حاشیے پر ڈلی آوازیں : کشمیر اور کشمیری تصور قومیت و وطن

ایک روزن لکھاری
عمران چوہان، صاحب مضمون

حاشیے پر ڈلی آوازیں : کشمیر اور کشمیری تصور قومیت و وطن

(عمران مشتاق چوہان)

گن پوائنٹ پر ہمارے مُلک ریاست جموں کشمیر کے پانچ ٹکڑے کیے گئے۔ ہم سے ہماری شناخت، تاریخ، وسائل، حق حکمرانی حتی کہ حق زندگی، سب کچھ چھین لیا گیا۔ اغیار نےہمارے وطن کےسینے پر خاردار تاروں کے جال بچھا دیئے، ہمارےخاندانوں کوایک دوسرے سے دور کر دیا، مجبورکردیا۔اپنا اپنا قبضہ برقرار رکھنے کے لیے،کسی نے ہمارے وطن کو اپنی شہ رگ قراردیا توکسی نے اٹوٹ انگ۔ 70سالوں میں ہمارےکتنے ہی خاندان اپنوں سے بچھڑنے کےدُکھ، مرنےسے پہلے اُن کی کی ایک جھلک دیکھنے، سینے سے لگا کر جبری جدائیوں کے دکھ بانٹنےاوراپنے وطن کی آزادی کے ارمان سینے میں لیے اس دنیا فانی سے چل بسے۔

ہمارے اوپرحکمرانی کے لیے دہلی اور اسلام آباد سے آقا آئے۔آزادی کی بات کرنےوالوں کو ایسا ایسا غائب کیا گیا کہ آج تک نہ زندہ ہونے کی خبر، نہ کہیں شہید ہونے کی خبر، گھر والوں کی آنکھیں آج تک مسلسل ان کی واپسی کی منتظر ہیں۔

“مطالعہ جموں کشمیر” کی جگہ ایک طرف ہم پر مطالعہ پاکستان مسلط کردیا گیا تو دوسری طرف مطالعہ ہندوستان ۔ آزادی پسندوں کو قابض کے غدار اور باغی قرار دے کر کبھی شاہی قلعے، کبھی کوٹ لکھ پت، کبھی دلائی کیمپ، کبھی سرینگر جیل میں اذیتیں دی گئیں، پھر بھی نہ بکے، نہ جھکے، تو وطن سے باہر پھانسیاں دی گئیں اور پھانسیاں بھی ایسی دی گئیں، کہ آج تک میتیں بھی انہی کی جیلوں میں ہیں، یعنی جسد خاکی کو بھی آزاد نہ کیاگیا۔ جس کی سب سے بڑی مثال ریاست جموں کشمیر کے معروف ترین عظیم آزادی پسند راہ نما مقبول احمد بھٹ شہید کا جسد خاکی ہے، جو 11 فروری 1984ء سے آج تک بھارت کی تہاڑ جیل دہلی میں ہی دفن ہے۔ مقبول بٹ شہید صاحب وہ واحد ریاستی رہنما ہیں جن کو بھارتی مقبوضہ جموں کشمیر کی جیلوں میں بھی قید رکھ کر ٹارچر کیا گیا، بھارتی حکومت نے براہ راست بھی مقبول بھٹ صاحب کو متعدد بارٹارچر سیلوں میں رکھ کر درد ناک اذیتیں دیں، جب بھٹ صاحب اپنے وطن کے سینے پر کھینچی گئی خونی لکیر کو پاوں تلے روند کر پاکستان کے زیرانتظام جموں کشمیر میں آئے، تو یہاں کی بے اختیار حکومت نے بھی خفیہ اداروں کی ایما پر انہیں”بھارتی ایجنٹ” کا الزام لگاکر، مظفرآباد کے دلائی کیمپ میں قید کر کے انہیں اذیت ناک سزائیں دیں۔ اس کے بعد حکومت پاکستان نے کوٹ لکھ پت جیل میں قید کر کے ٹارچر کیا، لاہور کے شاہی قلعے میں بھی قید کرکے اس عظیم اور دلیر فرزند ریاست جموں کشمیر کو وہ وہ سزائیں دیں کہ جو بیان کرتے ہوئے جسم بھی کانپ جاتا ہے۔ ان پر بھارتی جاسوس جیسے گھٹیا الزامات لگائے گئے، لیکن ہر طرح کی سزاؤں کے بعد بالآخر لاہور ہائی کورٹ نے انہیں”عظیم آزادی پسند کشمیری رہنما” قرار دے کر بری کردیا۔ جب بھٹ صاحب واپس بھارتی مقبوضہ جموں کشمیر گئے تو بھارتی حکومت نے جعلی مقدمات بنا کر گرفتار کرلیا اور پاکستانی جاسوس جیسے بےہودہ الزامات لگائے۔ عدالت میں پیشی کے وقت بھٹ صاحب کو جب بتایا گیا کہ آپ پر پاکستانی جاسوس ہونے کا الزام ہے تو اس وقت ریاست کے اس عظیم قائد نے جج کو مخاطب کرکے کہا “جج صاحب میرا کردار گواہ ہے کہ میں بھارت یا پاکستان کا نہیں، اپنے وطن ریاست جموں کشمیر اور اس کے لوگوں کا ایجنٹ ہوں، اس کے لیے مجھے جس بھی قسم کے تشدد کا سامنا کرنا پڑا، میں کروں گا، مجھے بھارت یاپاکستان کا ایجنٹ نہ پکارا جائے۔”

