ایس پی سنگھا نے پاکستان کو ترجیح کیوں دی ؟

ایس پی سنگھا نے پاکستان کو ترجیح کیوں دی
ٰایس پی سنگھا

ایس پی سنگھا نے پاکستان کو ترجیح کیوں دی؟

از، آصف عقیل آسف

جب ہندوستان کے بٹوارے کی بات چل رہی تھی تو متحدہ پنجاب اسمبلی کے آخری سپیکر دیوان بہادر ایس پی سنگھا تھے جو قانون دان ہونے کے ساتھ پنجاب یونی ورسٹی کے رجسٹرار بھی رہ چکے تھے۔

ایس پی سنگھا تحریک آزادی میں پنجابی مسیحیوں کے ترجمان تھے جب کہ پنجاب کے اینگلو انڈینز کی ترجمانی سی ای گبن نے کی۔

مسیحی کمیونٹی کے کئی دانش ور یہ سوال کرتے ہیں کہ ان راہ نماؤں نے کیا سوچ کر پاکستان کو ترجیح دی جہاں ہمارے لوگ آج بھی غربت، مجبوری اور خوف کی زندگی گزار رہے ہیں۔

پنجاب باؤنڈری کمیشن کے رُو بہ رُو ایس پی سنگھا کے بیان کے مطابق مسیحیوں کے پاکستان کو منتخب کرنے کی بنیادی وجوہات میں مسلمانوں اور مسیحیوں کی مذہبی، سماجی اور معاشی حالت کا یک ساں ہونا، مسیحیوں کی جداگانہ انتخابات کی دیرینہ خواہش اور ہندووں کا مسیحیوں سے چھوت چھات کا سلوک تھیں۔

23 جون 1947 کو متحدہ پنجاب کی قسمت کا فیصلہ ہو چکا تھا۔ پنجاب کے مغربی حصے کو پاکستان میں شامل کیا جانا تھا جب کہ مشرقی پنجاب کو بھارت میں ہی رہنا تھا۔

21 سے 31 جولائی 1947 تک فیصلہ یہ ہونا تھا کہ مذہبی شناخت کے اعتبار سے پنجاب کے کون سے علاقے پاکستان کو ملیں گے اور کون سے بھارت کے حصے میں آئیں گے۔ اس مقصد کے لیے سر سِرل ریڈکلف کی قیادت میں پنجاب باؤنڈری کمیشن قائم کیا گیا جس میں جسٹس دین محمد اور جسٹس مہر چند مہاجن کارِروائی چلانے کے لیے مقرر ہوئے۔

سر محمد ظفراللہ خان کو آل انڈیا مسلم لیگ کی نمائندگی کرنا تھی اور ایم سی ستلواد کانگرس کے نمائندے تھے، جب کہ سکھوں کی نمائندگی سردار ہرمن سنگھ نے کرنا تھی۔ ان کے علاوہ چھوٹی اکائیوں کی کمیشن میں نمائندگی کا بندوبست بھی کیا گیا تھا جن میں مسیحی، شیڈول کاسٹ، اینگلو انڈین، احمدی اور مذہبی سکھ (شیڈول کاسٹ سے تعلق رکھنے والے سکھ) شامل تھے۔

پنجاب کے مسیحیوں کی نمائندگی تین افراد نے کی جن میں ایس پی سنگھا (پاکستان کے حق میں) سی ای گبن (اینگلو انڈینز کی جانب سے پاکستان کے حق میں) اور بینرجی (ہندوستان کے حق میں) شامل تھے۔

بینرجی نیشنلسٹ کرسچن ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری کے طور پر کمیشن میں پیش ہوئے جب کہ ایس پی سنگھا جوائنٹ کرسچن بورڈ کے نمائندے تھے۔

ایس پی سنگھا کا کہنا تھا کہ پنجاب کے مسیحیوں کا حقیقی ترجمان جوائنٹ کرسچن بورڈ ہے، جب کہ نیشنلسٹ کرسچن ایسوسی ایشن کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں۔

ایس پی سنگھا نے کمیشن کو مزید بتایا کہ جوائنٹ کرسچن بورڈ نے اخباروں اور رسالوں کے ذریعے مسیحیوں کو رائے دینے کو کہا تھا جس کے بعد جگہ جگہ لوگوں سے مشاورت کی گئی اور سفارشات مرتب ہوئیں۔ انھوں نے مسیحیوں کے پاکستان میں شامل ہونے کے لیے مندرجہ ذیل وجوہات بیان کیں:

