بانو قدسیہ مرحومہ، خدا غریق رحمت کرے: پر اس “افیون” کا کیا کریں؟

بانو قدسیہ کی رحلت کے تناظر میں لکھی تحریر

لکھاری کی تصویر
یاسر چٹھہ

بانو قدسیہ مرحومہ، خدا غریق رحمت کرے: پر اس “افیون” کا کیا کریں؟

از، یاسرچٹھہ

بانو قدسیہ اس دنیا سے رخصت ہوئیں۔ امر الٰہی! سب نے چلے جانا ہے۔ بس اپنا اپنا وقت آنے کی دیری ہے۔ خدا کی رحمت کا کوئی کنارہ نہیں؛ وہ بے پایاں رحمتوں کا مالک ہے۔ خدا ہی بانو قدسیہ کی مغفرت فرمائے اور ان کے اگلے جہان میں درجات بلند کرے۔ ہمیں کسی وقت بھی خدا کی مغفرت و رحمت سے مایوس ہونے کی چنداں ضرورت نہیں۔ بانو قدسیہ ایک انسان تھیں، اور انسان کے ساتھ ساتھ وہ ایک لکھاری بھی تھیں۔ لکھاری کی نجی شخصیت نہیں ہوسکتی، اسے اپنے کئے اور کہے کا ذمہ دار ہونا پڑتا ہے، کیونکہ لوگ کی ایک کثیر تعداد ان سے اثر لیتی ہے، اپنی زندگیاں ان کے فرمائے پر استوار کرتی ہے۔ اگر ان سے کچھ قابل سوال ہوا ہے تو انہیں بقول سعادت حسن منٹو مرحوم، رحمتہ اللہ علیہ کی کھونٹیوں پر نہیں ٹانکا جا سکتا۔ اگر کسی کے خیال میں وہ رحمت اللہ علیہ کی ہی سزاوار ہیں تو فرشتے، اہل دنیا کی باتوں میں نہیں آتے، آپ صبر جمع رکھیے۔

بانو قدسیہ کی تصویر
بانو قدسیہ

بانو قدسیہ لاہور کے متمول لوگوں کی ایک بستی کی رہائشی تھیں۔ کہتے ہیں کہ اس بستی کا نام ماڈل ٹاؤن ہے۔ راقم کی گستاخی، تجاہل اور کج فہمی کی درگزر کیجئے گا کہ اسے یہ پتا نہیں کہ جس گھر میں بانو قدسیہ اور ان کے مجازی خدا رہتے تھے ان کی ہمسائیگی کے سات، آٹھ گھروں میں رہائش پذیر خواتین اور حضرات کے نام کیا کیا ہیں؛ انہوں نے کہاں سے پڑھا ہے، کہاں پر لکھا ہے، کیا لکھا ہے؛ اور وہ کس چیز کو حلال سمجھتے ہیں، کس بات کو حرام مانتے ہیں، کن افعال کے کرنے سے جینز میں تغیر وقوع پذیر ہوتا دیکھتے ہیں؛ ان کے جینز کی پتلون پہننے والی اور مردود مغربی تعلیم کی حامل خواتین کے متعلق کیا خیالات ہیں، ان کے تصور حیات میں تصوف کا کیا مقام ہے؟ اتنے سارے سوالوں میں سے مجھے کسی کا بھی تو کچھ پتا نہیں۔ ہو سکتا ہے کہ بانو قدسیہ کی ہمسائیگی میں بھی وفاتیں ہوتی ہونگی؟ قوی خیال ہے کہ ہوتی ہونگی۔ سوال آسان سے ہی ہیں لیکن پھر بھی ان کے جواب نہیں آتے۔

اب جو بانو قدسیہ محترمہ دنیا سے رخصت ہوئیں ان کے مشہور ناول راجہ گدھ کی طرف آنے کی ہمت کرتے ہیں۔ تو جناب اگر تو محترمہ اتنے سارے لفظ لکھ کر گھر ہی پر رکھتیں، ان لفظوں سے مرتب کتاب کو شائع نا کرواتیں، اور اس کتاب کی شہرت نا کرواتیں، (یہی بات انہیں کی باقی تحریروں کی بابت بھی کہی جا سکتی ہے) تو کوئی بھی بانو قدسیہ کے گھر کے ساتھ والے گھر کے باسیوں کی طرح ان پر کچھ بات نا کرتا۔

