جنات کی حرکی توانائی اور ہم

جنات کی حرکی توانائی اور ہم

از، اصغر بشیر

ہم دلیلیں گھڑنے میں اس حد تک ماہر ہیں کہ ہم بے دلیل کی بھی مختلف النوع دلیلیں گھڑ لیتے ہیں ۔سیانے کہتے ہیں ایک جھوٹ کو ثابت کرنے کے لیے سو جھوٹ بولنے پڑتے ہیں بالکل ایسے ہی ایک بے دلیل کو دلیل ثابت کرنے کے لیے ہمیں سو بے دلیلیں گھڑنی پڑتی ہیں۔ پھر اس پر غصہ، ہٹ دھرمی، مذہب، عقیدت اور روایات کا سہارا لے کر ان کو سچ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ رویہ ہمارے معاشرے کی جڑوں کو کھوکھلا کر رہا ہے کیونکہ ہم لاشعوری طورپر اپنے بچوں کی ان غیر منطقی بنیادوں پر تربیت کرتے ہیں جن پر ہم خود زندگی گزارتے آئے ہیں۔ ہمارے ہاں یہ رویہ بہت عمومی ہے کہ جب بچوں کو کسی کام سے روکنا ہو اس میں فوراً کسی انجانی قوت سے خوف دلایا جاتا ہے۔ جیسے گھر بچوں کو گھر سے باہر جانے سے منع کرنے پر کہا جاتا ہے کہ باہر کوئی آدمی آپ کو پکڑ کر لے جائے گایا پھر بچوں کو ڈرانے کے لیے ڈاکٹر کی ٹیکہ لگانے والے جلاد جیسی شخصیت پیش کی جاتی ہے جو کہ اس کے اصل مسیحائی پیشہ سے برعکس ہے۔ یوں خوف جو کہ ہماری بقاء کے لیے بہت ضروری ہے ؛ ہماری بقاء کو خطرہ میں ڈال دیتا ہے کیونکہ بچے کا ذہن لا شعوری طور پر معاشرے کو ماورائے عقل شے تصور کرنے لگتا ہے اور اس کے مختلف عوامل کو تخریبی خصوصیات کا حامل گرداننے لگتا ہے جو بچوں کو ان کی غلط کاریوں کی سزا دیتےہیں۔

اس طرح بچوں کے ذہن میں عام پیشوں کے متعلق اپنی خاص توجیہات بن جاتی ہیں جس کے تحت ہر عام سہولت ایک خاص سزا کا روپ دھارنے لگتی ہے۔ بچوں کے ذہن میں چونکہ اپنے ڈر کی کوئی خاص وجہ نہیں ہوتی اس لیے ان کے اندر چیزوں کو بغیر پرکھے ، اندھا دھند انداز میں قبول کرنے کا رجحان پروان چڑھنے لگتا ہے۔ اسی طرح سکول میں بچوں کو اپنی معصوم شرارتوں پر سزا دینے کا عمل دراصل ان کے فطری تجسس پر پہرا بٹھانے کے مترادف ہے جس کے تحت بچے کے اندر یہ خوف پیدا ہو جاتا ہے کہ نجانے کب ان کی کس بات پرپکڑ ہوجائے اور وہ سزا کے مستحق ٹھہر جائیں۔

بچے کا ذہن کچا اس لحاظ سے ہوتا ہے کہ اس کے پاس کسی بھی واقعہ کا تجزیہ کرنے کے کوئی اصول نہیں ہوتے جو برتاؤ اس کے ساتھ کیا جاتا ہے وہی اس کے ذہن میں معروضی اصولوں کی صورت میں بیٹھ جاتے ہیں۔ جب ایک خاص ردعمل بار بار دیکھنے میں آتا ہے تو یہی بچے کا ورلڈ ویو بن جاتا ہے۔ اسی نقطہ نظر سے وہ دنیا اور کائنات کی توجیح و تشریح کرتا ہے۔ اس حوالے سے خلائی مخلوق اور ہر معاملے میں کسی انجانی قوت برسر پیکار ہو نا یقیناً ایسا ذہن رکھنے والے عام آدمی کے لیے عام سی بات ہے۔ یہ رویہ جب پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے تو اپنے مخصوص حقائق تشکیل دیتا ہے جن میں عقلیت پسندی کا دور دور تک واسطہ نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں لوگ کالی آندھیوں میں جنوں کو تلاش کرتے ہیں تو بچوں کے حصول کے لیے پیروں کے پاس جاتے ہیں۔ یہی مخصوص رویہ ہمیں مجبور کرتا ہے کہ ہم ٹھوس مادی وجوہات کو رد کرتے ہوئے ان کی جگہ مذہب اور روایت سے اپنے مخصوص ذہنی انداز کے مطابق دلائل ڈھونڈ کے لائیں۔ یوں اس مخصوص طبقہ سے تعلق رکھنے والے لوگ زندگی کے ہر معاملے کو اپنے پیراڈائم میں بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس کا حقائق سے دور دور کا واسطہ نہیں ہوتا۔

اس بے دلیلی رویے کا نقطہ عروج یہ ہوتا ہے کہ کانسپیریسی تھیوریز کا چال چلن معاشرےمیں عام ہو جاتا ہے۔ آج بھی دیکھیں تو ہمارے معاشرے کی اکثریت یہ سوچتی ہے کہ 9/11 کے واقعات امریکہ کے خود ساختہ ہیں جس کا واحد مقصد افغانستان پر حملے کا بہانہ ڈھونڈنا اور جنوبی ایشیاء میں اپنی مستقل موجودگی کا جواز فراہم کرنا تھا ۔اسی طرح ہمارے معاشرے میں عمومی تصور کہ ہندوستان، مغرب اور صہیونی قوتیں دراصل ہمیں سلگتا ، لڑتا ، مرتا دیکھنا چاہتی ہیں اسی اندازِ فکر کا شاخسانہ ہے۔ ہماری سوچ کو کس طرح ایک خاص منظم انداز میں غیر منطقی بنایا گیا ہے اس کا اندازہ 1983ءمیں انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد کے زیر اہتمام ہونے والی اسلامی سائنسی ریسرچ کانفرنس سے لگایا جا سکتا ہے جس میں پیش کیے جانے وا لے مقالوں میں سے ایک مقالہ یہ تھا کہ جنات اور دوسری غیر مرئی مخلوقات کو قابو کرنے ان کی حرکی توانائی کوکس طرح قابلِ استعمال بنایا جا سکتا ہے۔