آئی کے ایف کاچوتھا اجلاس: سماجی علوم کا ارتقا اور پاکستانی تناظر میں افادیت کے موضوع پر مکالمہ

(شاہ زیب خاں )
(استاد شعبہء انگریزی ،پنجاب یونیورسٹی، لاہور)

علم کو مقامی بنانے کی ایک کاوش جو کہ پنجاب یونیورسٹی کے اساتذہ نے شروع کی ہے، جس کے لیے آئی کے ایف یعنی انڈیجنائزنگ نالج فورم قائم کیا گیا ہے ۔ اس کے تین اجلاس پہلے ہوچکے ہیں۔چوتھا اجلاس گزشتہ دنوں اردو سائنس بورڈ ،لاہورکے میٹنگ روم میں منعقد ہوا۔ آئی کے ایف کے پہلی فیز میں بیانیہ کے حوالے سے بحث جاری ہے۔ در اصل اس گفتگو کا آغاز ڈاکٹر ناصر عباس نیر نے اپنے پہلے لیکچر میں بیانیہ پر گفتگو سے کیا،جس کا موضو ع تھا “متبادل بیانیہ ردِ نو آبادیات کے تناظر میں۔” ان کی گفتگو کے بعد سیر حاصل بات چیت کے نتیجے میں اتفاق اس بات پر ہوا کہ ہم ایک کبیری بیانئے کے دور میں رہتے ہیں اور ان حالات میں صرف مزاحمتی بیانیہ ہمیں کبیری بیانئے کا ہی اسیر بنائے گا اور ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم متبادل

Bina Goindi and Dr Aamir Saeed
Dr Ahmed Usman, Dr Akram Soomro, Asim Lodhi

بیانئے کی طرف توجہ دیں۔ اس کے لیے ضروری ہوگا کہ ہم زمینی حقائق کو اہمیت دیں، اپنی تاریخ، آب و ہوا، ماحول اور جغرافیے کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس خطے میں بسنے والے انسانوں کے نقطہ نظر سے علوم کی چھان پھٹک کریں۔ صرف نو آبادیاتی دور میں ہونے والی علوم کی انسٹی ٹیوشنلائزیشن کو تقدس کا جامہ پہنا کر علم کی جگالی کرنے سے ہمارے قومی، انسانی مسائل کے حل ہونے کا امکان بہت کم ہے۔
آئی کے ایف کے دوسرے اجلاس میں گفتگو کا محور پاکستانی یونیورسٹیوں میں سائنسی بیانیہ بنا۔ اس اجلاس میں نہ صرف پنجاب یونیورسٹی کے انتہائی فعال سائنسدان شریک ہوئے بلکہ نیشنل ایسوسی ایشن آف ینگ سائنٹسٹس کے صدر بھی شریک ہوئے۔ اس اجلاس میں اس بات پر اتفاق ہوا کے پاکستانی یونیورسٹیوں میں سائنس کا کوئی یانیہ سرے سے وجود ہی نہیں رکھتا اور اسی کے نتیجے میں سائنسی تحقیق بے سمتی کا شکار ہوتی ہے ، نیز جب ہمارے ملک کا نوجوان حکومت کے سکالرشپ پر پی ایچ ڈی کرنے جاتا ہے تو اس کے سامنے کوئی قومی ترجیحات نہیں ہوتیں اور وہ کسی واضح مقصد اوراپنے سماجی ماحول کی لازمی سائنسی ضروریات کے شعور کے بغیر،محض من موجی انداز میں اپنے تحقیقی ایریا کو منتخب کرتا ہے۔ اس تناظر میں یہ بات بھی زیر بحث آئی کہ ہیومینیٹیز (انسانیات) کے جملہ شعبے، خاص طور پر ادب کے شعبے سائنسی بیانیہ کی تشکیل کرنے میں مدد کر سکتے ہیں۔ اسی حوالے سے سائنس اور ہیومینیٹیز کے اشتراک کے بارے میں بھی گفتگو ہوئی اور ان شعبوں کے مابین خلیج کے کم کرنے پر بھی اتفاق ہوا۔ آئی کے ایف کے اس اجلاس کی خصوصیت سائنس، ادب ، فلسفہ اور سماجی علوم یا سوشل سائنسز کے اساتذہ کا اکٹھے بیٹھ کر ان امور پر تبادلہ خیال کرنا تھا۔