صاحب بات یہ ہے کہ جب آپ افسانہ نگار اور ناول نگار ہوتے ہیں تو آپ صرف چھیالیس کروموسوم کا ایک انسان ہی نہیں ہوتے۔ آپ افسانہ نگار اور ناول نگار ہوتے ہیں۔ دہرایا ہے جملہ! آپ کے افسانے، ناول اور تحریریں کسی تصور حیات پر استوار ہوتی ہیں۔ کسی بھی لکھاری کا تصورحیات عوامی رسائی اور تبصرے کے لئے کھلا ہوتا ہے۔ ادیب مرجاتا ہے۔ اس کی کتاب اور اس کے مندرجات اور اور اس کا تصورحیات علمی و فکری تجزیوں کے لئے کھلا رہتا ہے؛ اسے غلاف میں ڈال کر مقدس رحلوں کے حفاظتی حصار میں نہیں رکھا جا سکتا۔ پہلے ہی بہت سی چیزیں تقدس اور ثقافتی رسمیات کے بارود، بم، برچھی، گولی اور ایمان کے کم سے کم درجے والوں کے ہتھیار عزیز، یعنی تبرہ کی نوک پر جھول رہی ہیں۔ مزید اضافے؟نا کیجئے، بہت زیادہ ہوجائے گا۔
راجہ گدھ، یا محترمہ بانو قدسیہ مرحوم کی دیگر تصنیفات ان کی نجی ڈائریاں نہیں، بلکہ انہوں نے ان تحریروں کے ذریعے اپنے اور اپنے شوہر مرحوم اور ان کے احباب کے نظریہ و تصور حیات کی تبلیغ کی ہے۔ اس تبلیغ اور تصور حیات کے منفی اور ذیلی اثرات کی تردید، توضیح اور تشریح سے کسی کو روکا نہیں جا سکتا کہ محترمہ اب دار فانی سے روپوش ہو چکیں۔ محترمہ کی کتابیں اور ان کتابوں کے اندر کا تصور اور فلسفہ کن حالات کی دین تھا، اور اس سے کن کو مقہور قرار دیا گیا، کن کو ایسی گولیاں تجویز کی گئیں کہ جن سے اپنے قاری کے اندر کے توانا اور عمل آمادہ انسان کو کچلنے کی کوشش کی گئی، اس پر نقد ہرکسی کا حق ہے۔

بہرحال جو تصور حیات بانو قدسیہ محترمہ، جناب اشفاق احمد مرحوم اور کسی قرار واقعی مرد ابریشم، یعنی قدرت اللہ شہاب اور ممتاز مفتی مرحومین نے دینے کی کوشش کی، ان کے متعلق یہ راقم تو اس بات کا قائل ہے کہ اپنے قاری کو متحرک اور عمل کی مثبت اثر پذیری پر یقین رکھنے والا نہیں بناتا، بلکہ مستئی خام میں ڈالتا ہے؛ وہ معاشرے کے پسے ہوئے طبقات کو اپنی تقدیر کے فیصلے کرنے پر نہیں ابھارتا بلکہ اپنے حالات سے سمجھوتہ کرنا سکھاتا ہے۔ وہ انہیں تقدیر کے جبر میں قید کرتا ہے؛ ایسا تصور حیات شاید رد اقبال کا وصف بھی رکھتا ہے۔ ایسا فکری انداز، حیات افروز نہیں بلکہ تقدیر پرست ہونے کا مشورہ دیتا تھا۔

اب اپنے اپنے دیکھنے کی بات ہے۔ اگر کسی کو دعوٰی ہوکہ وہ ناول کا لکھاری ہے، اسے کچھ کہنا ہے، جو اسے بے چین رکھے ہوئے ہے، اور وہ یا تو اردگرد کے حالات کو conserve کرنا چاہتا ہے، یا ان پر question اٹھانا چاہتا ہے؛ ان خیالات پر اس کی کیا فکریات ہے وہ اس کے فن پارے یا اس سے مرتب ہوتے تصورحیات کے لئے کٹہرے میں آ جاتا ہے۔ دنیا سے چل جانے پر رعایتوں کے تقاضوں اور سماجی دباؤ پر منٹو کے مضمون گنجے فرشتے سے ایک اقتباس ملاحظہ ہو:

