حالیہ ہفتے ہونے والی دہشتگردی کے واقعات کے کچھ ذیلی پہلو

دہشتگردی، دہشت گردی

(محسن علی)

پاکستان کے اندر حالیہ ہفتے میں دہشتگردی کے تین واقعے پے درے پے ہوئے اور دہشتگردی کی لہر نے تیزی سے پھر سر اُٹھایا ہے جس میں کم سے کم دو س وقیمتی جانوں کا ضائع ہوئیں۔ مگر سوچنے کی بات ہے ایک طرف تو ہمارے وزیر اعظم اور دفتر خارجہ اس معاملہ پر افغانستان سے دو ٹوک بات کا عندیہ دے رہے ہیں تودوسری طرف جناب یہ کیوں بھول رہے ہیں سرحد کی ذمہ داری شائد میری یا حکومت کی نہیں بلکہ ریاست کے دفاعی ادارے کی ہوتی ہے۔

جس طرح سے ملک کے اندرونی جرائم اور قتل و غارت کی ذمہ داری سویلین حکومت اور پولیس دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کا کام ہوتا ہے بالکل ایسے ہی سرحد کی حفاظت کا کام آ پ کا ہے کہ بیرونی جارحیت یا بیرونی دہشتگردی کے روکنے کی ذمہ داری آپ پر عائد ہوتی ہے۔ چند ماہ قبل جب راحیل شریف کمانڈ سنبھالے ہوئے تھے تو اس وقت اس تیزی سے حملے دیکھنے کو نہیں ملے مگر حقیقت یہ ہے کہ اے پی ایس،پولیس ٹریننگ سینٹر پر حملہ ہو یا وکلاء پر یہ تین کافی بڑے حملے ہوئے دیگر حملوں کے علاوہ جس میں تقریبا تین سو لوگ اپنی جانوں سے گئے مگر دوسری طرف راحیل شریف کے دور میں شوال کے علاقے کو کئی بار دہشتگردوں سے خالی کروانے کی نوید سنائی گئی تو ستمبر میں گزشتہ ایک جنرل صاحب شوال کے اربوں روپے کے چلغوزوں کی تعریف کرتے میڈیا پر نمودار ہوئے۔

دہشتگردی کے واقعات کا ہفتہ
بشکریہ: الجزیرہ

جس طر ح سے میڈیا نے سولہ سالوں میں عوام کے سامنے سیاست دانوں کونا اہل باور کروایا ہے اسی طرح سے کسی حد تک میڈیا نے نمبر ون ہونے کی بھی قلعی کھول کررکھ دی ہے مزید یہ کس طرح کے نمبر ون ہیں کہ سہون شریف کے دھماکے کے بعد تو یہ اگلے دن تیس چالیس مختلف دہشگرد کاروائیوں میں ماردیتے ہیں جبکہ کیا ان کو ان کے ٹھکانوں کا علم نہیں ہوتا یا یہ وہ حملہ کرنے کے اگلے دن اپنے پرانے ان ہی ٹھکانوں پر پہنچ جاتے ہیں جیسے کراچی میں منگھوپیر کا علاقہ اس علاقے میں رینجرز پہلے بھی کئی دہشتگردوں کو میڈیا کے حساب سے جہنم وصل بھی کرچکے ہیں مگر اس علاقے کو پوری طرح کلئیر نہیں کیا جاتا اور ایسے خطرناک علاقے میں کوئی چوکی چیکنگ کے لئے کیوں نہ قائم کی گئی جب کہ ابوالحسن اصفہانی روڈ پر جو کہ چلتی سڑک ہے وہاں رینجرز کی چوکی قائم کی گئی ہے جبکہ منگھوپیر جیسے آدھے جنگل کے طرز کی جگہ پر خاطر خواہ انتظامات کی ضرورت تھی بجائے ہر علاقے میں بے جا چوکیوں اور اسنیپ چیکنگ کے اس طرز کے علاقوں میں اپنی موجودگی یقنی بنانی چاہئے تھی۔

