سوشل میڈیائی دور میں ہنگامے کی عمر

Khizer Hayat aik Rozan
خضر حیات، صاحبِ مضمون

سوشل میڈیائی دور میں ہنگامے کی عمر

از، خضر حیات

موجودہ سوشل میڈیائی دور میں ہر ہنگامے کی عمر محض اتنی ہی ہے کہ وہ اٹھے، ہر طرف کُہرام مچائے اور پھر اپنی موت آپ مر جائے۔ اس کی جگہ لینے کے لیے نیا ہنگامہ کھڑا ہو جائے اور پھر وہ بھی کسی نئے تنازعے کے لیے جگہ خالی کر کے چلتا بنے۔

اس چل چلاؤ میں مگر کچھ ہنگامے ایسے بھی ہوتے ہیں جو وقتی طور پر تو غائب ہو جاتے ہیں مگر غائب ہو کر ختم نہیں ہوتے، بل کہ اندر ہی اندر نمو پا کر پھلتے پھولتے رہتے ہیں اور کچھ عرصے بعد ایک بڑے ذہنی صدمے کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں۔

ہماری حکمتِ عملی کہہ لیں یا اس ڈیجیٹل دور کی بد احوالی کہ ہم چھوٹے موٹے کیڑے مکوڑوں کو مارنے کی بَہ جائے قالین کے نیچے کھسکاتے رہتے ہیں۔ تا آں کہ ایک دن یہی کیڑے مکوڑے سنپولیوں کی صورت میں باہر نکل کے ہمارا چین سکون برباد کر دیتے ہیں۔

ابھی پچھلے مہینے ہی کی بات ہے جب حکومت اور تحریکِ لبیک کی آپس میں ٹھن گئی تھی۔ دونوں طرفوں سے تند و تیز بیانات کی موسلا دھار برسات شروع ہو گئی۔ دونوں اپنی اپنی انتہاؤں پہ جھولتے نظر آئے۔

عوام کو اس ساری صورتِ حال کی خبر اس دن ہوئی جب لاہور میں ہنگامہ آرائی شروع ہوئی۔ ٹائر جلا کر اور رکاوٹیں کھڑی کر کے قصور کو لاہور سے ملانے والی شاہ راہ فیروز پور روڈ بلاک ہوئی اور اس کے اثرات لاہور کی مجموعی فضا پر منڈلانے لگے۔ مختلف چوکوں میں ٹریفک پھنسنے لگی تو محسوس ہوا کہ کوئی گڑبڑ ہو گئی ہے۔

خبروں سے پتا چلا کہ تحریکِ لبیک کے موجودہ سربراہ اور علامہ خادم حسین رضوی کے صاحب زادے سعد حسین رضوی کو لاہور میں پولیس نے اس وقت حراست میں لے لیا ہے جب وہ کسی نمازِ جنازہ میں شرکت کرنے پہنچے تھے۔ اس گرفتاری کی خبر کارکنوں تک پہنچی تو وہ لاہور میں سڑکوں پر نکل آئے اور احتجاج شروع کر دیا۔

تنازعہ یہ تھا کہ خادم حسین رضوی نے اپنی زندگی میں حکومت کے سامنے یہ مطالبہ رکھا تھا کہ گستاخ خاکوں کی اشاعت پر فرانس کے سفیر کو ملک بدر کیا جائے اور فرانس کی مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ کیا جائے۔ تب مرکز میں وزیرِ داخلہ بریگیڈئیر اعجاز شاہ تھے۔

حکومت نے تب خادم رضوی کو یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ ہم ایک قرارداد پارلیمنٹ میں لائیں گے اور سیاسی اور پارلیمانی طور پر اس مسئلے کو سلجھائیں گے، آپ لوگ ذرا دھیرج رکھیں۔

