یہ زمیں چپ ہے ، افسانہ از، منزہ احتشام گوندل

Munazza Ehtisham Gondal

یہ زمیں چپ ہے ، افسانہ از، منزہ احتشام گوندل

……………..

وہ کسی کو کچھ نہیں بتا رہی تھی۔

گھر میں موجود سبھی افراد حق دق تھے۔ چپ چاپ سینوں کے اندر بھانبھڑ مچاتے اضطراب کو دبائے پیڑی زدہ ہونٹوں کے ساتھ زرد چہرے لیے لاشیں چل پھر رہی تھیں۔ بوا خانم کے سینے سے ایک دم ہچکی نما ہو کا نکلتا اور تخت پہ بیٹھی بیٹھی ایک جھٹکا لے کر بے دم ہوجاتیں اور اس کے بعد آنسو جو جھر جھر بہتے تو رکنے کا نام نہ لیتے۔

ابا جی یکسر خاموش تھے۔ بڑے اعتماد سے تسبیح کے دانے گراتی انگلیاں اب کانپنے لگی تھیں امی تو بس حالتِ نوم میں تھیں۔ جاگی ہوئی یا ہوش میں لگتی ہی نہیں تھیں مگر مسلسل روٹیاں بنائے جارہی تھیں۔ اس کا بیگ ابھی تک برآمدے کی آخری سیڑھی پر ستون کے ساتھ پڑا تھا۔ خالد کی بے وقت موت کے بعد ایک ماہ کے اندر اندر ہی یہ اس خاندان کے لیے دوسرا بڑا جھٹکا تھا۔

مین گیٹ سے اندر قدم رکھتے ہی میں نے اشرف سے پوچھا کہ خیریت تو ہے حالاں کہ مجھے گھر کے چوکیدار سے اس طرح کی بات اخلاقاً کرنی نہیں چاہیے تھی مگر گھبراہٹ اور بے بسی نے مجھے بھی بوکھلا دیا تھا۔ مگر اس کے چہرے پر پریشانی کے کوئی آثار نہیں تھے۔ اس نے بتایا کہ وہ تو ابھی ابھی اپنے گاؤں سے ہوکے واپس ڈیوٹی پر لوٹا ہے۔ فی الحال تو خیر ہے اس کی آمد سے قبل یہاں کچھ ہوا ہو تو اسے نہیں معلوم! میں نے اس کی بات کو درمیان میں ہی چھوڑا اور قدم آگے کی طرف بڑھا دیے۔

برآمدے کے تخت پہ بیٹھی بوا خانم بے دم ہو رہی تھیں۔ بھاری جسم جو سیاہ لباس کے اندر بڑا مقدس لگتا تھا گِریہ کی وجہ سے ہلکورے لے رہا تھا۔ ابا جی کی کپکپاتی انگلیوں پر نظر ڈالنے کے بعد نگاہ نے ان کے چہرے کی طرف جانے سے انکار کردیا تھا۔ میں نے اس ماتم کدے کی وحشت سے گھبرا کر ذرا آگے ہوکر کچن کے کھلے دروازے سے گردن لمبی کرکے جھاتی ڈالی۔ امی مُندی مُندی آنکھوں کے ساتھ روٹیاں بنائے جارہی تھیں۔ ایسے ایسے روزِ ازل سے اسی کام کے لیے پیدا کی گئی ہوں۔

ہاں تو یہ غلط بھی کب ہے؟ عورت اور پیدا ہی کس لیے ہوتی ہے۔ خدمت کرنے، برداشت کرنے اور سہنے کے لیے ہی تو پیدا کی گئی ہے۔

جس دن لویزا کے شوہر نے اس کے بھائی کو قتل کرکے اپنی بہن اقلیما کے ساتھ شادی کرلی تھی عورت کو تو اسی دن برداشت اور سہنے کا سبق مل گیا تھا۔

