فلموں کے سیمیاتی تجزیے (semiotic analysis) کے بارے میں

فلموں کے سیمیاتی تجزیے
Pablo Picasso Les Demoiselles d’Avignon (1907)

فلموں کے سیمیاتی تجزیے (semiotic analysis) کے بارے میں

از، ذوالفقار علی زلفی

فن کی دنیا میں سینما نسبتاً جدید ہےـ اسے بَہ مشکل سو سال سے کچھ ہی زیادہ ہو گاـ فلموں کو اوائل میں محض وقت گزاری اور تفریح کا سامان سمجھا جاتا تھاـ رفتہ رفتہ سینما انسان کی سماجی، ثقافتی اور نفسیاتی زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والا مؤثر ترین فن ثابت ہوتا گیاـ فلموں کی اثر پذیری نے مختلف ریاستوں اور سیاسی و مذہبی گروہوں کے کان کھڑے کر دیے اور انھوں نے قانونی و غیر قانونی سینسر بورڈز تشکیل دے کر فلموں پر اثر انداز ہونے کی کوششوں کا آغاز کیاـ

جہاں سیاسی سطح پر یہ سب کچھ ہو رہا تھا وہاں اکیڈمک سطح پر سینما کو سمجھنے اور اس کے اسرار و رموز دریافت ہونے کا سلسلہ بھی شروع ہواـ

اوائل میں یہ شعبہ مختلف فلم ناقدین نے سنبھالا جو فلم کے فنی عیوب و محاسن پر رائے زنی کرتے تھےـ بعد ازاں اس شعبے میں دانش وروں اور ماہرین کی آمد شروع ہوئی جنھوں نے فلم کی اندرونی حرکیات اور تہذیبی پسِ منظر کو موضوع بنا کر فلم کو سمجھنے کی اکیڈمک کوششیں شروع کر دیں ـ ان دانش وروں نے فلم کی سیمیاتی اور ساختیاتی مطالعے کی بنیاد ڈال کر سینما کو سمجھنے کے نئے دروازے کھول دیےـ

آج سینما کو محض تفریح سمجھ کر نظر انداز نہیں کیا جاتا بَل کہ یہ ایک علمی و فکری شعبہ بن چکا ہےـ مغرب میں فلموں کا سیمیاتی تجزیہ اکیڈمک سطح پر مقبول ہے اور قریب ہر مہینے ایک نئی کتاب سامنے آ جاتی ہےـ ہمارے خطے میں بلا شبہ ہندوستان اس حوالے سے خاصا آگے ہے جہاں سینما کا علمی تجزیہ رائج ہوتا جا رہا ہےـ

میرے استاد کا ماننا ہے فلموں کے سیمیاتی تجزیے کے لیے چند چیزوں کا جاننا اور سمجھنا اشد ضروری ہےـ ان کے بَہ غیر تجزیہ کار سطحی تجزیہ تو کر سکتا ہے لیکن گہرائی میں اترنا نا ممکن ہےـ اس حوالے سے ان کی تجویز ہے:

1- تجزیہ کار کو سب سے پہلے سینما کی زبان کا مطالعہ کر کے اس کے حوالے سے مختلف مباحث سے آگاہ ہونا چاہیےـ

2- فلم کا تعلق جس سماج سے ہے اس سماج کی مِتھالوجی،  سیاسی و سماجی ثقافت اور مختلف گروہوں اور طبقات کے درمیان تضادات سے آشنائی ضروری ہےـ

3- ادب اور اس کے جملہ مباحث پر نگاہ رکھنی چاہیےـ

4- سیاسی نظریات کو سمجھنا بھی ضروری ہےـ

5- انسانی نفسیات اور اس کے مختلف نظریات کا مسلسل مطالَعہ کرنا چاہیےـ

یہ تو تھی استاد کی رائےـ میرے نزدیک ان بنیادی کتابوں کا مطالعہ اشد ضروری ہےـ

 جیمز موناکو (James Monaco) کی کتاب How to read a Film۔ اسی طرح Daniel Arijon کی Grammar of the Film Language۔ کرسٹین میٹز (Christian Metz) کی کتاب The Imaginary Signifier۔ یہ کتابیں سینما کے بنیادی مباحث کو سمجھنے میں خاصی مدد فراہم کرتی ہیں۔

اسی طرح روسی مونتاژ (montage) کا مطالعہ بھی از حد کارآمد ہےـ روسی مونتاژ در اصل کارل مارکس کے جدلیاتی مادیت کے فلسفے کی سینمائی شکل ہے جسے سابق سوویت یونین کے کمیونسٹ فلم سازوں نے دریافت کر کے سینما میں انقلاب بپا کر دیا تھاـ