جس طرح آ پ سیاسی قاتلوں اور ٹارگٹ کلر کے چہرے اور ڈاکومنٹس میڈیا کو دکھاتے ہیں عوامی کی تسلی کے لئے ان دہشتگردوں کے بارے میں بھی جن کو ماراگیا میڈیا کے ذریعے مطلع کریں ورنہ عوام کے ذہن میں یاسیاسی لوگوں کے ذہن میں یہ بات آئیگی آپ نے سیاسی قید ورکرز کو دہشتگرد بنا کر ماردیا یا کسی اور اسیر کو،مگر اس طرح سے دہشتگردوں کو مارنے کے بجائے اگر کیا ہی اچھا ہو آپ پکڑکر فوجی عدالتوں کے ذریعے سزا دلوائیں کیونکہ مجرم جتنا بھی خطرناک کیوں نہ ہو اگر ریاست اس کو اس طرح مقابلے میں مسلسل مارتی رہتی ہے تو وہ اس کے لیے اس کے ارد گرد کے لوگوں کے لئے مثل بن جاتی ہے اور وہ بھی اس طرح دہشتگردی کی طرف مائل ہوتے ہیں اور ریاست کی اپنی رٹ کمزور ہوتی ہے۔

کل شہباز شریف صاحب مال روڈ کے دھماکے کے بارے میں اہم پریس کانفرنس کرتے ہوئے فرمارہے تھے ایک شہید کی والدہ کا خط ملا انہوں نے کہا وہ اپنا دوسرا بیٹا وطن کو دینے کو تیار ہیں یہ کس قسم کا بھونڈا مذاق ہے کہ ایک ماں جس کے بچے کومرے تین دن بھی نہ گزرے ہوں وہ وزیر اعلی پنجاب کو اس طرح کا خط لکھ کر دے بظاہر تو یہ عوام کو شہادت کا تمغہ دے کر ان کے منہ پر تالے نہ ڈالیں قاتلوں کوپکڑیں گزشتہ سولہ سال سے ہم شہید شہید ہوتے تھک رہے ہیں مگر آپ یہ مقدس شہادت اس طرز سے دے کر عوام کو ظلم پر چپ رہنے کی ترغیب دے رہے ہیں وہ لوگ جنگ پر نہیں نکلے تھے نہ ملک پر قربان ہونے کو وہ لوگ اپنے روز مرہ کے کاموں سے نکلے تھے تو دوسری طرف آرمی چیف صاحب فرماتے ہیں قوم پر سکون رہے یعنی کہنا کیا چاہتے ہیں سولہ سال تک مسلسل لاشیں اُٹھانے کے بعد بھ پُر سکون رہیں صبر سے کام لیں؟

جناب خدا نہ کرے آ پ کی اولاس اس طرح سے ”شہید“ ہوئی تو تب بھی آ پ ایساہی کرینگے لوگ کہتے ہیں سیاستدانوں کا کوئی مرے تو امن آجائے تو جناب سیاستدانوں میں اے این پی کے رہنما ء نے بیٹا کھویا اپنی قیادت کے لوگ کھوئے اور پیپلزپارٹی نے تو اپنی لیڈر تک کھودیں مگر امن آیا؟

ایک طرف فیس بک بر پیجز بند کئے گئے جو فوج کے خلاف لکھنے یا ان کی غلطیوں کی نشاندہی کرنے کی کوشش کرہے تھے تو پھر یہ دھماکے اس لئے تو نہیں کہ بجٹ سے پہلے دفاعی بجٹ میں اضافے کو، کیونکہ کچھ عرصے قبل بھارتی بندوقوں کو آپ ان کی بلا اشتعال فائرنگ پر خاموش کروارہے تھے بار بار اور اب جب سے راحیل شریف گئے ان کی بندوقیں تقریبا چپ ہیں۔ دوسری طرف جماعت الاحرار کا فیس بک پیج چلتا دیکھ گیا جس میں وہ بتارہے ہیں کہ ہم نے آپریشن غازی شروع کیا۔ جبکہ شہباز شریف اور میڈیا طالبان اور داعش کا نام لے رہے ہیں آپ یا تو عوام کو گمراہ کر رہے ہیں وگرنہ آ پ پھر داعش کے حامی مولانا عبدالعزیز کے بیان کے باوجود چشم پوشی کر رہے ہیں کہیں تو گڑ بڑ ضرور ہے ورنہ ملا عبدالعزیز کو ان کے وڈیو بیان کے باجود گرفتا ر نہ کرنے کی وجہ؟ گستاخی معاف سوالات اُٹھنے پر غائب تو نہیں کرینگے نا۔۔۔؟