ایک عورت نے بھائی کے قتل کا صدمہ سہا اور شوہر کے چھن جانے کا ۔۔۔۔۔۔

تو دوسری نے شوہر کے قتل اور بھائی کے ساتھ زوجیت کے جبر کو برداشت کیا۔

کیا ہی اچھا ہوتا جو دونوں اکلوتے قابیل پر جھپٹ پڑتیں اور اسے قتل کر دیتیں۔ تو آج ہم ایک قاتل اور قابض مرد اور ایک مجبور عورت کی اولاد تو نہ ہوتے۔ دونوں آپس میں شادی کرلیتیں۔ جو خدا کو یہ منظور نہ ہوتا تو وہ باغ عدن سے کوئی نیا مرد ان کے لیے بھیج دیتا۔ اور اگر خدا کو دونوں کے لیے ایک ہی مرد منظور نہ ہوتا تو دو مرد بھیج دیتا۔ کیونکہ بالآخر خدا کو بھی تو اپنا کاروبار چلانا تھا۔ وائے افسوس کہ دونوں پہلے ہی دن سہم گئیں، برداشت کرگئیں ، اور آج تک کرتی آرہی ہیں۔

ابھی میں اپنے خیالوں کے تلچھٹ سے باہر نہ آئی تھی کہ کند ھے پر ہاتھ کا دباؤ پڑا میں نے مُڑ کر دیکھا تو عائشہ کھڑی تھی۔ میں نے اشاروں میں پوچھا تو اس نے بتایا کہ وہ اندر خالد والے کمرے میں پڑی سورہی ہے۔

شکرکے ساتھ میں نے ایک گہرا سانس خارج کیا اور عائشہ کے ساتھ ہی برآمدے میں رکھے صوفے پر بیٹھے گئی۔ میں اس سوئے ہوئے محل کی خاموشی کو پاش پاش کرنے کی طاقت سے محروم تھی۔ بے بسی اور لاچاری نے میری اعصاب کو بھی آکٹوپس کی طرح جکڑ لیا تھا۔

رات کو آئی ہے بہت چیختی، چِلاتی، دھاڑیں مار مار کے روتی رہی۔ پہلے تو یہی سمجھتے رہے کہ خالد کی وجہ سے ہے۔ خالد سے محبت بھی تو بہت کرتی ہے ۔عائشہ کی آنکھیں چھلچھلا آئیں اور گلہ رندھ گیا۔ ایک دفعہ سوچا کہ ابھی فون کرکے تمہیں بلا لیں کہ شاید تم اسے سنبھال سکو پھر سوچا رات بہت ہوگئی ہے۔ ہم تو اذیت میں ہیں ہی تم کو بھی نہ ڈال دیں۔ بہت ہی hiigh potency کی مسکن دوائی دودھ میں ڈال کے دی تو سوئی اور اب تک سورہی ہے۔ اس نے سِسکیوں اور سرگوشیوں میں اپنی بات ختم کی اور کچن کی طرف چل دی۔

میں نے آہستہ سے بوا خانم پر نظر ڈالی کہ تحت پہ نیم مدہوش سی پڑی تھیں۔ ابا جی جانے کب آہستہ سے اٹھ کے چلے گئے تھے وہ قدم بھی تو بہت آہستہ اٹھاتے تھے لگتا تھا ہوا کے اوپر چل رہے ہوں۔ یہ گھر میرا اپنا تھا۔ اگرچہ ابا جی میرے حقیقی والد اور امی میری حقیقی والدہ نہ تھیں۔ مگر مجھے ہمیشہ اس گھر اور ان رشتوں سے سگوں جیسا پیار ملا تھا۔ یہ میرے مومنہ کے ابا جی اور امی جو تھے اس لیے میرے بھی تھے۔