حکومت کو شاید یہ گمان تھا کہ کچھ وقت گزرنے کے بعد معاملہ رفع دفع ہو جائے گا اور تحریکِ لبیک اپنے مطالبے سے دست بردار ہو جائے گی اور یوں ہم کسی بڑی مصیبت سے بچ جائیں گے۔ خادم حسین رضوی اور ان کی جماعت نے اس حکومتی دلاسے پر دھیرج تو رکھا مگر اپنے مطالبے پر قائم رہے۔ اسی دوران خادم حسین رضوی اس جہانِ فانی سے کوچ کر گئے اور ان کی جگہ ان کے صاحب زادے کو جماعت کی سربراہی سونپ دی گئی۔

سعد حسین رضوی لاہور کے کسی مدرسے میں ابھی زیرِ تعلیم ہیں۔ وہ سربراہ بنے تو انھوں نے والد صاحب کے مشن کو آگے بڑھایا اور حکومت کو اس کا وعدہ یاد دلایا۔ اس دوران شیخ رشید اپنی سرتوڑ کوششوں کے بعد بالآخر وفاقی وزیرِ داخلہ بننے میں کام یاب ہو گئے تھے اور انھوں نے سعد حسین رضوی اور تحریکِ لبیک کے ساتھ مذاکرات شروع کیے۔ ان مذاکرات میں مذہبی امور کے وفاقی وزیر نورالحق قادری بھی شیخ رشید کے ہم راہ تھے۔

تحریک لبیک نے حکومت کو ڈیڈلائن دے دی کہ اگر 20 اپریل تک فرانسیسی سفیر کو واپس نہ بھیجا گیا تو وہ اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کریں گے اور وہاں پہنچ کر دھرنا دیں گے۔

اس دوران وزیرِ اعظم پاکستان مسلسل دہراتے رہے کہ خارجہ پالیسیاں چند لوگوں کے کہنے پہ نہیں تبدیل کی جا سکتیں۔ فرانس سے احتجاج کرنے کا درست طریقہ یہ ہے کہ ہم عالمی فورموں پر اس معاملے کی نزاکت کے بارے میں مغربی دنیا کو آگاہ کریں اور ان سے مطالبہ کریں کہ مسلمانوں کے آخری نبیﷺ کی شان میں گستاخی سے پوری اُمتِ مسلمہ کے جذبات مجروح ہوتے ہیں، آپ ایسی سرگرمیوں سے باز رہیں۔

دوسرا طریقہ یہ ہے کہ تمام اسلامی ملکوں کو فرانس پر دباؤ ڈالنے کے لیے قائل کریں۔ اس طرح فرانس کے سفیر کو ملک بدر کرنے سے پاکستان شدید مشکل میں پڑ سکتا ہے۔ ایک تو ایف اے ٹی ایف، FATF کی فہرست سے پاکستان نکلنے کی کوشش کر رہا ہے اور اس فہرست سے نکلنے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ فرانس ہی ہے کیوں کہ فرانس اس بات پر مطمئن نہیں ہو رہا کہ پاکستان دہشت گرد گروہوں، تنظیموں اور افراد کی مالی معاونت نہیں کر رہا۔ فرانس کے کان بھرنے کے لیے بھارت ہمہ وقت چوکس رہتا ہے کیوں کہ بھارت اور فرانس آج کل بہت قریب آ رہے ہیں اور دونوں ملکوں کے مابین ہونے والی تجارت کا حجم بھی مسلسل بڑھ رہا ہے۔

مودی حکومت نے رافیل طیاروں کا مہنگا ترین سودا فرانس کی حکومت سے ہی طے کیا ہے جس میں ہونے والی مالی بد عنوانیوں کا بھارتی پارلیمنٹ میں پچھلے کئی برسوں سے واویلا مچا ہوا ہے۔

ایک اور قباحت یہ ہے کہ ہماری فرانس کے ساتھ تجارت متأثر ہو گی اور صرف فرانس کے ساتھ ہی کیوں، پورا یورپ فرانس کے ساتھ کھڑا ہو گا اور یوں ہم اپنا ہی معاشی نقصان کر بیٹھیں گے۔ اس لیے فرانس کے بائیکاٹ والا مطالبہ قطعاً غیر دانش مندانہ ہے جسے خاطر میں نہیں لایا جا سکتا۔