سیمیاتی مطالعہ فلم کو گہرائی سے سمجھنے کا آلہ ہےـ جیسے ایک ہندوستانی تجزیہ کار نے فلم مشن کشمیر (2000) کے ایک سین جس میں ہیرو،  ہیروئن کو گلاب پیش کرتا ہے اور گلاب میں لگے کانٹے ہیروئن کی انگلیوں کو زخمی کر دیتے ہیں کا سیمیاتی تجزیہ کرتے لکھا:

“یہاں گلاب محض ایک گلاب کا پھول نہیں ہے، بل کہ یہاں گلاب کشمیر کا استعارہ ہے جو بَہ ظاہر خوب صورت اور دل نشین ہے لیکن اس کی تہہ میں مختلف سماجی و ثقافتی تضادات کے کانٹے ہیں جو اس کے حصول کی کوشش کرنے والوں کو زخمی کر سکتے ہیں۔”

سیمیاتی مطالعہ مختلف سیاسی تناظر میں بھی کیا جا سکتا ہےـ جیسے بعض ہندوستانی لبرل فلمی تجزیہ کار فلم ہم آپ کے ہیں کون (1994) کو ہندی سینما کی ترقی کا اہم پڑاؤ سمجھتے ہیں۔ میری نگاہ میں اس فلم نے سرمایہ دارانہ معاشی نظریات کو ہندی سینما کا حصہ بنا کر محنت کش طبقے کو مرکز سے نکالنے کی کام یاب کوشش کی اس لیے اگر یہ کسی ترقی کی علامت ہے بھی تو نیولبرل معاشی نظام سے فائدہ سمیٹنے والے سرمایہ داروں کے لیے ہےـ

بات کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے ایک اور مثال دینا چاہوں گاـ فلم رام تیری گنگا میلی (1985) اور پردیس (1997) کی ہیروئنز علامتی طور پر ہندوستان کی علامت ہیں۔ 1985 کی فلم نیو لبرل پالیسی سے پہلے کی ہے جس میں راج کپور نے گنگا کو ہندوستانی محنت کشوں کے استعارے کے طور پر برت کر جاگیردارانہ کلچر کے استحصالی نظام کو تنقید کا نشانہ بنایاـ

دوسری فلم میں سبھاش گئی کی گنگا قوم پرستانہ نقطۂِ نظر کی حامل ہندوستان ہے جسے بیرونی دشمنوں کی سازشوں کا سامنا ہے اور وہ ہندوستان کی سرحدوں کے اندر محفوظ ہےـ یہ بنیادی طور پر مغرب میں مقیم خوش حال ہندوستانیوں کو اپنا سرمایہ ہندوستان لانے کی ریاستی خواہش کی جانب اشارہ ہےـ

آج سے تین سال قبل جب عزیز دوست جناب عابد میر نے مجھے فلمی تبصروں کی جانب راغب کیا تو میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا ایک دن ایسا بھی آئے گا جب مجھے اپنا لکھا سارا مواد فضول لگنے لگے گاـ میں فلموں پر سطحی تبصرے کرتا تھاـ سیمیاتی تجزیے کا علم ہونے کے بعد جب مسلسل مطالعہ کیا اور اس جدید مطالعے کی روشنی میں فلموں کو دیکھنا شروع کیا تو علم ہوا سارا وقت فضول تبصروں میں برباد کر دیاـ پھر بھی دیر آید درست آید

یقیناً فلموں کا سیمیاتی تجزیہ عام تبصروں کی نسبت مشکل ہے لیکن نا ممکن نہیں ہےـ مطالَعہ اور مسلسل مشق کر کے یہ پہاڑ سر کیا جا سکتا ہےـ میں نے پہلے پہل امریکی فلم The Shawshank Redemption کا بلوچی زبان میں سیمیاتی تجزیہ کرنے کی کوشش کی۔ اس کوشش میں کس حد تک کام یاب رہا اس کا اندازہ تو مستقبل میں کوئی بلوچ سیمیاتی تجزیہ کار ہی کر سکتا ہےـ اس کے بعد میں نے اپنی کتاب باسکوپ کے بعض فلمی تبصروں کو سیمیاتی تجزیے میں بدلنے کی کوششوں کا آغاز کیا اس کوشـش کی وجہ سے کتاب کی اشاعت تاخیر کا شکار ہوتی گئی اور میں عابد میر کے سامنے شرمندہ ہوتا رہاـ