میں اٹھ کر خالد کے کمرے کی طرف لپکی۔ کواڑ پہ ہاتھ رکھا تو دماغ ہچکولا کھا گیا۔ میرے ہاتھ کے نیچے کہیں خالد کے ہاتھ کا لمس تھا۔ مومنہ کا اکلوتا جوان سال، خوبرُو بھائی زندگی کی حرارت سے بھرپور، جب قہقہے لگاتا تو بھرپور قہقہے اس کے حلق سے اُبلا کرتے کہ امی گھبرا جاتیں اور پھر رکنے پر نہ آتے۔ زندگی کی رگوں سے قطرہ قطرہ راحت کشید کرنے پر مائل، چھ فٹ کا گبھرُو، سنجیدہ سے سنجیدہ بات کو مذاق کے انداز میں اڑا دینے کی اس کی عادت امی اور بوا خانم کو بہت کھٹکا کرتی تھی۔ بوا تو سچ مچ کی کبیدہ خاطر ہوجاتیں اور پہروں اس کی ہدایت اور اصلاحِ نفس کی دعائیں کیا کرتیں۔ سجنے، سنورنے کا شوق۱سے عورتوں کی طرح تھاا ور اس پھر عجیب عادت اور مزاح کہ گھر کے کسی نہ کسی بچے کو شیشہ پکڑا کے سامنے کھڑا کیا ہوا ہے۔ خود بوا خانم کے تخت یا ابا جی کی کرسی پر بیٹھا ہے ہاتھ میں کنگھا ہے گھنٹوں سے بالوں کے ڈیزائن بناتا جارہا ہے۔ ساتھ ساتھ ہاتھ میں شیشہ پکڑے بچے کو ہدایات بھی جاری کررہا ہے۔ اوپر کرو، نیچے، ادھر او یار ذرا اس طرف اور بے چارے بچے کی حالت ہوجاتی۔ اور جو بالوں کی مانگ اور سٹائل پر مطمئن ہوجاتا تو بے دم ہوا بچہ شکرانہ پڑھتا کہ جان چھوٹی مگر جان اتنی آسانی سے کہاں چھوٹتی تھی وہ بھی خالد سے، جو بچے تھک جاتے وہ فارغ ہوجاتے اور تازہ دم اس کی خدمت پر مامور ہوجاتے۔

اوئے کامران۔ اوئے ادھر آ یار یہ شیشہ پکڑ۔ اس کی ٹانگوں میں تو جان ہی نہیں ہے۔ پالنے سے نکلتے نہیں کہ بوڑھے ہوجاتے ہیں یہ آج کل کے بچے۔ وہ یکسر اتنی دیر تک مفت میں خدمت کرنے والے بچے کی خدمت کو بھول جاتا اور پھر مونچھوں کی باری آجاتی دیر تک مونچھیں مروڑی جاتیں۔ طرح طرح کے زاویے بدل بدل کر دیکھی جاتیں، جانے مطمئن ہونے والا دماغ تو اس کو خدا نے دیا ہی نہیں تھا۔

امی اور بوا خانم جب یوں بن سنور کر اسے گھر سے نکلتے دیکھتیں تو خیر خیر پکارتیں مگر خیر آخر کب تک رہتی ہے۔ ہر خوبصورت، نفیس اور قیمتی چیز کے مقدر میں موت ذرا جلد لکھ دی گئی ہے۔ کاغذ اور کپڑے کے پھول نہ کبھی مرجھاتے ہیں نہ ان کے رنگ اُڑتے ہیں مگر جیتے جاگتے پودے پہ کِھلا پھول تین دن سے زیادہ کھلا نہیں رہ سکتا کہ مرجھا جاتا ہے۔ خالد بھی ایک دن یونہی آئینوں اور بچوں کو نچاتا گھر سے نکلا اور سرخی میں ڈوبا گھر آگیا۔ سارا گھر لہو لہو تھا۔ لہو لہو کہاں تھا۔ لہو تو سارے گھر کا وہ کہیں ساتھ ہی لے گیا تھا۔ میں وہیں کھڑی تھی ۔ میرے ہاتھ کے نیچے اس کی ہتھیلی کا لمس تھا۔ اس جگہ دروازے کے ہینڈل پر اس کے خوبصورت مردانہ ہاتھ کا گرم دباؤ پڑتا ہوگا۔ انسا ن مرتا تو ہے مگر مرنے کے بعد پتا نہیں کہاں کہاں چپک جاتا ہے۔ خالد کی آواز، اس کا لمس، اس کی موجودگی، اس کے آفٹر شیو لوشن اور پرفیوم کی خوشبو ہر چیز جو اس کی نمائندہ تھی ابھی تک تروتازہ تھی۔