عمران خان کی مندرجہ بالا باتوں سے لگ رہا تھا کہ واقعی خاصے پُر عزم ہیں اور تحریک لبیک کے ہاتھوں بلیک میل ہونے میں ذرہ برابر دل چسپی نہیں رکھتے۔ مگر عمران خان اکیلے تو اس ملک کے والی وارث نہیں ہیں۔ وہ یہ کہہ کے اور اپنی طرف سے مسئلے کو خوش اسلوبی سے حل کر کرا کے جا کے سوئے ہی تھے کہ پتا چلا شیخ رشید نے مذاکرات کے دوران اس مسئلے کو کسی اور ہی طریقے سے حل کر لیا ہے۔ یہ طریقہ واضح طور پر وزیر اعظم پاکستان کے طریقے سے نہ صرف مختلف تھا بل کہ اس حکمتِ عملی کے متضاد بھی تھا۔

اس دوران چُوں کہ تحریک لبیک کا لاہور میں احتجاج شدت اختیار کر گیا تھا۔ انھوں نے کئی سڑکیں تو روکیں ہی، ساتھ ہی انھوں نے پولیس کے جوانوں کو پکڑ کر مارنا پیٹنا بھی شروع کر دیا۔ چار سے پانچ پولیس والے جاں بَہ حق ہوئے اور درجنوں ان فدائیوں کے ہاتھوں زخمی ہوئے۔

بات یہیں نہ رکی، تحریک لبیک کے جاں نثاروں نے لاہور میں ایک تھانے پر حملہ کر کے اس کے عملے کو یرغمال بنا لیا اور انھیں مار پیٹ کا نشانہ بنایا۔ پولیس نے رد عمل کے طور پر مختلف شہروں سے تحریک لبیک کے کئی حامیوں کو گرفتار کر لیا۔ ملک ایک افراتفری اور غیر یقینی کی فضا کی بے بس تصویر بن کے رہ گیا۔ عالمی میڈیا نے اس سارے معاملے کو بھر پُور کوریج دی۔

ہندوستان یہ کہنے میں حق بَہ جانب نظر آیا کہ دیکھا ہم نہ کہتے تھے یہاں چند اسلام پسند لوگ مل کر ملک کو جام اور انتظامیہ کو آختہ کر سکتے ہیں، اب یقین آ گیا؟ فرانس نے پاکستان سے اپنے شہریوں کو واپس بلا لیا۔

اس دوران شیخ رشید نے جس طرح معاملے کو سلٹایا اس پہ پورا ملک حیران رہ گیا۔ مذاکرات کے بعد جو باتیں شیخ رشید کے مختصر ویڈیو بیان میں سامنے آئیں ان کا خلاصہ یہ تھا کہ حکومت نے تحریک لبیک کے تمام مطالبات مانتے ہوئے ان کے گرفتار کارکنوں کو فوری طور پر رہا کرنے پر اتفاق کیا ہے۔

ساتھ ہی ساتھ ان کارکنوں کے خلاف درج تمام مقدمات، چاہے وہ دہشت گردی کی دفعات کے تحت ہی کیوں نہ درج کیے گئے ہوں، سب فوری طور پر کے سب ختم کر دیے جائیں گے اور تحریک کے سپوٹروں سے گزارش ہے کہ شانتی بنائے رکھیں اور گھروں کو لوٹ جائیں، باقی مطالبات بھی پورے کر دیے جائیں گے۔

