ایک کشمیری کا تصور ہندوستان یقینا آپ سے مختلف ہے : بھارت سے ایک آواز

بھارت کو ٹیگور کے خیالوں پر آخر کیوں نہیں سجایا جا سکتا ، ایک کشمیری کا تصور ہندوستان
پروفیسر منوج کمار جھا

ایک کشمیری کا تصور ہندوستان یقینا آپ سے مختلف ہے

از پروفیسر منوج کمار جھا

ترجمہ: ابو اسامہ، اسسٹنٹ پروفیسر، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی، حیدرآباد بھارت

میڈیا اور اخباروں کی رپورٹیں گزشتہ کئی سالوں سے مسلسل یہی احساس دلاتی  رہی ہیں کہ وادی کشمیر میں ہونے والے واقعات اور رجحانات پر بحیثیت قوم ہمارا کوئی اختیار نہیں ہے۔  اس اختیار یا قابو کو ذرا دیر کے لیے بھول بھی جائیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم کشمیری عوام کے غم و غصے کوآج تک سمجھ ہی  نہیں پائے  ہیں۔  یہ ایک پریشان کن صورت حال ہے جس سے یہ اندازہ ہو تا ہے کہ ہماری  حکومتیں  جان بوجھ کر مسئلہ کشمیر پر سنجیدہ سیاسی مباحثے سے گریز کرتی ہیں،  حالانکہ موجودہ ہندوستان کے سروکاروں میں کشمیر ایک اہم موضوع ہونا چاہیے ۔ ذرا  اور آگے بڑھتے ہیں تو یہ صاف محسوس ہوتا ہے کہ وادی کے غصے اور اضطراب سے نبرد آزمائی کے لیے ممکنہ تدابیر پر غور کرنے  کے علاوہ ہماری حکومتوں نے  غداری اور قوم کی سلامتی کا پرچم لہرانے میں ہی ساری قوتوں کو صرف کردیا ہے ۔ ابھی تک وادی میں جوان ہوئی نافرمان نسل اور سیاسی اسٹیبلشمنٹ کے ما بین کسی بھی قسم کا صحت مند مکالمہ نہیں ہوا ہے۔  اور  ایسی صورت حال میں دونوں فریقوں کے درمیان  بھروسے اور یقین میں مزید  رخنہ  پیدا ہوگا  جس سے آئندہ نسل اور وادی کے دلفریب نظاروں کو بڑا نقصان پہونچے گا ۔

دہلی یونیورسٹی میں تقریبا ہر سال میں  نے کشمیری طلبہ کو پڑھایا ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ آپ  دیگر طلبہ کے ساتھ ان میں بظاہر کوئی بھی فرق نہیں پائیں گے۔ تاہم اگر آپ کشمیر کے  پس منظر کی حساسیت کو ذہن میں رکھتے ہوئے ان طلبہ سے گفتگو کریں تو یقینا آپ کو  بیش قیمتی مواد ملیں گے۔ یہ در اصل  کشمیری طلبہ کے تجربات ہی ہیں جو  کیمپس کے دوسرے طلبہ سے انہیں الگ کرتے ہیں۔ یہ وہ تجربات ہیں جو وادی کشمیر  میں ہندوستان کے تصور کو جنم دیتے ہیں؛  زبردستی فرمانبردار بنانے اور احتجاج کی آواز کو موقع نہ دینے کے تجربات؛  اور وادی میں ایک ایسی لائف اسٹائل سے محروم رہنے کے تجربات جو انہیں دلی جیسے شہر میں میسر ہیں۔

میرے مذکورہ ہر طالب علم کے پاس تجربات کا ایک ذخیرہ ہے یا یوں کہیں کہ زخموں اور دکھوں کا ایک انبار ہے۔ وہ اپنے پڑوسیوں کی کہانیا ں  سناتے ہیں جو ہر لمحہ خوف زدہ رہنے کی وجہ سے زبردست  نفسیاتی الجھنوں کے شکار ہو کر رہ گئے  ہیں ۔  جیسا میں نےابھی  عرض کیا کہ ان کے پاس ایک  دو نہیں بے شمار ایسی کہانیاں اور واقعات ہیں جن کو سن کر آپ کشمیر کی خوبصورتی اور  وہاں کے گھٹن زدہ ماحول کے درمیان ربط کی نوعیت کو سمجھ نہیں پائیں گے۔ وہ بتاتے ہیں  کہ کس طرح  یونیفارم پہنے ہوئے لوگوں کی نظر سے  ہر خاص و عام کو گزرنا ہوتا ہے۔کئی بار تو ایسا   لگتا ہے کہ  الجھن، احتجاج، ملٹری اور کرفیو  ہی  کشمیر اور کشمیری عوام کا مقدر ہے۔ وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ کیسے اس خوبصورت وادی میں اکثر انہیں شناختی کارڈ لے کر ہاتھ اوپر اٹھائے چلنا پڑتا ہے اور ہر آدھے کلو میٹر کے بعد یہی عمل دہرانا پڑتا ہے۔ یہ وہ پے در پے ہونے والے تجربات ہیں جو کشمیر کی  عوامی نفسیات کا حصہ بن چکے ہیں اور ہر  اگلے لمحےہونے والے حادثے سے محتاط رہنے کی عادت نے انہیں ذہنی مریض بنا دیا ہے ۔ امن کا پیغام دینے والی اس پر کشش اور پر فریب وادی سے اب بغاوت، گولیوں اور تشدد کی خبریں موصول ہوتی ہیں۔