دروازے پہ ہاتھ کا دباؤ ڈالا تو وہ کھل گیا۔ کمرے میں اندھیرا تھا۔ عجیب سی اداسی اور سوگواری اندھیرے میں مل گئی تھی۔ میں نے بیڈ پر نظر ڈالی، بیڈ خالی تھا۔ صوفہ بھی خالی تھا۔ نظر بےاختیار نیچے فرش پر چلی گئی جہاں وہ پڑی سو رہی تھی۔ اچانک ایک آنسو ٹوٹ کر میری پلکوں کی باڑھ پار کرگیا۔ مومنہ میری بچپن کی دوست اور عزیز تھی، بہت نرم، صاف اور خوبصورت دل کی مالک، بچپن سے جوانی تک کے مرحلے ہم نے ایک ہی ساتھ تو طے کیے تھے۔ مگر اس کی شادی اور میری ملازمت نے ہم دونوں کو جدا کردیا تھا۔ میں اس کے اور وہ میرے دکھوں، سُکھوں اور رازوں کی سانجھی تھی۔ مل کے کپڑے ڈیزائن کرنا، کھانے بنانا، سکول کالج کے کام کرنا ہمارا مشغلہ تھا۔ حتیٰ کہ کالج آتے جاتے ہوئے جو ایک دوبار ہمیں آوارہ مردوں اور لڑکوں نے تنگ کیا توان کی بدتمیزیوں کو روکنے کے لیے حکمت عملی بھی ہم دونوں نے مل کر وضع کی تھی۔ خالد کی بڑھتی ہوئی شرارتوں کے آگے بند باندھنے کا کام بھی ہم دونوں کا تھا۔ اس نے شادی سے قبل جی بھر کے ابا جی اور خالد سے محبت کی اور شادی کے بعد شوہر کی بھی ایسی ہی جانثار بیوی بن گئی تھی۔ ندیم، ندیم کیے جاتی۔ ہر وقت اس کے آگے پیچھے۔ ندیم بھی اس کا شیدائی تھا۔ مگر اب یہ ایسی کون سی قیامت ٹوٹی تھی کہ ندیم نے اچانک اس کو طلاق دے دی۔ وہ بھی اس کے اکلوتے نوجوان بھائی کی بے وقت اور حادثاتی موت کے محض ڈیڑھ ہفتے بعد۔۔۔۔۔۔

وہ کسی کو کچھ بتا نہیں رہی تھی۔ اور گھر کا ہر فرد چپ تھا۔ سب ایک دوسرے کو اس نازک کانچ کی طرح لگ رہے تھے جو زور کے سانس سے بھی تڑخ جاتا ہے۔ سناٹا دیوار ودر کے اندر کیکٹس کی طرف اُگ آیا تھا۔ ایسا کیا ہو گیا تھا مومنہ سے جو ندیم نے طلاق دے دی۔ گھر کے اندر چپ کے ڈیرے تھے اور چپ کی بُکل میں اندیشے، وسوسے، خوف اور رسوائیاں چھپی تھیں۔ دماغوں کے اندر خوف کلبلا رہے تھے کیونکہ اس گھر کی بیٹی کو طلاق ہوئی تھی۔ ہاں یہ اور بات ہے کہ اگر اسی گھر کے مرد نے طلاق دی ہوتی تو دماغوں کے اندر خوف اور اندیشوں کی بجائے وضاحتیں اور تاویلیں کلبلا رہی ہوتیں۔ مائیں بیٹیوں کی پیدائش پر اس  لیے خوش ہوتی ہیں کہ ان کے ساتھ اندیشے اور رسوائیاں جنم نہیں لیتیں مگر بیٹی کے جنم کے ساتھ ہی خوف، خدشے اور اندیشے بھی جنم لے لیتے ہیں جو کہ آخری سانس تک جان کا بوجھ بنے رہے ہیں۔

میں نے آہستہ سے پاس بیٹھ کر اس کے بالوں کو سہلایا تو آہستہ سے اس نے آنکھیں کھولیں۔ مسلسل رونے سے آنکھیں متورم ہوگئی تھیں وہ آہستہ سے اٹھی اور وہیں قالین پر بیڈ کے ساتھ سر کی ٹیک لگا کر بیٹھ گئی۔ میں نے اس کا سرپکڑ کر اپنے سینے کے ساتھ لگا لیا۔ اس گھر کے ہر بے بس فرد کی طرح میں بھی بے بس تھی۔ وہ پھر پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع ہوگئی اور میں چپ چاپ اس کے بالوں کو سہلاتی رہی۔ مومنہ کچھ بتاؤ تو سہی ہوا کیا ہے؟ مجھے اپنی آواز کہیں اور سے آتی ہوئی لگء۔ کیا ہوا تھا ایسا کہ ندیم نے ۔۔۔۔۔۔

