ہوتا ہے شب و روز تماشا

امر گل

ہوتا ہے شب و روز تماشا

از، امر گل

غیرقانونی قرار دیے جانے کی انتہائی حد پر پہنچنے کے بعد خرار سے ایک مٹھی بھر بھینٹ چڑھانے پر سندِ قبولیت۔ جی ہاں! میں بحریہ ٹاؤن کراچی کی بات کر رہا ہوں۔ کیا یہ قانون کی کمزوری ہے، اخلاقیات کی بے بسی ہے یا پھر محض ایک تماشا؟

پہلے ہیجان کا ایک پہاڑ کھڑا کر دو، پھر اسے کھود کر ایک بیزار سی سانس کا مرا ہوا چوہا نکال کر اسے لہراؤ اور کہو کہ انصاف ہو گیا؟ اگر یہ انصاف ہے تو کوئی ہمیں بتائے گا کہ ناانصافی کے سر پر کتنے بڑے سینگ ہوتے ہیں، تاکہ آئندہ ہم لوگ انصاف اور ناانصافی میں تمیز کرنے کی تمیز سیکھ کر سوال کرنے کی بدتمیزی سے بچ سکیں۔

مصیبت یہ ہے کہ ہم بحیثیت عوام معاملات کو پرانے ڈھنگ پر پرکھنے کے عادی ہیں، جبکہ ہمارا سابقہ ایک ایسی اشرافیہ سے ہے جو جذبات تک کو بیچنے کا فن جانتی ہے، اس اشرافیہ میں وہ کاروباری ساہوکار  بھی شامل ہیں، جو سمجھتے ہیں کہ سورج عوام کی جمع پونجی کے پہاڑ سے طلوع ہو کر ان کے اکاؤنٹ کے سمندر میں غروب ہونے کے لیے ہی، اخلاقی اصولوں کے بادلوں سے یکسر خالی آسمان پر اپنا سفر طے کرتا ہے۔ وعدوں کی ٹوپی سے عہد شکنی کے کبوتر نکالنے والے شعبدہ باز سیاستدان، قانون کے اصلی تے وڈے مائی باپ اور چاچے مامے، آنکھوں پر پٹی باندھے ترازو ہاتھ میں تھامے ہوئے صنم کی زلف سیاہ کے سفید زلفوں والے عاشق، قلم کیمرے کے حاملین اور احتساب کے عاملین سبھی اس اشرافیہ کا حصہ ہیں، ورنہ کیا یہ ممکن تھا کہ “فائلوں کو پہیے لگانے”  جیسی باتوں اور “ہاں! ہم نے جعلی اکاؤنٹ بنائے اور برتے ہیں، ہمت ہے تو پکڑ کر دکھاؤ” جیسے منہ چڑاتے دعووں کے بعد بھی موت کی سی خاموشی طاری رہتی؟ نہیں! بات کچھ اور ہے، اور وہ یہی ہے کہ یہ تمام طاقتور کردار استحصالی اشرافیہ کا حصہ ہیں۔

آپ کو یاد ہوگا کہ سپریم کورٹ نے 2011 میں کراچی بدامنی کیس کی سماعت کے دوران کراچی کی زمینوں کی الاٹمنٹ پر پابندی عائد کر دی تھی۔ لیکن ہوا کیا؟ ہوا صرف یہ، کہ یہ پابندی صرف مقامی زمینداروں نے بھگتی، جبکہ اسی دوران سندھ اسمبلی نے ایک بل پاس کرکے روینیو کے اختیارات ملیر ڈولپمنٹ اتھارٹی کو سونپ دیے اور ہزاروں ایکڑ زمینیں جعل سازی کے ذریعے بحریہ ٹاؤن کو الاٹ کر دی گئیں۔ اس مقصد کے لیے ڈپٹی کمشنر ملیر کا دفتر با قاعدہ منڈی بنا رہا اور ریاستی اداروں کی طاقت کے ذریعے مقامی لوگوں کو ڈرا دھمکا کر زمینیں فروخت کرنے پر مجبور کر دیا گیا۔ چچا فیض محمد گبول کو کون بھول سکتا ہے، جو اسٹے آرڈر ہاتھ میں تھامے بے بسی سے اپنی ہی زمین پر بحریہ ٹاؤن کے غاصبانہ قبضے اور اس پر اونچی عمارتوں کو تعمیر ہوتے دیکھ کر اس دنیا سے رخصت ہو گیا۔