اس کو بھی ملاحظہ کیجئے: ایک کشمیری کا تصور وطن آپ سے مختلف ہو سکتا ہے، از پروفیسر منوج کمار جھا

مقبول بھٹ شہید ریاست جموں کشمیر کوخود مختار ریاست کے طور پر دیکھنا چاہتے تھے، ایک ایسی ریاست جو ہر طرح کے بیرونی دباؤ سے آزاد ہو اور اس کے پاکستان اور بھارت سمیت ساری دنیا کے ممالک کے ساتھ برابری کی سطح پر تعلقات ہوں، وہ ریاست میں ایسا معاشی نظام چاہتے تھے جس میں ریاست کے تمام شہریوں کو بلا تمیز تمام بنیادی حقوق اور ان کا تحفظ فراہم کرنا ریاست کا فرض ہو۔ ریاست سے فرسودہ؟ جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف بغاوت کا اعلان کرتے ہوئے شہید قائد نے فرمایا تھا:

“میں ریاست جموں کشمیر پر بیرونی قبضے، پسماندگی، تقسیم اور منافقت کے خلاف بغاوت کا مرتکب ہوا ہوں اور آزادی سے ہماری مراد ایک کی غلامی سے نکل کر دوسرے کی غلامی اختیار کرنا نہیں بلکہ ایک ایسی ریاست کا قیام ہے جو مکمل طور پر بااختیار ہو۔”

خیر مقبول شہید کے بارے بعد میں ایک تفصیلی کالم لکھوں گا ابھی اتنا ہی،مختصرا یہ کہ بھارت اور پاکستان کی حکومتوں کی طرف نے مقبول بھٹ (شہید) کو مظفرآباد اور سرینگر کی بے اختیار اور کٹھ پتلی اسمبلیوں میں وزارتوں کی بے شمار آفرز کیں لیکن اس سب کےباوجود بھٹ صاحب کبھی نہ بکے، نہ ہی جھکے، بھٹ صاحب نے پاکستانی اور بھارتی حکمرانوں کی آفرز کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہوئے جواب دیا کہ:

“پاکستان اور بھارت کی حکومتیں کون ہوتی ہیں جو مجھے سرینگر یا مظفرآباد کی اسمبلیوں میں وزارت دیں؟ میری لڑائی ہی اس بیرونی تسلط اور غلامی کے خلاف ہے، ہم ریاست میں کسی بھی دوسرے تیسرے ملک کی بالا دستی کو تسلیم نہیں کرتے، یہ ہماری ریاست ہے اور اس کے فیصلے ہم خود کریں گے، اس پر حکمرانی ہم خود کریں گے نہ کہ دہلی اور اسلام آباد والوں کے فیصلوں کو مانیں گے۔”

