا ہے۔ اس سفر کی پہلی دو چار منزلوں میں ہی آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ آپ کے پاس نفرت کے ایسے کوئی جواز نہیں موجود ہیں جن کو کسی بھی غیر جانب دار فورم پر ثابت کر سکیں۔ نفرت کو توانائی اپنوں سے ملتی ہے، اس لیے اپنے جتنے کم ہوں، اتنی کم آپ نفرت کریں گے لیکن اس کا ایک نتیجہ یہ ہو سکتا ہے کہ آپ ایک عالم گیر نفرت کا شکار ہو جائیں۔

اگر کوئی آپ کے کسی مخالف کی تعریف کرے تو خاموش رہنے کی کوشش کریں۔ یا دل بڑا کرتے ہوئے، اس تعریفی پروگرام میں شامل ہونے کی کوشش کریں، یا اپنی مخالفت کا اظہار کر دیں مگر مخالف کی تعریف کرنے والے کو لاتیں، گھُونسے اور ٹکریں مارنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اس عمل کے نتیجے میں نفرت کا اضافہ ہو گا اور مکمل خاتمے کی راہ ہموار ہو گی جس سے گریز ہی اس کورس کا مقصد ہے۔