آئی کے ایف کا تیسرا اجلاس شعبہ ابلاغیات ، پنجاب یونیورسٹی میں ہوا جس کا موضوع قومی اور ریاستی بیانیے کی تشکیل میں میڈیا کا کردار تھا۔ اس اجلاس کی خصوصیت قومی اور ریاستی بیانئے میں موجود فرق پر ہوئی۔ یہ بات سامنے آئی کہ ریاست اصل میں قوم کی ہی نمائندہ ہے اور در حقیقت قومی بیانیہ ہی ریاستی بیانئے کی شکل میں سامنے آنا چاہئے مگر سماجی اداروں کی کمزوری اور دانشوروں اور خاص طور پر یونیورسٹیوں کا ریاستی لائن کو فالو کرنا اور قومی ، انسانی امنگوں کے مطابق علم کی تحقیق و تشکیل نہ کرنا ہی در حقیقت قومی بیانیہ کے خلا کو تشکیل دیتا ہے جس کوریاستی بیانیہ پر کرتا ہے۔ میڈیا چونکہ ایک پرائیویٹ کارپوریشن کے طور پر کام کرتا ہے لہذا اس سے یہ توقع رکھنا کہ وہ حقیقی قومی بیانیہ تخلیق کرنے میں پہل کرے گا یہ بعید از قیاس ہے۔ اسی طرح یہ بات بھی واضح ہوئی کہ اگر یونیورسٹیوں میں بھر پور علمی ڈسکورس کا آغاز ہو اور قومی بیانیے کی تشکیل کے حوالے سے بھر پور سرگرمیاں ہوں تو یقینا

Dr Nasir Abbas and Dr Amir Saeed

میڈیا کو بھی ان کی طرف توجہ دینا ہوگی۔آئی کے ایف کے دیگر اجلاسوں کی طرح اس اجلاس میں بھی مختلف شعبوں کے اساتذہ اور طلبانے شرکت تھی،اور انھوں نے سرگرمی سے حصہ لیا تھا۔
آئی کے ایف کے چوتھے اجلاس کا موجوع “سماجی علوم کا ارتقااور پاکستانی تناظر میں افادیت” قرار پایا۔ اس اجلاس کی بحث کا مرکزی نکتہ وہ تناظر تھا جس میں سوشل سائنس کا علم یورپ کی یونیورسٹیوں میں سامنے آیا۔ اس حوالے سے انسٹی ٹیوٹ آف ایڈمنسٹریٹو سائنسز کے ڈاکٹر عامر سعید نےگفتگو کا آغاز کیا۔ڈاکٹر عامر سعید نے پبلک ایڈمن میں یونیورسٹی آف اتریخ، ہالینڈ سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے ، انہوں نے یورپ کی تاریخ کے تناظر میں نیچرل سائنسز کی طرز پر سوشل سائنس کی اٹھان پر اعتراضات اٹھائے اور اس کے نتیجے میں جنم لینے والے مسائل کے حوالے سے نشاندہی کی۔
ان کے بقول مذہب کی نیچرل سائنس میں مداخلت کے نتیجے میں ایک ردِ عمل سامنے آیا اور مذہب کو بطو ر علم کے ماخذ کے حوالے سے ریجیکٹ کر دیا گیا۔آگسٹ کامٹے کا ذکر کرتے ہوئے سوشیالوجی کا بطور سوشل سائنسز کی ماں ہونے کے بھی تذکرہ ہوا۔ سائنسی نالج کے یونیورسل ہونے کی خصوصیت کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر عامر نے اس کو سوشل سائنس کی بنیاد کی خواہش قرار دیا۔یہ بتاتے ہوئے انہوں نے سائنس اور سوشل سائنس کے آبجیکٹس آف نالج کے فرق کوواضح کیا۔ انسان کو بطور آبجیکٹ آف سٹڈی سمجھنے کی پیچیدگیوں کو بھی واضح کیا۔