بالاخر ہمارے وطن کے اس جرات مند اور نڈر آزادی پسند ہیرو کو غاصب بھارتی حکومت نے 11 فروری 1984 کو دہلی کی تہاڑ جیل میں پھانسی دے دی۔ اور آج تک شہید وطن مقبول احمد بھٹ کی میت بھی ہماری قوم کو واپس نہیں کی گئی، لیکن بھٹ صاحب کی روح ایک جسم سے نکل کر پوری ریاست کے آزادی پسندوں میں بس گئی۔ وہ بے بنیاد اور جھوٹے مقدموں میں پھانسی کے باوجود ریاست کے غیر متنازعہ اور آئیڈیل لیڈر بن گئے۔

پوری ریاست کے لوگ ہر سال 11 فروری کو اپنے اس نڈر اور بے باک قائد کا دن پوری ریاست سمیت ساری دنیا میں جہاں جہاں ریاست جموں کشمیر کےلوگ مقیم ہیں، جوش و خروش سے مناتے اور خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ مزید یہ کہ آزادی مانگنے پرہمارے اوپر وہ وہ گولی چلائی گئی کہ جس کو پوری دنیا میں حیوانوں پر بھی چلانے کی سختی سے پابندی عائد ہے۔ ہمارے بڑے، بچے اور بزرگ بے گناہ قتل کیے گیے۔ پیلٹ سے معصوموں کی بینائی چھین لی گئی، عمر بھر کے لیے معذور کردیے گئے۔

ہمیں اپنے ہی وطن کےاندر بےوطن کیا گیا۔ خاردار تاروں والی خونی لکیر پر دونوں اطراف سے بمباری کر کے دونوں ہی اطراف ہمارے ہم وطنوں کا خون کرنا ان کا ایک معمول بن چکا۔ آج کل گلگت بلتستان پر جبری طور پر “صوبائی سیٹ اپ” مسلط کر دیا گیا، گلگت بلتستان سے حکومت پاکستان نے ریاست کا آزاد کشمیر سے کئی گنا بڑا علاقہ چائنہ کو تحفے میں دے دیا۔

حکومت پاکستان چائنہ سے تجارت گلگت بلتستان کے راستے ہی کرتی ہےاور وہاں کے وسائل کا بے دریغ استعمال کرنے کے باوجود گلگت بلستان کو کوئی رائلٹی نہیں دیتی۔ وہاں حکومت پاکستان نے قانون باشندہ ریاست بھی معطل کیا ہوا ہے، جو بھارتی مقبوضہ جموں کمشیر اور آزاد جموں کشمیر میں نافذالعمل ہے۔ گلگت بلتستان کے حقوق کی بحالی کی سیاسی جدوجہد کرنے کی وجہ سے حکومت پاکستان نے گلگت بلتستان کے معروف عوامی رہنما “باباجان” کو دیگر ساتھیوں سمیت نہ صرف کالے قانون کے تحت گرفتار کیا ہوا ہے، بلکہ عمر قید کی غیر قانونی سزا بھی دی ہوئی ہے۔ یہ ظلم کی انتہا ہے جس کے خلاف سب آزادی پسندوں کو حکومت پاکستان پر دباو ڈالناچاہیے۔