مزید و متعلقہ:  عجب تماشا ہوئی ملیر واسیوں کی زندگی  از، عومر درویش

ملیر کا ماحولیاتی ماتم  از، عومر درویش


اگر ریونیو ایکٹ کا جائزہ لیا جائے تو کنسالیڈیٹڈ زمین کا اختیار لینڈ یوٹیلائزیشن ایکٹ 1912 کے تحت ریونیو ڈپارٹمنٹ کو حاصل ہے، جس کا مقصد یہ ہے کہ اگر ایک مالک کی زمینیں ضلع کے مختلف حصوں میں تقسیم ہیں اور اس وجہ سے وہ انہیں کاشت نہیں کر پا رہا تو مذکورہ ایکٹ کے ذریعے انہیں دوسری جگہ شفٹ کیا جائے۔ یہ ایکٹ صرف زرعی مقاصد کے لیے زرعی اور زیر کاشت زمین کے لیے ہے، لیکن سندھ اسمبلی نے صرف بلڈر کو فائدہ پہنچانے کے لیے یہ اختیارات ملیر ڈولپمنٹ کو سونپ دیے، جو کہ اس کا دائرہ کار ہے ہی نہیں۔ بعد ازاں سپریم کورٹ نے اس اندھیر نگری کا نوٹس لے کر ان معاملات کی چھان بین کے لیے معاملات نیب کے سپرد کر دیے۔ نیب کی بات کی جائے تو ایسا کون ہے جو نیب کے موجودہ چیئرمین کے بطور چیئرمین تعیناتی کے حوالے سے ملک ریاض کے کردار سے واقف نہ ہو۔

اب جو صورت حال ہے، وہ کسی تماشے سے کم نہیں۔ 2016 میں خود بحریہ ٹاؤن کے وکیل کی طرف سے سپریم کورٹ میں پیش کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق بحریہ ٹاؤن کے پاس سات ہزار ایکڑ کے لگ بھگ زمین تھی، تب سپریم کورٹ نے واضح طور پر انہیں پروجیکٹ کو مزید وسعت نہ دینے کی  تنبیہہ کی تھی، لیکن سروے آف پاکستان کی طرف سے حال ہی میں کیے گئے سروے کے مطابق بحریہ کے زیر قبضہ ساڑھے سولہ ہزار کے لگ بھگ زمین ہے۔ عدالت عظمی کی طرف سے دوبارہ یہ تنبیہہ دھرائی گئی ہے۔ اب بحریہ ٹاؤن نے اپنا فیوچر پلان کا ڈھکوسلہ پیش کر دیا ہے، جس کے مطابق اس کے پاس چوبیس ہزار ایکڑ زمین ہے اور وہ ساڑھے سولہ ہزار ایکڑ سے زائد زمین واپس کرنے کے لیے تیار ہے۔ اس سارے قصے میں تماشا یہ ہے کہ بحریہ ٹاؤن نے اپنے فیوچر پلان میں وہ اراضی شامل دکھائی ہے، جو اس کی ملکیت نہیں ہے۔ یعنی اب بحریہ ٹاؤن وہ اراضی واپس کر کے قانونی بن جائے گا، جو اس کی ہے ہی نہیں!

غیرقانونی قرار دیے جانے کی انتہائی حد پر پہنچنے کے بعد خرار سے ایک مٹھی بھر بھینٹ چڑھانے پر سندِ قبولیت۔۔ اور خرار بھی پرایا! کیا یہ قانون کی کمزوری ہے، اخلاقیات کی بے بسی ہے یا پھر محض ایک تماشا؟