ڈاکٹر احمد عثمان جو کہ سوشیالوجسٹ ہیں اور برطانیہ کی لیڈز یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی حاصل کر چکے ہیں اور پنجاب یونیورسٹی کے انسٹی ٹیوٹ آف سوشل اینڈ کلچرل سٹدیز سے وابستہ ہیں، انہوں نے سوشل سائنسز کے ہی اندر رد ثبوتیتی (anti-positivist)تحریکات کا ذکر کرتے ہوئے اس بات کی جانب اشارہ کیا کہ کس طرح سوشل سائنس کے اندر ہی ایک ایسی سکت موجود ہے کہ یہ بدلتے تناظر میں بھی اپنی افادیت کو برقرار رکھ سکتی ہے۔ اسی کے ساتھ انہوں نے سماجی تشکیلی(social constructivist) تصورات کو واضح کرتے ہوئےمختلف تھیوریز کا ذکر کیا۔
ڈاکٹر عامر سعید کا بنیادی اعتراض تجزیاتی علمیات (analytical epistemology) کے بنیادی مفروضات کے حوالے سے تھا ۔ اسی تناظر میں نوجوان صحافی اکمل سومرو نے پاکستانی تاریخ میں سوشل سائنسز پر آنے والے حکومتی اثرات کے حوالے سے گفتگو کی اور بیان کیا کے کس طرح حکومت اپنے مفادات کے تابع اقدامات اٹھاتی ہے اور اس کے پیش نظر علم کی حقیقی ترقی نہیں ہوتی۔ ڈاکٹر ناصر عباس نیرنے اس بات کی طرف توجہ دلائی کہ اگر ہمیں سماجی علوم پر تنقید کرنی ہے یا متبادل بیانیہ تشکیل دینا ہے تو اس کام کو ہمیں تاثرات و توہمات سےآزاد ہوکر،قوی دلائل اورقابل قبول شواہد کے ساتھ انجام دینا ہوگا۔ بلاشبہ سماجی سائنسوں کے منہاج ، فطری سائنسوں کی ہوبہو نقل نہیں ہیں،مگر وہ ہیں بہ ہر حال سائنسی ۔انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ سوشل سائنسز کو معاشرے کی تشکیل میں ایک کلیدی کردار ہے اور جب تک ان کو مقامی تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں کیا جائے گا تب تک حقیقی ترقی کا خواب ادھورا ہی رہے گا۔
انہوں نے اس حوالے سے بھی سوال اٹھایا کہ کوئی سماجی علم جو کہ ایک خاص تناظر میں تخلیق ہوتا ہے کیااس میں عمومیت ہوسکتی ہے؟ ان کا خیال تھا کہ اس کا جواب ہاں یا ناں میں ممکن نہیں۔ بعض صورتوں میں عمومیت ہوسکتی ہے ،بعض صورتوں میں نہیں۔
ڈاکٹر ناصر عباس نے سب سے پہلے عملی مکالموں کے اردو میں ہونے کو خوش آئیند قرار دیا اور کہا کہ جب اہم عملی مسائل پر اردو میں گفت و شنید اور بات چیت کا عمل ہوگا تبھی زبان بھی ایک جاندار زبان کے طور پر سامنے آئے گی۔ انہوں نے کہا کہ اردو سائنس بورڈ اپنی تصورِ سائنس میں سوشل سائنس کو بھی داخل سمجھتا ہے اور اس کے فروغ کے لیے کوشاں ہے۔ تصورِ مغرب سے مراد تکثیری مغرب ہے۔ مغربی ماڈرنزم میں مختلف طرح کے ماڈرنزمز کا ذکر ہے۔ سماجی علوم کا تقاضا ہے کہ یہ تخصیص کریں۔ اسی طرح مشرق میں بھی بہت تکثیریت ہے۔ لہذا ضروری ہے کہ اصطلاحات کی تعمیم سے بچتے ہوئے ٹھوس حقائق کی بنیاد پر گفتگو آگے بڑھائی جائے۔ انہوں نے سائنس اور سائنٹز م کے فرق کوبھی واضح کیا۔ سائنٹزم در اصل سائنس کوعلم کے حتمی منبعے ( الٹیمیٹ سورس آف نالج ) کے طور پر پیش کرنے کا ایک کلٹ ہے ،جب کہ سائنس علم کا معتبر ذریعہ ہے ، مگر یہ سائنس اپنے اندر متبادلات کی نفی نہیں کرتی۔انھوں نے کہاسائنس کی تمام دنیا کو ضرورت ہے اور اس سے پہلو تہی ممکن نہیں مگر سائنس کو مذہب بنا دینا اور یہ کہنا کہ سائنس ہی ایک جامع تصور حیات ہے یہ سائنٹزم ہے۔ سوشل سائنس کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ان کوایک متبادل کے طور پر سامنے آنا چاہئے۔ مقامی رائے جس کی بنیاد پر انڈیجنائزنگ کا عمل ہو وہ بھی اتنی ہے سائنٹیفیک ہونی چاہئے۔ سوشل سائنسز کو ایک کلیدی رول اداکرنا ہے۔ سوشل سائنسز کے خیالات سوسائٹی تک آنے چاہئیں۔ادیبوں ،دانشورو ں اور سماجی سائنس دان استفہامی آواز (Interrogative voice)کی نمائندگی کرتے ہیں۔
شہریار حیدر(لیکچرار) نے مذہب کی اپروپرئیشین(appropriation) کے حوالے سے گفتگو کی اور اس کے نتیجے میں سوشل سائنس کو پیچھے دھکیلنے کی طرف اشارہ کیا اور اس کو ایک عالمی مظہر (phenomenon) قرار دیا اور ملک میں مذہب کی مختلف فرینچائز ز (franchises)کی بات کرتے ہوئے سرمایہ داریت اور کنزیومرزم کے دور میں مذہب کے کردار کی طرف توجہ دلائی۔انہوں نے مزید کہا کہ کچھ طاقتیں ایسی ہیں جو سوشل سائنس کو سائنس کے سامنے اور مذہب کو سائنس کے سامنے لا کھڑا کرتے ہیں۔ اس تناظر میں مظہریات (phenomenology)کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ہمارے یہاں اس کو فروغ دینا چاہئے تاکہ مقامی لوگوں کو اپنے اوپر اعتماد پیدا ہو۔
راقم نے گفتگو کو سمیٹنے کی سعی کرتے ہوئے اور موضوع کی جانب گفتگو کو واپس لانے کے لئے شرکاء کے سامنے دو سوال رکھے۔کیا سماجی علوم کی جو تحقیق کی جا رہی ہےوہ معاشرے کے لیے کار آمد ہے؟ انڈجنائزنگ کے عمل کی کیا جہات ہونگی؟
ڈاکٹر احمد عثمان نے اس حوالے سے کہا کہ نالج پروڈکشن میں کنٹریبیوشن کو معاشرے سے علیحدہ کر کے نہیں دیکھ رہے اور یہ کہ پاکستان میں سوشل سائنس کی تھیوری میں کسی سوشل سائنٹس کی خاطر خواہ خدمات نظر نہیں آتیں۔ انہوں نے حمزہ علوی کی بات کی اور ذکر کیا کہ پالیسی تحقیق میں کچھ نام ہیں۔پاکستانی سماجی سائنس دانوں نے نظری (تھیوریٹیکل)میدان میں کام بہت کم کیا ہے ۔ ایس اکبر زیدی کے مونوگراف ڈسمل سٹیٹ آف سوشل سائنسز کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ انفرادی اور سماجی اقدار سے سماجی علوم کا گہرا تعلق ہے۔ ایکیڈیمک سپیکٹرم آف نالج کم ہے۔ معاشرے میں رواداری کم ہے۔ جمہوری رویے مضبوط نہیں ہیں۔ آزادانہ اظہار رائے ایک مسئلہ ہے۔ تحقیق جو” نیشنل انٹرسٹس” کے خلاف ہے اس کو روکنے کے پروانے یونیورسٹی میں بھیجے جاتے ہیں۔ جینڈر کے سبجیکٹ، سوشیالوجی آف ریلیجن وغیرہ کے پڑھانے میں مسائل سامنے آتے ہیں۔ مزید یہ کہ ادارہ جاتی لیول پر تحقیق نہیں ہو رہی۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ کے تناطر میں میں دو شعبے، سیاسیات اور معاشیات میں بڑھوتری کا عمل نظر آتا ہے۔ باقی علوم نظر انداز ہوئے۔ 1971 سے 1979 تک سماجی علوم اور ایریا سٹڈیز سینٹرز بنائے گئے۔ پھر اسلامائزیشن کا آغاز ہوا اور مشرف دور میں پھر ایکنامکس کا دور آیا۔ ریاست، پولیٹیکل ایکانمی الغرض ریاست نے جو چاہا اس طرح کے علوم سامنے آتے رہے۔
اکرم سومرو، جن کا تعلق انسٹی ٹیوٹ آف کمیونیکیشن سٹڈیز سے ہے انہوں نے کلیدی سوالات اٹھائے اور کہا کہ انسان کیا ہے۔ آغاز یہاں سے ہوتا ہے۔ کمیونسٹ معاشرے اور سرمایہ پرست معاشرے مادیت کے اصول پر ہیں۔انہوں نے اپنے مخصوص حالات میں کچھ طے کر کے اپنے معاشروں کو تشکیل دیا ہے۔ سوچنا یہ ہے ہم ایسا کرنے سے کیوں قاصر ہیں۔ ہمارے ماضی میں علم کی کیا تحقیق و تخلیق ہو رہی ہے ۔ہم اس اپیسٹمالوجی سے کیسے کٹ گئے؟ ۔ اکبر کے دور کا کلامیہ کیا تھا؟معاشرہ، فرد، انسان وغیرہ ان سب کے حوالے سے یہاں ایک بحث موجود تھی، یہ سب علم یہاں تخلیق ہوئے۔ ان تک دوبارہ رسائی کی ضرورت ہے۔ جو علوم مغرب نے دریافت کئے یا ان کو نکھارا انکوبھی اپنانے کی ضرورت ہے مگر انسانی اصولوں پر نہ کے سرمایہ دارانہ تصورا ت کی بنیاد پر۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہماری اپنی بھی ایک پرواز تھی ۔ ہر کلیدی اور اہم سماجی موضوع پر ہمارے یہاں کے دانشوروں نے کچھ لکھا ہے ضرورت اس بات کی ہے کہ اس تک رسائی حاصل کی جائے۔ مثلا شاہ ولی اللہ نے شہر بسانے وغیرہ کے حوالے سے اپنی کتاب حجتہ البالغہ میں بات چیت کی ہے، اس کو بھی آج گلوبل سٹیزنشپ کو دور میں پڑھنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ تصورات جن کا جینیسس اس دھرتی سے ہوا ہے اس سے بھی ہمیں اور دنیا کو فائدہ حاصل ہو۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہمارا نوجوان اپنے ماضی سے کٹ گیا ہے اور شناخت سے کٹےشخص کی کیا وقعت ہوتی ہے؟ ۔ اس شناخت کے مطابق علم کی تخلیق ناگیزیر ہے۔ بدیسی علم، خصوصا سماجی علم جو یہاں تخلیق نہیں ہوا اس سے ہم اپنے مسائل حل نہیں کر سکتے۔
ڈاکٹر ناصر عباس نیر ، ڈائریکٹر جنرل اردو سائنس بورڈ نے آخر میں آئی کے ایف کے تمام ممبران کا شکریہ ادا کیا اور آئی کے ایف ، پنجاب یونیورسٹی، جس کے وہ خود بھی تاسیسی ممبران میں سے ہیں، ان کوپیش کش کی کہ وہ مزید پروگرام بھی اردو سائنس بورڈ میں منعقد کر سکتے ہیں۔