ریاست کے لوگون نے مہاراجہ ہری سنگھ سے بغاوت کر کے “آزاد حکومت ریاست جموں کمشیر” کے نام سے جو باغی حکومت قائم کی تھی، اس حکومت نے”آزاد کشمیر آرمی” کے نام سے اپنی فوج بھی بنائی تھی، جس کو جبری طور پر پاکستان حکومت نے پاکستانی فوج میں ضم کرا دیا۔ آج کل وہ فوج پاکستان آرمی میں “آزاد کشمیر رجمنٹ” اور”مجاہد فورس” کے نام سے کام کررہی ہے۔ آزاد جموں کشمیرمیں چیف سیکرٹری، آئی جی پولیس، سیکرٹری ہیلتھ، سیکرٹری فنانس، آڈیٹر جنرل، یہ سب پاکستانی ہوتے ہیں، آزاد جموں کشمیر کا کوئی بھی اعلی سے اعلی تعلیم یافتہ شخص بھی ان عہدوں پر تعینات نہیں کیا جاتا۔ اور ان سب عہدوں پر تعیناتی بھی حکومت پاکستان خود براہ راست کرتی ہے۔ “آزاد” حکومت کا اس بارے میں کوئی اختیار نہیں۔ آزاد جموں کشمیر سے ہر قسم کے ٹیکس حکومت پاکستان کی کشمیر کونسل وصول کرتی ہے۔ اس کونسل کا چیئرمین وزیراعظم پاکستان ہوتا ہے۔ ہمارے اپنے ٹیکس سے جمع شدہ رقم کا تھوڑا سا حصہ ہمیں بری طرح خوار کر کے “فنڈ” کے نام پر دیا جاتا ہے۔ آزاد جموں کشمیر کے تمام بجلی کے منصوبوں (منگلا ڈیم، لہڑی پروجیکٹ و دیگر) کی پیداوار کو ملا کر اس وقت آزاد جموں کشمیر میں تقریبا 2200 میگا واٹ بجلی پیدا ہوتی ہے، جب کہ پورے آزاد جموں کشمیر کی اپنی بجلی کی کل ضرورت صرف اور صرف 350 میگا واٹ ہے، اس کے باوجود آزاد جموں کشمیر میں بے حد لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے، ہمیں ہماری بجلی بھی نہیں دی جاتی۔ حالانکہ یہاں کوئی ایک بھی بڑے لیول کی انڈسٹری یا مل بھی نہیں ہے۔آزاد حکومت کو آج تک منگلا ڈیم کی رائلٹی نہیں دی گئی۔ کیا یہ سب ظلم اور استحصال کی انتہا نہیں؟

اور تو اور، مسئلہ جموں کشمیر کے فریق مجرم، خود ہی وکیل اور خود ہی منصف بن گئے۔ ظلم کا یہ سارا کھیل 22 اکتوبر 1947 کے قبائلی حملے سے لے کر آج تک مسلسل جاری ہے۔ اب بھارت اور پاکستان ہمارے بارے، آپس میں دوطرفہ”گپ شپ“ نما “مذاکرات” کرتے ہیں۔ اورہم اپنے بارے میں ہونے والے فیصلے اخبار میں پڑھتے ہیں، یعنی ہمیں ہمارے مسئلے کا فریق ہی تسلیم نہیں کیا گیا۔ شملہ اور تاشقند معاہدے کر کے ہماری تحریک آزادی کوناقابل تلافی نقصانات پہنچائے گئے۔

پاکستان اور بھارت کی عوام سے ریاست جموں کشمیر کے لوگوں کی خواہشات چھپائی گئیں، انہیں کشمیر کے بارے میں جھوٹی اور من گھڑت تاریخ پڑھائی گئی، پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر کے آزادی پسندوں پر”بھارتی ایجنٹ” اور بھارتی مقبوضہ جموں کشمیر کے آزادی پسندوں پر “پاکستانی ایجنٹ” جیسے گھٹیا الزامات لگا کر جنگ بندی لائن کے دونوں اطراف ریاست کے لوگوں کو سزائیں دی جاتی ہیں۔

اقوام متحدہ کے ادارے میں جا کر بھارت اور پاکستان کی حکومتوں نے ریاست کے لوگوں سے وعدے کیے اور قراردادوں پر دستخط بھی کیے کہ ہم دونوں ممالک اپنی اپنی فوجوں کو ریاست جموں کشمیر سے نکالیں گے، پھر اقوام متحدہ کی نگرانی میں رائے شماری ہوگی، ریاست کے لوگ چاہیں تو:
بھارت سے الحاق کرلیں، پاکستان سے الحاق کرلیں، یا آزاد رہیں۔ لیکن آج تک ہم سے ہماری مرضی پوچھی ہی نہیں گئی، نہ توحکومت پاکستان نے اپنے وعدے کے مطابق ریاست سے اپنی فوج نکالی اور نہ ہی بھارتی حکومت نے اپنے وعدے کے مطابق اپنی فوج نکالی۔ اقوام متحدہ کا ادارہ بھی خاموش تماشائی بناکر دیکھ رہا ہے۔