سب لوگ بہت پریشان ہیں ۔ خدا را بتاؤ کیا ہوا؟ اس کی آنکھوں میں ایک دم حیرت اور دکھ سمٹ آیا۔ وہ بے پناہ تاسف اور حیرت کے ساتھ میری طرف دیکھتی رہی، اس کے ہونٹ کانپ رہے تھے۔ تم سب لوگ تو یوں میری تفتیش کررہے ہو جیسے میں گناہ گار ہوں۔ میں نے کوئی گناہ کیا ہے جس کی پاداش میں ندیم نے مجھے ۔۔۔۔۔۔

وہ پہلے تو سسکی پھر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگ گئی۔ کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کروں اگلا کتنا ہی وقت پھر اس کو سمیٹنے میں لگ گیا جب ذرا بحال ہوگئی تو میں اٹھ آئی۔

ندیم کے گھر میں بھی سناٹا تھا۔ مومنہ سے ہر بندہ مایوس ہوگیا تھا۔ وہ طلاق کی وجہ بتا نہیں پا رہی تھی۔ ہر طرح سے کوشش کرکے دیکھ لی۔ کئی بار بولنے پر آئی مگر پھر لب کپکپاکے بھینچ گئے اور پھر کبھی نہ کھلے۔ مایوس ہوکر میں نے ندیم کے گھر کی راہ لی تھی۔ امی اور عائشہ کا بھی یہی مشورہ تھا۔ گھر میں سناٹا تھا۔ یہ سناٹے تو سکندر ہی بن گئے ہیں ہر طرف اب انہی کا راج ہے۔ میں نے کھنگورا مارا تاکہ خوب گلا پھاڑکر کسی کو آواز دے سکوں کہ بغل کے کمرے سے آہستہ سے چپل گھسیٹنے کی آواز آئی اور اگلے ہی چند لمحوں میں بھابھی رضیہ کمرے سے باہر تھیں۔ خاموشی سے گلے ملیں اور چپ چاپ کتنی ہی دیر مجھے ساتھ لگائے رہیں۔ پھر اسی خاموشی کے ساتھ اپنے کمرے میں لے آئیں۔

میں نے اپنا مدعا بیان کیا۔ مگر وہ چپ رہیں۔ ہر طرف چپ کا راج تھا۔ جانے راز کیا تھا۔ مگر وجہ جاننا بھی ضروری تھا۔ ادھر گھر کے سارے لوگ بے موت مررہے تھے۔ مومنہ بے قصور ہو کر بھی اعتراف یا اقرار کی جرأت سے خالی ہوچکی تھی۔ بھابھی رضیہ ہی اس راز کو واشگاف کرسکتی تھیں۔ میں نے تھک ہار کر انہیں ہاتھ جوڑ دیے۔ بھابھی رضیہ کا سانس حلق میں اٹک گیا۔

بس کر، بس کر، بس کر اور میرے ہاتھ پکڑ کر اگلے ہی لمحے وہ کھل گئیں۔ اب کی بار سانس میرے حلق میں اٹک گئی۔

’’کتا، دلا، بے غیرت، لعنتی، جہنمی، دوزخی، یہودی، مجوسی، جو جو گالی اس وقت میرے مُنھ میں آئی میں نے ندیم کی طرف غائبانہ اچھال دی۔

میرا بس چلتا تو اس مردار خور، گِدھ کے ٹکڑے ٹکرے کر کے کسی کتے کے آگے ڈال دیتی۔

مومنہ کی بے بسی کی مجھے اب سمجھ آئی تھی۔

جوان بھائی کی موت کے صدمے سے سلگتی مومنہ اس کے بستر پر جانے کے لیے خود کو تیار نہ کر سکی تھی تو کیا یہ اتنا بڑا جرم تھا کہ اس کو طلاق دے دی جاتی؟

’’وہ کم از کم خالد کی موت کے پندرہ دن تو گزرنے دیتا ‘‘۔

میرا جی چاہا کہ یہ فرش چاک ہوجائے۔

اور میں اتنی زور سے چیخوں کہ پھیپھڑے پھٹ جائیں۔