میرے طلبہ کی یاد داشت میں  ایسے بیانیے ہیں جو ہندوستا ن کے تصور کا ایک تکلیف دہ چہرہ دکھاتے ہیں۔ مگر بدقسمتی یہ ہے کہ ہم   نے اس تکلیف دہ چہرے  کو قبول نہ کرنے کی ٹریننگ لی ہے، کیوں کہ ہمیں اس سے  غداری کی بو آتی ہے۔ تقریبا چھ دہائیوں سےہم ایک ایسے  یوٹوپیا میں یقین رکھتے  ہیں جس میں  قومی اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے جذبات سے لبریز نعرے انفارمیشن اور براڈ کاسٹنگ وزارت اور بالی ووڈ سے سے دیکھنے اور سننے کو ملتے ہیں۔ دراصل یہ سب کچھ حقیقت سے پرے ہے مگر بحیثیت قوم ، اندرون اور بیرون دونوں طرح کے دشمن بنانے میں ہمارا کوئی ثانی  نہیں ہے۔ اس طرح  کے نعرے میری نسل کے لوگوں کو پلاننگ کے تحت لکھی گئیں کتابوں  اور زبانی تاریخ  میں بڑی آسانی سے فراہم ہو جاتے  ہیں۔

میرے کشمیری طلبہ مجھے اور میرے ہم خیال  لوگوں کو کشمیرکے دلکش نظاروں کے درمیان تصور ہندوستان کی ایک خراب شکل دکھاتے ہیں۔  مجھے یقین ہے کہ دانشورطبقے، میڈیا اور سول سوسائٹی کے بیچ ایسے دوست ہیں  جو  کلاس، جنس جائے وقوع کو دھیان میں نہ رکھتے ہوئے  کشمیریوں سے اس قسم کی باتیں سننے کے بعد کم و بیش اسی طرح کے احساس سے گزرتے ہوں گے۔اب تک جتنے بھی طلبہ کو میں نے سنا ہے ان کے  دامن ہندوستان کی شاونیت (Chauvinism) اور پر تشدد قومی عصبیت کی  کہانیوں سے لبریز ہیں  اور جس نے اس جنت نشان کو دنیا کی سب سے برا ملٹری زون بنا دیا ہے۔ مگر افسوس یہ کہ اس  حقیقت کو تسلیم کرنے سے ہم قاصر ہے جس پرہم اپنے تصور ہندوستان پر  تو اترائے پھر رہے ہیں مگر دوسروں کے تصور کے لیے بے حد غیر رواداری اور حقارت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔

مسئلہ کشمیر کی شدت اور ابعاد کو  دلیل اور ایک منظم طریق کار کے ساتھ سمجھنے کے لیے ہمیں مسلسل ہو رہے احتجاج کی  گنجلک اور  دبیز تہوں کو ہٹانے کی ضرورت ہے۔ اس نکتہ کو سمجھنے کے لیے ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ صوبائی یا مرکزی حکومت کی طرف سے اس ضمن میں اب تک کوئی بھی  دردمندانہ قدم نہیں اٹھایا گیا ہے۔

سیاسی حلقوں اور ترجیحات سے ذرا دور جا کر، ہمیں ایک  قوم اور دردمند شہری  کے طور پر پیش آنے کی ضرورت ہے۔ موجودہ وقت کی سب سے اہم ترین ضرورت ہے کہ  ہم کچھ خاص اورمرکزی سوالات سے رو بہ رو ہوں۔ ہمیں یہ سوال اٹھانے کی جرات کرنی چاہیے کہ  آخر سماجی انصاف اور انسانی حقوق کہتے کسے ہیں؟ وادی کے تاریخی  پس منظر میں جمہوریت کا مفہوم کیا  ہے؟ ہمیں کشمیرکی وادیوں میں ہندوستان کے وجود کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ تحفظ اور قومی فکرمندی  کے سائے  میں اپنے تمام تر تضادات اور تنازع کے ساتھ ہمیں تصور ہندوستان کی بقا کے لیے غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں یہ سوال کرنے کی ضرورت ہے کہ آخر جب وادی کشمیر کی بات آتی ہے تو جمہوریت جیسے خیالات کے معانی بدل کیوں جاتے ہیں؟  ایسا کیوں ہے کہ تصور ہندوستان کے مسودہ میں ہمیں کئی صفحات خالی ملتے ہے جب وہ  کشمیر میں کھولے جاتے ہیں ؟

کشمیر کے مسئلہ پر  نہ تو اس واحد طریقہ سے نبرد آزما ہوا جا سکتا ہے اور نہ ہی موجودہ تعصب کے ساتھ ہم اس مسئلہ کو حل کر سکتے ہیں۔ سیکورٹی فورسز کےذریعہ موجودہ احتجاجوں کی جڑیں اور تسلسل کے ضمن کیے جانے والے دعوے در اصل لوگوں کو اصل موضوع سے بھٹکانے کے لیے ہیں تاکہ عوام،  وادی کے  آلام و مصائب  اور تصور ہندوستان کی سمجھ سے دور رہے۔ دہائیوں سے چلے آرہے  اس سیاسی کھیل تماشوں کے بیچ وہاں کی عوام کا  الیکشن اور موزوں سیاست جیسی چیزوں سے ایمان اٹھ گیا ہے۔ کرفیو، تناؤ، اظہار آزادی اور اسمبلی کے بنیادی حقوق کی پامالی  کے بیچ جمہوریت نے اپنا مذاق  اپنے ہاتھوں سے بنا یا  ہے۔ انتہائی افسوس سے کے ساتھ میں یہ عرض کرنے کی  جرات کر رہا ہوں کہ  ہمیں  ‘تصور ہندوستان’ کے مشن میں زبردست ناکامی ہوئی ہے۔