1۔ پانچ لاکھ سے زیادہ پنجابی مسیحیوں میں سے صرف 60955 مشرقی پنجاب (جو اب ہندوستان کا حصہ ہے) میں رہتے ہیں، جب کہ ساڑھے چار لاکھ مسیحی مغربی پنجاب (جو اب پاکستان کا حصہ ہے) میں بستے ہیں۔ یہ مسیحی عموماً دیہاتی اور سکھوں کی زمینوں پر کام کرنے والے سیپی/آتھڑی (بے زمین مزارے جو کچھ پیسے پیشگی لے کر کھیتوں میں کام کرتے اور جان وروں کا چارہ ڈالنے اور گوبر وغیرہ اٹھاتے ہیں) ہیں۔ اس لیے وہ سکھوں کے آسرے پر ہیں اور اپنی کوئی آزاد مرضی نہیں رکھتے۔
ایس پی سنگھا کے مطابق مسلمانوں اور مسیحیوں کے ایک جیسے مذہبی، سماجی اور معاشی حالات، مسیحیوں کی جداگانہ انتخابات کی خواہش اور ہندووں کا مسیحیوں سے چھوت چھات کا سلوک پاکستان کو ترجیح دینے کی بنیادی وجوہات تھیں۔

2۔ ایک اور بات جو میرے لوگوں نے آپ تک پہنچانے کے لیے کہا ہے وہ مذہب کے نام پر تشدد ہے۔ ہمارے لوگوں کا یہ خوف بے بنیاد بھی نہیں۔ ذرا سوچیں کہ اگر ہم نے ایک کمیونٹی کے ساتھ رہنے کا عِندیہ دے دیا اور بعد میں ہمیں دوسری کمیونٹی کے ساتھ رہنا پڑا تو وہ ہمارا کیا حشر کریں گے۔

بیش تر مسیحی سکھوں کے مزارعے تھے۔ ایس پی سنگھا صاحب نے بتایا کہ سکھوں نے مسیحیوں کو جبری تبدیلئِ مذہب کے بعد نہنگ نامی اپنی مذہبی فوج میں بھی داخل کرنا شروع کر دیا تھا، اور گرجا گھروں میں دعائیں ہو رہیں تھیں کہ مسیحی اس مشکل سے نکل آئیں۔

3۔ چُوں کہ مسیحی عموماً ہندو اور سکھ زمین داروں کے مرہونِ مِنت ہیں اس لیے تقسیم کے وقت ان کا شمار ہندووں اور سکھوں میں کرایا جا رہا ہے۔

ایس پی سنگھا نے بتایا کہ مسیحی عرصۂِ دراز سے مسلمانوں کے ساتھ رہتے ہیں اور اپنے پہناوے اور رہن سہن میں مسلمان ہی لگتے ہیں۔ کئی مسیحیوں پر اس لیے چاقووں کے وار ہوئے کہ وہ حلیے سے مسلمان دکھائی دیتے تھے۔

4۔ سنگھا کے مطابق مسیحیوں کو ہندووں کے بَہ جائے مسلمانوں پر زیادہ اعتبار ہے۔

5۔ مسلمانوں اور مسیحیوں دونوں کی معاشی حالت کم زور ہے۔ عام طور پر مسلمان سکھوں کی زمین پر کَمّی ہیں، جب کہ مسیحی سکھوں کے سیپی ہیں۔ ایسے میں مسلمانوں سے توقع رکھی جاسکتی ہے کہ وہ مسیحیوں سے بہتر سلوک کریں گے۔ ہندووں اور سکھوں کے رویے سے تو وہ واقف ہی ہیں۔

6۔ مسیحیوں کی مسلمانوں کے ساتھ مذہبی ہم آہنگی ہے۔ اگر کوئی المسیح کے لیے نا زیبا زبان استعمال کرے گا، تو مسیحی سے زیادہ مسلمان تلخ کلامی بَل کہ لڑائی جھگڑے پر اتر آئے گا۔ جو چیزیں مسلمانوں کے نزدیک متبرک ہیں، وہی مسیحیوں کے لیے بھی متبرک ہیں۔

7۔ مسلمانوں اور مسیحیوں کے درمیان خصوصاً دیہاتوں میں بے حد یگانگت ہے۔ مسیحیوں کو عرصۂِ دراز سے غیر مسلموں کی طرف سے چھوت چھات کی نفرت کا کانٹا چبھ رہا ہے۔ میں ان کا نمائندہ ہوں اور مجھے یہاں ان کے احساسات کی ترجمانی کرنا ہے۔ غیر مسلموں (یعنی ہندووں اور سکھوں) کے گاؤں میں نہ تو ہمارے قبرستان ہیں اور نہ ہمیں کنووں سے پانی بھرنے دیا جاتا ہے۔

8۔ مسیحی کیبنٹ مشن پلان کے حق میں تھے، مگر کانگرس نے پنجاب کی تقسیم کا تقاضا کیا، جو مسیحیوں حق میں نہیں۔ تقسیم شدہ پنجاب مسیحیوں کی طاقت کم ہو جائے گی۔

9۔ کمیونٹی سے باہر کوئی نہیں سمجھ سکتا کہ ہمارے لوگوں میں جداگانہ طرزِ انتخاب کے لیے کتنا جنون پایا جاتا ہے۔