اس افہام و تفہیم میں کہیں بھی حکومتی ٹیم نے یہ شائبہ نہیں ہونے دیا کہ مذاکرات کے دوران حکومت نے بھی کوئی مطالبہ تحریک لبیک کے سامنے رکھا جس پر بات ہوئی یا جو منظور یا نا منظور ہوا۔ کوئی چکر ہی نہیں۔ حکومت کے کسی بھی ایجنڈے میں، کہیں بھی یہ نہیں لکھا تھا کہ جو پولیس اہل کار جاں بَہ حق ہوئے ہیں یا جو زخمی ہوئے ہیں ان کے خاندان والوں یا ان کے لیے کیا احکامات ہیں۔ اگر ان جھڑپوں میں بَہ حیثیتِ ادارہ پولیس کا مورال زخمی ہوا ہے تو اسے پھر سے گزارے جوگا کرنے کے لیے کیا اقدامات سوچے گئے۔

وزیر اعظم پاکستان کا گلا جو تجاویز پیش کر کر کے بیٹھ گیا ہے ان تجاویز کو کیوں اور کس کے کہنے پہ خاطر میں نہیں لایا گیا۔ اور نہ کہیں اس بات کا حوالہ تھا کہ ریاست پاکستان کب تک اپنے بوئے ہوئے کانٹوں سے اپنے ہی ہاتھ لہولہان کرتی رہے گی۔ کہیں کسی نے یہ نہیں بتانا سننا گوارا کیا کہ عمران خان کے ابال کا کس نے اور کس طرح سے علاج کیا اور نہ کسی نے یہ بتانے کی زحمت گوارا کی کہ قوم سے خطاب میں جو آدمی ارسطو بنا ہوا تھا اب مُنھ لٹکائے گُونگا کیوں بن گیا ہے۔

خیر بات طویل ہو گئی۔ حکومت نے جس بے احتیاطی، کج فہمی اور نا سمجھی سے اس مسئلے کو قالین کے نیچے چھپا دیا ہے، کون کہہ سکتا ہے کس گھڑی یہ کیڑا پھر سے سنپولا بن کے باہر نکل آئے اور یہ سارا سائیکلو سٹائل سٹیج ڈرامہ پھر سے شروع ہو جائے۔

دو چار روز تک ڈرامے کی اس قسط پر لے دے ہوئی، سب نے اپنے حصے کا خون جلایا اور پھر ہندوستان میں کرونا شدت اختیار کر گیا، سرحد پار سے دل خراش ویڈیوز ہر موبائل کی سکرین پر چھا گئیں، ملک میں نئے لاک ڈاؤن کی باتیں ہونے لگیں، عید قریب آ گئی، چاند نظر آنے نہ آنے والا سالانہ ٹورنامنٹ شروع ہو گیا، عید پر اسرائیل نے فلسطین کو پھر زخمی کر دیا اور یوں خبروں کی بھیڑ اور نیوز فیڈ میں یہ خبر کہیں بہت نیچے چلی گئی۔

اب بہت کم لوگوں کو یاد ہوگا کہ ابھی ایک مہینہ پہلے ملک کس کہرام میں تھا۔ اور ان سے بھی کم لوگوں کو یہ اندیشہ ہو گا کہ کیڑا ابھی مرا نہیں، قالین کے نیچے ہے اور پھل پھول رہا ہے، یہ کسی بھی وقت سنپولا اور پھر شیش ناگ بن سکتا ہے۔

سوشل میڈیائی دور میں ہنگامے کی عمر بس اتنی ہی ہوتی ہے۔ نیوز فیڈ میں ایک پوسٹ پر قہقہہ لگائیں، اگلی پر اداس ہو جائیں، اس سے اگلی پر آپ کو پیار آ جائے اور اس سے اگلی پر آپ پھولوں کا گُل دستہ پیش کریں، اس سے اگلی پر پھر سے قہقہہ لگائیں اور تھوڑا نیچے جا کے دکھی ہو جائیں۔

اسی طرح یہ نہ ختم ہونے والا سلسلہ چلتا رہے اور آپ کسی بھی ایک کیفیت کو ایک پوسٹ سے اگلی پوسٹ تک پہنچنے کے درمیانی زمانی وقفے سے زیادہ دیر کے لیے خود پر طاری نہ کر سکیں۔ یہ عذاب نہیں تو اور کیا ہے!

***