ہم اور اقوام عالم دیکھ رہے ہیں کہ آخرہمارامسقبل کیاہوگا؟آسمان سےفرشتے آکرہمیں آزادی دلائیں گے؟ اقوام متحدہ کا ادارہ پاکستان اور بھارت کی حکومتوں پر دباؤ ڈالے گا کہ وہ اپنے وعدوں کے مطابق اپنی اپنی فوج ریاست سے نکال دیں؟ یا پھر پاکستان اور بھارت کی باشعور عوام اپنی حکومتوں پر دباؤ ڈالے گی کہ ہمارے بجٹ کا کثیر حصہ ریاست جموں کشمیر فتح کرنے پر ضائع نہ کریں بلکہ دونوں ملکوں کی عوام کے بنیادی مسائل تعلیم، صحت، روز گار اور غربت کے خاتمے جیسے مسائل پر لگایا جائے۔

ریاست جموں کشمیر ریاستی باشندوں کا وطن ہے، ان کے وطن سے فوجیں نکال کر اپنے وعدے پورے کرتے ہوئے وہاں کے لوگوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنے کا اختیار دیا جائے، جو ان کا ہر طرح سے آئینی و قانونی حق ہے۔ پاکستان اور بھارت کے جو لوگ کسی بھی وجہ سے ہماری آزادی کی مخالفت کرتے ہیں، انہیں ہمارے مسائل اور دکھوں کا احساس تب ہوتا اگر کوئی دو ممالک ان کے ملک پر قبضہ کرلیتے، پھر اس پر لائن آف کنٹرول بنا کر ان کے وطن کو ٹکڑوں میں تقسیم کردیتے۔ انہیں اپنے ہی وطن کے اندر بے وطن کردیاجاتا۔ ان کے ملک پر قبضہ کرنے والے انہیں اپنے اپنے مقبوضہ علاقوں میں مطالعہ پاکستان اور مطالعہ ہندوستان کی جگہ اپنی اپنی تاریخ لازمی مضمون کے طور پر پڑھاتے۔پاکستانیوں اور بھارتیوں کا ملک جبری طور پر تقسیم کرنے والے دونوں ممالک آزادی کی بات کرنے والے پاکستانیوں اور بھارتیوں کو غدار اور ایجنٹ وغیرہ جیسے گھٹیا الزامات لگا کر، قیدکر کے سزائیں دیتے۔ پھانسیاں دیتے، عمر قید کی سزائیں دیتے۔ کنٹرول لائنوں پر دو طرفہ فائرنگ کر کے اس کنٹرول لائن کی دونوں اطراف ایک ہی ملک کے لوگوں کی نسل کشی کرتے۔ پاکستانی اور بھارتی لوگ اپنی شناخت کی بجائے بیرونی قابضین کی مسلط کی ہوئی شناخت اپنانے پر مجبور ہوجاتے۔

پاکستان یا بھارت کی بیرونی قوتوں سے آزادی کی جدوجہد میں روزانہ کی بنیاد پر لا تعداد پاکستانی اور بھارتی لوگ مار دیئے جاتے، قید کردیے جاتے، اغوا کرکے غائب کرلیے جاتے، پیلٹ گنوں سے اندھے کردیے جاتے، دوسرے ممالک میں لے جاکر انہیں پھانسی دے دی جاتی، اور میتیں بھی واپس نہ کی جاتیں۔ لیکن ان گنت مظالم برداشت کرنے والے، ریاست جموں کشمیر کےلوگوں کی دعا ہے کہ اللہ کبھی کسی ملک کے لوگوں کو اپنا وطن ہونے کے باوجود بے وطن نہ کرے۔ پاکستانیوں کا پاکستان زندہ باد، بھارتیوں کا بھارت زندہ باد، باشندگان ریاست کا ملک جموں کمشیر زندہ باد۔ آزادی، امن، خوش حالی سب کے لیے۔ امید ہے کہ قارئین ریاست جموں کشمیر کی تحریک آزادی میں انسانی بنیادوں پرہمارا ساتھ دیں گے۔