“انہوں نے مجھے یقین دلایا ہے کہ دنیا کے ہر مہذب ملک اور ہر مہذب سماج میں یہ اصول مروج ہے کہ مرنے کے بعد خواہ دشمن ہی کیوں نہ ہو، اسے اچھے الفاظ کے ساتھ یاد کیا جاتا ہے۔ اس کے صرف محاسن بیان کئے جاتے ہیں اور عیوب پر پردہ ڈالا جاتا ہے۔ ویسے میں ایسی دنیا پر، ایسے مہذب ملک پر، ایسے مہذب سماج پر ہزار لعنت بھیجتا ہوں جہاں یہ اصول مروج ہو کہ مرنے کے بعد ہر شخص کا کردار اور تشخص لانڈری میں بھیج دیا جائے، جہاں سے وہ دھل دھلا کر آئے اور رحمتہ اللہ علیہ کی کھونٹی پر لٹکا دیا جائے۔” بحوالہ “گنجے فرشتے”، از منٹو نما، صفحہ 230، سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور۔

پس نوشت: ایک بار پھر کہتے ہیں کہ خدا کسی طرح بانو قدسیہ مرحومہ اور ان کے ہم مکتبان فکر کو اپنی بے پایاں رحمت اور مغفرت کی آغوش میں رکھے۔ لیکن ان کی لفظوں کی دکان کی بکتی افیون، جو حالات دنیا سے شترمرغ کی طرح ریت میں منھ چھپائی کا درس دے، اس سے خدا اپنی مخلوق کو مامون رکھے۔

About یاسرچٹھہ 240 Articles
اسلام آباد میں ایک کالج کے شعبۂِ انگریزی سے منسلک ہیں۔ بین الاقوامی شاعری کو اردو کےقالب میں ڈھالنے سے تھوڑا شغف ہے۔ "بائیں" اور "دائیں"، ہر دو ہاتھوں اور آنکھوں سے لکھنے اور دیکھنے کا کام لے لیتے ہیں۔ اپنے ارد گرد برپا ہونے والے تماشائے اہلِ کرم اور رُلتے ہوئے سماج و معاشرت کے مردودوں کی حالت دیکھ کر محض ہونٹ نہیں بھینچتے بَل کہ لفظوں کے ہاتھ پیٹتے ہیں۔

2 Comments

  1. بہت خوب ….مضمون نگار نے بانو قدسیہ کی تحاریر اور انکی فکر و دانش پر ایک نئے پہلو سے روشنی ڈالی ہے … بنیادی بات ھی یہی ہے کہ ہم بحثیت قلم کار کس اعلی اقدار ، فکری تشخص کے امین ہیں …. یہ بھی قلم کار پر لازم ہے کہ اپنے تخلیقی وفور کو جن سماجی محرکات کا آلہ کار بناتا ہے … وہ انسانی بھلائی اور آفاقییت پر مبنی ہو …

  2. بالکل درست تجزیہ۔
    جن شخصیات کے نام لئے گئے ہیں وہ دانستہ بور پر ایک مخصوص نکہ نظر کی تبلیغ اور آبیاری کرتے رہے ہیں۔ انھوں نے سرمایہ پرستی اور الوہی نظام حیات کو فروغ دینے کی کوشش کی ۔ ان کی تحریروں کی مستی نے ہمارے کئ دانشوروں کو بے حد متاثر بھی کیا۔ جو اب صرف اللہ اللہ کرنے کے قابل ہی ریہہ گئے ہیں اور انھیں پسے ہوئے طبقات کے گوناں گوں مسائل سے کوئ دلچسپی نہیں۔ یہ ایک طرح کا حقائق سے فرار بھی ہے جو ان کے نفسیاتی میکانزم میں حلول کر گیا ہے۔

Comments are closed.