اینٹی بائیوٹکس کا بے دریغ استعمال

(عثمان عابد)
اگر اِنسانی تاریخ کی اہم دریافتوں کی فہرست مرتب کی جائے تو بلاشبہ یہ فہرست اینٹی بائیوٹک جیسی اہم ترین دوا کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتی ۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اینٹی بائیوٹکس کے استعمال نے کروڑوں لوگوں کی زندگیاں بچائی ہیں۔ آئیے سب سے پہلے یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ اینٹی بائیوٹک ہوتی کیاہے ؟ دراصل اینٹی بائیو ٹک ایک ایسی دوا ہے جو خردبینی جانداروں جیساکہ بیکٹریا ،فنجائی وغیرہ کو جو ہماری صحت کے لیے نقصان دہ ہیں، ان کا قتل عام کرتی ہے یا اُ ن کی نشوونما کو روک دیتی ہے ۔
بہت کم لوگ یہ جانتے ہیں کہ اینٹی بائیوٹک کی دریافت سے پہلے جب خرد بینی انفیکشن خاص طور پر بیکٹریل انفیکشن ہوتا تھا تو لاتعداد اموات وقوع پذیر ہوتی تھیں۔ اینٹی بائیوٹکس کی دریافت نے ادویات کی دنیا میں انقلاب برپا کر دیا ہے ۔ اب ہم ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں جہاں بیکٹریل انفیکشن کی بڑی تعداد کا علاج معمول کے طور پر ہو رہا ہے ۔ وہ انفیکشنز جن کا آج آسانی سے علاج ہو رہا ہے اینٹی بائیوٹک کی دریافت سے پہلے یہ انفیکشنز بہت مہلک سمجھے جاتے تھے۔انفیکشنز کی وجہ سے اموات میں واضح کمی اینٹی بائیوٹکس کے ہی مرہونِ منت ہے۔
اینٹی بائیوٹکس کی قصیدہ خوانی کے بعد اب آتے ہیں ان کے استعمال کی جانب ۔ بطور فارماسسٹ میرا فرض ہے کہ میں اپنے قارئین کو آگاہ کروں کہ وہ اینٹی بائیوٹک کے استعمال میں احتیاط برتیں کیونکہ اِن کا حد سے زیادہ استعمال صحت کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتا ہے ۔ اینٹی بائیوٹک کا طریقہ ء واردا ت بھی عام ادویات سے قدرے مختلف ہوتا ہے ۔ عام ادویات انسانی جسم میں جا کر حیا تیاتی کیمیا کے عمل کو تبدیل کرتی ہیں ۔اس عمل کے ساتھ ساتھ اینٹی بائیوٹکس کو ایک ایسے دشمن کے خلاف بھی لڑنا پڑتا ہے جو مڑُ کر حملہ کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے ۔ جی ہاں ! آپ صحیح سمجھے میں اُن نامراد بیکٹریا کی بات کر رہا ہوں جو ہماری نرم و نازک جان کے درپے رہتے ہیں اور ہمیں نقصان پہنچانے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔
اینٹی بائیوٹک کے اثر سے بچنے کے لیے بیکٹریا اپنے آپ کو تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے جسے اینٹی بائیوٹک کے خلاف مزاحمت کہتے ہیں۔ا س مزاحمت کے نتیجے میں دوا کی اثریت کم ہو جاتی ہے یا باالکل ختم ہو جاتی ہے ۔ اس طرح بیکٹریا بچ جاتے ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ ان کی تعداد بڑھنے سے صحت مزید خراب ہو جاتی ہے ۔ بدقسمتی سے دن بدن یہ مسئلہ گھمبیر ہوتاہوا دکھائی دے رہا ہے جس سے شرحِ اموات میں بھی اضافہ دیکھا گیاہے ۔
اینٹی بائیوٹک کا یہ بے دریغ استعمال کیسے رکے گا؟ ہمارے ہسپتالوں میں فارمیسی سروسز کا سرے سے وجود ہی نہیں ہے ۔ مریض کو بتایا ہی نہیں جاتا کہ وہ دواکیسے استعمال کرے ۔ یہ بہت اہم مسئلہ ہے اور ایک وقت آنے والا ہے کہ جب کوئی اینٹی بائیوٹک اثر نہیں کرے گی اور ہم اینٹی بائیوٹک دریافت ہونے سے پہلے کے دور میں واپس چلے جائیں گے ۔ مریض کو جب دوا دی جاتی ہے تو پہلے یہ تشخیص کرنے کی ضرورت ہوتی ہے کہ کیا مریض کو واقعی اینٹی بائیوٹک کی ضرورت ہے یا نہیں۔ ہمارے ملک میں اینٹی بائیوٹک بلا جھجھک اور بغیر کسی فکر کے تجویز کی جاتی ہے۔ 60% سے 70% نسخوں میں آپکو اینٹی بائیوٹک ضرور دکھائی دے گی ۔ اس کا مطلب ہے کہ ہم بہت زیادہ اینٹی بائیوٹکس استعمال کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر حضرات مریض کو دوا کے استعمال کے بارے میں پوری طرح نہیں بتا پاتے ۔ مناسب آگاہی نہ ہونے کے باعث مریض کو جیسے ہی تھوڑا سا افاقہ ہوتا ہے تو وہ دوا لینا بند کر دیتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اب ہم جب بیمار ہوتے ہیں اور اینٹی بائیوٹک کھاتے ہیں تو اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا ۔ پھر مریض یہی الزام لگاتا ہے کہ دوا ٹھیک نہیں تھی ۔ زیادہ تر کیسسز میں دوا بھی ٹھیک ہوتی ہے لیکن اُس دوا کا اثر اس لیے نہیں ہوتا کیونکہ بیکٹریا اُس دوا کے خلاف مزاحمت پیدا کر چکے ہوتے ہیں ۔ اُن کے اندر اتنی قوتِ مدافعت پیدا ہو چکی ہوتی ہے کہ اُن پر دوا اثر ہی نہیں کرتی ۔
لیکن اگر فارماسسٹ موجود ہوگا تو وہ یہ دیکھے گا کہ کیا واقعی اینٹی بائیوٹک کی ضرورت تھی یا ڈاکٹر نے بلا ضرورت ہی تجویز کر دی ہے ؟ اور جو اینٹی بائیوٹک تجویز کی گئی ہے آیا اُس کی صحیح مقدار تجویز کی گئی ہے یا نہیں؟ کتنے دن تک اور کیسے مریض نے دوا کھانی ہے؟ فارماسسٹس اور صحت کے شعبے سے تعلق رکھنے والے تمام ماہرین کی ذمہ داری ہے کہ وہ صحت کی اس جنگ میں عوام کا بھر پور ساتھ دیں۔ اینٹی بائیوٹک کے خلاف بڑھتی ہوئی مزاحمت کے واقعات عوام کی صحت کے لیے خطرہ بنتے جارہے ہیں۔ ڈاکٹر حضرات کو بھی چاہیے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ جب تک متعلقہ لیبارٹری ٹسٹ اس بات کی نشاندہی نہ کریں کہ اینٹی بائیوٹک کااستعمال نا گزیر ہے وہ اینٹی بائیوٹک تجویز نہ کریں۔ نسخہ تجویز کرنے سے پہلے فارماسسٹ سے ضرور مشورہ لیں کیونکہ جس طرح مرض کی تشخیص میں ایک ڈاکٹر مہارت رکھتا ہے بالکل اُسی طرح فارماسسٹ ہی ادویات کے بارے میں بہتر جانتا ہے ۔
اس کے علاوہ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ کچھ ڈاکٹر حضرات (جنھوں نے دواساز کمپنیوں سے بھاری مراعات لی ہوتی ہیں) کمپنیوں کے دباؤ میں آکر بلا ضرورت اینٹی بائیوٹکس تجویز کرتے چلے جاتے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ ایسی کالی بھیڑوں کا قلعہ قمع کرے جو مسیحائی کے بھیس میں انسانیت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچارہے ہیں۔اینٹی بائیوٹکس کے محتاط استعمال کے لیے حکومت کو چاہیے کہ وہ ہسپتالوں میں فارماسسٹس کو تعینات کرے اور عوامی آگاہی کے لیے سیمینارز منعقد کروائے اور اس سلسلے میں فارماسسٹس کی خدمات حاصل کرے کیونکہ ہم اس دور میں داخل ہو چکے ہیں کہ جہا ں ایک بیکٹریل انفیکشن کے علاج کے لیے دس مختلف اینٹی بائیوٹکس مارکیٹ میں موجود ہیں اور فارماسسٹ کی رہنمائی کے بغیر ہم درست اینٹی بائیوٹک کا انتخاب نہیں کر سکتے ۔
فارماسسٹس کو بھی چاہیے کہ وہ اپنا سب سے طاقتور ہتھیار یعنی مریضوں کی کونسلنگ کا استعمال کریں۔ اینٹی بائیوٹکس کے مضر اثرات کے بارے میں بتلانے کے ساتھ ساتھ مریضوں کو اس بات سے بھی آگاہ کریں کہ وہ اینٹی بائیوٹکس کو خاص وقفے کے بعد استعمال کریں اور کورس کو ادھورا چھوڑنے کی بجائے مکمل کریں۔

About عثمان عابد 10 Articles
عثمان عابد نے حال ہی میں اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے ڈاکٹر آف فارمیسی کی ڈگری مکمل کی ھے۔ ابلاغ کے مثبت اور تعمیری امکانات پر پُختہ یقین رکھتے ہیں۔ فارماسسٹ ہونے کے ساتھ ساتھ موٹیویشنل سپیکر اور رائٹر بھی ھیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کے ساتھ وابستہ ہیں جن کے لیے وہ تحریری اور مشاورتی شراکت رکھتے ہیں۔ فارماریڈرز نامی میگزین کے چیف ایڈیٹر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک نجی تنظیم کے چیف ایگزیکیٹو بھی ہیں۔