اس موقع پر ایس پی سنگھا نے ایس جی دتہ کے پمفلٹ سے اقتباس پڑھ کر سنایا جو کچھ یوں تھا:

‘ہندوستانی مسیحی مخلوط طرزِ انتخاب کو بے حد سراہتے ہیں اور ہم پچھلے 75 برس سے اس کی حمایت میں کھڑا رہنے والی کمیونٹی ہیں۔ تاہم نہایت دکھ کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ ہمارے خطے میں پائے جانے والے مذہبی تعصب نے اس بہترین طرزِ انتخاب کو سبوتاژ کر لیا ہے۔ پچھلے 75 سال میں ہندووں کے ساتھ مخلوط طرزِ انتخاب نے بھارتی مسیحیوں کو ہر لحاظ سے شدید متأثر کیا ہے۔ جب بھی کوئی مسیحی الیکشن میں کھڑا ہوا تو ہندووں نے میرٹ پر نہیں بَل کہ محض مذہبی اور سماجی تعصب کی بنا پر اسے ووٹ نہیں دیا۔ وہی کانگرسی راہ نما جو قوم پرستی اور جمہوریت کی بات کرتے ہیں وہ ایک لمحے کو بھی یہ سوچنے کو تیار نہیں کہ ہندوستانی مسیحیوں کو ہندووں کے ووٹوں سے فتح یاب کرا کے ان کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ جب کانگرس مخلوط انتخابات کی بات کرتی ہے تو اس سے اس کی مراد ہندو تسلط ہوتا ہے۔’

اس مضمون کو بھی ملاحظہ کیجیے: پنڈت نہرو اور قائد اعظم جناح کے نام ایک طوائف کا خط

میری ذاتی رائے میں ایس پی سنگھا اور پنجاب کے مسیحیوں نے اس وقت کے مطابق ٹھیک فیصلہ کیا تھا۔ پورے پاکستان میں زیادہ تر پنجاب سے گئے ہوئے مسیحی لوگ ہی آباد ہیں۔ اگر کراچی وغیرہ کے اینگلو انڈین اور گوانس مسیحیوں کی بات کریں تو ایک تو ان کی تعداد کم تھی اور شاید آج بھی ان کا پنجابی مسیحیوں کے ساتھ کوئی خاص میل جول نہیں ہے۔

تقسیم کے وقت حالات خراب ہوئے تو سِکھ یک لخت پنجاب چھوڑ گئے جس سے ان کے سیپی یا آتھڑی کے طور پر کام کرنے والے ساڑھے چار لاکھ میں سے دو لاکھ مسیحی بے گھر ہو کر شہروں میں آ گئے۔

ایس پی سنگھا نے 20 جنوری 1948 کو اسمبلی کے فلور پر کہا:

‘حضور والا! ذرا غور فرمائیے کہ ان سِکھوں نے کیا حماقت کی ہے کہ سال ہا سال اس صوبہ میں بسر کرنے کے بعد یک لخت اسے چھوڑ دیا اور ہمارے لیے مصیبت کا پہاڑ کھڑا کر دیا۔ ہمارے فرقے کی تفصیلات شاید حکومت کو بہتر طور پر معلوم ہوں۔ مگر ہمارا اندازہ یہ ہے کہ صوبۂِ ھٰذا میں ہمارے 60 ہزار خاندان یعنی دو لاکھ سے زیادہ افراد ایسے ہیں جو سکھوں کے ‘سیپی’ یا ‘آتھڑی’ تھے مگر گڑبڑ کی وجہ سے اب بے گھر ہو گئے ہیں۔’

یہ تعداد بعد میں بڑھ کر تین لاکھ سے بھی تجاوز کر گئی، مگر سنگھا صاحب کے الفاظ بتاتے ہیں کہ مسیحی کمیونٹی کو پاکستان بننے سے پہلے اس کا ذرا بھی اندازہ نہیں تھا۔

وائس آف مائناریٹیز پاکستان کے چیئرمین کا کہنا ہے کہ ‘تاریخ کے ساتھ سب سے بڑی زیادتی یہ ہے کہ ماضی کے واقعات کی تشریح دورِ حاضر کے فہم اور تصور اخلاق سے کی جائے، ہر عہد کو اسی عہد کے تناظر میں ہی سمجھا جا سکتا ہے۔’

اگر ساڑھے چار لاکھ پنجابی مسیحی ہندوستان جانے کا عندیہ دے دیتے تو فسادات میں کتنے مسیحی مارے جاتے؟ کیا دیہات اور شہروں میں انگریزوں کی چھوڑی چرچ پراپرٹی انھیں بھارت میں مل جاتی؟ کیا سکھوں پر انحصار کرنے والے آتھڑی اور سیپی مسیحی ہندوستان میں زمیںوں کے مالک ہو جاتے؟


بشکریہ: نقطۂِ نظر سجاگ