ٹیڈ ہیوز کے شکرے کی بانگ ہمارے کان میں کیا کہتی ہے؟

شکرے کی بانگ

ٹیڈ ہیوز کے شکرے کی بانگ ہمارے کان میں کیا کہتی ہے؟

از، یاسر چٹھہ

ہماری یاد داشت میں بہت کچھ زیریں سطحوں پر سیال حالت میں موجود ہوتا ہے۔ اوپر حالات نے موسموں کی برف اور سماجی و سیاسی خوف نے کائی جمائی ہوتی ہے۔ ٹیڈ ہیوز نظم Hawk’s Roostingکیوں یاد آئی؟ ترجمہ کیوں کر دیا؟

اگر اس ترجمے کے مطالعے کی بعد بھی یہ سوال بر قرار رہیں تو اپنے ارد گرد دیکھ لیجیے گا۔ ٹیڈ ہیوز ففتھ جینریشن جنگ جُُو نہیں تھے۔ وہ صرف ایک شِکرے کی بات کرتے ہیں۔ اب ہر جگہ کا شِکرا، الگ طور سے علامتی تجرید سے ٹھوس بھیانک شکل میں تعبیر پاتا ہے۔ دیکھیے اور جانیے ہم کون ہیں، اور سیاسیات و معاشرت کی حسابی مساوات میں ہماری اوقات کیا ہے۔

……

شِکرے کی بانگ

میں جنگل کے سب سے اونچے درخت پر بیٹھتا ہوں، اپنی آنکھیں مِیچے رکھتا ہوں

میرے خم دار سر میں نا اونگھ، نا نیند، میرے نوکیلے پاؤں میں نا تو کسی کاہلی کا شک

سوتے میں شکار کرنے کی مشق کرتا ہوں، اور اسے ڈکار جاتا ہوں۔

اونچے درختوں پر بیٹھنا کیسی سہولت ہے

وہ ہوا کی اُٹھان اور وہ سورج کی کرنیں

سب کے سب صرف میرے لیے نعمتیں، میرے لیے بنے سامان ہیں

اور بے چاری دھرتی کا اوپر اُٹھا چہرہ، میری آسان نظر گیری کے لیے ہے۔

میرے پاؤں کھردری چھال میں مضبوطی سے پیوست ہیں

سب مخلوقوں نے مل کر میرے پاؤں کی پیوستی، میری ٹھاہر کا انتظام کیا

سب نے باہم میرا ایک ایک بال و پر بنایا

اور اب کیا ہے؟ یہ سب بلَڈّی مخلوقیں میرے پاؤں کی نوک پر ہیں

میں اونچی اڑان بھرتا ہوں، ساری دھرتی پر دھیرج نظررکھتا ہوں

جہاں اور جب جی کرے شکار کرتا ہوں، سب ہی تو میرا ہے، سبھی تو میرے لیے ہے۔

میرے بدن کی بناوٹ میں کوئی خامی، کوئی سقم نہیں ہو سکتا

موت عطا کرنا میرا وظیفہ ہے، دوسروں کے سر چِیرنا پھاڑنا میرے اطوار ہیں۔

میرا رستہ تو سیدھا، سانس لیتے، زندوں کی ہڈیوں سے سب چیرتا گزرتا ہے۔

کوئی ریشمی، نرم و لطیف اور گداز دلیلیں میرے راستے کی رکاوٹ نہیں، سب کر گزرنا میرا ازلی حق ہے۔

سورج میری پُشت پر ہے۔

میرے اپنی آئی پر آنے سے آج تک کچھ نہیں بدلا

میری آنکھ نے کچھ نہیں بدلنے دیا۔

میں حالات کو ایسے ہی رہنے دوں گا۔


مزید دیکھیے:  تصویر کہانی از، فرخ ندیم

آ میرے بچے مشین گن کی لوری سن ترجمہ کار، یاسر چٹھہ

Judging translations by, Kate Briggs


ٹیڈ ہیُوز (1998–1930): ایک تعارف

ٹیڈ ہیُوز (Ted Hughes) بیسویں صدی کی برطانوی شاعری میں ایک انتہائی قد آور شخصیت ہیں۔ آپ 17 اگست 1930 کو مغربی یارک شائر کے قریب آپ ایک چھوٹے سے گاؤں مِیتھِیلموریڈ میں پیدا ہوئے۔ ٹیڈ ہیوز کا بچپن خاموش طبعی اور دیہاتی طرز کی زندگی ایسا گزرا۔ ان کی زندگی کے پہلے سات برس مغربی یارک شائر کے اسی بنجر اور تیز ہواؤں کے شکار علاقے میں بِیتے۔ ان کی عمر بھر کی شاعری پہ اس علاقے کے جغرافیائی خد و خال کا بڑا اہم اثر رہا۔ ٹیڈ ہیوز نے تو ایک دفعہ یہ کہا بھی ہوا ہے کہ وہ “اس علاقے کے اس تاثر سے کبھی بھی باہر نہیں نکل پائے کہ جیسے یہ سارے کا سارا منطقہ جنگِ عظیم اوّل کے سوگ میں گُم گشتہ ہو۔”

ٹیڈ ہیُوز کی نگارشات میں بہت تنوُّع اور وسعت ہے۔ بڑوں کے لیے شاعری کے علاوہ آپ نے بچوں کے لیے بھی کہانیاں لکھیں۔ آپ نے دوسرے لکھنے والوں کی تصانیف کی ادارت بھی کی۔

ٹیڈ ہیُوز کی شاعری ایک اسطوری ڈھانچے اور قالب کے اندر رہتی ہے۔ آپ نے اپنے جذبے اور احساس سے بھر پور شاعرانہ مواد کو تغزلانہ طور پر اور ڈرامائی خود کلامی کے انداز میں برتا ہے۔

ان کی شاعری میں چرند و پرند جا بہ جا موجود ملتے ہیں۔ کبھی تو یہ الوہی روپ دھارے ہوتے ہیں تو کبھی استعارے، کبھی  نظم کے متکلم اور کبھی کسی اور تمثالی حیثیت میں نمودار ہوتے رہتے ہیں۔

آپ کی شاعری میں شاید کوّا ایک ایسا پرندہ ہے جو سب سے زیادہ موجود نظر آتا ہے۔ یہ کوّا خدا، پرندے اور عام انسان کے ایک خاص ملغوبہ کردار کے طور پر صورت پذیر ہوتا  ہے۔ ایسے محسوس ہوتا ہے کہ کوّے کا وجود ٹیڈ ہیُوز کے لیے خیر اور شر کے تصور کو واضح کرنے کے لیے اشد ضروری ہو۔ ٹیڈ ہیوز 28 اکتوبر 1998 میں سرطان کے ہاتھوں موت کی آغوش میں چلے گئے۔

About یاسرچٹھہ 240 Articles
اسلام آباد میں ایک کالج کے شعبۂِ انگریزی سے منسلک ہیں۔ بین الاقوامی شاعری کو اردو کےقالب میں ڈھالنے سے تھوڑا شغف ہے۔ "بائیں" اور "دائیں"، ہر دو ہاتھوں اور آنکھوں سے لکھنے اور دیکھنے کا کام لے لیتے ہیں۔ اپنے ارد گرد برپا ہونے والے تماشائے اہلِ کرم اور رُلتے ہوئے سماج و معاشرت کے مردودوں کی حالت دیکھ کر محض ہونٹ نہیں بھینچتے بَل کہ لفظوں کے ہاتھ پیٹتے ہیں۔